حریمِ جاں میں بھٹک رہا ہوں
میں قافلے سے بچھڑ گیا ہوں
دْھواں ہوں جلتے ہوئے مکاں کا
فضا میں تحلیل ہو رہا ہوں
تْو میری خوشیوں سے بے خبر ہے
میں تیرے دْکھ سے بھی آشنا ہوں
سماعتیں جن کی مر چکی ہیں
میں اْن کو آواز دے رہا ہوں
وہ مجھ کو تقسیم کر رہا ہے
میں جس کے غم سے جْڑا ہوا ہوں
نہ کوئی رستہ نہ کوئی منزل
عجیب راہوں پہ چل رہا ہوں
بقا کوئی تو مجھے سمیٹے
میں اک اکائی تھا ’ بٹ گیا ہوں