میں نے اسلام کیسے قبول کیا

مصنف : راجیشور

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : 2016 جنوری

سوال: آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟
جواب:میں ہریانہ پانی پت ضلع کے ایک گاؤں کے دھینور کا بیٹا ہوں ، میرا نام میرے پتاجی نے راجیشور رکھا تھا،دو تین کلاس پڑھ کر میں پتاجی کے ساتھ کھیت پر جانے لگا،ہمارے ایک کلّہ زمین تھی اسی میں سبزی بوکر ہمارے والد صاحب گزارا کیاکرتے تھے ۔میں اپنے والد کا اکیلا بیٹا تھا، میری دوبہنیں تھیں،جو مجھ سے بڑی تھیں۔

سوال :آپ کو مسلمان ہونے کا کیسے خیال آیااور آپ کس طرح مسلمان ہوئے، ذرا اس کے بارے میں بتائیے؟
جواب:احمد بھائی مجھے اسلام قبول کرنے کا کیا خیال آیا بس میرے مالک کو رحم آگیا اور اس نے بغیر طلب کے مجھے بھی خاندانی مسلمانوں کی طرح اسلام عطا فرمادیا اصل میں میری دو بڑی بہنیں تھیں،والدصاحب نے ان کی شادی کی اور ان کی شادی کے بعد میری شادی ہوگئی۔ ہریانہ میں شراب بہت عام ہے،دوستوں کے ساتھ مجھے شراب کی کچھ زیادہ ہی لت لگ گئی ۔جمنا کے کنارے کچی شراب ذرا سستی مل جاتی ہے،شادی کے تین سال بعد میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا،اگلے سال ماں کا بھی انتقال ہو گیا۔ماں باپ کے انتقال کے غم کو بھلانے کے لئے میں نے شراب اور زیادہ کردی ۔شراب کے نشہ میں دھت میں بالکل ناکارہ ہوتا گیا۔میری بیوی بہت ہی بھلی اور محنتی عورت ہے،وہ بیچاری مجھے کہاں کہاں سے اٹھاکر لائی۔ بے چاری فاقے کرتی ۔ایک کے ایک بچے ہوتے رہے،اللہ نے آٹھ بچے،پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں مجھے دیں۔اس بیچاری کے لئے زچگی میں ایک پاؤ گھی تک نہ لاسکا۔زمین بھی رفتہ رفتہ میں نے شراب میں بیچ دی میری بیوی بیچاری بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے مزدوری کرتی ۔بعد میں اس نے کچھ پیسے جمع کرکے گاؤں میں سبزی کی دوکان کھول لی ۔تقریباً تیس سال اس طرح گزر گئے،میری بیوی میرے بچوں کو بھی پالتی اور مجھے بھی کبھی وہاں سے اٹھا کر لاتی کبھی یہاں سے ۔میری شراب نے اس کی زندگی کو دوزخ بنا رکھا تھا،میں شراب پی کر اس کو مارتا بھی تھا۔ ہمارے گاؤں میں ایک حافظ صاحب مدرسہ چلاتے تھے،ایک رات میری بیوی مجھے تالاب کے کنارے سے شراب میں دھت اٹھاکر لائی،صبح کو وہ بے چاری حافظ صاحب کے پاس جاکر بہت روئی اور ان سے کوئی تعویذ شراب چھڑانے کا دینے کو کہا۔حافظ صاحب نے کہا ہمارے حضرت ہیں ہم تمھیں ان سے ملوائیں گے اور دعا کر وائیں گے،وہ تعویذ تو دیتے نہیں،دعا کرتے ہیں، مالک کے پیارے بندے ہیں وہ ان کی دعا سنتا ہے،ہمیں امید ہے یہ شراب چھوڑ دے گا۔مگر پھر تم سب لوگوں کو مسلمان ہو نا پڑیگا اس بیچاری نے کہا اس کی شراب چھڑا دو تم ہمیں مسلمان چھوڑ اپنا بھنگی بنالینا۔حافظ صاحب نے حضرت صاحب (مولانا محمد کلیم صدیقی )کو فون کیا اور پھلت اس عورت کو لے کر آنے کی اجازت چاہی،مولانا نے اسے لے کر آنے کی اجازت تو نہیں دی ،لیکن فون پر حافظ صاحب کوپھلت بلایا۔حافظ صاحب نے میری بیوی کی ساری پریشانی بتائی،مولانا صاحب نے کہا، ایک انسان کی حیثیت سے سب لوگوں کے دکھ درد بانٹنا ہماری ذمہ داری ہے،مگر آپ کو یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ تمھیں مسلما ن ہو نا پڑے گا۔اس کی پریشانی ختم ہو جائے تو اسے آخرت کی پریشانی سے بچانے کیلئے دعوت دینا چاہئے مولانا صاحب نے کہا ہم دعا کریں گے،اللہ تعالی اس غریب کے حال پر رحم فرمائے اور مشورہ دیا کہ ہمارے ایک جاننے والے ڈاکٹر وی سی اگروال شنکر کلینک کے نام سے مظفر نگر میں کلینک چلاتے ہیں،وہ شراب چھڑانے کی دوا دیتے ہیں۔وہ میرے پاس آئے تھے انھوں نے مجھ سے کہا،اگر کوئی دین کا نفع ہو تو میں دوا کے پیسے نہیں لو ں گا،آپ ان سے ملتے چلے جائیں۔ان سے میرا سلام کہیں اور میرا نام لے کر دوا لے آئیں،وہ کم پیسے لیں گے۔ حافظ صاحب مظفر نگر گئے ڈاکٹر صاحب مولانا کا نام سن کر بہت خوش ہوئے اور پندرہ دن کی دوا دی اور بہت کوشش کے باوجود دوا کے پیسے نہیں لئے اور بولے مولانا صاحب دین کا بڑا کام کر رہے ہیں ، کیا ہم ان کے اتنے کام بھی نہیں آسکتے۔ حافظ صاحب نے دوا لاکر میری بیوی کو دی اور بتایا کہ حضرت نے دعا کرنے کو کہا ہے اور یہ دوا کھلانے کو بھی کہا ہے،میری بیوی نے چائے دودھ میں وہ دوا دی،۱۰؍ روز میں میری شراب چھٹ گئی یکم جنوری ۱۹۹۶ء کو حافظ صاحب مجھے اور میری بیوی کو مولانا صاحب سے ملوانے سونی پت لے کر گئے ۔وہاں ہرمہینے کی پہلی تاریخ کو مولانا صاحب آتے ہیں، بہت بھیڑ تھی بڑی مشکل سے حضرت سے الگ وقت لے کر ہمیں ملوایا۔ میری بیوی حضرت کے پاؤں پر گر گئی اور بولی حضرت جی آپ تو ہمارے بھگوان ہیں،مولانا صاحب بہت پریشان ہوئے اس کو اٹھوایا اور سمجھایاکہ بس بھگوان اور خدا تو وہ ہی ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا ،اسی کا کرم ہے کہ اس نے آپ کو پریشانی سے نکالا۔ مولانا صاحب نے ہم سے کہا، جس طرح شرابی کو نشہ میں اپنی خرابی اور برائی کا پتہ نہیں ہوتا،اسی طرح باپ دادوں سے ملے غلط راستوں میں بھی انسان کو اپنی برائی کا احساس نہیں ہوتا، شراب کی برائی سے کروڑوں گنا برائی ہے کہ اس اکیلے مالک کے علاوہ کسی کو بھگوان یا خدا سمجھنا یا کسی اور کی پوجا کرنا اورکسی کے سامنے اپنا ماتھارکھنا۔حافظ صاحب نے کہا کہ یہ لوگ کلمہ پڑھنے کے لئے آئے ہیں۔مولانا صاحب نے کہا کہ شراب تو چھٹ گئی،اب آپ کو ان کو شرابیوں کی صحبت سے بچانا ہے،اب اس کیلئے کلمہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔حافظ صاحب نے نا سمجھی میں کہہ دیاہوگا کہ مسلمان ہونا پڑے گا، البتہ اپنے مالک کو راضی کرنے اور مرنے کے بعد ہمیشہ کی نرک سے بچنے کے لئے اسلام لاکر مسلمان ہونا ضروری ہے اور یہ فیصلہ انسان کو اندرسے اپنی مرضی سے کرنا چاہئے ۔وہ بولی،نہیں جی ہماری آتما کہتی ہے کہ آپ کی بات سچی ہے،اب یہ اگر شراب نہ بھی چھوڑے،آپ ہمیں مسلمان بنا لو۔حضرت صاحب نے ہمیں کلمہ پڑھوایا،میرا نام علاء الدین رکھا، میری بیوی کا نام فاطمہ اور بیٹوں کا محمد علیم،محمد سلیم ،محمد کلیم،محمدنعیم،محمد نسیم اور بیٹیوں کاشمیمہ،سارہ، ذکیہ، نام رکھ دئیے۔ میری بیوی کو مشورہ دیا کہ ان کو جماعت میں بھیج دو تو ان کو اللہ کا دھیان اور ڈر پیدا ہو جائے گا پھر ان کو دوا دوبارہ پلانی نہیں پڑے گی۔ اس نے معلوم کیا کہ کتنا خرچہ ہوگا؟ مولانا صاحب نے بتایا کہ خرچہ زیادہ نہیں ہوگا،ایک ہزار روپئے کافی ہوں گے،میری بیوی نے آٹھ سو روپئے مولانا صاحب کو دئیے،اس کو آج ہی بھیج دو اور دو سو روپئے کا اور انتظام کر دوں گی۔
سوال :جماعت میں کہاں آپ کا وقت لگا؟
جواب
:پہلے میں مولانا صاحب کے ساتھ پھلت گیا،پھر میرٹھ جاکر کچہری میں سرٹیفکٹ بنوایا اور پھر مرکز نظام الدین سے بہرائچ جماعت میں وقت لگایا۔بہار کے ایک مولانا صاحب امیر تھے،انھو ں نے مجھ پر بہت محنت کی اور ایک چلہ میں مجھے پوری نما ز یاد کرادی،کھانے سونے کے آداب اور جو چھ نمبرہیں ان کو خوب اچھی طرح میں سنانے لگا۔
سوال :اس کے بعد آپ نے گاؤں میں جاکر کیا کیا،آپ کے خاندان کے لوگوں نے مخالفت نہیں کی؟
جواب:شروع
شروع میں لوگ خوش تھے،روز یہاں پڑا ہے وہاں پڑا ہے، اس سے بچ گیا۔مگر کچھ دنوں کے بعد پریوار کنبہ والے پریشان کرنے لگے،حافظ صاحب کو ستانے لگے، حضرت صاحب کے مشورہ سے ہم نے گاؤں چھوڑ دیا۔ ایک مدرسہ میں چو کی داری کی اور ایک پرچون کی دوکان کرلی۔ بچوں کو مدرسہ میں داخل کردیا،میری بیوی نے کچھ تو حافظ صاحب کی بیوی کے پاس جاکر گاؤں میں نماز سیکھ لی تھی،اب یہاں اسے پوری نماز یاد ہو گئی۔
سوال :آپ کے بچوں کی تعلیم کا کیا ہوا؟
جواب:بچے
الحمد للہ حا فظ ہو گئے ہیں،ایک بچہ مولویت میں پڑھ رہا ہے،تین ابھی اسکول ہی میں ہیں اور لڑکیاں تینوں مولویت کے مدرسہ میں حضرت صاحب کے مشورہ سے داخل کرادی ہیں۔میرا دوسرا بیٹا سلیم درمیان میں پڑھائی سے بھاگ گیا ،شیطان نے اسے بہکادیا،میری بیوی کو سب سے زیادہ اس سے محبت ہے،وہ محبت میں پاگل سی ہوری تھی ۔میں نے کئی لوگوں سے تعویذ بھی منگایا کاندھلہ سے کسوری بھی لکھوا کرلایا مگر نہ آیا،کسی نے میری بیوی کو بتادیا کہ اس کوتو تمھارے خاندان والوں نے مار دیا بس اسکا حال اور بھی زیادہ خراب ہوگیا۔ پریشان ہو کر میں حضرت صاحب کے یہاں پھلت گیا،حضرت صاحب نے کہایہ تعویذ تو پرانے کمزور اور بیمار مسلمانوں کیلئے ہوتے ہیں۔میرے بھائی آپ نئے اور تازہ ایمان والے ہیں یہ سوچ کر میرے اللہ ہر چیز پر قادر ہیں اور وہ میری دعا ضرور سنیں گے،دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر دعا کیجئے،کہا کہ آپ کو جماعت میں نہیں بتایا گیا تھا کہ صحابہ دو رکعت پڑھ کر اپنے اللہ سے ہر کام کرا لیتے تھے میں نے پھلت جامع مسجد میں جاکر عشاء کے بعد دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور خوب دعا مانگی یا اللہ صحابہ کے رب آپ ہی تھے اور ہم گندوں کے بھی آپ ہی رب ہیں اور دینے والے کرنے والے آپ ہی ہیں،لینے والا بدلا ہے،دینے والا تو نہیں بدلا۔ہمارے بچے کوخیریت سے بھیج دیجئے خوب روروکر دعا مانگی ۔اللہ میاں آپ سے اپنے بچے کو بلواکر رہو ں گا،کبھی سجدے میں پڑتا کبھی بیٹھ کر دعا کرتا،میرے اللہ کو مجھ پر ترس آگیا وہ توسننے والا ہے کوئی مانگنے والا تو ہو۔صبح آٹھ بجے مولانا صاحب نے بتایا کہ علاء الدین مبارک ہو تمھارے گھر سے فون آیا ہے ،تمھارا بچہ سلیم تمھارے گھر آگیا ہے،میں نے خوشی میں اپنی جیب کے سارے پیسے،ایک نابینا پھلت میں آیا ہوا تھا اس کو صدقہ کر دئیے اور کرایہ ادھار لیکر گھر پہنچا۔ الحمد للہ بچہ موجود تھا، اس کے بعد اس کا پڑھائی میں دل لگ گیا اور اس نے اس سال محراب سنائی،پورے قرآن مجید میں سات غلطیاں آئیں،احمد بھائی مولانا صاحب، بس یہ میرے اللہ کاکرم ہے، کہاں میں کافر اور میرے بچے حافظ ہو گئے،اب دوسری بچی سارہ کو بھی اس سال حفظ شروع کرادیا ہے۔
سوال :اب آج کل آپ کہاں رہ رہے ہیں؟نندی گرام کاآپ ذکر کررہے تھے،وہاں کیوں رہ رہے ہیں؟
جواب :حضرت صاحب نے مجھے کلکتہ کے ایک ٹھیکیدار کے ساتھ کام پرلگا دیا تھا پہلے تومیں مزدوری کرتا تھا،بعد میں اس نے مجھے اسٹور کیپر بنا دیا،نو مسلم ہونے کی وجہ سے وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔نندی گرام میں ایک فیکٹر ی کا انھوں نے ٹھیکہ لیا مجھے بھی وہاں لے گئے اللہ کا کرنا وہاں پر فساد ہوگیا ،پچھلے دنوں اخبار، ریڈیو،ٹی وی پر روز وہا ں کے جھگڑے کی خبر تھی۔ کتنے لوگ پولس کی گولی سے مارے گئے،میں بہت پریشان ہوا ، ایک سال سے میری بد قسمتی کہ میں حضرت صاحب کو کوئی فون بھی نہ کر سکا حالانکہ میں سچے دل سے ان کا مرید ہوں،جب وہاں حالات زیادہ خراب ہوئے اور ہم بہت پریشان ہوئے تو میری بیوی نے حضرت صاحب سے دعا کرنے کو کہا،میں نے بہت کوشش کی ایک ہفتہ کے بعد فون ملا مولانا صاحب سفر پر تھے مولانا صاحب نے کہا دو رکعت پڑھ کر صحابہ کی طرح دعا کو کیوں بھول گئے؟ میں نے کہا اجی میری دعا میں کیا رکھا ہے، آپ دعا کیجئے،حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں بھی دعا کروں گا،دینے والا وہ اکیلا ہے کیا تمھاری دعا اس نے سنی نہیں۔ میں نے کہا اچھا آج ہی دعا کروں گا میں نے عشا کے بعد پھر مسجد میں خوب دعا کی میرے اللہ نے سن لی،ایک دم ایسا امن ہو گیا کہ جیسے کسی نے پانی ڈال دیا ہو،میں نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا تھا کہ آج رات کو دعا کروں گا اور انشاء اللہ کل سے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ میں صحابہ کی طرح اپنے اللہ سے منواؤں گا، مانگنے والا تو بدلا ہے دینے والا تو وہی ہے جو صحا بہ کی سنتا تھا، اس دن سے سارے ساتھی میری بہت عزت کرنے لگے ۔میں نے کہا بھی کہ میں نے حضرت صاحب کا حکم سمجھ کر دعا کی ہے ورنہ اصل میں تو حضرت صاحب نے دعا کی ہے،میرا تو دعا پر یقین بنانے کے لئے مولانا صاحب نے مجھے حکم کیا ہے،مولانا صاحب سے میں نے فون پر بتایا کہ اللہ نے امن کر دیا اور ساتھی میرے بہت معتقد ہو رہے ہیں۔حضرت صاحب نے کہا اگر کچھ غیر مسلم بھی ہوں تو فائدہ اٹھاؤ وہ تمھاری بات محبت سے سنیں گے،ان کودوزخ سے بچا کر ایمان میں لانے کی فکر کرو۔ میں نے بات کرنی شروع کی اللہ کا شکر ہے کہ چار مزدور،ایک راج (معمار ) اور ایک پلمبر مسلمان ہو گے ہیں۔
سوال:نندی گرام میں تم نے مستقل رہائش کرلی ہے؟
جواب
:میں نے الحمد للہ ایک پلاٹ خرید لیا ہے،کچھ پیسے جمع بھی کرلئے ہیں،اللہ کو منظور ہوگا اور میری قسمت میں وہاں کا دانہ پانی ہوگاتواللہ گھر بھی بنوادیں گے۔
سوال :جماعت کا کام بھی وہاں کرتے ہو یا نہیں؟
جواب:الحمد للہ تین دن تو مہینے کے میں ضرور لگاتا ہوں، چلہ تو ہر سال نہیں لگ پاتا روزانہ کی تعلیم اور مسجد کا گشت یہاں میں نے شروع کر دیا ہے اور لوگ جڑ رہے ہیں۔
سوال :ارمغان کے قارئین کے لئے کچھ خاص بات،کوئی پیغام آپ دیں گے؟
جواب:احمد بھائی مولانا صاحب، پوری دنیا ہدایت کی پیاسی ہے ،مجھ گندے کو دیکھیں ،شراب جیسی نجس چیز ہی میری ہدایت کا ذریعہ بن گئی۔ ہمیں اپنے نبی کا امتی ہونے کا حق ادا کرنا چاہئے، ساری دنیا کے انسان ہمارے نبی ﷺ کے امتی ہیں، ان کو غیر سمجھ کر ہم نے ان تک دین نہیں پہنچایا ،یہ بہت بڑا ظلم ہے ۔مسلمان کو ظالم نہیں ہو نا چاہئے،ان تک ان کی امانت نہ پہنچانا بہت بڑا ظلم ہے ہمیں اپنی سی کوشش لوگوں کو دوزخ سے بچانے کی ضرور کرنی چاہئے۔

بشکریہ : مستفاداز ماہ نامہ ارمغان، جنوری ۲۰۰۸ ؁ء