کسی بھی مسلمان کیلئے اس سے بڑھ کر خوشی نہیں ہوتی جب وہ سنتا ہے کہ فلاں غیر مسلم نے اسلام قبول کیا ہے، شاید یہ چیز مسلمانوں کی جبلت میں ہے۔ دوسرے مذاہب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، نصرانیوں نے بھی اپنے دین کی تبلیغ اور ترویج کا کام نہیں چھوڑا۔ صرف یہودی واحد قوم ہے جس نے اپنے مذہب کو نسل کے ساتھ مخصوص کر کے اپنی تعداد محدود رکھی۔ بہت کم نئے لوگوں نے یہودی مذہب اپنایا اور بہت کم ہی ایسا سنا گیا کہ کسی یہودی نے اپنا مذہب چھوڑ کر دین اسلام قبول کیا۔
میں آج جس شخص پر بات کر رہا ہوں وہ نہ صرف یہودیت سے اسلام میں داخل ہوا بلکہ کم و بیش دوسرے ساٹھ لاکھ لوگوں کے مسلمان ہونے کا سبب بھی ٹھہرا۔ یہ ساٹھ لاکھ افرادجنوبی سوڈان، کینیا، یوگنڈا اور پورے افریقہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس شخصیت کا نام جاد اللہ القرآنی ہے انہوں نے سن 2003 میں انتقال فرمایا، اللہ تبارک و تعالیٰ ان پر اپنی ڈھیروں رحمتیں نازل فرمائیں۔
سن 1957 کی بات ہے فرانس میں کہیں ایک رہائشی عمارت کی نکڑ میں ترکی کے ایک پچاس سالہ بوڑھے آدمی نے چھوٹی سی دکان بنا رکھی تھی۔ ارد گرد کے لوگ اس بوڑھے کو چاچا ابراہیم کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ چاچا ابراہیم کی دکان میں چھوٹی موٹی گھریلو ضرورت کی اشیاء-04 کے علاوہ بچوں کیلئے چاکلیٹ، آئسکریم اور گولیاں ٹافیاں دستیاب تھیں۔اسی عمارت کی ایک منزل پر ایک یہودی خاندان آباد تھا جن کا ایک سات سالہ بچہ (جاد) تھا۔ جاد تقریبا ًروزانہ ہی چاچا ابراہیم کی دکان پر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات خریدنے کیلئے آتا تھا۔ دکان سے جاتے ہوئے چاچا ابراہیم کو کسی اور کام میں مشغول پا کر جاد نے کبھی بھی ایک چاکلیٹ چوری کرنا نہ بھولی۔ایک بار جاد دکان سے جاتے ہوئے چاکلیٹ چوری کرنا بھول گیا۔ چاچا ابراہیم نے جاد کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا ،جاد آج چاکلیٹ نہیں اْٹھاؤ گے کیا؟ چاچا ابراہیم نے یہ بات محبت میں کی تھی یا دوستی سے، مگر جاد کیلئے ایک صدمے سے بڑھ کر تھی۔ جاد آج تک یہی سمجھتا تھا کہ اس کی چوری ایک راز تھی مگر معاملہ اس کے بر عکس تھا۔ جاد نے گڑگڑاتے ہوئے چاچا ابراہیم سے کہا کہ وہ اگر اسے معاف کر دے تو آئندہ وہ کبھی بھی چوری نہیں کرے گا۔مگر چاچا ابراہیم نے جاد سے کہا؛ اگر تم وعدہ کرو کہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کی چوری نہیں کرو گے تو روزانہ کا ایک چاکلیٹ میری طرف سے تمہارا ہوا۔ ہر بار دکان سے جاتے ہوئے لے جایا کرنا۔ اور بالآخر اسی بات پر جاد اور چاچا ابراہیم کا اتفاق ہو گیا۔وقت گزرتا گیا اور اس یہودی بچے جاد اور چاچا ابراہیم کی محبت گہری سے گہری ہوتی چلی گئی۔ بلکہ ایسا ہو گیا کہ چاچا ابراہیم ہی جاد کیلئے باپ، ماں اور دوست کا درجہ اختیار کر چکا تھا۔جاد کو جب کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا یا پریشانی ہوتی تو چاچا ابراہیم سے ہی کہتا، ایسے میں چاچا میز کی دراز سے ایک کتاب نکالتا اور جاد سے کہتا کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر دو۔ جاد کتاب کھولتا اور چاچا وہیں سے دو صفحے پڑھتا، جاد کو مسئلے کا حل بتاتا، جاد کا دل اطمینان پاتا اور وہ گھر کو چلا جاتا۔ اسی طرح ایک کے بعد ایک کرتے سترہ سال گزر گئے۔ سترہ سال کے بعد جب جاد چوبیس سال کا ایک نوجون بنا تو چاچا ابرہیم بھی اس حساب سے سڑسٹھ سال کا ہوچکا تھا۔ داعی اجل کا بلاوا آیا اور چاچا ابراہیم وفات پا گیا۔ چاچا نے اپنے بیٹوں کے پاس جاد کیلئے ایک صندوقچی چھوڑی جس میں وہی کتاب بند تھی جسے جاد اکثر و بیشتر چاچا کی دکان میں دیکھا کرتا تھا۔ چاچا کی وصیت تھی کہ اس کے مرنے کے بعد یہ صندوقچی اس یہودی نوجوان جاد کو تحفہ میں دیدی جائے۔جاد کو جب چاچا کے بیٹوں نے صندوقچی تحفہ دی اور اپنے والد کے مرنے کا بتایا تو جاد بہت غمگین ہوا کیونکہ چاچا ہی تو اسکا غمگسار اور مونس تھا۔ جاد نے صندوقچی کھول کر دیکھی تو اندر وہی کتاب تھی جسے کھول کر وہ چاچا کو دیا کرتا تھا۔ جاد چاچا کی نشانی گھر میں رکھ کر تقریبا بھول ہی گیا۔ مگر ایک دن اْسے کسی پریشانی نے آ گھیرا، چاچا ہوتا تو اسے سناتا اور چاچا کتاب کھول کر دو صفحے پڑھتا اور مسئلے کا حل سامنے آجاتا۔ جاد کے ذہن میں خیال آیا کیوں نہ وہ خود کوشش کرے۔ کتاب کھولی مگر کتاب کی زبان اور لکھائی اْس کی سمجھ سے بالا تر تھی۔ کتاب اْٹھا کر اپنے تیونسی عرب دوست کے پاس گیا اور اْسے کہا مجھے اس میں سے دوصفحے پڑھ کر سناؤ۔ مطلب پوچھا اور اپنے مسئلے کا اپنے تئیں حل نکالا۔ واپس جانے سے پہلے اْس نے اپنے دوست سے پوچھا یہ کیسی کتاب ہے۔ تیونسی نے کہا یہ مسلمانوں کی کتاب قرآن ہے۔ جاد نے پوچھا مسلمان کیسے بنتے ہیں؟ تیونسی نے کہا کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور پھر شریعت پر عمل کرتے ہیں۔ جاد نے کہا تو پھر سن لو میں کہہ رہا ہوں اشہدان لا الہ لا اللہ واشہدان محمداً رسول اللہ۔
جاد مسلمان ہو گیا اور اپنے لئے جاد اللہ القرآنی کا نام پسند کیا۔ نام کا اختیارکرنا اس کی قرآن سے والہانہ محبت کا کھلا ثبوت تھا۔
جاد اللہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی، دین کو سمجھا اور اور اس کی تبلیغ شروع کی۔ یورپ میں اس کے ہاتھ پر چھ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسلام قبل کیا۔ایک دن پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے جاد اللہ کو چاچا ابراہیم کے دیئے ہوئے قرآن میں دنیا کا ایک نقشہ نظر آیا جس میں بر اعظم افریقہ کے ارد گرد لکیر کھینچی ہوئی تھی اور چاچا کے دستخط کیئے ہوئے تھے۔ ساتھ میں چاچا کے ہاتھ سے ہی یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی (ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ) : اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔ جاد اللہ کو ایسا لگا جیسے یہ چاچا کی اس کیلئے وصیت ہو۔ اور اسی وقت ہی جاد اللہ نے اس وصیت پر عمل کرنے کی ٹھانی۔
جاد اللہ نے یورپ کو خیر باد کہہ کر کینیا، سوڈان، یوگنڈا اور اس کے آس پاس کے ممالک کو اپنا مسکن بنایا، دعوت حق کیلئے ہر مشکل اور پرخطر راستے پر چلنے سے نہ ہچکچایا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ انسانوں کو دین اسلام کی روشنی سے نوازا۔ جاد اللہ نے افریقہ کے کٹھن ماحول میں اپنی زندگی کے تیس سال گزار دیئے۔ سن 2003 میں افریقہ میں پائی جانے والی بیماریوں میں گھر کر محض چون سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملے۔
جاد اللہ کی محنت کے ثمرات اس کی وفات کے بعد بھی جاری رہے۔ وفات کے ٹھیک دو سال بعد اس کی ماں نے ستر سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔
جاد اللہ اکثر یاد کیا کرتے تھے کہ چاچا ابراہیم نے اس کے سترہ سالوں میں کبھی بھی اسے غیر مسلم محسوس نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی کہا کہ اسلام قبول کر لو۔ مگر اس کا رویہ ایسا تھا کہ جاد کا اسلام قبول کیئے بغیر چارہ نہ تھا۔