کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اخلاق کسے کہتے ہیں؟ کسی کے نزدیک ہر جا اور بے جا بات میں ہاں میں ہاں ملا دینے کا نام اخلاق ہے۔ صلح کل کی یہ صفت معاشرے کے ایک اچھے خاصے طبقے میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ ہر کس و ناکس ایسے شخص کا خواہ مخواہ پرستار بن جاتا ہے۔ بعض لوگ اخلاق کو مروت کے معنی میں لیتے ہیں۔اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتا ہے ،بات چیت اچھی طرح کرتا ہے یا کسی کے کام آتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کے بہت اچھے اخلاق ہیں اور ملنسار ہے وغیرہ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اخلاق خلق کی جمع ہے۔ خَلق اورخُلق دو جدا جدا لفظ ہیں۔ خَلق سے مراد صورت ظاہری ہے اور خُلق سے مراد صورت باطنی کیونکہ انسان جس طرح جسم سے ترکیب دیا گیا ہے اور ہاتھ پاؤں اور آنکھ کان وغیرہ اعضااس کو مرحمت ہوئے ہیں جنھیں قوت بصارت یعنی چہرے کی آنکھیں ادراک کر سکتی ہیں،اسی طرح انسان روح اور نفس سے ترکیب دیا گیا ہے اور اس کا ادراک بصیرت یعنی دل کی آنکھ کرتی ہے۔یہ ترکیب ان ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ان دونوں ترکیبوں میں حق تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جدا جدا صورت اور قسم قسم کی شکلوں پر پیدا فرمایا ہے کہ کسی کی صورت اور سیرت حسین اور اچھی ہے اور کسی کی سیرت اور صورت بری اوربھونڈی ہے۔ظاہری ہئیت اور شکل کو صورت کہتے ہیں اور باطنی شکل اور ہئیت کو سیرت کہتے ہیں۔سیرت کا مرتبہ صورت سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ اس کو حق تعالیٰ نے اپنی جانب منسوب کیا ہے چنانچہ وَنَفَخت فِیہٰ مِن رّوحِی یعنی آدم علیہ السلام کے پتلے میں میں نے اپنی روح کو پھونک دیا۔اس آیت کریمہ میں روح کو اپنا کہہ کر ذکر فرمایا اور قلِ الرّوح مِن اَمرِ رَبّی یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کا امر ہے۔اس میں اس امر کا اظہار فرمایا ہے کہ روح امر ربّی ہے اور جسم کی طرح سفلی اور خاکی نہیں ہے۔کیونکہ جسم کی نسبت مٹی کی جانب فرمائی ہے۔جیسا کہ ارشاد ہے وَاِنّی خَا لِق بَشَراً مِّن طِینٍ۔ اس مقام پر روح سے مراد وہ شے ہے جو حق تعالیٰ کے الہام اور القاء سے اپنی اپنی استعداد کے موافق اشیا کی معرفت اور ادراک حاصل کر سکتی ہے۔ جب تک ترکیب اور ہئیت میں حسن موجود نہ ہوگا اس وقت تک انسان کو خوب صورت نہیں کہا جا سکتا ، اسی طرح جب تک باطنی اعضا کی ترکیب اور ہییت حسین نہ ہو گی روح بھی حسین نہ ہو گی۔
سیرت کے اعضا کے نام یہ ہیں۔ قوت علم ، قوت غضب ، قوت شہوت اور قوت عدل ہے۔لہٰذا جب تک یہ چاروں اعضاء سڈول اور متناسب اور حد اعتدال پر نہ ہونگے اس وقت تک سیرت کو حسین نہیں کہا جائے گا۔ان باطنی اعضاء میں جو بھی کمی بیشی ہو گی اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کسی کی ظاہری شکل و صورت جسم میں افراط و تفریط ہو کہ پاؤں مثلاً گز بھر ہوں اور ہاتھ تین گز کے یا ایک ہاتھ مثلاً آدھا گز کا ہو اور دوسرا گز بھر کا اور ظاہر ہے کہ ایسا آدمی خوب صورت نہیں کہا جائے گا۔پس اسی طرح اگر کسی کی قوت غضبیہ حد اعتدال سے کم ہو اور قوت شہوانیہ اعتدال سے بڑھی ہوئی ہو تو اس کو خوب سیرت نہیں کہہ سکتے۔اب چاروں اعضائے مذکورہ کا اعتدال اور تناسب اور حسن ملاحظہ فرمائیں:
قوت علم :
اس کا اعتدال یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے سے اقوال کے اندر سچ جھوٹ میں امتیاز اور اعتقادات کے متعلق حق اور باطل میں فرق کر سکے اور اعمال میں حسن و قبح یعنی اچھا اور برا پہچان سکے۔پس جس وقت یہ صلاحیت پیدا ہو جائے گی تو اس وقت حکمت کا وہ ثمرہ پیدا ہوگا جس کو حق تعالیٰ بایں الفاظ ارشاد فرماتے ہیں۔ وَمَن یّوتَی الحِکمََ فَقَد اوتِیَ خَیراً کَثِیراً' یعنی جس کو حکمت عطا ہوئی اس کو خیر کثیر عطا ہوئی اور حقیقت میں تمام فضیلتوں کی اصل اور جڑ یہی ہے۔
قوت غضب اور قوت شہوت:
ان کا اعتدال اور حسن یہ ہے کہ دونوں قوتیں حکمت و شریعت کے اشارے پر چلنے لگیں۔اور مہذب اور مطیع شکاری کتے کی طرح شریعت کے فرمانبردار بن جائیں کہ جس طرح بھی شریعت ان کو چلائے بلا عذر و بلا تامل اس جانب چلنے لگیں۔اور جس طرف سے روکیں فوراً رک جائیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ زیادہ قابل لحاظ امر ربانی یعنی سیرت انسانی ہے کہ جب تک اس باطنی حسن کو حاصل نہ کیا جائے با کمال کہلایا جانا ممکن نہیں۔
چہارم قوت عدل:
اس کا اعتدال یہ ہے کہ قوت غضب اور قوت شہوت دونوں کی باگ اپنے ہاتھ میں لے اور ان کو دین اور عقل کے اشارے کے ماتحت بنائے رکھے۔گویا عقل تو حاکم ہے ،اور یہ قوت عدل اس کی پیشکار ہے کہ جدھر حاکم کا اشارہ پاتے ہیں فوراً اسی جانب جھک جاتے ہیں۔اور اس کے موافق احکام جاری کر دیتے ہیں۔اور قوت غضبیہ و شہوانیہ گویا شکاری مرد کے مہذب کتے ہیں یا فرمانبردار گھوڑے کی طرح ہیں کہ ان میں حاکم کا حکم اور ناصح کی نصیحت کا نفاذ اور اجراء ہوتا ہے۔ معلوم ہو کہ جس وقت یہ حالت قابل اطمینان اور لائق تعریف ہو جائے گی اس وقت انسان صاحب حسن خّلق اور خوب سیرت کہلائے گا۔
قوت غضب کے اعتدال کا نام شجاعت ہے۔اور یہی عنداللہ پسندیدہ ہے۔ کیونکہ اگر اس میں زیادتی ہوگی تو اس کا نام تہوّر اور بے باکی ہوگا۔اور اگر کمی ہوگی تو بزدلی و جبنیت کہلائے گی۔اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں حالتیں نا پسندیدہ ہیں۔حالت اعتدال یعنی شجاعت سے لطف و کرم ،دلیری و جودت و بردباری استقلال نرمی و ملاطفت اور غصہ کے ضبط کا مادہ نیز ہر کام میں دور اندیشی و وقار پیدا ہوتا ہے۔اور اگر زیادتی ہوتی ہے تو نا عاقبت اندیشی ،ڈینگ مارنا،شیخی بگھارنا،غصہ سے بھڑک اٹھنا ،تکبر اور خود پسندی ہی پیدا ہوتی ہے۔اور اگر اس میں کمی ہوتی ہے تو بزدلی و ذلت بے عزتی ،کم ہمتی ،خساست ،کمینہ پن،اور وہ حرکات ظاہر ہوتی ہیں جو چھچھور پن کہلاتی ہیں۔
قوت شہوانیہ کی حالت اعتدال کا نام پارسائی ہے۔ لہٰذااگر شہوت اپنے حد اعتدال سے بڑھ جائے گی تو حرص و ہوا کہلائے گی۔حالت معتدل یعنی پارسائی اللہ پاک کو پسند ہے اور اس کے جو فضائل پیدا ہوتے ہیں وہ سخاوت ،حیا، صبر ، قناعت و اتقاء، کہلاتے ہیں۔طمع کم ہو جاتی ہے۔خوف و خشیت اور دوسروں کی مدد کرنے کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور اعتدال سے بڑھنے اور گھٹنے سے حرص و لالچ ،خوشامد ،چاپلوسی ،امراء کے ساتھ تذلل،اور فقراء کو بنظر حقارت دیکھنا ، بے حیائی ،فضول خرچی ،ریا ،تنگ دلی ،نا مردانگی ،اور حسد وغیرہ خصائلِ بد پیدا ہوتے ہیں۔
قوت عقل میں اگر اعتدال ہوتا ہے تو انسان مدبر اور منتظم اور ذکی اور سمجھ دار ہوتا ہے۔اس کی رائے صائب درست ہوتی ہے اور ہر مضمون میں اس کی طبیعت چلتی ہے۔ اور جودت دکھلاتی ہے اور اگر حد اعتدال سے بڑھ جائے تو دھوکہ بازی ،فریب دہی ،اور مکاری کہلاتی ہے۔اور اگر عقل کی قوت میں کسی قسم کا نقصان اور ضعف ہو گا تو کند ذہنی و حماقت اور بے وقوفی کہلائے گی۔ جس کا اثر یہ ہوگا کہ ایسا آدمی جلدی دوسرے کے دھوکے میں آجائے گا۔غرض جس وقت یہ ساری قوتیں حد اعتدال پر ہونگی تو اس وقت انسان کو خوب سیرت کہا جائے گا۔کیونکہ اعتدال سے بڑھنا اور گھٹنا دونوں حالتیں حسن سے خارج ہیں۔ خَیر الامورِاَوسَا طھَا نیزحق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے بندے وہ ہیں کہ نہ وہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ اس کے بین بین حالت پر رہتے ہیں۔ جس طرح حسن ظاہری میں کمی و بیشی ہوتی ہے کہ کوئی زیادہ خوب صورت ہے اور کوئی کم، اسی طرح حسن باطنی میں بھی لوگ متفاوت ہوتے ہیں۔پس سب سے زیادہ حسین سیرت تو سرور عالم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کی شان میں یہ آیت کریمہ اِنَّکَ لَعَلیٰ خلقٍ عَظِیمٍ نازل ہوئی ہے۔ آپ کے بعد جس مسلمان کو آپ کے اخلاق کے ساتھ جتنی مناسبت ہوگی اسی قدر اس کو حسین سیرت کہیں گے اور ظاہر ہے کہ سیرت باطنی میں جس قدر بھی جس کو حسن حاصل ہوگا اسی قدر اس کو سعادت اخروی حاصل ہوگی۔
اخلاق کی قسموں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اخلاق باطنہ دو قسم پر ہیں:اخلاق حمیدہ اور ایک اخلاق رذیلہ۔ان میں ایک متعلق بالقلب ہے ،دوسرا متعلق بالنفس۔
اخلاق حمیدہ:
اخلاق باطنہ متعلق بالقلب کا نام اخلاق حمیدہ و ملکات فاضلہ ہیں۔ ان کو مقامات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں :توحید ، اخلاص ، توبہ ، محبت الٰہی ، قوت زہد و توکل ، قناعت ، حلم ، صبر ، شکر ، صدق ، تفویض ، تسلیم ، رضا ، فناء ، فناء الفناء جس قلب میں یہ اخلاق جمع ہوں اس کو قلب سلیم کہا جاتا ہے جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یو م ینفع مال و لا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم' یعنی اس دن کسی کے اس کا مال اور بیٹے کام نہیں آئیں گے مگر وہ سلیم دل جو وہ اللہ کے پاس لائے گا۔
اخلاق رذیلہ:
یہ اخلاق متعلق بالنفس ہیں جن کواخلاق رذیلہ کہتے ہیں ہ اور وہ یہ ہیں :طمع ،طول امل ،غصہ ،دروغ گوئی ،غیبت ،حسد ،بخل ،ریا ،عجب ،کبر ،حسد ،حب مال ،حب جاہ،حب دنیا ،حب باہ ،ان سے نفس کو پاک کرنے کا نام تزکیہ نفس ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ قَداَفلَحَ مَن زَکّٰھَا ''یعنی وہ مراد کو پہنچا جس نے اس جان کو پاک کیا ''۔اخلاق سب فطری ہیں۔ اخلاق سب فطری جبلی ہیں۔اور درجۂ فطرت میں کوئی خلق نہ مذموم ہے نہ محمود بلکہ مواقع استعمال سے ان میں مدح و ذمّ آجاتی ہے۔ مَن اَعطی للہِ فَقَدِاستَکمَلَ الاِیمَانَ'یعنی جس نے اللہ کی رضا کے لئے دیا ،اور اللہ ہی کی رضا کے لئے روکا تو اس کا ایمان مکمل ہوا۔اس میں اعطیٰ اور مَنَعَ دونوں کے ساتھ کی قید ہے جس سے معلوم ہوا کہ سخاوت مطلقاً محمود نہیں نہ بخل مطلقاً مذموم ہے بلکہ اگر خدا کے لئے ہو تو دونوں محمود ہیں ورنہ دونوں مذموم ہیں۔اخلاق ذمیمہ جن سے نفس کا تزکیہ کرانا ضروری ہے ،یوں تو بہت ہیں مگر ان میں باہم ایسا تعلق ہے کہ ایک کے ساتھ دوسرا اور دوسرے کے ساتھ تیسرا لگا ہوا ہے۔اس لئے جب تک سب ہی سے نجات نہ ملے گی اس وقت تک نفس قابو میں نہ آوے گا۔اور ایک کی اصلاح کرنا اور دوسرے سے بے پرواہ رہنا اس سے کچھ نفع نہ ہوگا ،کیونکہ جو شخص دس بیماریوں میں گرفتار ہووہ تندرست اس وقت کہلایا جا سکتا ہے جب کہ اس کی دسوں بیماریاں جاتی رہیں۔جس طرح کوئی خوب صورت آدمی حسین اسی وقت کہلایا جا سکتا ہے جبکہ ہاتھ ،پاؤں ،آنکھ ،کان غرض سارے اعضاء مناسب ہوں اور خوبصورت ہوں۔ اسی طرح انسان کو حسن خلق اسی وقت حاصل ہو گا جب کہ اس کی تما م باطنی حالتیں قابل تعریف اور پسندیدہ ہوں۔رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان وہی ہے جس کا خلق کامل ہو اور مومنین میں افضل وہی ہے جس کا خلق سب سے بہتر ہو پس اسی اصل کا نام دین ہے۔اور اسی کی تکمیل کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تھے۔مروجہ اخلاق صرف اخلاق کا ایک جزو ہو سکتا ہے بعض لوگ اخلاق کو مروت کے معنی میں لیتے ہیں جبکہ یہ عمل اخلاق کامحض جزو ہو سکتا ہے' کل نہیں۔اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتا ہے۔بات چیت اچھی طرح کرتا ہے یا کسی کے کام آتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کے بہت اچھے اخلاق ہیں اور ملنسار ہے وغیرہ وغیرہ حالانکہ اوپر اخلاق کے بارے میں تفصیل جاننے سے پتہ چلا کہ یہ صرف اخلاق کا جزو ہوسکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب یہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔اگر خدا کے لئے نہ ہو اس سے کوئی دنیاوی مقصد وابستہ ہو تو پھر جزو بھی نہیں بلکہ کاروبار ہے۔ اس سے کافروں کی یا کمزور مسلمانوں کی ان اچھی صفات کی نفی نہیں کیونکہ ان کو بھی یہ اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کی ہوئی ہیں اس لئے وہ قابل تعریف تو پھر بھی ہیں جیسے حاتم طائی کی سخاوت کی آپ نے تعریف فرمائی لیکن اس کا صلہ ان کو دنیا میں تو مل جائے گا کہ لوگ ان کی تعریف کریں گے یا ان کے دوسرے دنیاوی کاموں میں لوگ ان کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں گے لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصّہ نہیں ہوگا۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ہوں گے اور ظاہر ہے یہ کتنی بڑی محرومی ہے کہ عمل بھی کیا اور فائدہ بھی نہیں ہوا۔دوسری طرف اگر کچھ ایسے دنیاوی مقاصد کے لئے استعمال کی جائیں جن کا حاصل کرنا ان کے لئے جائز نہیں تھا تو پھر یہ دھوکہ ہے فریب ہے۔اخلاق کے پردے میں بد اخلاقی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔