مولوی سے نفرت کاانجام

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : مکافات عمل

شمارہ : اگست 2013

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں مسجد میں استاد تھا۔پندرہ سال کا یہ بچہ ہر روز مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھا کرتا تھا،چھوٹا سا قرآن اٹھائے پڑھتا رہتا تھا،نہیں،وہ پڑھتا نہیں تھا،ظاہر ایسے کرتا کہ وہ پڑھ رہا ہے۔لیکن اصل میں چوری چھپے ہمیں ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعددیکھتا رہتا تھا۔ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ہماری باتیں سننے کی کوشش کرتا تھا۔اور جب بھی میں اس کی طرف دیکھتا، وہ اپنی آنکھیں پھیر کر ،دوبارہ قرآن پڑھنے میں اپنے آپ کو مشغول کر لیتاجیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

ہر روز وہ اسی طرح شرمندہ سا بن کر بیٹھا رہتا۔سہمی سہمی نظروں سے دیکھتا رہتا۔ آج میں نے عشا کی نماز کے بعداس سے ملنے کا عزم کر لیا۔ ''میرا نام سلمان ہے۔مسجد میں پڑھاتا ہوں'' میں نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔'' اور میرانام خالد ہے''اس نے فورا ًجواب دیا۔ ''خالد ! آپ کیا پڑھتے ہیں؟'' میں نے بات بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ ''میں نویں کلاس کا طالب علم ہوں..اور قرآن پاک سے مجھے بہت محبت ہے''اس نے جواب دیا۔میری حیرانگی اور بڑھ گئی۔بھلا اس آخری جملے کی کیا ضرورت تھی؟! میں نے سوچا۔''خالد! کیا آپ مغرب کے بعد فارغ ہوتے ہیں؟ اگر آپ مسجد میں پڑھنے آئیں گے تو ہمیں بہت خوشی ہو گی'' میں نے مزید بات کو بڑھانا چاہا۔''آں ہاں قرآن پاک مسجد جی ،جی ضروران شاء اللہ میں آؤں گا'' اس نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔''تب ..ہم کل ملیں گے''میں الوداعی سلام کرتے ہوئے مسجد سے باہر نکل آیا۔ساری رات میں اْس عجیب سے لڑکے کے بارے میں سوچتا ہی رہا'لیکن کچھ سمجھ نہ آیا.دن گزرتے رہے..

خالد مسجد میں روز آتا رہا..بہت محنتی تھا وہ ..

قرآن پاک ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ بہت اچھی عادات کا مالک تھا وہ ۔صرف ایک چیز ہمیں بہت عجیب لگی اس میں۔اسکی گہری سوچیں۔کبھی کبھار ایسا لگتا کہ اسکا جسم تو ہمارے ساتھ ہے لیکن اس کی روح کسی اور دنیا میں تیرتی پھر رہی ہے ۔میں یک دم اسے ڈرا دیا کرتا تھا،تو وہ بات گول مول کر نے کے لیے ایسے بہانے بناتا جس کے بارے میں اسے خود پتا ہوتا کہ ہم ان پر یقین نہیں کریں گے۔ ایک دن میں اسے سمندر کی سیر کروانے لے گیا.شاید کہ اس کی دل کی بات سمندر کے دل کی بات سے جا ملے اور اس کا نفس غموں سے خالی ہو جائے ۔ہر طرف خاموشی تھی، خاموشی ہی خاموشی ،کوئی آواز نہیں،سوائے خاموشی کی آواز کے...اور اچانک !!اس پرسکون خاموشی میں،خالد کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی ۔ خالد پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔چند لمحوں بعد ...وہ روتے روتے بولا:

''میں آپ سے محبت کرتا ہوں..سر سلیمان!! میں قرآن سے محبت کرتا ہوں... اور قرآن والوں سے محبت کرتا ہوں.. نیک لوگوں سے۔لیکن میرے والد صاحب والد..''اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔

''آپکے والد صاحب.. خالد !! ان کو کیا مسئلہ ہے؟'' میں نے نہایت پیار سے پوچھا۔ 'میرے والد صاحب...وہ مجھے آپ لوگوں سے ڈراتے ہیں..نفرت کرتے ہیں آپ لوگوں سے..مجھے آپ کے پاس جانے سے ڈراتے ہیں۔ جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں آپ لوگوں کے بارے میں... اور مجھے بھی آپ کی وجہ سے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں..لیکن.. جب میں آپ لوگوں کو مسجد میں قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں،مجھے اپنے والد کی باتوں پر یقین نہیں آتا...اسی لیے میں مغرب کے بعد مسجد میں قرآن لے کر بیٹھ جایا کرتا تھا..آپ سب کی طرف دیکھتا رہتا۔سر سلیمان..!! یاد ہے.. یاد ہے وہ دن.. جب آپ عشا کے بعد میرے پاس آئے تھے.. میں کتنے عرصے سے آپ کا انتظار کر رہا تھا کہ آپ آئیں.. میری روح کر پکڑ کر اپنی روحوں کے ساتھ لٹکا دیں.. آپ کے کہنے پر میں مسجد میں قرآن پڑھنے کے لے داخلہ لیا۔ میں نے بہت محنت کی.. سونا چھوڑ دیا.. دن رات قرآن کے ساتھ گزارتا تھا..لیکن ...!!جب میرے والد نے یہ تبدیلی محسوس کی.. اور کسی کے ذریعے پتا کروایا کہ میں نے مسجد میں داخلہ لے لیا ہے اور مولویوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا ہے.تو..!!اس رات، وہ اندھیری رات ،جب ہم رات کو والد صاحب کا انتظار کر رہے تھے، ہر روز کی طرح رات کا کھانا کھانے کے لیے..وہ اپنے اندھیر چہرے کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے.. کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہر کوئی خاموش تھا.. ہمیشہ کی طرح ان کی موجودگی میں کوئی بات کرنے کی جرات نہ کر سکتا تھا..اس پرسکون ماحول میں ان کی آواز بجلی کی طرح کڑکی...خالد..!!میں نے سنا ہے کہ تم مولویوں سے میل جول رکھنے لگ گئے ہو..؟'' انہوں نے مجھے گھورتے ہوئے پوچھا۔مجھے تو جیسے قتل کر دیا گیا ہو، زبان کو تالے لگ گئے.. دل دھک دھک کرنے لگا.. صفائی پیش کرنے کے زبان کھولنے کی کوشش کی تو کلمات گڈ مڈ ہونے لگے..لیکن ، انہیں کون سا میرے جواب کا انتظار تھا...چائے کا تھرماس اٹھایا.. اور میرے منہ پر پھینک مارا..میری آنکھوں کے سامنے تارے چمکنے لگے.۔زمین پر گر گیا..میری امی جان نے مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ اسے چھوڑ دے... ورنہ تیرے ساتھ بھی یہی سلوک کرونگا..''

میں جلدی سے اپنی امی سے دور ہو گیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا ..لیکن کتنی ہی دیر تک ان کی گالیوں کی آوازیں میرے کمرے تک آتی رہیں۔پھر تو کوئی ایسا دن نہ گزرتا کہ انہوں نے مجھے مارا نہ ہو، بلا ناغہ مارتے گالیاں دیتے میں سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتا رہا..اور پھر..ایک دن جب ہم ٹیبل پر کھانے کے لیے بیٹھے تھے..والد نے گرجدار آواز میں مجھے حکم دیا کہ ''نکلو یہاں سے.اور ہمارے ساتھ کھانے کی کوئی ضرورت نہیں...''مجھے ان سے نفرت ہو گئی میں تصور میں انہیں کہنے لگا۔میں تم سے بدلہ ضرور لو ں گا۔پھر میں گھر سے بھاگ نکلا.. اور آپ کے ساتھ اس گہرے سمندر تک پہنچ گیا۔

میرے زبان سے کچھ نہیں نکل رہا تھا... سمجھ نہیں آ رہا تھا کن الفاظ سے اسے حوصلہ دوں، اتنی دکھی کہانی اے اللہ!! اتنا دکھ اتنے چھوٹے سے لڑکے کے سینے میں... حیرانگی سے میری زبان کو تالے لگ گئے تھے...

آخر میں نے حوصلہ کرتے ہوئے اس لڑکے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس کے لیے دعا کی.. اسے اپنے والد سے نیکی کی نصیحت کی ان کے ظلم پر صبر کی نصیحت کی اور اس سے وعدہ کیا کہ میں اسکے باپ کے پاس ضرور جاؤنگا۔ محبت سے بات کروں گا۔ شاید کہ میری باتوں سے ان کا دل نرم ہو جائے۔

اور ہم واپسی کے لیے چل دیے۔

دن گزرتے رہے او ر میں سوچتا رہا کہ کس طرح خالد کے والد سے بات کروں گا..؟ کیسے سمجھاؤں گا اسے؟

اور آخر کارمیں نے اپنی تمام قوت جمع کی.. اپنے افکار کو ترتیب دیا... اور عزم کر لیا کہ آج پانچ بجے میں ضرور اس کے گھر جاؤں گا۔پورے پانچ بجے مختلف قسم کے سوالات اور افکار کو سمیٹتے ہوئے میں خالد کے گھر کی طرف چل پڑا۔کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بیل بجائی پھر..!!دروازہ کھلا.. اور وہی سخت ترش رو چہرہ۔اور اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا..!!اس نے میرا گریبان پکڑا.اور اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہنے لگا، تو ہی وہ مولوی ہے نا جو خالد کو پڑھاتا ہے؟'' ''آ،آں،ہاں..ہاں جی'' میں نے بامشکل جواب دیا۔‘‘اللہ کی قسم اگر میں نے آج کے بعد اس کے ساتھ پھرتا ہوا دیکھ لیا تو ٹانگیں توڑ دونگااور سن !! خالد آج کے بعد کبھی نہیں آئے گا۔ میں نے بڑے صبر اور حوصلے سے واپسی کی راہ لی۔اسی طرح دن گزرتے گئے لیکن خالد کبھی نہ آیا۔اس کا باپ اسے نماز کے لیے بھی نکلنے سے منع کرتا تھا.. اور ہمیں بھی اس سے ملنے یا بات کرنے نہ دیتا تھا... ہم اس کے لیے دعا مانگتے رہے۔

اور پھر ہم اسے اس اندھیر دنیا میں بھول گئے ۔کتنے سال گزر گئے.. اور ایک رات عشا کے بعد.وہی سخت ہاتھ میرے کندھے پکڑتا ہے ۔رش رو اور سخت چہرہ. . . انکساری سے جھکا ہو تھاغصہ والی زبان…….خاموش ہو چکی تھی.جسم کو غم و دکھوں نے بوڑھا کر دیا تھا...''خوش آمدید.. چچا جان!!'' میں نے ان کا استقبال کیا۔لیکن جواب میں وہ پھٹ پڑا... بچوں کی طرح رونے لگا..سبحان اللہ...! اللہ کی قدرت..!! میں نے کبھی نہ سوچا تھا کہ یہ پہاڑ کبھی اتنا نرم بھی بن جائے گا..نہ یہ سمندر اس طرح خشک ہو جائے گا..''بولیے چچا جان کہیے کیا ہوا..؟ خالد کیسا ہے؟''خالد..!!یہ سوال پوچھ کر میں نے تو جیسے ان کی یادوں میں خنجر مار دیا ہو.. ان کے کلیجے میں چھری اتار دی ہو..

گہری سانس لینے کے بعد وہ بولنے لگے..

''بیٹے!! خالد اب وہ خالد نہیں رہا جسے تم جانتے تھے...وہ خالد نہیں جو محبت کرنا والا.. خاموش طبعیت .. اور دور اندیش ہوتا تھا...جب سے میں نے اْسے تمہارے پاس آنے سے منع کیا... اس نے ایک اور گروپ کو اپنا دوست بنا لیا..اس نے برے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا.سگریٹ پینا شروع کر دی. اس دن میں نے اسے بہت مارا.. بہت گالیاں دیں لیکن ..اس کا جسم مار کھانے کا عادی ہو چکا تھا... گالیاں سننا اس کا معمول بن چکا تھا..

وہ بہت جلدبڑا ہو گیا.. ساری رات اپنے دوستوں کے ساتھ جاگ کر گزارتا..فجر سے پہلے گھر نہ آتا..اسے سکول سے نکال دیا گیا..پھر تو اس نے گھر کا چکر بھی لگانا چھوڑ دیا..اسکی باتیں پہلی جیسی نہ رہیں... اسکا چہرہ وہ چہرہ نہ رہا..وہ خوبصورت بھرا ہوا جسم کمزور لاغر اور بیمار جسم میں بدل گیا.وہ روشن سفید چہرہ گناہوں سے کالا ہو گیا...

وہ شرمسار صاف آنکھیں آگ کی طرح سرخ رہنے لگیں..وہ شرم و حیا ختم ہو گئی... اس کی جگہ بدتمیری اور بے ادبی نے لے لی..اس پاک نیک دل کی جگہ .. پہاڑ سے بھی سخت دل نے لے لی...کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ اس نے مجھے گالیاں نہ دی ہوں.. ٹھڈے نہ مارے ہوں. یہ کہہ کر وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہو گئے..پھر خود ہی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولے..''سلیمان..!! میرے عزیز بیٹے..!! میری ایک ہی گزارش ہے تم سے..اللہ کے لیے خالد کے پاس آؤ.. اسے اپنے ساتھ لے جاؤ.. میری طرف سے اجازت ہے.. میرا گھر تمہارے لیے کھلا ہے..اس کے پاس جاؤ.. وہ تو تم سے محبت کرتا تھا۔تمہارے ساتھ و سیر وسیاحت کے لیے جائے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں..بلکہ مجھے تو خوشی ہو گی اگر وہ تمہارے گھر میں رہے.. تمہارے ساتھ اٹھے بیٹھے..مجھے تو بس اپنا خالد چاہیے... پہلے والا خالد...سلیمان..!! میں تمہارا ہاتھ چومتا ہوں.. پاؤں چاٹتا ہوں..یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگ گئے.. میں نے انہیں رونے دیا .. جب وہ چپ ہوئے تو میں نے عرض کیا..اے چچا..!وہ آپکی کھیتی تھی... اور آج آپ اسے کاٹ رہے ہیں..لیکن پھر بھی میں کوشش کرونگا..

٭٭٭