سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، سید عمر فاران بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جولائی 2008

ج: یہ بات ٹھیک ہے کہ جہاں ظلم ہو رہا ہو وہاں جہاد کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے اور بھی بہت سی باتیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ مثلاً آپ کی طاقت کیا ہے اور کیا آپ اس وقت مدد کرنے کی پوزیشن میں بھی ہیں کہ نہیں۔ اس کے بعد آپ کا ضمیر مطمئن ہو کہ ظلم ہو رہا ہے تو آپ جہاد کر سکتے ہیں ۔ جہاد فرض اس وقت ہوتا ہے کہ جہاں کہیں ظلم ہو رہا ہے وہاں دشمن کی طاقت اور آپ کی طاقت کے درمیان مناسب نسبت تناسب بھی موجود ہو ۔جنگ بدر کے زمانے میں یہ نسبت تناسب ایک اور دس کی تھی یعنی مسلمان کفار کے مقابلے میں دس گنا کم بھی ہوں تو ٹکر لے سکتے تھے لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے یہ نسبت ایک اور دو کی کر دی۔اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اب صحابہ کے اندر ایمان کی وہ کیفیت نہیں رہی تھی جو پہلے تھی۔ کیونکہ نئے ہونے والے مسلمان صحابہ کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔ چنانچہ تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود ایک شخص اپنے طور پر مطمئن ہو کہ حالات جہاد کے متقاضی ہیں اور وہ جہاد کے لیے چلا جاتا ہے تو امید ہے کہ اللہ اس کی نیت پر فیصلہ فرمائیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تو اس کا نتیجہ بھی وہی نکلتا رہا ہے ،جو نکلنا چاہیے۔ مہدی سوڈانی کے جہاد کا کیا نتیجہ نکلا ، سید احمد شہید صاحب کے جہاد کا کیا نتیجہ نکلا ، حافظ ضامن کی قیادت میں وسط ہند میں جو جہاد ہوا اس کا نتیجہ کیا نکلا، 1857 کا نتیجہ کیا نکلا ، اللہ تعالی کا قانون تو غیر متبدل ہے ، وہ اپنے طریقے پر کام کرے گا۔ آپ کو تناسب میں آنا پڑے گا۔ورنہ اللہ تعالی کے ہاں Key word جہاد نہیں ، صبر ہے اور قرآن میں یہ دونوں لفظ بڑی وسعت سے استعمال ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالی نے جتنی صبر کی تلقین کی ہے اتنی جہاد کی نہیں کی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی کو بعض اوقات اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ صبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ حکمران آئے کہاں سے ہیں ، ہمارے اندر سے ہی آئے ہیں۔ اگر ہمار ے اندر اخلاقی لحاظ سے ایسی برتری پیدا ہوجائے کہ ایسے حکمران نہ آئیں تو نہیں آئیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عوام چین سے کیوں سوتے رہیں ، وہ اٹھیں اور اٹھ کر اپنی حکومت کو توجہ دلائیں ۔اس پر حقائق واضح کریں اور اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی طرف متوجہ کریں۔پر امن احتجاج سے حکومت کو جہاد پر مجبور کریں۔ عوام اپنا کام کریں ، اس کے بعد حکومت اپنا کام کرے گی ، اگر اس کے بعد بھی حکومت بات نہیں مانتی ہے تو پھر ظاہر ہے اس کے بعد عوام کی ذمہ داری اللہ تعالی کے ہاں سے ختم ہو گئی ۔اب اللہ کے ہاں حکومت کی پکڑ ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا نہیں ہے کہ زیادہ لوگ نہیں سمجھ سکے بلکہ زیادہ لوگ تو سمجھ گئے تھورے لوگ نہیں سمجھ سکے اور وہ بھی اس زمانے میں۔ ہمارے جلیل القدر علما نے ان کا مدعا سمجھنے میں بالعموم غلطی نہیں کی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دنیا پر اتمام حجت ، جہاد کے ذریعے سے لوگوں سے جزیہ طلب کرنااور ان کو مغلوب رکھنا صحابہ سے خاص تھا ۔ ان کے خاص حقوق ان کے منصب شہادت سے پیدا ہوئے تھے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: والدین کی خدمت کی ذمہ داری آپ پر فرض ہے ۔ اس وجہ سے ان کوزکوۃ نہ دیں بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر پورا کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر کسی کے لیے اس کے ماحول میں دین پر عمل کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہو یا اس کو روکا جا رہا ہو تو اس کے لیے ہجرت کرنااچھا ہے۔ لیکن یہ بات بڑی واضح ہونی چاہیے کہ اسے ایمان بچانا مقصود ہے یا مادی فوائد کا حاصل کرنا۔ کیونکہ اجر کا معاملہ نیت پر ہے۔ لیکن ہجرت کوئی آسان چیز نہیں ہے ، آدمی کو اپنے حوصلے کا امتحان بھی لے لینا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ وہ ایک نیکی کا کام کرے اور بعد میں اس کے شدائد کو برداشت نہ کر سکے اور جو نیکی وہ یہاں کر رہا ہے اس سے بھی محروم ہو جائے۔اس کا جائزہ ضرور لے لینا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کو سزا دینے کا اختیار نہیں ہے ، آپ سمجھاسکتے ہیں۔ سزا دینے کا اختیارصرف عدالت کو ہے ۔ اگر مجھے اور آپ کو بھی سزا کا اختیار دے دیا جائے تو پھر اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ صحیح سزا دی گئی ہے یا غلط۔ اس طرح جنگل کا قانون جاری ہو جائے گا۔ہر کوئی دوسرے کو سزا دینے لگے گا اور کہے گا ہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔سزا کے لیے صرف آنکھوں سے دیکھ لینا کافی نہیں ہوتا باقی بہت سے معاملات بھی مد نظر رکھنے پڑتے ہیں۔ جب عدالت میں معاملہ جاتا ہے تو عدالت تمام معاملات ، محرکات اور واقعات کو سامنے رکھ کرفیصلہ کرتی ہے۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ آپ کے ذمے لگایا ہی نہیں کہ آپ سزا نافذکریں یہ عدالت کے ذمہ ہے تو جو چیز آپ کے ذمہ نہیں آپ خواہ مخواہ کیوں اس کو اپنے اوپر لیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:ضروری نہیں ہے لیکن نبی ﷺ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ عام طور پر اس کا اہتمام کرتے تھے ۔ اس لیے ایسا کیا جائے تو بہتر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب آپ محسوس کریں کہ وہ اپنے معاملات کو سنبھالنے کی حد کو پہنچ گیا ہے۔ یہ حد ظاہر ہے کہ مختلف لوگوں کے لحا ظ سے مختلف ہو گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ معاملہ ختم ہو گیا ۔یہ تو ایک مصیبت تھی جس سے ہمیں دوچار ہونا پڑا تھا ، جیسے آج سود کا معاملہ ہے کہ کسی کا بھی اس سے بچنا ممکن نہیں رہا الا ماشا ء اللہ۔ بالکل یہی صورت حال اس وقت لونڈیوں غلاموں کی تھی۔ جائز کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عملاً اور قانونی طور پر اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا ۔ جب تک کہ آپ کوئی متبادل صورت نہیں پیدا کر دیتے ۔ بہت سے لوگ آج کے زمانے میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ایک حکم دے دیا جاتا کہ سب آزاد ہیں تو ان کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ سارے لونڈی غلام نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نہیں تھے، بوڑھے ، اپاہج ، لولے ، لنگڑے سب قسم کے لوگ تھے ۔ان میں سے بہت سے لوگ اپنے پاؤں پر کھڑ ا ہونے کے قابل نہیں تھے اور سوسائٹی بھی اس قابل نہیں تھی کہ فوری طور پر ان کی معاش کا بندوبست کر دیا جاتا ۔ اگر ایک ہی حکم سے وہ آزاد کر دیے جاتے او ران کے مالکوں کی ذمہ داری ختم ہو جاتی تو عورتیں بدکاری کے سوا کوئی پیشہ نہ کر سکتیں اور مرد سوائے بھیک مانگنے کے اور کچھ نہ کر سکتے ۔ اس وجہ سے اس مسئلے کو تدریج اور حکمت سے ختم کیا گیا۔ یہ اسلام کی کوئی مجبوری یا ضرورت نہیں تھی ایک مسئلہ تھا اس زمانے کا جس کا حل دیا گیا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: رفع یدین کے مسئلے پر صحابہ کااجماع نہیں ہوسکا اس لیے یہ ضروری نہیں لیکن چونکہ بعض روایتوں میں اس کا ذکر ہوا ہے اس لیے اگر کوئی کرتا ہے تو اس کوبدعت ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آدمی جب بالغ نہیں ہوتا ، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں ہوتا اور وہ اپنے والد سے محروم ہو جائے تو اس کو یتیم کہا جاتا ہے

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ آدمی جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور پھر قیامت تک کے لیے ایک اوٹ ہے جس میں اس کو رکھا جاتا ہے ، عربی زبان میں اوٹ کے لیے برزخ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، اسی سے ہمارے ہاں یہ اصطلاح بن گئی کہ وہ معاملات جو آدمی پر مرنے کے بعد قیامت سے پہلے واقع ہوں گے وہ گویا عالم برزخ کے معاملات ہیں۔عالم برزخ امور متشابہات میں سے ہے جس طرح نیند کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ وہ موت نہیں ہوتی اسی طرح عالم برزخ کو بھی ایک قسم کی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ وہ اس طرح کی زندگی نہیں ہوتی جیسی اب ہے یا جیسی قیامت کے بعد ہو گی۔ لیکن ہے بہر حال زندگی۔ اس میں انبیا ، شہدا اور صالحین کا امتیاز بیا ن کیا گیا ہے اسی طرح آل فرعون کا امتیاز سزا کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی ان کو سزا ملتی ہے اور شہدا کو رزق حقیقی زندگی تو قیامت کے بعد شروع ہو گی برزخ میں جو زندگی کی نوعیت ہے اس کا ہم شعور نہیں کر سکتے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ اصل میں علما کی اصطلاح ہے اور ان موقعوں پر بولی جاتی ہے جہاں قرآن مجید نے حالات یا ضرورت کے لحاظ سے ا حکام میں کچھ تغیر و تبدل کیا ہے ۔اس کی چند موٹی موٹی مثالیں یہ ہیں ۔ نبیﷺ کو منافقین سرگوشیاں کرنے کے لیے بہت تنگ کرتے تھے تو یہ حکم دیا گیا کہ جو لوگ بھی حضورﷺ سے ملنا چاہیں وہ پہلے کچھ نہ کچھ غریبوں اور مسکینوں کو صدقہ کریں اور تنہائی کی ملاقات کے لیے اس کے بعد آئیں ۔اس پابندی سے مقصود یہ تھا کہ لوگ متنبہ ہو جائیں ۔ منافقین کے لیے مال خرچ کرنا آسان نہیں تھا ۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ پابندی ختم کردی گئی ۔ یہ دونوں آیتیں قرآن مجید میں اوپر اور نیچے ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ یہی معاملہ روزے کے ا حکام میں ہے ۔ پہلے مرحلے میں یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ اگر کسی کے رمضان میں روزے چھوٹ گئے ہوں تو چاہے تو وہ روزے رکھ لے اور چاہے توایک مسکین کو ہر روزے کے بدلے میں کھانا کھلا دے یعنی بعد میں روزے رکھنا لازم نہیں تھا ۔ بعد میں قرآن مجید نے یہ وضاحت کر دی کہ اب یہ بات ختم ہو گئی ، اب تم عادی ہو گئی ہو اور روزے سے مانوس بھی ہو گئے ہو تو اب اگر روزے چھوٹ جائیں تو بعد میں پورے کرنے پڑیں گے اور یہ بتا دیا کہ مقصود یہ ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں رمضان کے روزوں کی تعداد کم سے کم پوری ہونی چاہیے ۔ اس میں کمی نہیں ہونی چاہیے ۔ یہ ایک طرح کا تغیر و تبدل ہے ۔ اسی طرح ایک مقام پر قرآن مجید نے ہدایت فرمائی کہ وہ عورتیں جو بدکاری کرتی ہیں یعنی عادی بدکار عورتیں ہیں ، ان کو گھروں میں بند کر دیا جائے یہاں تک کہ ان کے بارے میں کوئی تفصیلی قانون اللہ تعالی نازل کر دے یا ان کا دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آجائے ۔ یہ الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ اس معاملے میں اللہ تعالی قانون سازی فرمائیں گے چنانچہ اس کے بعد بدکاری کی باقاعدہ سزا مقرر کر دی گئی اور اوباشوں کی سزا کے لیے بھی باقاعدہ احکام آگئے اور جب احکام آگئے تو اب ظاہر ہے پہلی آیت پر عمل درآمد کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ کسی سوسائٹی کے اندر ہم شریعت نافذ کریں ، اور وہاں اسی طرح کے حالات ہوں کہ جہاں ابھی قانون کا نفاذ مشکل ہوتو اس آیت سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میراث کے معاملے میں پہلے اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اپنے اعزا واقربا کے لیے وصیت کرو اور وصیت کے بارے میں فرمایا کہ یہ تم پر لازم ہے اور یہ معروف او ردستور کے مطابق ہونی چاہیے لیکن ظاہر ہے اس سے ظلم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا تھا ۔ جب لوگ نئے احکام کے عادی ہو گئے تو باقاعدہ میراث کے احکام دے کے اللہ تعالی نے حصے مقرر کر دیے اور کہا کہ یہ ہماری طرف سے مقرر کر دہ حصے ہیں ، ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔اس میں یہ فرمایا کہ یہ ہم نے خود کیوں کیا ہے کہ لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا کہ تم خود تعین نہیں کر سکتے تھے کہ کس کو زیادہ دیا جائے اور کس کو کم دیا جائے ۔یہ مشکل کام تھاتو اللہ تعالی نے خود اس معاملے میں رہنمائی فرما دی ۔ اسی طرح کا ایک معاملہ سورہ انفال میں ہے ، صحابہ کرام پر جہاد کی ذمہ داری ڈالی گئی تو فرمایا کہ ایک نسبت دس سے تم کو جہاد کرنا ہے ، اس کے بعد جب دوسرے لوگ بھی ایمان لے آئے ، مسلمانوں کی تعداد زیادہ بڑھ گئی اور ایمان کی وہ کیفیت بحیثیت مجموعی پوری جماعت میں نہیں رہی جو صحابہ کرام کی تھی تو فرمایا کہ اب اللہ تعالی نے اس معاملے میں ذمہ داری کو کم کر دیا ہے ، اب ایک نسبت دو کے ساتھ تم کو جہاد کی ذمہ داری انجام دینی چاہیے ۔تو پہلے حکم میں تغیر ہوا ۔ ظاہر ہے اگر ایمان کی وہی کیفیت اور ویسی جماعت کہیں آج بھی وجود میں آجائے ،تواللہ تعالی کی وہ نصرت بھی اسی طریقے سے ہو سکتی ہے۔ لیکن اب ہم اس کو کسی طرح بھی جان نہیں سکتے ۔ ہمارے لیے تو اب اپنے حالات ہی کے لحاظ سے فیصلہ کرنا ہو گا ۔ ایسی مثالوں کو عام طور پر ناسخ و منسوخ کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ چند مقامات ہیں جہاں پہلے ایک صورت اختیار کی گئی ہے اور پھر حالات کے مطابق اس میں تبدیلی کر دی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں یہ دونوں موجود ہیں اور اسی طرح ان کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ ان کے لیے زیادہ موزوں تعبیر یہی ہے کہ اس آیت کے حکم میں تغیر ہو گیا ، یہ تعبیر اختیار کر لی جائے تو بہت سی بحث ختم ہو جاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: زندگی میں کوئی پابندی نہیں ہے ، آپ ساری کی ساری جائیداد بیٹی کو دے دیں یا جس کو چاہیں دے دیں۔زندگی میں صرف ایک شرط ہے کہ بے انصافی نہ کریں۔زندگی میں اللہ تعالی نے کسی بندے کیلیے اپنے مال پر تصرف پر کوئی پابندی سوا اس کے نہیں لگائی کہ انصاف کے ساتھ معاملہ کیا جائے ۔مرنے کے بعد وراثت کے احکام کے مطابق ہی جائداد تقسیم ہو گی۔ اگر ایک ہی بیٹی ہے تو آدھی جائیداد اس کی ہے اور باقی آدھی اقربا میں چلی جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر کسی کی اولاد اس بنیاد ہی کو منہدم کر دے جس پر میراث کا قانون قائم ہے ، یعنی جلب منفعت تو عاق کیا جا سکتا ہے ۔اولاد سے آدمی کو جو منفعت حاصل ہوتی ہے یا والدین یا دوسرے اقربا سے حاصل ہوتی ہے ، اس کی بنیاد پر اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں نے حصوں میں فرق کیا ہے ۔ اگر فرض کیجیے کسی وقت یہ بنیاد ہی ختم ہو گئی یعنی صورتحال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ کسی منفعت کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا ۔ انسان ایک بیٹے کو نہیں اوباش کو آدمی جنم دے بیٹھا ہے تواس کو میراث سے محروم کیا جا سکتا ہے اور یہ فیصلہ اسی شخص کو کرنا ہے جس کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہے ۔اگر اس معاملے میں نزاع ہو تو معاملہ عدالت میں جا سکتا ہے اور عدالت دونوں طرف کے معاملات دیکھ کر اس میں کوئی فیصلہ دے سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وہ تو بہرحال یتیم ہی ہیں ، اس لیے کہ دوسرے والد سے یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ ان بچوں کو وہی سرپرستی فراہم کرے گا جو ان کا والد کرتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام حیا کی جو قدر قائم کرنا چاہتا ہے ، اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ شروع ہی سے الگ الگ اہتمام کیجیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن پڑھ کر پھونک دینے سے کھانا حرام نہیں ہوجاتا۔البتہ اگر کھانے کو کسی کی نذرکر دیا گیا ہے یا کسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے پھر اس کو کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: درود ابراہیمی تو رسالت مآبﷺ کا سکھایا ہوا ہے ۔ اس کو آپ پڑھیں تو کیا کہنے ہیں ۔البتہ یہ الفاظ بھی اگر کوئی عقیدے کا فساد نہ ہوتو کوئی ممنوع نہیں ہیں۔ یعنی اگر آپ حاضر و ناضر کا عقیدہ نہیں رکھتے ، محض التفات اور محبت کی وجہ سے پڑھ رہے ہیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)