عیدالاضحی اور حج کی نسبت ہمارے جدامجد سیدنا ابراہیم سے ہے۔ گرچہ ظاہری طورپر ابراہیم کا اسماعیل کو ذبح کرنے کا واقعہ اس عید کااصل پس منظر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قربانی سے معمور ابراہیم کی پوری زندگی اس عید کا پس منظر ہے۔ ذبیحہ کا واقعہ قربانی کے واقعات کا نقطہ معراج (Peak Point) ہے۔ چنانچہ پوری سیرت ابراہیمی سے اپنے لئے اسباق تلاش کرنا ہی عیدالاضحی کا اصل پیام ہے۔
حق کی تلاش
ایک مکمل بت پرست معاشرہ جس میں دور دور تک حق کی کوئی کرن نہ ہو، اس میں حق کی تلاش اور کھوج کے لئے کوشش کرنا بجائے خود ایک کارنامہ ہے۔ ماحول کی تاریکی اکثر باطل کے طریقے پر قائم رہنے کے لئے جواز فراہم کردیتی ہے۔ ابراہیم نے بت پرست معاشرے میں آنکھ تو کھولی لیکن شعور کی آنکھ کھلتے ہی بتوں کی حقیقت کو پہچان لیا، اور ان سے بیزاری اختیار کرکے اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک خدائے واحد تک نہ پہنچ گئے۔ ماحول کی تاریکی سے انہوں نے خود کو یہ اطمینان نہیں دلایاکہ میں بھی جاہلیت کے اس گمراہ معاشرے کا حصہ بن جاؤں۔ انہوں نے ہواؤں کے رخ پر بہنے والے بے وزن تنکے کی روش اختیار نہیں کی بلکہ ہواکے غلط رخ کا ادراک کرکے صحیح سمت سفر کے لئے شعوری کوشش کی۔ یہ براہیمی وصف عصر حاضر کے ان نوجوانوں کے لئے ضرور ایک پیغام رکھتا ہے جو وقت کے باطل نظریہ سے مطمئن ہوکرنہ نظریہ حق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ جاہلیت کے نظام کو چیلنج کرنے کی سکت اپنے اندر پاتے ہیں۔
عقل و دانش کا استعمال
حق کی تلاش اور خدائے واحد کی پہچان کا سفر ابراہیم نے غیرشعوری طورپر نہیں طے کیابلکہ عقل ودانش اور غورو فکر کا استعمال کرتے ہوئے معرفت الٰہی حاصل کی۔ بتوں کے بے جان و بے سہارا اور محتاج و ضرورت مند ہونے کو سمجھنا، ستارے، چاند اور سورج کے مدھم پڑنے اور ڈوبنے پر ان کی حقیقت کو سمجھنا، اور یہ اعلان کرناکہ ‘‘میں ڈوبنے والوں سے محبت نہیں رکھتا’’ (انعام:۶۷) یہ واضح کرتاہے کہ ابراہیم نے اندھی تقلید سے کام نہیں لیابلکہ اپنی عقل و دانش سے بھرپور رہنمائی حاصل کی، اور واقعہ یہی ہے کہ تلاش حق غورو تدبر کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ کائنات میں یہ غورو تدبر صرف دانشوروں اور اسکالرز ہی کے بس کا روگ نہیں۔ تلاش حق کے لئے مطلوب عقل و دانش کا استعمال خدا نے ہر عام و خاص آدمی کے لئے ممکن رکھا ہے۔ خود قرآن نے ابراہیم ہی کے مذکورہ بالا واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ ‘‘ہم اسی طرح ابراہیم کو زمین و آسمان کا نظام سلطنت دکھایا کرتے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔’’ (انعام:۵۷) یہ نظام سلطنت ہر فرد کے سامنے ہے۔ ضرورت ہے عقل و دانش کے استعمال کی۔
شخصیت کا رخ
کامیابی کا سفر اور ترقی کے مراحل طے کرنے کے لئے شخصیت کے ‘رخ’ کی کلیدی اہمیت ہے۔ ابراہیم نے بتوں سے رشتہ توڑنے کے بعد سب سے پہلے اپنا رخ متعین کیااور پھر اس میں یکسوہوگئے۔ قرآن کی اس مشہور آیت کی نسبت بھی ابراہیم ہی کی طرف ہے۔ ‘‘میں نے تو یکسوہوکر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیاجس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا’’ (انعام:۷۰) گویا مزاج، کردار اور اعمال میں تبدیلیاں بعد میں آتی ہیں، پہلی چیز ‘‘شخصیت کارخ’’ ہے۔ جب وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف مڑجائے تو فرد صراط مستقیم پر گامزن رہ سکتا ہے۔ بالعموم مندرجہ بالا آیت نماز کی ابتدا میں پڑھی جاتی ہے، لیکن سچ بات یہ ہے کہ شعوری طورپر اسلام کوسمجھنے کے بعد یہ دعا مستقل پڑھی جانی چاہئے۔ تاکہ کوئی شیطانی وسوسہ اور کوئی نفسانی خواہش بندہ مومن کو راہ راست سے منحرف نہ کرسکے اور وہ پوری طرح اپنے کاز کے لئے یکسو رہ سکے۔ ابراہیم کے اسی وصف کی وجہ سے قرآن نے ان کے لئے‘حنیف’ (یکسو) کا لفظ بہ تکرار استعمال کیا ہے۔
ہر محبت قربان
دنیا میں جتنی قسم کی محبتیں ہوسکتی ہیں ان میں سے کوئی ایسی محبت نہیں جسے حضرات ابراہیم نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو، اور جتنے قسم کے تعلقات ایک فرد کو اپنی سماجی زندگی میں پیش آتے ہوں، ان میں سے کوئی تعلق ایسا نہیں جسے انہوں نے راہ خدا میں ترک نہ کیا ہو۔ والد سے ناطہ توڑا، وطن عزیز کو الوداع کہا، چمکتے کیرئر کو ٹھکرایا، شریک حیات اور شیرخواربچے کو بے آب وگیاہ وادی میں بے سہارا چھوڑدیا، آگ میں ڈالے گئے، اور بالآخر وہ بے مثل قربانی بھی پیش کی جس کی نظیر دینے سے دنیا سے قاصر ہے۔ اپنے لخت جگر کے گلے پر اپنے ہی ہاتھوں سے چھری چلانے کے لیے تیار ہوگئے۔ہزارہا سلام سیدنا ابراہیم کے مبارک جذبے کو!
گوکہ ان کی ہرقربانی بے نظیر ہے۔ لیکن راقم کی نظر میں ان کی وہ قربانی غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے جو انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں اپنے تابناک کیرئر کو ٹھکراکردی۔ وہ اپنے وطن میں سب سے بڑے پجاری کے بیٹے تھے، سب سے بڑے پیر کی گدی ان کے لئے مخصوص تھی۔ اگر اس گدی پر بیٹھتے تواپنی قوم کے مذہبی پیشوا اور سردار ہوتے اور لاکھوں کا مال پوجا پاٹ کی شکل میں ان کے قدموں میں نچھاور ہوتا، لیکن جب حق ان کے دل و دماغ میں پوری طرح اترگیا تو اس ظاہری شان و شوکت کو یوں ٹھکرایا جیسے ان کی کوئی قدرقیمت ہی نہ ہو۔یہی شان ہوتی ہے مردانِ خدا کی! نہ مال و دولت کے انباران کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نہ شہرت و اقتدار کی ہوس ان پر غالب آتی ہے،‘‘لاکہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر’’۔
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
خرم مراد نے بجاطورپر کہاہے کہ اسلام کو اگر ماڈل (عملی نمونہ) کے ذریعے سمجھنا ہے تو اس کی بہترین مثال ابراہیم ہیں۔ وہ سراپا قربانی تھے۔ قرآن نے ان کو ‘‘حنیفاً مسلماً’’ کے خطاب سے نوازا ہے۔ وہ واقعتاً ‘‘سرتسلیم خم’’ کرنے کی عملی تعبیر تھے۔ قربانی کا ہر نیا مطالبہ ان سے یہی تقاضا کرتا تھا کہ اگر واقعی ‘‘حنیف مسلم’’ ہوتو اس بار بھی قربانی پیش کرو، اوروہ ہرمطالبہ پر ‘‘لبیک اللہم لبیک’’ کی صدا لگاتے چلے گئے۔ فی الواقع یہ اپنے محبوب رب سے صرف ‘محبت’ نہیں تھی۔ یہ محبت سے بہت اونچا درجہ تھا۔ جسے جنون، دیوانگی ، اور عشق کہا جانا چاہئے۔ یہی عشق تھا جس نے ابراہیم کو آگ میں کودنے کے لیے آمادہ کیا۔ شاعر نے صحیح کہا: ‘‘بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق’’، گویا آتش نمرود میں کودنے والی ابراہیم کی ‘شخصیت’نہیں تھی بلکہ ‘جذبہ عشق’ تھا۔یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ حق کو کھوجنے اور تلاش کرنے کے لیے جس عقل اور منطق کا استعمال حضرت ابراہیم نے کیا ، حق پر عمل کرنے کے لیے اسی منطق اور عقل کو بالائے طاق رکھ دیا، اور عشق اور دیوانگی کی کیفیات سے کام کیا۔ سورج، چاند اور ستاروں کے ڈوبنے پر ان کی خدائی کا انکار یقیناًعقل ہی کے استعمال کا نتیجہ تھا۔ یہ حق کی پہچان کامرحلہ تھا۔ لیکن جب حق پر عمل کرنے کا مرحلہ آیا تو یہ منطق نہیں لگائی کہ آگ میں کودنے سے انسان جل سکتاہے یا بیٹے کے گلے پر چھری چلانے سے وہ موت کی آغوش میں جاسکتاہے۔ ان مطالبات پر انہوں نے نہ اس کا سبب اور علت پوچھی اور نہ انعام و اکرام کا مطالبہ کیا۔ یہی شیوہ ہوتاہے مجاہدین فی سبیل اللہ کا۔ حق کی پہچان کے لئے ‘عقل’ کا استعمال اور حق پر عمل آوری کے لئے ‘عشق’ کا مظاہرہ۔
قربانی پر گھمنڈ نہیں
واہ رے! جذبہ انکساری۔پے درپے قربانی، مسلسل قربانی، ہر قسم کی قربانی۔ لیکن ذرا تکبر نہیں۔ یہ اطمینان نہیں کہ جس رب کی محبت میں یہ سب کچھ کیا ہے وہ اسے شرف قبولیت سے نوازدے گا۔ پوری عمرقربانیاں دینے کے بعد زندگی کے آخری مرحلے میں جب خانہ کعبہ کی تعمیر ہورہی ہے تو باپ بیٹے کی زبان پر یہ الفاظ ہیں: ‘‘اے رب! ہم سے یہ قبول فرمالے’’ (بقرہ۔) یہی انکساری ہوتی ہے جو بندوں کو بلندی عطا کرتی ہے۔ حیف ہے ان لوگوں پر جو نفس، مال اور صلاحیتوں کی معمولی قربانیاں دے کر جنت کے سرٹیفکٹ حاصل کرنے کے زعم میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اسماعیل ضائع نہیں ہوئے
جب قربانی بے لوث ہو، اخلاص نیت کے ساتھ ہو اور بغیر کسی انعام و اکرام کے مطالبہ کے ہوتو اللہ رب العزت اپنی مشیئت اور فضل سے دنیا میں بھی اس کا انعام عطا کرتا ہے۔ جس لخت جگر اسماعیل کے گلے پر ابراہیم نے چھری چلائی تھی، خدا نے ان کی جگہ دنبہ کھڑاکرکے نہ صرف ان کو زندگی بخشی بلکہ انہیں بھی منصب نبوت سے سرفراز کیا (اور یہ اعزاز بھی ان ہی اسماعیل کو بخشا کہ نبی آخرالزماں ان ہی کی نسل میں پیدا ہوں) ایک نبی کی اپنے بیٹے کے تئیں انتہائی آرزو یہی ہوسکتی ہے کہ خدا اسے بھی نبوت کے د رجے تک پہنچائے اور اسی سے اس کی آنکھوں کو غیرمعمولی ٹھنڈک پہنچتی ہے۔
حق بات یہ ہے کہ جو تقاضے دین کی خاطر حارج ہوتے ہیں، خدا انہی کے ذریعے سے دنیا میں بھی سربلندی وکامرانی کی راہیں نکالتاہے۔ خدا کی راہ میں لٹنے اور لٹانے والے کبھی نامراد نہیں ہوتے۔ آخرت میں بھی نہیں دنیا میں بھی نہیں۔
وسائل سے محروم، لیکن قدرو منزلت کی بلندیوں پر
کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ ایک بے آب و گیاہ وادی میں، تمام تر مادی وسائل سے محروم باپ بیٹے چند پتھروں سے جس عمارت کی تعمیر کررہے ہیں، وہ عمارت اور اس کے معمار چند صدیوں بعد قدرو منزلت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہوں گے۔ بیت اللہ کی زیارت آج ایک مسلمان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے۔ دنیا میں اس کے زائرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ خود قرآن نے اسے ‘‘خیروبرکت’’ اور ‘‘ہدایت کامرکز’’ (آل عمران۔۶۹) قرار دیا۔ بلکہ ادب اور لٹریچر میں مکہ کو ‘‘مرکز’’ کے لئے ضرب المثل کے طورپر بولا جاتاہے۔ آج تقریباً پوری دنیا ابراہیم کو اپنا جدامجد مانتی ہے۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان سب کو اس بات کا دعویٰ ہے کہ ہم ان کے پیرو ہیں، بلکہ بعض لوگوں کی یہ تحقیق بھی ہے (اور اس میں اختلاف کی گنجائش ہے) کہ برہمن کا لفظ بھی ابراہیم سے نکلا ہے۔ اس لئے کہ برہمن کا مادہ ب ،ر،ہ،م ہے جس کی نسبت ابراہیم کی طرف ہوسکتی ہے۔ بہرحال اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتاکہ آج ان کے پیروؤں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ معلوم یہ ہواکہ وسائل سے محرومی کبھی مقاصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ عمارت بھی مقبول ترین اور معمار بھی مقبول ترین۔
قربانی ۔ ‘دین کامل’ کو قائم کرنے کے لئے
گرچہ عیدالاضحی اور حج بیت اللہ کا اصل پس منظر ابراہیم کی سیرت ہے، لیکن اس موقع کے لئے ۱۰ ذی الحجہ کا انتخاب بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ دراصل یوم عرفہ (۹ ذی الحجہ) حج کی افضل ترین عبادت ہے۔ اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ یہ حج کا رکن عظیم ہے۔ اس کے چھوٹنے پر کوئی تلافی بھی نہیں۔ اس دن سارے مسلمانوں کا بیک وقت عرفات کے میدان میں جمع ہونا ضروری ہے۔ اس دن کی یہ عظمت کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی دن قرآن کی اس آیت کا نزول ہوا۔ ‘‘آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو ایک دین کے طورپر پسند کرلیا’’ (مائدہ۔۳) یہ قرآن کی اہم ترین آیات میں سے ہے۔ اس میں اسلام کی اصل حیثیت اور اس کے اس تصور کو پیش کیاگیا ہے کہ یہ دین کامل اور واحد پسندیدہ دین ہے۔ ایک یہودی نے حضرت عمر سے کہاکہ اگر یہ آیت ہمارے یہاں نازل ہوتی تو ہم اسے اپنے لئے عید کا دن منالیتے۔ حضرت عمر نے اسے جواب دیاکہ ہم تو پہلے ہی سے اسے یوم عید کے طورپر مناتے ہیں۔ پس عید اور حج کی حقیقت کو اس آیت سے الگ کرکے دیکھنا بہت بڑی ناانصافی ہے۔ ابراہیم کی سیرت اور اس آیت کا پیغام دونوں مل کر عید کی حیثیت کو متعین کرتے ہیں۔ گویا‘‘دین کامل ‘اسلام’ پر عمل کرنے اور اسے قائم کرنے کے لئے جس عظیم جدوجہد، انتھک محنت اور بے مثل قربانی کی ضرورت ہے، اسے سیرت ابراہیمی سے حاصل کیاجانا چاہئے’’ یہی ہے پیغام عید۔
امامت کی بنیاد
قربانی کے تمام مراحل کامیابی سے طے کرنے کے بعد اللہ رب العزت نے ابراہیم کو امامت کے منصب پر فائزکردیا۔ (بقرہ۔۲۱۴) جب ابراہیم نے پوچھاکہ کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔ ‘‘میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔’’ (بقرہ۔۲۱۴) گویاامامت اور لیڈر شپ کا منصب میراث میں نہیں ملے گا۔ نسل اور نسب میں منتقل نہیں ہوگا۔یہ کوئی لیبل نہیں ہے کہ ابراہیمی، موسوی، عیسوی یا محمدی کالیبل لگادیاجائے تو کامیابی کی ضمانت مل جائے گی۔ یہ صرف اور صرف اعمال کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس کردار کے ساتھ وابستہ ہے جسے ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ اور محمد نے اختیار کیاتھا۔ اسی لئے ایک نہیں دو مرتبہ قرآ ن نے کہا۔ ‘‘وہ کچھ لوگ تھے جو گزرگئے، جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کے لئے تھا اور جو کچھ تم کروگے وہ تمہارے لئے ہے۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے’’ (البقرۃ۔ ۱۴۳، ۱۴۱)
قربانی کے جانور کا معیار اور ہماری قربانی کا معیار
قربانی کے لئے ذبح کئے جانے والے جانور کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ معیار مقرر کیاہے۔ مثلاً وہ بے عیب اور تندرست اور توانا ہو، نہ بچہ ہو اور نہ بوڑھاہو۔ اس معیار کے آئینہ میں ہمیں انسانوں کی قربانی کے معیار کو بھی سمجھنا چاہئے۔ جب راہ خدا میں قربان کئے جانے والے جانور کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ بچہ اور بوڑھا نہیں ہونا چاہئے، جوان ہونا چاہئے تو کیا یہ پسندیدہ اور مطلوب نہیں ہوگا کہ حضرت انسان بھی راہ خدا میں قربانی عین ایام جوانی میں دے نہ کہ بڑھاپے میں۔ اگر جانور کا بے عیب ہونا ضروری ہے تو انسان بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کو اور عمدہ مال کو راہ خدا میں لگانے سے کیوں گریزکرے۔
علامتی رسومات سے پرے
عیدالاضحی اور حج بیت اللہ کا اصل پیام یہی ہے کہ ان کی روح کو سمجھا جائے۔ رمی جمار کے دوران شیطان کو پتھر مارنے کے لئے ہر سال بھگدڑ مچتی ہے۔ کئی لوگ زخمی یا شہید ہوتے ہیں۔ یہ تو صرف علامتی رسم ہے۔ اصل شیطان جو ہمارے نفس میں بیٹھا ہوا ہے، باطل نظام میں بیٹھا ہوا ہے، اس سے لڑنے کے لئے ہم کس قدر تیار ہیں۔ کیا اس اصل شیطان کو زیر کرنے کے لئے بھی ہمارے اندر مسابقت کا وہی جذبہ ہے جو رمی جمار کے دوران پیدا ہوتا ہے؟ قربانی کے جانوروں پر تو ہم بڑے جوش وخروش سے چھری چلاتے ہیں لیکن اپنے نفس پر چھری چلانے کے لئے بھی کیا یہی جوش ہمارے اندر کارفرما ہوتا ہے؟ سچ بات یہ ہے کہ ‘‘اللہ کو نہ خون پہنچتا ہے اور نہ گوشت۔ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے’’۔ کاش مسلمان اسے ‘‘گوشت خوری کا تہوار’’ سمجھنے کے بجائے ‘‘کردار سازی’’ کا سنگ میل بنائیں۔
٭٭٭