حکایت مشہور ہے کہ اللہ کا ایک نیک بند ہ کسی سفر پر جا رہا تھاکہ راستے میں اس کاگزر کوڑے کرکٹ کے ایک ڈھیر پر ہو ا جہاں کپڑو ں کے چیتھڑے اورانسانوں کے فضلہ جات پڑے تھے ۔ یہ اپنے ناک کو لپیٹ کر وہاں سے گزر رہا تھا کہ گندگی سے آواز آئی کہ ہم سے کیوں نفرت کرتا ہے ۔ نفرت کرنی ہے تو اپنے آپ سے کر ۔ چیتھڑوں نے کہا کہ ہمیں تو ہمارے بنانے والے نے بہت خوبصورت بنایاتھا اور یہ ہم ہی تھے کہ جن سے تمہاری خوبصورتی میں اضافہ ہوتا تھااورتو ہم کوپہن کے اترا، اترا کے چلا کرتاتھا لیکن تمہارے جسم کی مسلسل صحبت نے ہمار ا یہ حال کردیا کہ اب ہمیں کوئی دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔فضلہ جات نے کہاکہ ہم تو اصل میں رنگ برنگ اور خوشبو دار کھانے تھے ۔یہ ہماری خوشبوہی تو تھی جو تم کو کھانے کے لیے بے تاب کر دیا کرتی تھی۔اور یہ ہم ہی تھے کہ جن کو حاصل کرنے کے لیے تم اتنی دوڑ دھوپ کیا کرتے تھے ۔ہم تو ہر قسم کی خوشبو کا مسکن تھے اور تم لوگ ہماری خوشبوؤں کی مثالیں دیاکرتے تھے لیکن یہ تمہارا جسم ہے کہ جس نے ہمارا یہ حال کردیا۔ تمہارے جسم کی سنگت نے ہماری خوشبوکوبدبو میں اور ہمارے رنگ و روپ کو کوڑا کرکٹ میں ہی بدل کے نہیں رکھابلکہ تمہاری صحبت نے تو ہماری حقیقت ہی بدل کر رکھ دی اور آج ہمارا یہ حال ہو گیا ہے کہ لوگ ہماری اصل بھول کے ہمیں گندگی اورکوڑے کرکٹ کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ حکایت صحیح ہویانہ ہولیکن حقیقت یہی ہے کہ جو اس میں بیان ہوئی ہے ۔انسانی جسم اصل میں مختلف بدبوؤں کا مجموعہ ہے ۔پسینہ اس کا بدبو دار، پیشاب پاخانہ اس کا بدبو دار ، تھوک بلغم اس کا بدبو دار ، حیض نفاس اس کا بدبو دار، ریح ڈکار اس کا بدبو دار۔ہر اچھی سے اچھی خوشبو اس جسم میں جا کر بدبو بن جاتی ہے، یہ عجب مشینر ی ہے ۔ لیکن اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ وہ مادی جسم کہ جس کی اصل بدبو ہے اس کو خوشبوؤں میں بدلا جا سکتا ہے۔اور یہی تو اس کے خالق کا کمال ہے کیونکہ خوشبو کو بدبو میں بدلناتو بہت آسان ہے اصل تو یہ ہے کہ بدبو کو خوشبو میں بدل دیا جائے ۔اوریہ کسی انسان سے خاص نہیں بلکہ ہر زمانے میں ہر انسان جب چاہے نسخہ الہی استعمال کر کے اپنی بدبو کو خوشبو میں بدل سکتاہے۔اور یہ نسخہ وہ اعمال ہیں جو اللہ نے اپنے انبیا کے ذریعے سے عطا کیے ہیں۔کسی کویہ غلط فہمی نہ ہو کہ ان اعمال سے اس کے جسم اور جسم کے اخراجات سے خوشبوکی لہریں اٹھنا شروع ہو جائیں گی، یہ تو نہیں ہو گا البتہ یہ ضرور ہو گا کہ اس کے اعمال کی خوشبو اتنی غالب آ جائے گی کہ جسم کی بدبولوگوں کے محسوسات سے ماورا ہوکر رہ جائیگی۔ اورخوشبوؤں کی اس منزل کی طرف سب سے زیادہ جو عمل راہنمائی کرتا ہے وہ روزہ ہے اور اس سفر میں سب سے زیادہ جو معاون بنتا ہے وہ قرآن ہے ۔ روزہ اور قرآن ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور جو ان کے ساتھ چلے اس کی مٹی سونا، اس کے پتھر پارس ، اس کے آنسو موتی اور اس کی بدبو خوشبو بن جایا کرتی ہے ۔
رمضان ایک بار پھر خوشبوئیں بانٹنے ہم میں موجود ہے ۔ ہم چاہیں تو پچھلے سارے برسوں کا ازالہ اس ایک رمضان میں کر سکتے ہیں۔ یا د رکھیے کہ اگر ہم نے اپنے مادی جسم کی بدبو کوروزے کی طاقت سے مغلوب کر نے کی کوشش نہ کی تو یہ بالآخر ہماری روح کو بھی بدبو داربناکر رکھ دے گی اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جنت میں بدبو دار روحیں داخل نہ ہوسکیں گی۔روحوں کو خوشبو دار بنانے کا ایک اور موقع اس رمضان کی شکل میں ہمیں عطا ہو گیا ہے ۔ اس سے فائدہ اٹھائیے ۔ایسا نہ ہو کہ اگلے برس رمضان کا یہ سیزن ہماری روحوں کو خوشبو دار بنانے کے لیے آئے اور ہمیں یہاں نہ پائے ۔