حجابِ شب میں تب و تابِ خواب رکھتا ہے
درونِ خواب ہزار آفتاب رکھتا ہے
کبھی خزاں میں کھلاتا ہے رنگ رنگ کے پھول
کبھی بہار کو بے رنگ و آب رکھتا ہے
بشارتوں کی زمینیں جب آگ اگلتی ہیں
اس آگ ہی میں گل انقلاب رکھتا ہے
کبھی برستے ہوئے بادلوں میں پیاس ہی پیاس
کبھی سراب میں تاثیر آب رکھتا ہے
سوال اٹھانے کی توفیق بھی اُسی کی عطا
سوال ہی میں جو سارے جواب رکھتا ہے
کبھی فغاں کی طرح رائیگاں اثاثہ حرف
کبھی دعا کیطرح مستجاب رکھتا ہے