وہ ایک خاموش طبع اور محنتی استاد ہیں۔ان کے ہاں دوسری بیٹی کی پیدایش کے بعد میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے اس کا کیا نام تجویزکیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا، ‘رئیسہ فاطمہ’۔ میں نے کہا ، یہ نام رکھنے کی کوئی خاص وجہ؟ وہ تھوڑی دیر کے لیے مزید خاموش ہو گئے اور پھر انہوں نے کہا ، ہاں اس کی ایک وجہ ہے ۔میں ہمہ تن گوش ہو گیا کیونکہ ایسے لوگ اپنے دل کی بات کم ہی شیئرکیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ، سکول میں میری ایک ٹیچر تھیں، اُن کا نام تھا، رئیسہ ۔ میں نے اپنی بیٹی کا نام ان کی یاد میں رکھا ہے ۔اور جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے تو میں ان کے چہرے کے تاثرات سے محسوس کر رہا تھا کہ وہ کہیں بہت دور یادوں کی دنیا میں پہنچ چکے ہیں جہاں کچھ سپنے ہیں اور کچھ اپنے ہیں جو ان کے لیے بانہیں کھولے کھڑے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کی اس ٹیچر کی خاص بات؟ وہ کہنے لگے کہ مجھے میتھ سے سخت نفرت تھی پرائمری تک میرا یہی حال تھا ۔ یہ میری ٹیچر تھی جس کی محبت نے مجھے میتھ کا گرویدہ بنا دیا ،اور آج تم دیکھ رہے ہو کہ میں میتھ ٹیچر ہوں۔ وہ کہنے لگے یہ ٹیچر مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں ۔ مجھے اپنے پاس بٹھاتیں ۔ بڑے پیار سے میتھ سمجھاتیں اور مجھے بتاتیں کہ تمہارے لیے میتھ پڑھنا کوئی مشکل نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ میں ان کے حسن سلوک سے اتنا متاثر ہوں کہ آج تک انہیں یاد کرتا ہوں۔ لیکن وہ میرے سکول کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ شفٹ ہو گئیں اور اس کے بعد ان کا کچھ پتہ نہ چل سکا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ کہنے لگے کہ میں جب بھی انڈیا جاتا ہوں تو ایر پورٹ پر میری نگاہیں انہیں تلاش کرتی رہتی ہیں کہ شاید وہ بھی کسی امریکی فلائٹ پریہاں پہنچی ہوں اور میں انہیں سلام کر سکوں۔میں نے ان کا یہ جذبہ ایک اور ٹیچر کے ساتھ شیئر کیا تو وہ اپنے بارے میں بتانے لگے، کہ وہ آج اگر پڑھے لکھے جانے جاتے ہیں تو یہ بھی ایک ٹیچر کی محنت کا صدقہ ہے ۔ وہ کہنے لگے کہ ان کے لیے ٹیچر کا مطلب محض مارپیٹ تھا۔ اور وہ ہمیشہ سکول سے بھاگنے کے منصوبے بنایا کرتے تھے لیکن جب ایک ہندو ٹیچر ملیں اور انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور مجھے یہ باور کرانا شروع کیا کہ مجھ میں کتنی صلاحیت ہے تو میری دنیا ہی بدل گئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بہت اچھا لگتا کہ ٹیچر مجھے اپنے پاس بٹھاتی ہیں ، مجھ سے پیار سے بات کرتی ہیں اور مجھے بیٹا کہتی ہیں۔ ان کے پیار نے میرے اندر سے ایک نیا طالب علم دریافت کر لیا جو اپنی کلاس میں ٹاپ کرنے لگا۔
طالب علم کی تعلیمی اور اخلاقی ترقی میں جو چیز سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے وہ استاد کی اپنے طالب علموں سے محبت ہے اور ان کے لیے دعا کرنا ہے ۔ طالب علم کے دل کی دنیا استاد کی تعلیمی ڈگریوں، مہارت، تکنیک، تجربے یا جدید سمعی و بصری آلات کے استعما ل سے نہیں بدلتی بلکہ یہ استاد کے اپنے دل کی حالت ہے جو اس پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ استاد کی باقی سب مہارت اور قابلیت اس کے ماتحت ہے ۔ استاد اپنے طالب علم کے لیے جو جذبہ اور درد اپنے دل میں رکھے گا ، وہ بناکچھ کہے بھی اس تک منتقل ہو جائے گا اور اگر استاد اپنے دل میں تو شاگردوں کو لوٹنے کاجذبہ رکھے او رانہیں ٹیوشن کے لیے پھانسنے کے نسخے ڈھونڈنے کی فکر میں رہے اور زبان پر انتہائی تعلیمی اور تکنیکی گفتگو لائے تو شاید وقتی طور پر طالب علموں کو متاثر کر لے یا کچھ معلومات ان تک منتقل کر سکے مگر ان کو علم دے سکے اور ان کی زندگی تبدیل کر سکے یہ ممکن نہیں۔میں نے کلاس میں آنے والے ایک نئے بچے کو ایک تھپڑ لگایا تو وہ ناراض ہوااور غصے سے کہنے لگا کہ آپ نے مجھے کیو ں مارا ہے ؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا ، اس کے ساتھ بیٹھاہوادوسرا بچہ گویا ہوا ، ‘‘ بیٹھ جاؤ ، تمہیں پتہ نہیں ، سر، کا اصل میں ہاتھ مارتا ہے دل نہیں’’۔اس بچے کا یہ جملہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا آج وہ بچہ پتہ نہیں کہاں ہے لیکن جب بھی مجھے یاد آتا ہے میں اس کے لیے دعا کرتاہوں۔گیارہویں جماعت کے ایک لمبے تڑنگے اور صحت مند طالب علم کو کیمسٹری کے ایک چھوٹے سے استاد نے مارا تو اگلے دن وہ اپنی ماں کو لے آیا۔ میں نے اس سے کہا ، طلحہ تمہیں شرم نہیں آئی، تم اپنی والدہ کو کیو ں لے آئے ۔ استاد نے اگر تمہیں ایک تھپڑ لگا ہی دیاتھا تو کیا قیامت آ گئی تھی۔ کہنے لگا سر جی تھپڑ کی بات نہیں ۔ آپ اگر مجھے گراؤنڈ میں کھڑ ا کر کے جوتیاں بھی ماریں گے تو میں اف تک نہیں کروں گا۔ لیکن اُ س نے مجھے کیوں مارا ہے؟ میں نے کہا طلحہ وہ بھی تمہارے استاد ہیں۔ کہنے لگا نہیں سر جی آ پکو نہیں پتہ یہ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔میں حیران تھا کہ جذبے بن کہے بھی کس تیزی سے منتقل ہو اکر تے ہیں حالانکہ وہ اپنے سبجیکٹ کے بہت قابل استاد تھے لیکن وہ واقعتا ان بچوں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔
بد قسمتی سے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بھی اس حقیقت سے بے خبر ہے ۔ وہ بھی یہ سمجھتی ہے کہ استاد کو کورسزکروا کے ، ورکشاپس منعقد کروا کے اور کچھ گُر سکھا کے اچھا استاد بنا سکیں گے ۔ یہ ان کی بھول ہے ۔ استاد اپنا کام پوری لگن اور محنت سے کرے اس کے لیے ہر انتظامی حربے سے زیادہ موثر اس کے دل میں آخرت کا ا ستحضار پیدا کرنا ہے اور استاد یہ چاہے کہ اس کے طالب علموں کی زندگی بدل جائے تو اس کے لیے ہر تعلیمی تکنیک سے زیادہ اہم طالب علموں سے دل سے محبت کرناہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں ٹاٹ اور بوریے پر بیٹھنے والے ، دیواروں اور ریت پر سوال سمجھانے والے اور دیے کی روشنی میں طالب علموں کو پڑھانے والے استاد کی محبت نے کیسے کیسے اعلیٰ طالب علم پیدا کیے اور آج انٹر نیٹ ، سمعی بصری آلات ، الیکٹرانک بورڈز،بہتر ین فرنیچر اور ہر جدید سہولت سے آراستہ ماحول میں پڑھانے والا استاد کیسے کیسے ردی شاگر د پیدا کر رہا ہے ، یہ سب کے سامنے ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس ماحول میں بھی چند اچھے طالب علم مل جائیں گے لیکن اگر تقابل کیا جائے تو ماضی میں ہر سہولت سے محروم ماحول محض استاد کی محبت کی بدولت کتنے بہترین طالب علم پیدا کرر ہا تھا ا س کاتناسب یقینا آج سے کہیں زیادہ ہے ۔
ہم اصل میں ہر جگہ conceptual misconception کا شکار ہو چکے ہیں مذہب ، ریاست ، سیاست کیطرح تعلیم کی دنیا بھی لفظِ انقلاب کا غلط مفہوم اختیار کر چکی ہے جس طرح مذہب میں چند رسموں کو پورا کرنا انقلاب ، سیاست میں جلسے جلوس ، نعرے بازی اور توڑ پھوڑ انقلاب ، اور ریاست میں چند قوانین بنانے کا نام انقلاب سمجھا جانے لگا ہے اسی طرح تعلیم کی دنیا میں تعلیمی اداروں کی بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرنا اورانہیں ہر سہولت سے آراستہ کرنا انقلاب سمجھا جانے لگا ہے حالانکہ تعلیم کی دنیا میں انقلاب اصل میں طالب علموں کی زندگیاں بدلنے کا نا م تھا ۔ زندگی کا رخ بدل جانا یقینا ایک بڑا انقلاب ہے اور یہ بڑا انقلاب محبت کرنے والا استاد بڑی بلڈنگ کے بغیر بھی برپا کر سکتا ہے ۔صفہ کی تاریخ بھی اس پہ شاہد ہے اور رسول اللہﷺ کی باقی سیرت بھی اور رسولؐ کی سیرت سے بڑا ثبوت ایک حقیقی مسلمان کے لیے اور کیا ہو سکتاہے ؟