ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی نے ایک بار فزکس کے پرچے میں طلباء سے یہ سوال پوچھا کہ: بیرومیٹر کی مدد سے کسی فلک بوس عمارت کی اونچائی کی پیمائش کس طرح کی جا سکتی ہے؟
اس آسان سے سوال کا اتنا سا جواب بنتا ہے کہ؛ بیرومیٹر سے زمین کی سطح پر ہوا کا دباؤ ناپ لیا جائے اور اس کے بعد اس فلک بوس عمارت کی چوٹی پر سے ہوا کا دباؤ ناپ لیا جائے، ان دونوں کے فرق سے عمارت کی اونچائی کی پیمائش ہو جائے گی۔
اس سوال کے دیئے گئے جوابوں میں سے ایک طالبعلم نے کچھ ایسا مضحکہ خیز جواب دیا تھا کہ ممتحن نے باقی سوالات کے جوابات پڑھے بغیر ہی اس طالب علم کو اس امتحان میں فیل قرار دیدیا۔ یہ مضحکہ خیز جواب کچھ یوں تھا کہ: بیرومیٹر کو ایک دھاگے سے باندھ کر اس فلک بوس عمارت کی چھت سے نیچے لٹکایا جائے۔ جب بیرومیٹر زمین کو چھو جائے تو دھاگے کو نشان لگا کر بیرومیٹر واپس کھیچ لیا جائے۔ اب اس دھاگے کی پیمائش کی جائے جو کہ اس عمارت کی اونچائی کو ثابت کرے گی۔
ممتحن کو اس بات پر انتہائی غصہ تھا کہ طالبعلم نے جس گھٹیا انداز سے عمارت کی اونچائی پیمائش کرنے کا طریقہ بتایا تھا وہ ایک بہت ہی بنیادی سا طریقہ تھا جس کا نہ تو اس بیرومیٹر سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی فزکس کے کسی اصول سے۔ جبکہ طالبعلم نے اپنے فیل کیئے جانے کو ایک ظالم رویہ قرار دیا اور یونیورسٹی کو تحقیق کرنے کیلئے درخواست دیدی کہ صحیح جواب دیئے جانے کے باوجود اْسے کس لیئے فیل کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی نے اپنے قانون کے مطابق فوراً اس مسئلے کے حل کیلئے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی اور ایک افسر بھی مقرر کر دیا۔
اس تحقیقاتی افسر نے اپنے سربراہ کو رپورٹ دی کہ طالبعلم کا جواب تو بالکل ٹھیک ہے مگر اس جواب سے طالب علم کی فزکس سے کسی قسم کی آگاہی نظر نہیں آتی۔ تاہم اس سربراہ نے طالب علم کو ایک موقع دینے کیلئے اپنے دفتر میں بلوا لیا۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے طالبعلم سے اسی سوال کا جواب زبانی دینے کیلئے کہا۔ طالبعلم نے کچھ دیر سوچا اور کہا؛ میرے پاس اس سوال کے کئی ایک جواب ہیں جن کی مدد سے ایک فلک بوس عمارت کی اونچائی معلوم کی جا سکتی ہے، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کو کونسا جواب دوں؟ سربراہ نے کہا، کوئی بات نہیں، تم مجھے اپنے سارے جوابات سے ہی آگاہ کردو۔
طالب علم نے کہا؛ جی ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بیرومیٹر کو اس عمارت کی چوٹی سے زمین پر گرایا جائے۔ زمین تک پہنچنے کے وقت کو قانون تجاذب کی روشنی میں دیکھا جائے تو عمارت کی اونچائی کا بآسانی پتہ چل جائے گا۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر سورج روشن ہو تو بیرومیٹر کے بننے والے سائے کی پیمائش کر لی جائے اور اس عمارت کے سائے کی بھی پیمائش کرلی جائے جس کی اونچائی کی پیمائش کرنا مقصود ہو۔ اب بیرومیٹر کی اصل لمبائی اور اس کے بننے والے سائے کے تناسب سے عمارت کے سائے کے تناسب کے ساتھ اخذ کیا جا سکتا ہے۔اور اگر ہم اپنے دماغ پر زیادہ زور نہ ڈالنا چاہیں تو تیسرا اور سب سے آسان طریقہ طریقہ یہ ہے کہ جس عمارت کی اونچائی کی پیمائش کرنا مقصود ہو اس کے چوکیدار سے جا کر ملا جائے اور اسے کہا جائے کہ اس عمارت کی ٹھیک ٹھیک اونچائی بتادو تو یہ بیرومیٹر تمہارا ہوا۔ایک اور چوتھا طریقہ بھی ہے مگر میرے خیال میں وہ اتنا قابل عمل نہیں ہے۔ بہرکیف اگر ہم معاملات کو اتنا الجھانے پر آمادہ ہو ہی جائیں تو وہ طریقہ یہ ہے کہ بیرومیٹر سے سطح زمین پر ہوا کا دباؤ معلوم کیا جائے اور پھر اس عمارت کی چھت پر جا کر وہاں ہوا کا دباؤ معلوم کیا جائے، دونوں دباؤ کے درمیان کا فرق اس عمارت کی اونچائی کو ظاہر کرے گا۔ تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ یہی بات سننے کیلئے تو بے چین تھا، اس نے طالب علم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا شاباش بولتے رہو میں تمہیں غور سے سن رہا ہوں۔ مگر طالب علم کا خیال تھا کہ چونکہ یہ بات اتنی قابل عمل نہیں ہے اس لیئے اس کے کہنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔اس صورتحال کے بعد طالب علم کو یونیورسٹی میں برقرار رکھا گیا۔ بعد میں نہ صرف یہ طالب علم فزکس کے امتحان میں کامیاب ہوا بلکہ آنے والے دنوں میں اس نے فزکس کو وہ کچھ دیا جو پہلے ممکن نہ تھا اور نوبل پرائز کا حقدار بھی بنا۔
جی،اس طالب علم کا نام نیلز ہنرک ڈیوڈ بوہر (Niels Henrik David Bohr) ہے جو کہ ڈنمارک کا مشہور ماہر طبعیات اور ایٹمی طبیعیات کا بانی تھا۔ 1916ء میں کوپن ہیگن یونیورسٹی میں نظری طبیعیات کا پروفیسر مقرر ہوا۔ 1920ء-04 میں نظری طبیعیات کے ادارے کی بنیاد ڈالی اوراس کا پہلا ناظم منتخب ہوا۔ 1922ء-04 میں طبیعیات کا نوبل انعام ملا۔ 1938ء میں امریکہ گیا اور امریکی سائنس دانوں کو بتایا کہ یورینیم کے ایٹم کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کرنا ممکن ہے۔ اس کے اس دعوے کی تصدیق کولمبیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے کی۔ ڈنمارک واپس گیا تو ملک پر نازیوں کا تسلط ہوگیا۔ 1943ء میں امریکہ چلا گیا۔ 1944ء میں واپس ڈنمارک آیا۔ 18 نومبر 1962ء کو ڈنمارک میں اس کا انتقال ہو گیا۔
عقل اور نصیب
کہتے ہیں کسی جگہ دو شخص رہتے تھے ۔ ایک کا نام ’’عقل‘‘ تھا اور دوسرے کا نام ’’نصیب‘‘
ایک دفعہ وہ دونوں کار میں سوار ہو کر ایک لمبے سفر پر نکلے ۔آدھے راستے میں سنسان راستے پر کار کا پیٹرول ختم ہوگیا۔دونوں نے کوشش کی کہ کسی طرح رات گہری ہونے سے پہلے یہاں سے نکل جائیں،مگر اتنا پیدل چلنے سے بہتر یہ جانا گیا کہ ادھر ہی وقت گزار لیں جب تک کوئی مددگار نہیں آ جاتا۔ عقل نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک کے کنارے لگے ہوئے درخت کے نیچے جا کر سوئے گا۔ نصیب نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک کے درمیان میں ہی سوئے گا۔عقل نے نصیب سے کہا بھی کہ تو پاگل ہوگیا ہے کیا؟
سڑک کے درمیان میں سونا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا ہینصیب نے کہا؛ نہیں۔ سڑک کے درمیان میں سونا مفید ہے،کسی کی مجھ پر نظر پڑ گئی تو جگا کر یہاں سونے کا سبب پوچھے گا اور ہماری مدد کرے گا۔اور اس طرح عقل درخت کے نیچے جا کر اور نصیب سڑک کے درمیان میں ہی پڑ کر سو گیاگھنٹے بھر کے بعد ایک بڑے تیز رفتار ٹرک کا ادھر سے گزر ہوا۔جب ٹرک ڈرائیور کی نظر پڑی کہ کوئی سڑک کے بیچوں بیچ پڑا سو رہا ہیتو اس نے روکنے کی بہت کوشش کی،ٹرک نصیب کو بچاتے بچاتے مڑ کر درخت میں جا ٹکرایا۔درخت کے نیچے سویا ہوا بیچارہ عقل کچل کر مر گیااور نصیب بالکل محفوظ رہاشاید حقیقی زندگی میں کچھ ایسا ہی ہوتا ہینصیب لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہیحالانکہ ان کے کام عقل سے نہیں ہو رہے ہوتے، یہی ان کی تقدیر ہوتی ہے۔
بعض اوقات سفر سے تاخیر کسی اچھائی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔ شادی میں تاخیر کسی برکت کا سبب بن جایا کرتی ہے۔
اولاد نہیں ہو رہی، اس میں بھی کچھ مصلحت ہوا کرتی ہے۔ نوکری سے نکال دیا جانا ایک با برکت کاروبار کی ابتدا بن جایا کرتا ہے۔
‘‘عسی ان تکرہواشیا و ہو خیر لکم و عسی ان تحبوا شیا وہو شر لکم واللہ یعلم وانتم لا تعلمون’’
ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہواور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے (سورۃالبقرۃ -96 216)
خالی کیسٹ
اس آدمی نے ایک عورت سے شادی کی، اس کی ہر ضرورت کیلئے مال خرچ کیا، نان و نفقہ کیلئے کبھی تنگی نہ دی، آل اولاد پیدا ہوئی، وہ اپنی اس بیوی سے محبت بھی کرتا تھا اور اسکی بیوی بھی اس سے خوب محبت کرتی تھی۔اس محبت کی کیا تشریح تھی اس پر کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔ محبت مگر کسی شعور اور احساس سے عاری۔ بس بیوی نے کچھ مانگا تو انکار نہ کیا اور دیدیا اور جب بھی اس نے کوئی فرمائش کی تو پوری کر دی۔ گویا اپنی مقدور بھر حیثیت میں اس کی ہر مانگی اور بنا مانگی آسائش کا اہتمام۔وہ کبھی بھی بیوی سے لا تعلق نہیں رہا تھا مگر پھر بھی اس کی محبت کی حرارت کو بیان کرنا ذرا مشکل ہے۔خیر، کوئی دس سال کی رفاقت کے بعد۔۔۔۔ ایک دن بیوی نے خاوند کو کام پر جاتے ہوئے ایک کیسٹ تھما دی کہ راستے میں اسے سنتا جائے۔اس آدمی نے باہر جا کر کار سٹارٹ کی، کیسٹ کو پلیئر میں ڈال کر چلایا اور دفتر کی طرف روانہ ہو گیا، کوئی بیس سیکنڈ انتظار کیا اور آواز نہ آئی۔ اب توجہ سے بیس پچیس سیکنڈ اور گزارے، کیسٹ کو تھوڑا سا آگے بھی کیا مگر بے سود۔
کوئی دو منٹ کے بعد ہی بیوی کو فون کیا اور کہا؛ اللہ کی بندی، یہ کیسٹ تو خالی ہے کوئی آواز نہیں ہے اس میں۔ بیوی نے کہا؛ تھوڑا سا انتظار کریں، یا پھر ایسا کریں کہ کیسٹ کو ذرا سا آگے بڑھا لیں۔کیسٹ کو آگے بڑھانے سے بھی کچھ نہ ہوا، مزید کچھ انتظار کیا، پھر کیسٹ کو آگے بڑھایا۔ اس کشمکش میں بارہ تیرہ منٹ گزر گئے اور اس اثنا میں اس کا دفتر بھی آچکا تھا۔ کار کو پارک کر کے سیدھا اپنے دفتر گیا، ٹیلیفون اٹھا کر بیوی سے بات کی اور کہا، لگتا ہے تم نے مجھے غلط کیسٹ دیدی ہے اس میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔بیوی نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، آپ واپسی پر اس کی دوسری طرف لگا کر دیکھیں۔شام کو گھر واپس جاتے ہوئے اس نے کیسٹ کی دوسری طرف لگائی۔ بالکل ویسی ہی صورتحال اور ویسی ہی خاموشی۔، بیوی کو فون کیا، کیسٹ آگے کی، فون کیا، کیسٹ آگے کی، فون کیا اور پھر گھر آ گیا۔کیسٹ کو نکال کر سیدھا گھر کے اندر گیا، چہرے پر غصہ عیاں تھا، بیوی سے کہا؛ یہ کیسا بھونڈا مذاق کیا ہے تم نے میرے ساتھ؟بیوی نے کہا؛ نہیں، میں نے مذاق تو نہیں کیا تھا، خیر، لائیے تو۔ کہاں ہے وہ کیسٹ؟ خاوند نے کیسٹ اسے تھما دی۔
بیوی اندر سے کیسٹ پلیئر اٹھا لائی اور کیسٹ اندر ڈالتے ہوئے کہا، آئیے یہاں آرام کر بیٹھ کر اسے سنیئے۔خاوند نے بیٹھ کر سننا شروع کیا۔ پھر وہی انتظار، ایک منٹ، دو منٹ۔ آخر بول پڑا؛ دیکھا؛ یہ کیسٹ خالی ہے۔بیوی نے کہا؛ آپ اتنی جلدی نہ کریں اور ذرا صبر کریں۔ اور خاوند نے پانچ منٹ صبر کیا۔ پھر اپنی بات دہرائی۔ اور بیوی کہتی تھوڑا اور صبر کریں اور ایسا کرتے کرتے کیسٹ کی ایک سائڈ ختم ہوگئی۔کیسٹ کی دوسری سائڈ لگا دی گئی اور پھر وہی قصہ شروع ہوگیا۔اس آدمی نے بیوی سے سے کہا؛ دیکھو تم مجھے بے وقوف بنا رہی ہو یا اپنے آپ کو؟ بیوی نے کہا کہ ذرا سا تو اور صبر کرو۔ اور خاوند نے خونخوار لہجے میں ڈھاڑتے ہوئے کہا، نہیں ہوتا مجھ سے اور صبر۔اس بار بیوی نے اٹھ کر کیسٹ پلیئر بند کر دیا اور واپس آ کر خاوند کے پاس بیٹھ گئی۔ دھیمے اور شگفتہ لہجے میں خاوند کو مخاطب کرتے ہوئے کہا؛ میرے سرتاج، میرے خاوند، تم ایک ایسی کیسٹ پر صبر نہیں کر سکتے جس کا دورانیہ آدھا گھنٹا ہے اور وہ خالی ہے۔ اور میں عورت ہو کر آپ کیساتھ گذشتہ دس سالوں سے صبر کیساتھ رہ رہی ہوں جبکہ تم اندر سے اس کیسٹ کی طرح خالی ہو۔کہتے ہیں اس سادہ سے طریقے سے اس آدمی نے اپنی اصلاح کر لی تھی اور اپنے رہن سہن کے انداز کو بہتر سے بہتر بنانا شروع کر دیا تھا۔جی ہاں، اس سادہ سے قصے سے بھی کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔ خاموشی میاں بیوی کے تعلقات کو اسی طرح ہی قتل کرتی ہے جس طرح کوئی ہلکا زہر کسی جاندار کو آہستہ آہستہ موت کی طرف دھکیلتا ہے۔ اپنی بیویوں کیساتھ ایسا برتاؤ کیجیئے کہ انہیں احساس ہو کہ وہ نہ صرف انسان ہیں بلکہ آپ کے گھر کا ایک اہم فرد بھی۔ انہیں ویسے ہی اہتمام سے سنیئے جس طرح انہوں نے آپ کو اپنے دل میں بٹھایا، آپ کی امین بنیں اور آپ کی زندگی کی ساتھی اور غمگسار دوست کہلائیں۔ اس معاملے میں ہمیں اغیار سے سیکھنے کی کوئی ضروت نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کے جائز مقام اور اس کی اہمیت کو جس طرح اجاگر کیا ہے اسی پر ہی عمل کر لیا جائے تو زندگیاں جنت کا نمونہ ہو سکتی ہیں۔ اور تو اور، بعض مفسرین تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ (رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدّْنیَا حَسَنَہً وَ فِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَ قِنَا عَذَابَ النَّار) میں جس دنیاوی اچھائی کی دعا مانگی گئی ہے اس سے مراد ایک صالح بیوی ہی ہے۔
٭٭٭