سنن بیہقی، تاریخ ابن عساکر اور تاریخ ذہبی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے سورہ بقرہ مکمل یاد کرنے کی خوشی میں ایک اونٹ ذبح کر کے لوگوں کی دعوت کی تھی۔ اس واقعے سے اتنا معلوم ہوا کہ خوشی کے موقع پر اس طرح کا کوئی اہتمام کرنا، جب کہ اس کو ضروری اور اور دین کا حصہ نہ سمجھا جائے، شرعی نقطہ نگاہ سے جائز ہے۔ بدعت اس نئے عمل یا عقیدے کو کہا جاتا ہے جس کو ضروری سمجھ کر دین کا حصہ قرار دے دیا گیا ہو، چونکہ یہ عمل کہیں بھی ضروری اور دین کا حصہ سمجھ کر نہیں کیا جاتا، اس لیے اس عمل پر بدعت کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اگر کہیں پر لوگوں کے اس عمل کو ضروری اور دین کا حصہ سمجھ بیٹھنے کا شبہ ہو تو اس کو ترک کیا جاسکتا ہے۔بہرحال اس کو ضروری نہ سمجھا جائے اور مسجد یا وقف فنڈ سے اس کا اہتمام نہ ہو تو ختم پر شیرینی وغیرہ تقسیم کی جاسکتی ہے ۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
عید کے موقع پر معانقہ کوسنت نہ سمجھا جائے صرف اظہارِ محبت وسلوک کے لیے کوئی گلے ملتاہے توجائزہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرفالمخلوقات بناکر فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے ان خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطہ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے ۔دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن باحیاء بن کر معاشرے میں امن وسکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔ نبی اکرم نے ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی کو دیکھا جو اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم نہ کیا کرو آپ نے سنا تو ارشاد فرمایا : دعہ فان الحیاء من الایمان۔ (مشکوۃ 2۔431) ترجمہ : اس کو چھوڑدو کیونکہ حیا ایمان کا جز ہے۔ دوسری حدیث میں ہے : الحیاء لا یا تی الا بخیر وفی روایۃ الحیا ء خیرکلہ۔ترجمہ : حیاء4 خیر ہی کی موجب ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیاء سراسر خیر ہے۔گو انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی۔حیاء ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے نبی اکرم نے ارشاد فرمایا : الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذآء من الجفآ فی النار۔مشکوۃ۔431
ترجمہ ۔ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء (زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔
حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتاہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے آئیں تو ان کی چال وڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ فرمایا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فجآتہ احدٰ ھما تمشیی علی استحیآء (سورۃ القصص۔25) ترجمہ : اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب باحیاء انسان کی رفتاروگفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہو یہی وجہ ہے کہ حدیث میں حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد مبارک ہے : الحیآ ء شعبۃ من الایمان۔( مشکوٰۃ۔12) لہٰذا جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی توقع رکھنا بھی فضول ہے۔ چنانچہ نبی کریم کا ارشاد ہے : اذالم تستحیی فاصنع ما شئت۔(مشکوٰۃ۔431) ترجمہ : جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔ اس سے معلوم ہوا کہ بے حیاء انسان کسی ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں ہوتا اور اس کی زندگی شترِ بے مہار کے طرح ہوتی ہے۔حیا ہی وہ صفت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی گزارتاہے لہٰذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ حیا کی صفت کو اپنانے کی مکمل کوشش کریں تاکہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ فقط واللہ اعلم
سائل کو چاہئے کہ پہلے وہ تحقیق کرلے اور تحقیق کے بعد اگر واقعتاً حرام کی آمدنی کا عنصر غالب ہو تو پھر ان سے تحفہ تحائف لینے اور ان کے ہاں کھانا کھانے سے اجتناب کریں محض شک کی بنیاد پرکسی کی آمدنی کو ناجائز کہہ دینا درست نہیں۔ فقط واللہ اعلم
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
طیب نفس کے بغیر کسی کا مال حلال نہ ہونے کی تشریح کا اہم اور قابل غور پہلو ہی یہی ہے جس سے متعلق سائل کا استفسار ہے کہ کسی شخص کا مال اس وقت تک حلال نہیں جب تک کہ وہ بغیر کسی معاشرتی، اخلاقی اور سماجی دباؤ کے اپنے مال کے استعمال کی اجازت نہ دیدے، لہذا جہاں یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہاں طیب نفس نہیں پایا جا رہا بلکہ مالک نے کسی دباؤ کے تحت اجازت دی ہے یا اپنا مال خرچ کیا ہے تو یقیناًاس حدیث کی رو سے اس کے مال سے استفادہ کرنا یا معاشرے کی اس قسم کی تقریبات اور دعوتوں میں شرکت کرنا جائز نہیں ،اس لیئے درحقیقت اجازت کہلانے کے لائق ہی وہ صورت ہے جس میں کسی قسم کا خارجی دباؤ شامل نہ ہو بلکہ خالص اپنی رضا اور خوشنودی سے یہ اجازت دی گئی ہو۔واللہ اعلم
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
سالگرہ منانا اور کیک وغیرہ کاٹنا بے کار رسم و رواج ہے،اس سے احتراز بہتر ہے۔تاہم کیک اور دیگر اشیاء کا کھانا اگر حلال آمدنی سے ہو تو فی نفسہ جائز ہے۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
مرد درزی نامحرم عورتوں کے کپڑوں کی سلائی کرسکتا ہے بشرطیکہ ذہنی کدورت یا قلبی فساد کا اندیشہ نہ ہو اگر کسی ایسے فتنے کاخوف ہو تو یہ دل و دماغ کا گناہ ہوگا۔البتہ یہ واضح رہے کہ سلائی کے لیے نامحرم عورتوں کے جسم کا ناپ وغیرہ لینا ناجائز ہے۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
مصنوعی ریشم اصلی ریشم سے ہٹ کرہوتاہے جس کا استعمال مردوں کے لیے جائز ہے لہٰذا اگر کرنڈی کپڑے میں مصنوعی ریشم شامل ہے تواس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
()
چہرے کے بال صاف کرنے کے لیے تھریڈنگ کا طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے، مگر ایسی شکل بنانا جائز نہیں جس سے ہیجڑوں کے ساتھ مشابہت ہوجائے۔ اگر خواتین کی ابرؤوں کے بال اس قدر بڑھ جائیں جس کی وجہ سے مردوں سے مشابہت ہو تو ایسی صورت میں انہیں کم کرنے کی گنجائش ہے۔ جبڑے کی ہڈی کے اوپر گالوں پر جو بال اْگ آئیں انہیں صاف کرنا جائز ہے۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
صورت مسؤلہ میں مذکورہ طریقہ کے مطابق عمرہ ادا کرنا یعنی مدینہ منورہ سے ذو الحلیفہ عمرہ کی نیت کرکے مکہ مکرمہ جانا اور عمرہ کرنا درست ہے، عمرہ ادا ہو جائے گا۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
فقہ حنفی کی رو سے سمندری دریائی جانوروں میں سے صرف مچھلی کھانا حلال ہے، مینڈک مچھلی کی قسم نہیں ہے، اس لیے مینڈک کھانا حلال نہیں ہے، جس حدیث کا آپ نے تذکرہ کیا ہے ہمارے علم اور تلاش کے مطابق ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
کمپنی خود صارف کو ائیر ٹائم فروخت کرے یا کسی سے خرید کر صارف کو فروخت کرے بہر دو صورت صارف کمپنی کا پندرہ روپے کا مدیون مقروض ،صارف کے ذمے واجب الادا ہو جاتا ہے جبکہ مقروض سے قرضے کی مقدار سے زائد وصولی سود کہلاتی ہے۔ اس لیے کمپنی جو زائد ساٹھ پیسے کاٹتی ہے وہ سود ہے البتہ اگر کمپنی پندرہ روپے لون دے کر اوپر ساٹھ پیسے وصول نہ کرے بلکہ شروع ہی سے پندرہ روپے ساٹھ پیسے کا پیکج رکھے صارف کو پندرہ روپے کے بقدر خدمت وسہولت فراہم کرے اور پندرہ روپے ساٹھ پیسے اس کے عوض وصول کرے تو جائز ہو گا۔ جیسا کہ پندرہ روپے کی چیز خرید کر پندرہ روپے ساٹھ پیسے پر فرخت کرنا جائزہے مگر پندرہ روپے کی فروخت کرکے پندرہ روپے خریدار کے ذمہ لازم ہونے کے بعد پندرہ روپے کے بجائے پندرہ روپے ساٹھ پیسے وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس تفصیل سے دونوں صورتوں کا فرق بھی واضح ہو گیا۔ پہلی صورت میں واجب الادا رقم سے زائد کی وصولی ہے جبکہ دوسری صورت میں حسب معاہدہ واعلان اجرت کی وصولی ہے۔ جواز کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کمپنی ساٹھ پیسے 456پر میسج بھیجنے کی اجرت وصول کرلے اور اتنی اجرت وصول کرے جتنی عام طور پر ایک میسج کی وصول کرتی ہے۔پندرہ روپے قرض دینے کی بناء پر زیادہ وصول نہ کرے۔نیز صارف کے سامنے وضاحت بھی کردے کہ ساٹھ پیسے لون خدمات منگوانے کے لئے بھیجے گئے مسیج کے بدلے میں کاٹے گئے ہیں۔
ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ سود ہے۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
موٹر سائیکل کی مقررہ قیمت ایک لاکھ تیرہ ہزار روپے سے زائد رقم لینا زید کے لیے جائز نہیں ہے، یہ زائد رقم سود ہے جوکہ ناجائز اور حرام ہے، لہذا پچاس ہزار روپے کی زائدرقم وصول نہ کی جائے۔اگر وصول کرلی ہے توزید کے لیے اس کااستعمال ناجائز ہے۔مذکورہ رقم بکر کو واپس لوٹائی جائے۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
ہماری معلومات کے مطابق ایچ بی ایل فریڈم اکاؤنٹ کے ذریعے ملازمین کو تنخواہوں کی ترسیل ہوتی ہے، اور اسی ترسیل کے لیے یہ اکاؤنٹ بنتا ہے۔ اس اکاؤنٹ پر ملنے والی چیک بک وغیرہ سہولیات سے فائدہ اٹھانا اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے اس بنا پر جائز ہوگا کہ یہ درحقیقت کمپنی یا ادارہ مالکین کی جانب سے اپنے ملازم کو بذریعہ بینک دی جانے والی سہولیات ہیں، اس لیے یہ سہولیات سود شمار نہیں ہوں گی۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
مذکورہ شخص دومعنیٰ بات کسی ظلم سے بچنے کی خاطرکرتاہے تو ایسا کرنیکی گنجائش ہے اوراگرکسی کو دھوکہ دینے کی خاطرذومعنیٰ بات کرتاہے تواس طرح کا عمل شرعاً درست نہیں ہے اورایسے شخص کے متعلق حدیث میں واردہے کہ قیامت کے دن اس کی زبان آگ کی بنادی جائیگی۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
یر مسلم بھی انسان ہیں اگر کوئی ظاہری نجاست موجود نہ ہواور کھائی جانے والی چیز حلال ہو تو ان کے ساتھ کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں خواہ وہ غیر مسلم ہندو ہو یا عیسائی یا کچھ اور۔