ایمان کتنی بیش قیمت متاع ہے، اس کے حصول کے لیے صبر و استقامت کے کیسے کیسے کوہِ گراں عبور کرنے ہوتے ہیں، اس کا اندازہ ایک نسلی مسلمان یا مسلمان کے گھر میں پیدا ہو جانے والے مسلمان کو نہیں ہو سکتا۔ اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا، جب ہمیں قبول ِ اسلام کا شرف حاصل ہوا۔ ہمارا تعلق ایک اعلیٰ ہندو خاندان سے تھا۔ ہمارے قبول اسلام کا یہ سفر جہاں اسلام کی حقانیت کا ایک ثبوت ہے، وہاں بہت سے لوگوں کے لیے ایمان افروز اور ایمان پرور بھی۔ اسی جذبے کے تحت میں اپنے قبول اسلام کی سرگزشت بیان کر رہا ہوں۔
ہندو مت کے مطابق پانڈو اور کورو دو اعلیٰ خاندان شمار ہوتے ہیں اور تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارا تعلق پانڈو خاندان سے ہے اور ہم بھیم سین کی اولاد میں سے ہیں، جو بہت جسیم اور طاقتور تھا۔ ہمارے بزرگ ظروف سازی اور مندروں اور گردواروں کے سونے اور تانبے کے گنبد اور کلس بناتے تھے۔ آج بھی ہندوستان کے بہت سے مندروں اور گردواروں میں ہمارے بزرگوں کے بنائے ہوئے گنبد اور کلس لگے ہوئے ہیں، اس لحاظ سے بھی ہماری انفرادیت اور مذہبی تھی۔ یہ مختصراً ہمارا خاندانی پس منظر ہے۔
ہماری والدہ کا نام گوری دیوی تھا۔ وہ ہندی پڑھنا جانتی تھی۔ والدہ بتایا کرتی تھیں کہ ہمارے نانا مختلف قصبوں میں برتن فروخت کرتے اور ان کی مرمت کرتے تھے۔ اس زمانے میں اجرت نقدی کے بجائے اجناس، گندم، چاول، آٹے وغیرہ کی صورت میں دی جاتی تھی۔ ایک دفعہ کسی کے گھر سے انھیں ہرن کی کھال کا ایک ٹکڑا ملا، جس پر ہندی تحریر تھی۔ ہمارے نانا کا خیال تھا کہ یہ کوئی مقدس تحریر ہے، چنانچہ انھوں نے وہ آٹھ آنے میں خرید لی۔ والدہ صاحبہ نے جب ہرن کی کھالا کا یہ ٹکڑا اور تحریر دیکھی تو اپنے والد سے کہنے لگیں کہ یہ کرشن جی مہاراج کے فرمودات ہیں، جن میں پانڈوؤں کو نصیحت کی گئی ہے کہ ‘‘اے پانڈوؤ! جو ایشور کے ساتھ ساجھا (شریک) کرے، وہ رتک بوٹی کوڑھا (یعنی لاعلاج کوڑھی) ہوتا ہے۔ ایک چشمے (منبع) کے پانی سے کھیتوں کو سینچا جائے تو ایک ہرا ہو جاتا ہے اور دوسرا سوکھا رہ جاتا ہے۔ اگر گناہوں کی جڑ کاٹو گے توتمھاری روح تازہ ہو جائے گی۔ سمیہا (سیمع و بصیر) کے غلام یا دوست بن کر اور تابع بن کر رہو۔’’
والدہ صاحبہ نے اسے ایک قیمتی متاع کی طرح سنبھال کر رکھ لیا اور اس کو پڑھتی بھی رہتی تھیں، پھر ہماری والدہ کی شادی ہو گئی۔ والد صاحب اَن پڑھ تھے۔ والدہ صاحبہ شادی کے وقت مقدص کلام بھی اپنے ساتھ لے آئیں، اوراس کو پڑھتی رہتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے والد صاحب کو بھی ان تعلیمات سے آگاہ کرتی رہتی تھیں۔ اس دوران ان کے دو بچے ہو گئے۔
ایک روزہ والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہمیں ان کلمات کے بارے میں مولوی صاحب سے بھی رابطہ کرنا چاہیے، چنانچہ والد صاحب والدہ کوامرتسر کی جامع مسجد کے خطیب کے پاس لے گئے۔ والدہ گھونگھٹ نکالے ہوئے تھیں۔ انھوں نے مقدس کلام خطیب صاحب کو دکھایا اور پھر اس عبارت کا مطلب بھی بیان کیا۔ ان خطیب صاحب نے عرض کیا کہ یہ تو الہامی کلام لگتا ہے۔ یہ توحید پر مبنی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی ایسی ہی تھیں۔ اس پر والدہ نے کہا کہ جب یہ حقیقت ہے اور اسلام کے اتنا قریب ہے تو پھر ہمیں مسلمان ہونا چاہیے، لہٰذا ہم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔ یوں ہماری والدہ صاحبہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا او رپھر ہمارا گھرانا مشرف باسلام ہوا۔
ہمارے خاندانی پس منظر پانڈوؤں سے تعلق کی بنا پر خطیب صاحب نے کہا کہ ہمیں ہندوؤں کی طرف سے شدید رد عمل کا اندیشہ ہے، لہٰذا مشورے کے بعد آپ کو قبول اسلام کے اعلان کے لیے کہیں گے، چنانچہ کئی مرتبہ خطابت جمعہ میں یہ اعلان کیا گیا کہ ایک اعلیٰ ہندو خاندان نے قبول اسلام کا فیصلہ کیا ہے جو عنقریب مسجد میں قبول اسلام کا اعلان کرے گا۔ اس طرح پورے امرتسر میں یہ بات مشہور ہو گئی۔ مسلمانوں میں اس سلسلے میں ایک نیا جوش اور ولولہ پایا جاتا تھا۔ اس فضا میں ہندوؤں کے لیے کوئی اقدام کرنا آسان نہ تھا، چنانچہ ایک روز جمعے کی نماز کے بعد والدہ صاحبہ نے کرشن جی مہاراج کا کلام پڑھ کر سنایا، مفہوم بیان کاکیا اور پھر اعلان کیا کہ چونکہ کرشن جی کی تعلیمات توحید اور ایک خدا کی بندگی کی دعوت دیتی ہیں جو کہ اسلام کی تعلیمات ہیں، لہٰذا ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔ اس وقت ہمارا پورا گھرانا مسجد میں موجود تھا۔ ہمارے نام تبدیل کر کے رکھے گئے۔ والدہ صاحبہ کا نام گوراں دیوی سے غلام فاطمہ اور والد صاحب کا رتن چند سے غلام حسین رکھا گیا۔ بڑے بھائی کا نام رام لال سے سید علی اور دوسرے بھائی کا نام روپ لال سے محمد علی رکھا گیا۔ اس وقت میری پیدایش نہیں ہوئی تھی۔
اس روز بڑی تعدا د میں امرتسر کے مسلمان جامع مسجد میں جمع تھے۔ ہماری والدہ کے قبول اسلام کے اعلان کے ساتھ ہی مسجد میں نعرۂ تکبیر سے گونج اٹھی۔ مسلمان جذبۂ ایمانی سے سرشار تھے۔ اگلے روز اخبارات ‘‘ویر بھارت’’، ‘‘ملاپ’’، ‘‘پرتاپ’’ اور ‘‘ٹریبون’’ میں اس حوالے سے خبریں لگیں۔ ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ ہماری جان خطرے کے پیش نظر مسلمانوں نے ڈپٹی کمشنر کو تحفظ کے لیے درخواست دے دی کہ نو مسلم خاندان کی حفاظت کی جائے، چنانچہ ایک سال تک گارڈ ہمارے گھر پر تعینات رہے۔
قبول اسلام کے ساتھ ہی ہماری آزمایش کے ایک طویل اور جان لیوا دور کا آغاز بھی ہو گیا۔ اندازہ ہوا کہ مسلمان ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ واقعی شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ والدہ صاحبہ نے قرآن پڑھنا سیکھا اور باقی گھر والوں کو بھی سکھایا۔ ہمارے قبول اسلام کو برادری نے قبول نہ کیا ۔ ہمارا بائی کاٹ کر دیا گیا۔ کاروبار ختم ہو گیا او رجائیداد پر قبضہ کر لیا گیا۔ ہم گھر سے بے گھر ہو گئے۔ عدالت میں مقدمہ کیا، مگر نتیجہ بے سود نکلا، اس طرح ہم تمام اثاثوں سے محروم ہو گئے، حتیٰ کہ نوبت فاقہ کشی تک پہنچ گئی۔ حالات سے تنگ آ کر اور گھر سے بے دخلی کے بعد ہم نے امرتسر میں سیف الدین سیف (مشہور شاعر) کی گلی میں ایک کوٹھری کرائے پر لی، جس کا کرایہ تین روپے تھا۔ نہ کوئی کاروبار رہا او رنہ کوئی جمع پونجی ہی تھی۔ یہ آزمایش کا طویل دور تقریباً ۱۲ سال پر محیط رہا۔
میری عمر اس وقت ۱۲، ۱۳ سال تھی۔ میں نے والدہ سے کہا کہ یہ حالت اب دیکھی نہیں جاتی، میں کچھ کام کرنا چاہتا ہوں۔ والدہ صاحبہ کے پاس سونے کا ایک چھلاّ تھا۔ وہ انھوں نے مجھے دیا کہ اسے بیچ کر کوئی کام کرنے کی کوشش کرو۔ وہ چھلاّ بیچ کر میں نے کپڑے کا تھان خریدا اور گلی محلے میں بیچنے کے لیے نکل جاتا، مگر کسی نہ کسی جگہ کوئی نہ کوئی جاننے والا مل جاتا۔ برادری کے لوگ مذاق بھی اڑاتے۔ کئی دن کے بعد چار آنے ملے اور کچھ حوصلہ ہوا، مگر آئے دن لوگوں کے طعنوں، مذاق اور تمسخر سے تنگ آ کر یہ کام چھوڑ دیا۔
والدہ صاحبہ اچار اور مربہ بنانا جانتی تھیں۔ انھوں نے یہ تیار کر کے فروخت کرنا شروع کیا۔ ہمارے پیش نظر سفید پوشی بھی تھی اور خاندان کا بھرم بھی۔ کچھ دن تو یہ کام چلا، مگر پھر کچھ واقف کار خواتین کے علم میں یہ بات آئی، تو والدہ صاحبہ نے اس کام کو بھی ترک کر دیا۔ میں نے سوچا کہ چلو کہیں دور جا کر کچھ مزدوری کر لوں، چنانچہ ایک گودام پر بوریاں اٹھانے کی مزدوری شروع کر دی۔ بوریاں اٹھاتے ہوئے کچھ نہ کچھ دال چاول وغیرہ زمین پر گر جاتے تھے۔ سب مزدور انھیں اکٹھا کر کے اپنے گھروں کے لیے لے جاتے تھے۔ حالات کی تنگی اور فاقہ کشی کے پیش نظر ایک روز میں نے بھی زمین پر گرے ہوئے کچھ چاول جمع کیے اور گھر لے جا کر والدہ صاحبہ سے کہا کہ انھیں پکا لیں۔ ان کے دریافت کرنے پر جب تبایا کہ اس طرح لایا ہوں، تو انھوں نے پکانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ان پر ہمار اکوئی حق نہیں، لہٰذا انھیں واپس کر کے آؤ۔ فاقہ کشی میں بھی ہماری ماں دیانت داری کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کتنی عظیم تھی ہماری ماں!
مزدوری کبھی ملتی تھی اورکبھی نہیں۔ ہمارے محلے میں ایک بوڑھا آدمی ریڑھی ڈھوتا تھا۔ کبھی سامان زیادہ ہوتا تو اس سے ریڑھی کھینچی نہ جاتی۔ مجھے بھی مزدوری کی تلاش تھی، چنانچہ میں نے بابا جی کے ساتھ مزدوری شروع کر دی۔ دو آنے مزدوری ملتی تھی۔ کچھ نہ کچھ گزارا ہو جاتا۔
ایک بار دو دن سے فاقہ تھا۔ ماں نے گھر کے برتن دیے کہ انھیں بیچ کر کچھ لے آؤ، چنانچہ برتن بیچ کر شہر سے دو ڈھائی کلو میٹر کے فاصلے پر چھاؤنی کے نزدیک سے گائے کی دو اوجھڑیاں خرید کر لایا۔ دو دن کا فاقہ تھا، مگر بھوک مٹانے کے لیے ۳۰، ۳۲ کلو وزنی اوجھڑیاں بوری میں ڈال کر کاندھے پر لاد کر گھر لایا۔ پاؤں میں جوتی نہ تھی۔ راستے میں کانٹے بھی تھے، جس سے پاؤں لہو لہان ہو گئے۔ ماں نے اوجھڑی پکائی اور پھر ہم نے رات گئے کھائی۔ ہمیں یہ کھانا دو دن کے فاقے کے بعد میسر آیا تھا۔
ایک روز میں نے اپنی والدہ سے عرض کیا: اس طرح تو گزر بسر نہیں ہو پا رہی ہے۔ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں کسی دوسرے شہر جا کر قسمت آزماؤں۔ اللہ کرے کہ کوئی بہتری کی صورت پیدا ہو جائے۔ ماں نے اجازت دے دی تو میں نے ممبئی اپنے ہندو چچا دیوان چند کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے قبول اسلام کے باوجود وہ ہم سے ہمدردی رکھتے تھے۔
ماں نے گڑ والی روٹی دے کر رخصت کیا، چونکہ پیسے نہ تھے، لہٰذا بغیر ٹکٹ ٹرین پر سوار ہو گیا۔ پاؤں میں جوتی تک نہ تھی۔ تین دن کا سفر تھا۔ راستے میں ٹکٹ چیکر نے پکڑ لیا۔ میں نے انگریزی بولی تو پڑھا لکھا سمجھ کر کچھ دھیما پڑ گیا۔ شرمندگی کے مارے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسے ترس آ گیا اور ممبئی پہنچنے میں میری مدد کی۔ دوران سفر ایک سکھ سے ملاقات ہوئی۔اتفاق سے وہ میرے ہندو چچا کا واقف کار تھا۔ اس طرح چچا تک پہنچنے میں سہولت ہو گئی۔ ممبئی پہنچا تو اس حال میں تھا کہ میلے کچیلے کپڑے تھے اور پاؤں میں جوتی تک نہ تھی۔ بہرحال چچا سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے خیریت دریافت کی اور میرے آنے کا مقصد کا پوچھا۔ میں نے کہا کہ مزدوری کے ارادے سے آیا ہوں۔
چچا کے پاس فوری طور پر تو کوئی کام نہ تھا۔ تاہم اس سکھ نے لوہے کی چادروں کی کٹائی کی مزدوری کا کام دے دیا۔ کھلے آسمان تلے سوتا اور دن بھر مزدوری کرتا تھا۔ ۱۰ آنے مزدوری طے پائی۔ کچھ عرصے کے بعد پانچ روپے والدہ کو منی آرڈر کیے اور لکھا کہ کام مل گیا ہے۔ پھر میں وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ پیسے گھر بجھوانے لگا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ کسی طرح ممبئی پہنچنے میں اس نے مدد کی، اسباب فراہم کیے اور روزگار کی صورت نکالی۔
چچا سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میٹرک کر لو تو تمھیں آرٹ کالج آف پونہ میں داخل کروا دوں گا، جہاں سے تمھاری اچھی تریبت ہو جائے گی، چنانچہ شام کی کلاس میں داخلہ لینے کے لیے اسکول کی تلاش ہوئی۔ اتفاق سے ایک اسکول میں داخلہ میں گیا۔ صبح مزودری کرتا اور شام کو تعلیم حاصل کرتا۔ ایک روز استاد نے میرے ہاتھوں میں پڑے ہوئے چھالے دیکھ کر پوچھا کہ ایسا کس وجہ سے ہے؟ جب میں نے بتایا کہ دن بھر مزدوری کرتا ہوں، تاکہ فیس او ردیگر اخراجات پورے کر سکوں تو وہ میری محنت مزدوری سے متاثر ہوئے۔ انھوں ایک سیٹھ صاحب کے نام خط لکھا اور کہا کہ ان سے ملو۔ تمھاری فیس وغیرہ کی کوئی صورت نکل آئے گی۔
سیٹھ ساحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کے بحری جہاز چلتے تھے اور سامان آتا جاتا تھا۔ خط پڑھنے کے بعد انھوں نے مجھے حساب کتاب کے کام پر لگا لیا اور ۳۰ روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کر دی۔ اس طرح رہایش، کھانے پینے اور تعلیم کا بندوبست ہو گیا۔ میں نے اپنے استاد کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے بھی مجھے محنت سے پڑھایا، چنانچہ میں نے سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک پاس کر لیا۔ رزلٹ آنے کے بعد چچا مجھے آرٹ کالج پونہ میں داخلے کے لیے لے گئے۔ آرٹ اور دست کاری کے حوالے سے یہ معروف کالج تھا۔ بڑی مشکل سے داخلہ ملتا تھا، مگر ہمارے خاندانی پس منظر ، آبائی پیشے اور چچا کی کوششوں سے بالآخر مجھے داخلہ مل گیا۔ یہ دو سال کا کورس تھا۔ اس دوران کالج میں ڈیکوریشن پیس مرمت کے لیے آتے یا مختلف ٹرافیاں وغیرہ بننے یا مرمت کے لیے آتی تھیں، جو میں بناتا اور مرمت کرتا تھا۔ یوں کالج کی طرف سے الگ پیسے مل جاتے تھے۔
کالج سے فراغت کے بعد مجھے ملازمت کی تلاش ہوئی۔ اس موقع پر بھی چچا دیوان چند نے تعاون کیا۔ ممبئی کی مشہور فرم پارکر برادرز تھی، جہاں سونے اور چاندی کا کام بڑے پیمانے پر ہوتا تھا اور پارکرنامی انگریز اس کا مالک تھا۔ چچا نے پارکر سے ملاقات کی۔ پارکر نے کہا کہ کارکردگی اپنی جگہ، لیکن ہم ٹیسٹ کے بعد فیصلہ کریں گے۔ برطانیہ سے ایک ڈربی ٹرافی مرمت کے لیے آئی ہوئی تھی۔ ہندوستان کے مختلف کاریگر مرمت کر چکے تھے، مگر نقص دور نہ ہوتا تھا، چنانچہ پارکر نے مجھے وہ مرمت کے لیے دی۔ میں نے انتہائی مہارت سے اس پر ٹانکا لگایا۔ وہ اس سے بہت متاثر ہوا اور اس زمانے میں ۳۰۰ روپے میری تنخواہ مقرر کر دی، جو غیر معمولی تھی۔
اب اللہ کے فضل سے ہمیں معاشی آسودگی میسر آ گئی اور ہمارے حالات بہتر ہونے لگے۔ والد صاحب نے بھی امرتسر میں ایک دکان لے لی اور برتن مرمت کا کام شروع کر دیا۔ یوں ہماری بھوک، افلاس اور فاقہ کشی کی طویل آزمایش بالآخر ختم ہوئی۔ ایمان قبول کرنے کی پاداش میں ۱۲ برس کی یہ طویل اور جاں گسل آزمایش اور کڑا امتحان جس صبر و استقامت سے ہم نے کاٹا، یہ اللہ کا خصوصی فضل وکرم ہی کا نتیجہ تھا، وگرنہ یہ ہمارے بس کی بات نہ تھی!
پارکر کمپنی میں مجھے اتنی تنخواہ اور بہت سی سہولیات میسر آ گئیں اور ترقی کے روشن امکانات تھے،مگر اب ایک اور طرح کی آزمایش سے دوچار ہونا پڑا۔ ہمارا ایک عزیز تلسی رام تھا، جس کا برتن بنانے کا ایک بڑا کارخانہ تھا اور وہ خاصا مال دار تھا۔ اتفاق سے وہ چچا کے پاس آیا کہ ہم بالٹی بناتے ہیں، مگر اس کے کنارے پھٹ جاتے ہیں۔ بہت سے کاریگروں کو دکھایا ہے، لیکن مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ تم کوئی کاریگر بتاؤ۔ چچا نے کہا کہ رتن چند کا بیٹا حسن بڑا اچھا کاریگر ہے۔ تلسی رام نے کہا کہ گوراں دیوی کا بیٹا جو مسلمان ہو گیا تھا؟ چچا نے کہا: ہاں، وہی، پھر چچا نے اس سے میری ملاقات کروائی۔ وہ مل کر بڑا خوش اور اپنا مسئلہ بیان کیا۔ میں نے ہامی بھر لی۔ بالٹیوں کی مرمت شروع کی اورایک ایسا مضبوط ٹانکا لگایا، جو کہ ہمارا خاندانی فن تھا، جس کے بعد بالٹی کے کنارے نہ پھٹے۔ اس کا مسئلہ حل ہو گیا تو اس نے مجھے جز وقتی ملازمت دی او راچھی تنخواہ مقرر کی۔ پارکر کمپنی اور تلسی رام کے ہاں کام کرنے سے میری آمدنی غیر معمولی ہو گئی، جس کا اس وقت عام آدمی تصور نہیں کر سکتا تھا۔
اب تلسی رام کو لالچ ہوا۔ ا س نے اپنی پوتی شکنتلا سے کہا کہ تم اس سے دوستی کرو اور اسے شدھی کر لو یعنی دوبارہ ہندو بنا لو۔ یہ بہت اچھا کاریگر ہے، مال دار بھی ہے۔ شکنتلا ایم اے کی طالبہ تھی۔ ا س نے میرے ہاں آنا جانا شروع کر دیا۔ ایک روز باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کا تمھارے گھرانے کا فیصلہ محض جذباتی عمل لگتا ہے۔ کیا تم اسلام کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہو؟ اس نے کئی سوالات کیے، جس پر مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے دین کو باقاعدہ سیکھنا چاہیے نہ کہ محض رسمی تعلیمات پر اکتفا کر لوں۔ اس طرح میں نے دین اسلام کا مطالعہ کرنے اور سیکھنے کا عزم کر لیا۔
اب میں نے دین سیکھنے کے لیے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا۔ ممبئی کی جامع مسجد کے خطیب سے ملا اور اپنی قبول اسلام کی روداد سنائی اور طلب علم کے بارے میں رہ نمائی چاہی۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا: ہندوستان میں ایک مستند ادارہ ہے اور وہ ہے دار العلوم دیو بند، آپ کو وہاں جانا چاہیے، چنانچہ انھوں نے مجھے ایک خط لکھ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ آپ جمعیۃ العلماء کے مرکزی دفتر دہلی چلے جائیں، وہ آپ کی صحیح رہنمائی کریں گے۔ یہ ۱۹۳۸ ء کی بات ہے۔ میں جمعیۃ العلماء کے مرکزی دفتر دہلی پہنچا۔ اس وقت مولوی محمود اس کے دفتر میں وقت دیتے تھے۔ میں نے انھیں خط دیا، پڑھتے گئے اور میری طرف دیکھتے بھی رہے۔ خط میں مختصراً ہمارے قبول اسلام کا تذکرہ اور دین سیکھنے کی خواہش کا ذکر تھا، چنانچہ انھوں نے مجھے کہا کہ آپ کو دیو بند جانا ہو گا۔ انھوں نے شیخ حسین احمد مدنی کے نام جو اس وقت مہتمم مدرسہ تھے، ایک خط لکھ کر مجھے دیا او رکہا کہ ان کے پاس چلے جائیں۔ وہ آپ کی رہنمائی فرمائیں گے، چنانچہ میں نے فیکٹری سے چھٹی لے لی اور دیوبند کے لیے روانہ ہو گیا۔
دیوبند مدرسے کی عمارت سادہ مگر خوب صورت اور اسلامی ثقافت کی عکاسی کرتی تھی۔ شیخ حسین احمد مدنی سے ملاقات ہوئی۔ میں نے مولوی محمود صاحب کا خط دیا۔ انھوں نے اسے پڑھا، جس میں مختصراً ہمارے حالات کا تذکرہ تھا اور یہ بھی کہ دین کے عمومی فہم کے لیے انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اپنی مصروفیات کے باوجود انھوں نے میری گفتگو اور قبول اسلام کی روداد سنی۔
شیخ حسین احمد مدنی نے ڈیڑھ گھنٹے تک میری بات سنی۔ بہت حوصلہ افزائی اور ستائش کی کہ آپ کے خاندان نے قبول اسلام کے لیے کس استقامت اور صبر کا مظاہرہ کیا، پھر کہنے لگے کہ آپ کو مدرسے کی باقاعدہ سند کی ضرورت تو نہیں۔ آپ کو عمومی فہم دین اور اسلام سے متعلق مختلف سوالات اور اعتراضات کے جواب درکار ہیں، لہٰذا آپ ہمارے مدرسے کی عمومی کلاسیں بھی پڑھیں، لیکن میں ایک استاد بھی مقرر کر رہا ہوں، جو آپ کی ضرورت کے مطابق آپ کو تعلیم دیں گے، چنانچہ بہار سے تعلق رکھنے والے ایک استاد کو میری تعلیم کے لیے مقرر کیا گیا۔ انھوں نے مجھے دین کی بنیادی تعلیمات سکھائیں۔ قرآن پڑھایا اور نماز درست طریقے پر ادا کرنا سکھائی ، نیز وہ سوال و جواب کی صورت میں مجھ سے تبادلۂ خیال کرتے اور اسلام پر اعتراضات کے جواب دیتے۔ اس طرح مجھے دین باقاعدہ سیکھنے کا موقع ملا۔ توحید کا تصور اجاگر ہوا اور قرآن و حدیث کا فہم ملا۔
دیو بند میں میرا قیام تقریباً پانچ ماہ تک رہا۔ وہاں دین کے لیے شغف ، دین سیکھنے سکھانے کے لیے پائی جانے والی لگن اور تڑپ اور سادگی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ ایمان پرور منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ کس طرح ہندوستان کے مسلمان اہل دیوبند کا احترام کرتے ہیں اور ان کے مقاصد جلیلہ کے پیش نظر طرح طرح سے ان کی خدمت کرتے ہیں۔ ان دنوں ۴۰۰ طلبہ مدرسے میں زیر تعلیم تھے۔ ان کا کھانا او ررہائش مفت تھی۔ لوگ بڑی تعداد میں غلہ اور روز مرہ استعمال کی اشیا محض اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے بھجواتے تھے۔ مجھے بھی کچھ خدمت کا موقع ملا۔ طلبہ کے لیے کھانا پکانے کی بڑی بڑی دیگچیاں تھیں۔ ان کے پینیدے خراب ہو گئے۔ انھیں مرمت کے لیے شہر لے جانے کی ضرورت تھی، جس میں خاصی دقت تھی اور وقت بھی لگنا تھا۔ میں نے کہا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں۔ مجھے بھی کچھ خدمت کا موقع دیں۔ میرے لیے تو یہ کوئی مشکل کام نہ تھا۔ یہ تو ہمارا آبائی پیشہ تھا، چنانچہ میں نے تانبے کی چادریں خریدیں، وہیں بھٹی بنائی اور ان دیگچیوں کے نئے پیندے لگا دیے۔ الغرض دیوبند کے قیام نے جہاں میرے فہم دین میں اضافہ کیا، وہاں اسلامی معاشرت، اخوت و محبت اور سادگی کے مظاہرے نے ایمان کو بڑی تقویت پہنچائی۔
ممبئی واپس آنے کے بعد دوبارہ ملازمت پر جانے لگا۔ شکنتلا سے بھی رابطہ ہوا۔ ا س نے بہت سے سوالات اور اعتراضات اٹھائے، مگر قرآن و حدیث کے دلائل اور ہندی عقائد اور ہندی مذہبی کتب وید، شاستر، بھگوت گیتا اور شری کرشن مہارج کے فرمودات سے جب اس پر توحید کی حقانیت اجاگر ہوئی تو وہ بہت متاثر ہوئی۔ کہاں وہ مجھے ہندو بنانے چلی تھی او رکہاں اللہ نے اس کی ہدایت کا سامان کر دیا۔ اس کے اہل خانہ کو خدشہ ہوا کہ کہیں یہ مسلمان نہ ہو جائے اور اپنا دھرم نہ چھوڑ بیٹھے۔ انھوں نے اسے بہت سمجھایا او رجب دیکھا کہ وہ کسی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں تو پنڈتوں سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے۔ انھوں نے اس کو ایسی دوا لگا دی، جس سے وہ کوڑھی ہو گئی۔میں نے اس کا طرح طرح سے علاج کروایا، لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکی ۔ آخری وقت اس نے مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے مولوی صاحب کو بلوایا۔ انھوں نے اسے کلمہ پڑھایا اور وہ مسلمان ہو گئی۔ اس نے کہا کہ میری ایک آخری خواہش بھی پوری کر دو۔ میں تم سے نکاح کرنا چاہتی ہوں، چنانچہ میرا اس سے نکاح بھی ہو گیا۔ اس کا نام شمائلہ حسن رکھا گیا او رپھر چند گھنٹے بعد وہ انتقال کر گئی اور اللہ کے فضل سے وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اللہ کے حضور حاضر ہوئی۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو میں امرتسر ریلوے سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ ہر طرف آگ، خو ن، لوٹ مار اور بلوائیوں کے حملے تھے۔ آگ او رخون کے سمندر کو ہم تین بھائی اور والد صاحب عبور کر کے پاکستان پہنچے۔ والدہ اور میری اہلیہ پہلے ہی لاہور پہنچ چکی تھیں۔
لاہور پہنچ کر ہم نے گوال منڈی میں ایک گھر لے لیا۔ میں کئی ماہ تک فارغ رہا۔ ایک روز ایک شخص کچھ پرانی انگوٹھیاں فروخت کر رہا تھا۔ میں نے اس سے وہ خرید لیں۔ کچھ عرصے بعد تانبے کے برتن بنانے کا کام شروع کیا۔ اتفاق سے ایک دوست مل گیا، جو کویت آئل کمپنی میں کام کرتا تھا۔ اس نے کویت آنے کے لیے کہا کہ وہاں زیورات کا اچھا کام ہے۔ کسی نہ کسی طرح کرائے کا انتظام کر کے ۱۹۵۰ ء میں کویت چلا گیا۔
کویت میں چاندی کے زیورات کا کام شروع کرنا چاہا تو زر ضمانت کا مسئلہ آڑے آ گیا، چنانچہ ٹین کے ڈرم بنانا شروع کر دیے۔ اس کام کے نتیجے میں بتدریج اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ زر ضمانت کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اب اللہ کے فضل سے خوب آمدنی ہوئی اور بہت پیسہ کمایا۔ بدقسمتی سے ۱۹۶۲ء میں جب اپنا سرمایہ اور جمع پونجی لے کر دارا بحری جہاز سے کراچی کے لیے روانہ ہوا تو ایک حادثے کے نتیجے میں جہاز ہی ڈوب گیا۔ اللہ کو زندگی منظور تھی۔ لکڑی کا ایک تختہ ہاتھ آ گیا۔ میں اس تختے کے سہارے سمندر سے نکلنے اور کنارے پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا، بالآخر امدادی ٹیم پہنچ گئی اور میں بچ نکلا۔ کچھ عرصے بعد بحرین ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ اس حادثے سے مجھے شدید دھچکا لگا۔ میں بالکل کنگال ہو کر رہ گیا، چنانچہ کچھ ہمت کر کے دوبارہ کام شروع کیا۔ ۱۹۷۰ء میں مجھے لیبیا جانے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر کرم کیا۔ میرا زیورات کا کاروبار خوب چمکا اور اچھی آمدنی ہونے لگی۔ مجھے سیاحت کا شوق تھا، سوچا کہ امریکہ کی سیر کی جائے۔
۷۳۔۱۹۷۴ء میں امریکہ کا میرا سفر میرے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ ایک واقعے نے میری زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ مجھے نیاگرافال دیکھنے کا بڑا شوق تھا، چنانچہ اس خیال سے اپنے ایک دوست کے ہاں ڈیٹرائٹ اسٹیٹ گیا اورپھر وہاں نیاگرافال ، عظیم آبشار دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔ بہت خوب صورت منظر تھا، بڑا خوش گوار موسم تھا۔ بہت سے سیاح آئے ہوئے تھے۔ میں بھی وہاں گھوم پھر رہا تھا اور اللہ کی قدرت کا براہ راست آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک شخص پر پڑی او رمیں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔
ایک بزرگ سفید کرتا پاجامہ پہنے ہوئے وہاں دکھائی دیے۔ وہ میری طرف مسکراتے ہوئے نہایت اپنائیت کے ساتھ دیکھ رہے تھے، جیسے مجھے جانتے ہوں۔ میں ان کے قریب آیا اور سلام عرض کیا۔ انھوں نے جواب دیا اور مسکر کر ملے۔ میں نے کہا: معاف کیجیے، میں آپ کو پہچان نہ سکا، پھر انھوں نے اپنا تعارف کرایا کہ میرا نام ابو الاعلیٰ مودودی ہے۔ پاکستان میں رہتا ہوں اور یہاں علاج کی غرض سے آیا ہوں۔ میری رہائش قریب ہی پیراڈائز اسٹریٹ میں ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ مولانا مودودی ہیں۔ آپ کا نام سن رکھا تھا، مگر آپ کو دیکھا نہیں تھا۔ آج شرف ملاقات بھی حاصل ہو گیا۔ عالم عرب میں تو آپ کا بڑا شہرہ ہے۔ کہنے لگے کہ مولانا نہ کہیے، بلکہ میرے نام سے پکاریے، چنانچہ میں نے دوبارہ مولانا نہ کہا۔ میں نے بتایا کہ میں بھی پاکستانی ہوں اور یہاں سیاحت کی غرض سے آیا ہوا ہوں۔ پھر ہم مل کر سیر کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں یہ تذکرہ بھی ہوا کہ ہم ہندو سے مسلمان ہوئے ہیں اور اس کے لیے بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا، جو ایک لمبی کہانی ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ میں تفصیل سے آپ کے حالات جاننا چاہوں گا۔
سید مودودی ؒ کی شخصیت بہت سحر انگیز تھی۔ میں اس بات سے ہی متاثر ہوا کہ یہ شخص زندگی میں پہلی بار مجھ سے مل رہا ہے ، مگر کس تپاک، محبت او راپنائیت سے پیش آ رہا ہے کہ جیسے میں اس کا اپنا ہی ہوں۔ میرا دل چاہا کہ میں مزید کچھ وقت ا ن کے ساتھ رہوں، چنانچہ گھر واپسی پر ان کے ساتھ ہو لیا۔ پیرا ڈائز اسٹریٹ کچھ ٹوٹی پھوٹی تھی۔ میں نے کہا: نام تو اس کا پیراڈائز (جنت) ہے، مگر ہے ٹوٹی پھوٹی۔ انھوں نے مسکرا کر جواب دیا: بھئی! جنت کی راہ بھی تو کوئی ایسی آسان نہیں۔ اس راہ میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تب جا کر کہیں جنت ملتی ہے۔ لوگ اسے آسان سمجھتے ہیں۔ ان خوش گوار جملوں میں بھی ایک سبق پوشیدہ تھا۔ مجھے ان کا یہ انداز بہت بھایا۔
سید مودودیؒ کے گھر پہنچ کر ہم نے اکٹھے چائے پی۔ اس دوران تفصیلی تعارف کا موقع بھی میسر آیا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ ہمارا تعلق پانڈو خاندان سے ہے۔ ہندوستان کے معروف رائٹر ملک راج آنند میرے چچا ہیں۔ پھر مختصراً بتایا کہ کس طرح ہماری والدہ نے اسلام قبول کیا اور کن کن مراحل سے ہمیں گزرنا پڑا تو ان کا اشتیاق مزید بڑھ گیا۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ کہاں ٹھیرے ہوئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ایک دوست کے یہاں ٹھیرا ہوں تو کہنے لگے کہ آپ میرے یہاں بطور مہمان ٹھیریں۔ میں تفصیل سے آپ کے قبول اسلام کی روداد سننا چاہتا ہوں۔ پھر اصرار سے مجھے تین روز اپنے یہاں ٹھیرایا۔ بڑی تواضع سے پیش آئے، خود چائے بنا کر پلاتے اور جو موجود ہوتا اصرار کر کے کھلاتے۔
باتوں باتوں میں نہرو سے میری ملاقات کا تذکرہ بھی آگیا۔ میں نے اپنے چچا ملک راج آنند سے کہا کہ نہرو سے میری ملاقات کروا دیں، چنانچہ ایک روز ان سے ملاقات کے لیے گیا۔ وہاں متھرا سے ایک ہندو وفد بھی ملاقات کے لیے آیا تھا۔ وہ گاؤ (ماتا) کاٹنے پر مسلمانوں کو لعن طعن کر رہے تھے۔ یہ سن کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا کہ پورا یورپ گاؤ (ماتا) کو کاٹتا ہے، مگر انگریز تو ہم پر حکمران ہے، وہ چپ ہو کر رہ گئے۔ سید مودودیؒ اس بات سے بہت محظوظ ہوئے۔
سید مودودیؒ میں بھی بڑی عمدہ حس مزاح پائی جاتی تھی۔ عام طور پر بڑے لوگوں کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ سنجیدہ اور خشک مزاج ہوتے ہیں، لیکن میں نے ان کو مختلف پایا۔ وہ دوران گفتگو اس انداز میں بات کرتے تھے یا نکتہ نکالتے تھے کہ آدمی محظوظ ہوئے بغیر او رلطف اٹھائے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ ان سے ملاقات کے دوران اکتاہٹ کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔
میں نے ان سے یہ بھی عرض کیا کہ دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ میں نے خدمت خلق کو ایک اہم ذریعے کے طور پر اپنے سامنے رکھا۔ میں نے ایک واقعہ انھیں سنایا۔ ایک بار میں روم کے سفر پر تھا۔ کینز سے بذریعہ بس چار گھنٹے کا سفر تھا۔ رات کے وقت اچانک ایک شخص کی مارے تکلیف کے کراہنے کی آوازیں آنے لگیں۔ جب درد کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوئی تو میں نے آگے بڑھ کر خیرت دریافت کی۔ وہ گھٹنوں کے شدید درد میں مبتلا تھا۔ اس کا نام گھنی شیام تھا اور بہت امیر شخص تھا۔ شیل آئل کمپنی ممبئی کا مالک تھا، مگر اپنی تکلیف سے بہت تنگ تھا۔جب میں نے ممبئی کی بولی میں کہا کہ تمھاری تکلیف دور ہو سکتی ہے۔ وہ بہت خوش ہوا کہ میں نے دنیا جہان کے علاج کروا لیے ہیں، پانی کی طرح پیسہ بہایا، لیکن آرام نہیں آیا اور تم کہتے ہو کہ آرام ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ بالکل آرام ہو سکتا ہے ، لیکن ایک کام کرنا ہو گا او روہ یہ کہ اپنی دولت کم کرو اور غریب غربا کی مدد کرو۔ اس نے کہا کہ تم بھی عجیب آدمی ہو۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ بڑھاؤ اور تم کہتے ہو کہ پیسہ کم کرو، میں نے اسے سمجھایا کہ ممبئی میں بے شمار لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ ہیں، ان کی مدد کرو۔ کچھ فلیٹس بنواؤ اور برسات میں جب لوگوں کی جھگیاں ڈھے جاتی ہیں، ان کو لا کر بساؤ، اسی طرح بہت سے کام ہو سکتے ہیں۔ جب یہ لوگ تمھارے حق میں دعائیں کریں گے تو اللہ تم پر کرم کرے گا۔ اس نے ہامی بھر لی کہ اچھا میں تمھارے نسخے پر بھی عمل کروں گا۔
کچھ عرصے بعد جب میں مصر میں دریائے نیل کے کنارے سیر کر رہا تھا تو گھنی شیام سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ وہ گرم جوشی سے ملا۔ اس نے کہا کہ تمھارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ تم نے میرے گھٹنوں کے درد کا جو علاج بتایا تھا، میں نے اس پر عمل کیا اور اب میں ٹھیک ہوں۔ اب چونکہ اس کا رجحان خدا کی طرف تھا، میں نے فوراً کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ جس نے تمھیں صحت بخشی۔ ہم سب کا مالک اللہ ہے، لہٰذا ایک اللہ کی بندگی کرو۔ یہی اسلام ہے۔ اس نے کہا کہ میں یہ بات سمجھ گیا ہوں۔ بندوں کی خدمت کے ذریعے جس طرح اللہ نے میرا لا علاج مرض دور کر دیا، یقینا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔ اس طرح وہ شخص اللہ کی راہ پر آ گیا۔ سید مودودیؒ نے یہ واقعہ سن کر کہا کہ جس طرح آپ نے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اور اس شخص کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر حکمت سے اسے اللہ کے راستے پر ڈالا، یہ بھی اللہ کی دین ہے۔ اور تبلیغ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے۔
میں نے انھیں جہاں تفصیل سے قبول اسلام کی روداد سنائی، وہاں توحید پر مبنی ہندی کے بہت سے اقوال بھی سنائے۔ صوفیائے کرام کا سندھی اور دوسری زبانوں میں عارفانہ کلام بھی سنایا۔ میں نے کہا کہ آپ تو خود عالم ہیں، بہت علم رکھتے ہیں، پھر مجھ سے کیوں سن رہے ہیں۔ کہنے لگے: اس حوالے سے مجھے آپ سے کچھ نئی باتیں ملی ہیں، لہٰذا جاننے والے سے سیکھنا چاہیے۔ میرے دل میں ان کی عظمت دو بالا ہو گئی۔
میری روداد سن کر سید مودودی ؒ بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ آپ نے اور آپ کے خاندان نے اسلام قبول کرنے کے لیے فی الواقع بڑی قربانیاں دی ہیں، اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر یہ کہ نہ صرف اسلام قبول کیا، بلکہ اپنے دین کو سیکھا اور آپ دین کو پھیلانے کے لیے ایک تڑپ بھی رکھتے ہیں۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ کو اللہ نے صلاحیت بھی بخشی ہے اور وسائل بھی دیے ہیں۔ آپ دین کو مزید سیکھیے، دین کے جدید تقاضوں کو بھی سمجھیے، او رپھر تبلیغ دین کا کام کریں۔ اس کے لیے جامعہ ازہر میں داخل لے کر مبلغ کا کورس کریں۔ انھوں نے لیبیا کے معروف عالم دین کا حوالہ دیا کہ ان سے رابطہ کریں۔ یہ جامعہ ازہر میں داخلے کے لیے آپ کی رہنمائی کریں گے۔ اگرچہ وہاں داخلہ ملنا آسان نہیں، چنانچہ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا او رجامعہ ازہر میں داخلے کا ارادہ کر لیا۔
نیاگرافال کی سیاحت اور سید مودودیؒ سے اتفاقی ملاقات نے میری زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری زندگی کا حاصل ہے۔ یہ سید مودودیؒ کی شفقت اور حوصلہ افزائی تھی، جس نے مجھے تبلیغ دین اور خدمت خلق کی راہ کھائی او رعملی رہنمائی بھی دی۔
اللہ اپنے بندوں کے ارادوں کو کس طرح پایۂ تکمیل تک پہنچاتا ہے اور کس طرح راہیں کھولتا ہے، اس کا مشاہدہ مجھے تب ہوا، جب میں نے جامعہ ازہر میں داخلہ لینے کا ارادہ کیا۔ حسن اتفاق سے ایک روز لیبیا کے وہ عالم دین جن کا سید مودودیؒ نے تذکرہ کیا تھا ہماری دکان پر زیورات بنوانے کے لیے آ گئے۔ انھیں دیکھ کر ہمارا مالک اٹھ کھڑا ہوا اور ان سے بہت احترام سے پیش آیا۔ اس طرح میری ان سے ملاقات ہو گئی۔ جب میں نے ان سید مودودیؒ کا تذکرہ کیا تو انھوں نے ان کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ میں داخلے کی کوشش کروں گا، پھر انھوں نے جامعہ ازہر کے شیخ کے نام خط لکھ کردیا۔ میرے لیے دکان چھوڑنا بھی ایک مسئلہ تھا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ انھی دنوں لیبیا کی حکومت نے سونے کے کاروبار پر پابندی عائد کر دی۔ اب عملاً ہمارا کاروبار بند ہو گیا۔ یوں جامعہ ازہر کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔
کورس مکمل کرنے کے بعد دوبارہ لیبیا میں اپنے کاروبار کا سلسلہ شروع کیا۔ اس طرح کاروبار بھی جاری رہا اور جہاں جہاں جیسے مجھے موقع ملتا، میں دعوت دین کا فریضہ بھی انجام دیتا رہا۔ اور اللہ کے بندوں کی جہاں تک ممکن ہو سکا، خدمت بھی کرتا رہا۔ یہ مجھ پر اللہ کا خصوصی فضل رہا کہ کئی غیر مسلم مرد اور خواتین میری کوشش کے نتیجے میں مشرف باسلام ہوئے۔
کئی برس بعد وطن واپسی ہوئی تو سید مودودیؒ کے گھر پر ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ وہ مل کر بہت خوش ہوئے۔ میں نے اپنے کورس کی تکمیل اور اپنی دیگر سرگرمیوں سے بھی آگاہ کیا۔ اس پر انھوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے رفقا سے میرا تعارف نہایت احسن انداز میں کروایا اور بتایا کہ یہ ہندو سے مسلمان ہوئے۔ ان کے خاندان نے اسلام سے فیض یاب ہونے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اب یہ ازہری ہیں، مبلغ ہیں اور توحید کے علم بردار ہیں۔ وہاں موجود لوگوں نے بھی کچھ سوالات کیے۔ کچھ دیر ٹھیرنے کے بعد میں نے سید مودودیؒ سے رخصت چاہی۔ یہ میری ان کے ساتھ آخری ملاقات تھی۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ رحلت فرما گئے۔
آج بھی کبھی پلٹ کر ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہم پر اللہ کی کتنی کرم نوازی تھی کہ دین حق قبول کرنے کے لیے کس طرح سے راہیں کھول دیں۔ ہرن کی کھال پر کرشن مہاراج کی تعلیمات کے ذریعے کس طرح ہماری والدہ صاحبہ نے تصور توحید کو پایا۔ قبول اسلام کے بعد طویل آزمائش کی کٹھن منزلیں کی طرح طے کروائیں۔ فہم دین کے لیے مواقع پیدا کیے۔ سید مودودیؒ سے اتفاقی ملاقات نے کس طرح زندگی کا رخ متعین کر دیا او رجامعہ ازہر سے دین کے جدید تقاضے اور مبلغ کے کورس کی توفیق ملی۔ ہم اس کے احسانات کا شکر ادا کرنا بھی چاہیں تو بلاشبہ نہیں کر سکتے۔
آج بھی پیرانہ سالی میں میں سید مودودیؒ کی ہدایت کے مطابق دعوت دین اور بندوں کی خدمت کے مشن پر گامزن ہوں۔ اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے جاری کردہ مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور مجھے بھی اپنی راہ میں استقامت بخشے۔ میرے قبول اسلام کی یہ روداد میرے حق میں حجت ثابت ہو اور لوگوں کے حق میں اسلام کی حقانیت کو اجاگر کرنے، دین جیسی متاع عظیم کی حقیقی قدر پیدا کرنے اور اسے عام کرنے کا ذریعہ بنے۔آمین!
٭٭٭