(جولائی ۲۰۱۱)
جنت المعلی ( مکہ مکرمہ) میں شام کے سائے ڈھل رہے تھے اور لوگ ان سایوں کی پنا ہ میں قبروں کے مختلف احاطوں کے گرد جمع تھے ۔ سب سے زیادہ رش اس دیوار میں لگی آہنی جالیوں کے پاس تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ِاس کے اُس پار سیدہ خدیجہ کی آرام گاہ ہے ۔ مسافر کو جب کسی سائے میں جگہ نہ ملی سکی تو وہ اپنی ہی ڈھلتی عمر کی چھاؤں میں دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا ، اماں جان ، سلا م ہو آپ پر اور ربِّ کریم کی لازوال اوران گنت رحمتیں ۔ لیکن پھر مسافر اپنے آپ ہی میں شرمندہ سا ہو کر رہ گیا ۔ دل نے کہا پگلے تُو کیا او رتیرا سلا م کیا۔یہ ہستی تو وہ ہستی ہے جسے خود اللہ سلا م کہتا ہے۔ یا د نہیں جب سیدہ ؓ حضورؐ کے لیے کھا نا لے کر آئیں تھیں تو حضورؐ مسکرا دیے تھے۔ سیدہؓ نے پوچھا تھا، کس بات پہ مسکرائے ،تو حضو رؐ نے فرمایاتھا کہ ابھی جبرئیل میرے پاس آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جب خدیجہؓ آپ کے پاس آئیں تو انہیں میری اور اللہ کی طرف سے سلام کہیے گا اور بتائیے گاکہ انہیں جنت میں موتیوں والے ایک محل کی خوشخبری ہے جس میں نہ شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف۔ (بخاری ، مسلم) مسافر نے سوچا کہ سیدہؓ تو جنت کے حقیقی ہیرے موتیوں میں ہیں لیکن ہمارے لیے تو ان کے مرقد پہ بکھرے سنگریزے بھی ہیرے موتیوں سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہی ہیں کہ ہیرے موتیوں کی نسبت تودنیا اور اس کے کتوں سے ہوا کرتی ہے جبکہ ان ذروں کی نسبت حضورؐ کی محبوب ترین ہستی سے ہے اور ظاہر ہے کہ نسبت سے حیثیت تو بدل ہی جایا کرتی ہے ۔
یہ مسافر اس سے پہلے بھی کئی بار یہاں حاضری دے چکا تھا مگر تنہا تنہا، لیکن اس بار اس کے ساتھ اس کے تین ساتھی اور بھی تھے ۔ پہلے ہر بار وہ دل کی بات دل ہی میں لیے لوٹ جایاکرتا تھا مگر اس بار اس کے ساتھیوں نے اسے کہا کہ سیدّہ کے بارے میں انہیں کچھ بتایا جائے ۔مسافر ایک چھوٹی دیوار پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا، دوستو ، کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا۔ یہاں جو ہستی آرام فرماہیں ان کے بارے میں تو خود حضورﷺ نے وہ کچھ فرما دیا ہے کہ سیدہ عائشہؓ یہ تمنا ہی کرتی رہ گئیں کہ کاش حضو رؐنے ان کے بارے میں بھی ایسا ہی فرمایا ہوتا۔دوستوں نے پوچھا وہ کیا؟ مسافر کی آنکھیں بھر آئیں اور کہا کہ حضوؐر بلا شبہ افصح العر ب تھے مگر آپﷺ کے کلا م کے کچھ نمونے تو وہ ہیں کہ جن کی سلاست اور فصاحت انسان کو دم بخود کر کے رکھ دیتی ہے ان میں سے ایک تو وہ خطاب ہے جو آپ ؐ نے حنین کی جنگ کے بعد اعتراضات کے جواب میں فرما یا تھا اور دوسرا وہ ہے جو آپؐ نے سیدہؓ خدیجہ کی شان میں حضرت عائشہؓ کے سامنے ارشا د فرمایا تھا۔ سیدہ خدیجہؓ کی بہن ہالہ حضورؐ سے ملنے آئیں تو ان کی آوازسن کر سیدؓہ کی یا د تاز ہ ہوگئی ۔ حضو رؐ نے کہا ، ہالہ آ گئیں ہالہ ،ان کی آواز خدیجہ سے کس قدر ملتی ہے !۔اسی طرح جب بھی بکری ذبح کرتے تو پہلے خدیجہ ؓکے سہیلیوں کے گھر میں گوشت بھیجا کرتے اور اکثر اوقات ان کا تذکر ہ کرتے رہتے ۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک دن تو میں نہ رہ سکی اور میں نے کہا کہ یا رسولؐ اللہ خدیجہؓ تو بوڑھی تھیں جبکہ اللہ نے آپ کو اس سے بہتر بیویا ں عطا کی ہیں ۔ حضورؐ نے فرمایا‘‘و اللہ ما ابدلنی اللہ خیرا منہا،آمنت اذ کفر الناس،و صدقتنی و کذبنی الناس،و واستنی فی مالہا اذ حرمنی الناس و رزقنی اللہ منہا اولادا اذ حرمنی اولاد النساء’’ ‘‘تم میں سے کو ن خدیجہ کا بدل ہو سکتا ہے۔ جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو وہ مجھ پر ایما ن لائیں ، جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو انہوں نے میری تصدیق کی ، جب لوگوں نے مجھے محروم کیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور وہی تو ہیں جن سے اللہ نے مجھے اولاد بھی عطا کی۔’’مسافر نے کہا ، دوستو، سیدؓہ کی پاک دامنی ، عصمت اور عفت ایسی بے مثال تھی کہ مکہ کے دور جاہلیت میں بھی لوگ انہیں طاہر ہ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے اور ان کی بصیرت اور غیر معمولی ذہانت ان الفاظ سے معلوم ہو جاتی ہے جو انہوں نے غار حرا کے واقعے کے بعد حضورﷺ کو تسلی دیتے ہوئے کہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا میر ے آقا، آپ پریشان نہ ہوں۔ واللہ لا یخزیک اللہ ابداً. انک لتصل الرحم وتقری الضیف وتحمل الکل وتصدق الحدیث وتکسب المعدوم وتعین علی نوائب الحق. ''، خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گاکیوں کہ آپ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ کمزور کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور سچ بات بولتے ہیں۔ ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں اور حق کے معاملے میں ہمیشہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔''اورپھر تاریخ نے دیکھا کہ خدیجہؓ کے الفاظ ہو بہو سچ ہو کر رہے ۔
جس برس سیدہ کا انتقال ہوا تو حضورﷺ نے اسے عام الحزن (غم کا سال) قرار دے دیا تھا۔حضورسیدؓ ہ کی وفات کے بعد بھی ان کو کبھی نہ بھول پائے ۔ خدیجہ تو خدیجہ ہیں ان سے منسوب چیزوں سے بھی حضورﷺ کو ویسا ہی پیا ر تھا۔ بدر کی جنگ کے بعد جب حضرت زینبؓ کے شوہر( جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے) ، قید ہوکر مدینے آئے تو جس طرح باقی قیدیوں کی رہا ئی کے لیے قیمت طلب کی گئی ان کے لیے بھی کی گئی۔ حضرت زینبؓ کو جب کچھ اور نہ ملا تو اپنے شوہر کی رہائی کے لیے وہ ہارہی بھیج دیا جو سیدہؓ خدیجہ نے ان کو جہیز میں دیا تھا۔ جب یہ ہار حضوؐر کی خدمت میں پیش ہو ا تو اسے دیکھتے ہی خدؓیجہ کی یادیں امنڈ آئیں۔ اور پھر یہ موقع بھی ان مواقع میں سے ایک بن گیا جب حضورﷺ کی آنکھو ں سے موتیوں کی لڑیا ں بہہ نکلیں تھیں۔اور حضورﷺ نے صحاؓبہ سے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اجاز ت دو تو ایک بیٹی کو اس کی ماں کی نشانی واپس کر دی جائے ؟ یہ کہتے ہوئے مسافر اورضبط نہ کر سکا اور سیدؓہ کی یاد میں ا س کی آنکھوں سے بھی رم جھم شروع ہو گئی۔
د وستوں نے کہا ، کچھ او ر بتائیے ، مسافر نے کہا ، کیا بتاؤں دوستو! وہ دیکھو، پہاڑوں پر شام کے سائے جس قدرگہرے ہو رہے ہیں ، ہماری تاریخ پر خدیجہؓ کی عظمت اور احسانات کے سائے اس سے بھی زیادہ لمبے اور گہر ے ہیں۔ہمار ے الفاظ پیچھے رہ جاتے ہیں، خدیجہؓ کی عظمت آگے نکل جاتی ہے ۔ قیامت تک آنے والا ہر مسلمان سیدہؓ کا احسان مند رہے گا اور بقول ابن کثیر ؒ کے، ہر نئے مسلمان کے ایمان کا ثواب بھی خدیجہؓ کو ملتا رہے گا کیونکہ وہ ہی پہلی تھیں جنہوں نے ایمان قبول کیا تھااس طرح نہ صرف وہ پہلی مومنہ اور مسلمہ تھیں بلکہ پہلی مصدقہ بھی تھیں۔حضورﷺ پر ایمان لانے کی ابتدا انہوں نے کی تھی اور بموجب ِارشاد پیغمبرﷺ جوکسی نیک کا م کی ابتدا کر تا ہے بعد میں کرنے والوں کا ثواب بھی اسے ملتا رہتا ہے ۔
مغر ب کی نما ز حرم میں پڑھنے کے لیے ضروری تھا کہ اب واپس چلا جائے اس لیے سب نے کہا اماں جان ، سلام قبول کیجیے، اب ہم چلتے ہیں۔او ر ہاں ، درخواست یہ ہے کہ اپنے بچوں اور غلاموں کی جو فہرست آپ کے پاس ہے اس کے آخر میں ہمارا نام بھی لکھ لیجیے گا تا کہ جب جنت میں اُس موتیوں واے محل میں جس کا وعد ہ آپ کے رب نے کر رکھا ہے ، ہم حاضر ی دینے کے لیے آئیں تو فرشتے ہمیں نہ روکیں کیونکہ ان کے پاس وہ فہرست پہلے سے موجود ہو گی جس میں ہمارا نام بھی درج ہوگا۔