کسی فکر کا جائزہ لینے کا اصولی طریقہ یہ ہے کہ اس بات کو موضوع بحث بنایاجائے کہ وہ فکر جن اصولوں پر قائم ہے وہ اصول صحیح ہیں یا غلط ۔ اگر وہ اصول صحیح ہوں تو پھر نتائج میں غلطی ہو جانازیادہ اہمیت نہیں رکھتا ۔اصول میں اگر ایک آدمی صحیح ہو، اس نے نقطۂ نظر درست قائم کیا ہو تو یہ ممکن ہے کہ جب وہ اپنے اصول کااطلاق کر ے تو اس میں غلطی کر جائے۔یہ وہ چیزہے جو ہر صاحب علم کے ہاں پائی جاتی ہے اس سے اگر کوئی ہستی مستثنٰی ہو سکتی ہے تو وہ صرف اللہ کے پیغمبر کی ہو سکتی ہے ۔ پرویز صاحب کی فکر کا معاملہ یہ نہیں ہے بلکہ اس کی کجی اصولی ہے۔ ان کی فکر کو ہم نہ صرف یہ کہ غلط سمجھتے ہیں بلکہ اسے امت کے لیے ضلالت بھی سمجھتے ہیں اور ہمارے نزدیک اس زمانے میں ان کو اس ضلالت کی پیشوائی کا شرف حاصل ہے۔اظہار کے ایک اسلوب کے طورپر یہ ایک سخت بات دکھائی دیتی ہے ۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کی تحقیقات کا جائزہ لینے کے بعد اس کے علاوہ شاید ہی کوئی تاثر قائم کیا جا سکے۔ پرویز صاحب کی فکر کی اساس ہی غلط ہے۔ اورجب اساس ہی غلط ہو توپھر نتائج کے معاملے میں اس کے سوا اورکیا کہا جا سکتاہے کہ تاثر یامی رود دیوار کج۔بنیاد صحیح نہیں ہے تو پھر جہاں تک دیوار اٹھایئے ٹیڑھی ہی رہے گی ۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعدہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ آخر وہ کیا چیزہے جو ان کے ہاں اصولی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔
پرویز صاحب کے اصول
جناب غلام احمد پرویز کا اصل امتیاز یہ رہا کہ انھوں نے بہت شدومد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ وہ قرآن مجید کے ایک طالب علم ہیں اور ان کے نتائج فکر تمام تر قرآن مجید سے ماخوذ ہیں۔ ان کے ماننے والوں نے بھی ان کو قرآن مجید کے ایک جلیل القدر مفکر کی حیثیت سے پیش کیا۔ وہ اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ وہ قرآن ہی سے سب کچھ لیتے ہیں اور جوکچھ کہتے ہیں قرآن ہی کی بنیاد پر کہتے ہیں۔قرآن ہی ان کی فکر کا محور ہے اس وجہ سے ان کے ہر نتیجہ فکر پر اس کی روشنی ہے۔ چنانچہ ماخذ کے اس تعین سے یہ آسانی پیدا ہوجاتی ہے کہ ان کی فکر پر تنقید کے لیے انہی کی فراہم کی ہوئی ایک بنیاد ہاتھ آجاتی ہے۔
اس تعین کے بعد دوسرے مرحلے میں اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید کے فہم کے لیے یا قرآن مجید تک رسائی کے لیے انھوں نے جو اصول قائم کیے ہیں وہ اصول کیا صحیح ہیں؟ اگر قرآن مجید پر تدبر کے اصولوں میں صحت ہے تو نتائج پرگفتگو ہو سکتی ہے اور ان میں سے کوئی چیز تسلیم بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جا سکتی ہے۔ ہماری علمی روایت میں یہ کوئی اجنبی چیز نہیں ہے۔ اگر فہم قرآن کے اصولوں میں صحت نہیں ہے اور اس میں بنیادی غلطی ہے تو اس کے بعد یہ ممکن ہے کہ کوئی ایک آدھ نتیجہ فکر صحیح ہو ، لیکن یہ ایک حادثہ ہوگا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ایسی نہیں جس سے کوئی صاحب علم اختلاف کرے۔اس حوالے سے جب ہم پرویز صاحب کے ان اصولوں کودیکھتے ہیں جو انھوں نے فہم قرآن کے ضمن میں قائم کیے ہیں تو وہ کسی طورپر درست معلوم نہیں ہوتے اب ہم ان اصولوں کو زیر بحث لاتے ہیں۔
زبان کے بارے میں پرویز صاحب کا اصول
قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے پرویز صاحب نے جو اصول اپنائے ہیں ان میں سب سے اہم اور بنیادی چیز، زبان کے بارے میں ان کا تصور ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ قرآن مجید زبان کے لبادے میں ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وہ باللفظ نازل ہواہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امت کو بھی باللفظ ہی منتقل ہواہے۔اب اس کی ہدایت کے غوامض اور اسرار جو بھی ہوں، ان کا دروازہ بہر حال زبان ہی ہے۔زبان کے اصول ، زبان کے قواعد جو کچھ بھی ہیں، وہ ایک حاکم کی حیثیت سے موجود رہیں گے۔ اگر کوئی شخص اس دروازے کے سوا کسی اوردروازے سے داخل ہونا چاہے گا تو ظاہر بات ہے کہ وہ کہیں اور چلاجائے گا اور اس پر کتاب کامدعا کبھی واضح نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے ہم اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ قرآن مجید کے فہم کے لیے اس کی زبان سے اعلیٰ سطح کی واقفیت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں جب لوگ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تو انھیں ہماری یہ بات اجنبی لگتی ہے کہ فہم قرآن کے لیے عربی زبان و ادب کا بڑا اعلیٰ ذوق ہونا چاہیے۔
زبان سے متعلق چند اصولی باتیں
اس سے پہلے کہ ہم جانیں کہ پرویز صاحب نے قرآن مجید کی زبان تک رسائی کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا ہے، زبان سے متعلق چند اصولی باتیں جان لینا ضروری ہیں۔
زبان کی تاریخ کا اگر علمی مطالعہ کیاجائے تو یہ معلوم ہوتاہے کہ اس کی ابتدا اصوات سے ہوئی۔ یعنی ہمارے منہ سے جو آوازیں نکلتی ہیں، انھی کے مختلف گروپ بن گئے ۔ اور وہ رفتہ رفتہ تعامل سے بامعنی ہوتے چلے گئے ۔ یعنی لفظ بنے ، پھر جملے اور یوں بامعنی کلام وجود میں آتا گیا۔اس کا مشاہدہ ہم اپنے گھروں میں کرتے ہیں، جب بچے کو ان مراحل سے گزرتا دیکھتے ہیں۔غور کیجیے تو معلوم ہوتاہے کہ وہ کس طرح مفردات سے مرکبات تک پہنچتاہے۔اسی طرح انسان کی زبان وجود میں آئی ۔ اب ظاہر ہے کہ زبان میں مسلسل ارتقا سے یہ چیزپیدا ہوگئی ہے کہ آج جو لفظ بھی ہم بولتے ہیں، اس کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ یعنی اگر آپ کسی لفظ کی تاریخ کا تتبع کریں، اس کے پیچھے پیچھے چلیں اور یہ جانیں کہ یہ کیسے بنا ہے تو ممکن ہے کہ آپ اس لفظ کی اصل تک پہنچ جائیں کہ یہ لفظ حقیقت میں کیا تھا؟ ارتقا کے کن مراحل سے گزرا؟ ابتدا میں کس مفہوم کاحامل تھا؟ بعد میں اس کے معنی میں کیا تبدیلی آئی؟یہ وہ سوالات ہیں، جوزبان کے ماہرین زیر بحث لاتے ہیں اور اس طرح لغوی تحقیق کا علم وجود میں آتاہے۔ ممکن ہے بعض اوقات ایسی تحقیق کسی نتیجے تک نہ پہنچے لیکن بالعموم اس طریقہ تحقیق سے ہم اس لفظ کی حقیقت تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جودنیا کی ہر زبان میں ہوتی ہے ۔ عربی زبان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے اختلاط سے نہیں بنی۔ اس لیے اس میں یہ تحقیق اور بھی آسان ہو جاتی ہے۔ اوراس میں ہم بہت آسانی کے ساتھ یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ ایک مادہ ہے جس سے مختلف الفاظ،مختلف مراحل میں بنتے چلے گئے۔ ہماری اپنی زبان اردو میں بھی یہی ہوتاہے۔ اردو چونکہ مختلف زبانوں کے اختلاط سے وجود میں آئی ہے، اس لیے جو لفظ آج مستعمل ہے، اس کے بارے میں یہ بتایا جا سکتا ہے کہ وہ کس زبان کا لفظ ہے۔ مثلاً وہ ہندی سے آیا ہے، فارسی سے آیا ہے یا عربی سے آیا ہے۔ اپنی اصل زبان میں وہ لفظ ظاہر ہے کہ کسی طریقے سے بنا ہوگا۔ اس زبان کی کتابوں میں اس کے بننے کی تاریخ موجود ہوگی۔اس طرح ہم تحقیق کرتے کرتے اکثر اوقات اس کی بالکل انتہا تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ لفظ مختلف ادوار میں کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے۔ یہ لسانیات کا بڑا دلچسپ موضوع ہے۔ اس موضوع پر عربی زبان میں بہت سی چیزیں لکھی گئی ہیں۔اردومیں بھی لکھی گئی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ آدمی یہ جان لیتا ہے کہ ہم جو لفظ آج بول رہے ہیں یہ لفظ کیا پس منظر رکھتاہے اور اس میں یہ معانی کیسے پیدا ہوئے ہیں؟ ، لیکن اس ساری بحث میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس کا تعلق علم لسانیات سے ہے، زبان کے فہم سے نہیں ، یہ بالکل دوسری چیز ہے۔ کسی کلام کا متکلم جب اپنا مدعا بیان کرتاہے تواس میں یہ چیزکوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ جولفظ اس نے استعمال کیا ہے، اس لفظ کی تاریخ کیا ہے؟ اس میں جو چیز بہت اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے یہ لفظ جب استعمال کیا اس وقت یہ کس معنی میں بولا جاتاتھا؟ جو محاورہ استعمال کیا گیا اس زمانے میں اس کا کیا مفہوم تھا؟ یہ چیز بالکل بدیہی ہے۔ تفہیم کلام کے لیے ہم اردو زبان سے چند مثالیں پیش کررہے ہیں ۔ جو اصول یہاں پیش نظر ہے، ظاہر ہے، ان کا اطلاق دیگر زبانوں پر بھی ہوگا۔
۱۔ ہم اردو زبان میں ایک لفظ کثرت سے بولتے ہیں ‘‘شوربا’’۔ آج بھی ہم یہ لفظ بولتے ہیں اور آج سے پہلے بھی یہ لفظ بولا جاتا رہا ہے۔آج اگر کوئی یہ کہے کہ مَیں نے شوربے کے ساتھ روٹی کھائی ہے تو ہمارا مخاطب فوراًاس کا مفہوم سمجھ لیتاہے۔اس مفہوم کو سمجھ لینے کے بعد وہ ہمارے مدعا کو پالیتا ہے۔ اس کو اس میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ یعنی وہ ‘‘مَیں نے شوربے سے روٹی کھائی ہے۔’’ کا جملہ سن کر نہ تو ‘‘مَیں’’ کی لسانی تاریخ سے بحث کرتاہے ، نہ ‘‘نے’’کی تحقیق کرتا ہے نہ تو اسے ‘‘روٹی ’’ کا لسانی پس منظر جاننے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی اسے ‘‘کھائی ہے ’’ کی لغوی تاریخ سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے ۔ وہ اگر اردو زبان سے واقف ہے تو ہم جیسے ہی یہ جملہ بولتے ہیں وہ اپنے متعارف علم کی بنیاد پر ہمارا مفہوم سمجھ لیتاہے ۔ یہی بات زبان میں اصل اہمیت رکھتی ہے ۔ اب فرض کیجیے کہ علم ودانش کی کسی مجلس میں کوئی لسانیات کاماہر ہے۔ اس سے یہ سوال کیا جاتاہے کہ یہ لفظ ‘‘شوربا’’ کیسے بنا۔ تووہ مثال کے طور پر کہتاہے کہ اصل میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوتاہوا آیا ہے۔ ‘‘شوربا’’ نمک کوکہتے ہیں۔ اب بھی فارسی میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوتاہے، اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ سمندر کواسی وجہ سے دریائے شور کہا جاتاہے اور ‘‘با’’ پانی کو کہتے ہیں۔ تو یہ لفظ نمکین پانی کے لیے مستعمل تھا۔ رفتہ رفتہ ایک خاص طرح کے سالن کے لیے استعمال ہونے لگا ، ماہر لسانیات کی اس تحقیق سے ہمیں یہ روشنی ملی کہ یہ لفظ کیسے بنا، اس کا پس منظر کیاہے، لیکن وہ مفہوم جو متکلم نے یہ جملہ ‘‘مَیں نے شوربے سے روٹی کھائی ہے ’’ بول کرادا کرنا چاہا تھا، اس مفہوم میں نہ تو اس تحقیق سے کوئی اضافہ ہوا اور نہ ردوبدل۔یہ بحث اگر لسانیات کے دائرے میں رہے تو اس کی داد بھی دی جاسکتی ہے اور اس سے لطف بھی اٹھایا جا سکتاہے۔ لیکن یہ جملہ اگر ایک مصنف نے اپنی کتاب میں لکھ دیا کہ مَیں نے شوربے سے روٹی کھائی۔ اوراس کتاب پر دو چار پانچ دس صدیاں گزر گئیں۔ اس کے بعد ایک آدمی نے اس کتاب کی شرح لکھنے کا ارادہ کیا۔شرح لکھتے وقت فطری اصول یہ ہوگا کہ شارح یہ دیکھے کہ جب یہ کتاب لکھی گئی اس وقت شوربا کس مفہوم میں استعمال ہوتاتھا۔وہ اگر اس زمانے کی تحقیق کرے گا تواس کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ خاص طرح کے سالن کو شوربا کہا جاتاتھا تو وہ مصنف کا مفہوم صحیح سمجھ لے گا۔ لیکن اس کے برخلاف اگر اس نے کہیں سے لسانیات کی کوئی کتاب اٹھالی اور شوربے کی تاریخ پر تحقیق کرنا شروع کر دی اور تحقیق کرنے کے بعد اس نے یہ معلومات حاصل کر لیں کہ ‘‘ شور’’ اصل میں نمک کو کہتے ہیں اور ‘‘با’’ اصل میں پانی کو کہتے ہیں اور پھر اس جملے کا یہ مطلب بیان کردیا کہ مصنف نے نمکین پانی سے روٹی کھائی ہے ، تو اس نے نہ صر ف علم اور زبان پر ظلم کیا، بلکہ مصنف پر بھی ظلم کیا۔مصنف یہ بات نہیں کہنا چاہتاتھا۔ یہ اس کامدعا ہی نہیں تھا۔ اس نے نمکین پانی سے ہرگز روٹی نہیں کھائی بلکہ ایک خاص طرح کے سالن سے روٹی کھائی ۔ شارح نے چونکہ لفظ کے استعمال اور رائج مفہوم کونظر انداز کیا، اس لیے وہ مصنف کی بات کو صحیح طورپر بیان کرنے میں ناکام ثابت ہوا۔
۲۔ ایک لفظ ہے ‘‘ ٹیلی وژن ’’۔ فرض کرلیجیے کہ ایک شخص کہتاہے ‘‘مَیں نے ایک ٹیلی وژن خریدا’’ اس زمانے کا ہر آدمی جانتا ہے کہ ‘‘ٹیلی وژن’’ کیا ہے۔ ایک خاص آلہ ہے، زبان سے یہ لفظ ادا کرتے ہی اس کا ایک تصور ذہن میں آتاہے۔ لیکن اگر کوئی اس جملے ‘‘مَیں نے ایک ٹیلی وژن خریدا’’کی لسانی تحقیق شروع کر دے اور یہ کہے کہ لغت کے مطابق ٹیلی کا مطلب ہے انتقال اور وژن کے معنی ہیں منظر ، اس لیے اس شخص نے ایک ‘‘انتقال ِمنظر’’ خریدا، تو لسانیات کی یہ تحقیق صحیح ہونے کے باوجود ایک لغوبات ہوگی اور کلام کی غلط تفہیم۔ کسی متکلم کی بات کا مفہوم جاننے کے لیے لسانیات کی اس قسم کی تحقیق کی پرِکاہ کے برابر اہمیت نہیں۔ جو آدمی اس طرح کی حرکت کرے گا، اس کے بارے میں دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں یا تو یہ کہ اس بے چارے کو زبان سے ، ادب سے، اسالیب کلام سے کوئی واقفیت نہیں ہے ، وہ اس معاملے میں قطعاً لا علم ہے اور یا یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر اپنی بات متکلم کے منہ میں ڈالنا چاہ رہاہے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک بات لازماً کہنی پڑے گی ۔
زبان ہی سے متعلق ایک اور بات جان لیجیے کہ ہر زبان میں تشبیہ بھی ہوتی ہے ، استعارہ بھی ہوتا ہے ، تمثیل بھی ہوتی ہے ۔ مثال کے طورپر ایک شخص کہتا ہے ‘‘جب سے میں نے دوپہر کا کھانا کھایا ہے ، معلوم ہوتاہے کہ سینے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ’’ اس جملے کو سننے کے بعد اردو زبان سے واقف کوئی عامی بھی یہ نہیں کہے گا کہ متکلم کے سینے میں کسی نے دو چار لکڑیاں گھسادی ہیں اور ان کو آگ لگی ہوئی ہے۔ ہر آدمی یہ جانتا ہے کہ آگ کا لفظ یہاں مجازاً بولا گیاہے۔ یعنی اس سے مراد وہ آگ نہیں ہے جو چولہے میں جلتی ہے ۔ اب اس جملے پر غور کیجیے ‘‘خاتون نے چولہے میں آگ جلائی ، غلطی سے ساتھ رکھے ہوئے کپڑے نے آگ پکڑ لی اور تھوڑی دیر میں پورا گھر آگ کی لپیٹ میں تھا’’ ۔ ان جملوں میں جو لفظ ‘‘آگ ’’استعمال ہوا ہے، اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ اصل میں اس سے مراد سینے کی آگ ہے، ظاہر بات ہے کہ اس کے بارے میں کیا رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ یعنی ہم یہ مانتے ہیں کہ آگ کا ایک حقیقی مفہوم ہے اور آگ کا ایک مجازی مفہوم بھی ہے۔لیکن یہ بات کہ یہ لفظ ایک جملے میں حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے یا مجازی، اس کا تعین جملے کا اسلوب کرے گا،سیاق و سباق کرے گا۔ یعنی ہر آدمی جانتاہے کہ کہاں سینے کی آگ لگی ہوئی ہے اور کہاں چولہے کی آگ لگی ہوئی ہے۔جب ہم یہ مصرع پڑھتے ہیں ‘‘دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ’’ تو ہم جانتے ہیں کہ یہاں کون سی آگ مراد ہے جو برابر دونوں طرف لگی ہوئی ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ صاحب تو غالباً اپنی موم بتی کودونوں طرف سے جلا کر بیٹھ گئے ہیں۔لیکن اگر کوئی آدمی اس طرح کے سیاق میں آگ کا لفظ استعمال کرتا ہے جس میں سینے کی آگ کے معنی میں لینے کے لیے کوئی قرینہ ہی موجود نہیں ہے تو دو ہی باتیں ہوں گی۔یا تو وہ اس زبان کے اسالیب سے جاہل ِ محض ہے۔یا کوئی خاص مقصد ہے جس کے تحت وہ سینے کی آگ کوچولہے کی آگ بنانا چاہتا ہے ، اور چولہے کی آگ کو سینے کی آگ بنانا چاہتا ہے۔
ایک اور مثال لیجیے ایک شخص ایک استاد سے کہتا ہے کہ آپ کے فلاں شاگر د نے تو کمال کر دیا۔اس نے ایسے حسن و خوبی سے بات کی کہ مخاطب کے چھکے چھڑا دیے ۔ہم نے کہا تم تو شیر ہو شیر۔ان جملوں سے کسی مخاطب کو بھی یہ شبہ نہیں ہو گاکہ اس جملے میں شیر سے مراد وہ شیر ہے جس کو اس کے بچے کل چڑیا گھر میں دیکھ آئے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہاں شیر کا مفہوم کیا ہے۔اور اگر کوئی یہاں چڑیا گھر کا شیر مراد لے تو زبان کا معمولی علم رکھنے والا بھی اس سخن فہمی کا ماتم کئے بغیر نہ رہ سکے گا۔
حضرت مسیح علیہ السلام ایک بہت اعلی درجے کے خطیب ہیں ۔وہ بالعموم تمثیل کے اسلوب میں کلام کرتے ہیں ۔ انجیل ان کے ایسے خطبوں سے بھر ی پڑی ہے۔مثال کے طور پر ایک موقع پر انہوں نے ارشاد فرمایا۔تم کو میں کیا کہوں ’ تم جس کے انتظار میں ہو۔تمہار ا حال تو یہ ہے کہ تم گیارہ کنواریاں ہو۔تیل کی کپیاں بھر کے بیٹھی ہو تم کومعلوم نہیں کہ دولہے نے کس وقت آناہے۔تم انتظار کر رہی ہوکہ دیا جلاتی رہیں گی لیکن جب دولہے کے آنے کا وقت ہوا تو تم سو گئیں۔
یہ تمثیل ہے ۔ اس کلام میں ہر آدمی جانتا ہے کہ ایسے قرائن موجود ہیں جو واضح کر رہے ہیں کہ یہ نہیں تھا کہ واقعی حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم میں گیارہ دلہنیں تھیں اور وہ تیل کی کپیاں لیے بیٹھی تھیں۔ بلکہ بات کو تمثیل سے سمجھایا گیا ہے۔
اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام فریسیوں اور فقیہوں سے خطاب کر کے کہتے ہیں۔‘‘ بد بختو !تم نے میرے شاگر دوں پر اعتراض کیا کہ انہوں نے ہاتھ دھو کر کھانا نہیں کھایا ۔ تم تو وہ ہو کہ مچھروں کو چھانتے ہواور اونٹوں کو نگل جاتے ہو’’۔
یہاں ہر شخص سمجھتاہے کہ یہاں اونٹ کو نگلنے سے کیامرادہے۔ یعنی وہ اونٹ جو صحرائے عرب میں پایا جاتاہے ، اس کو سموچانگل لینا مراد نہیں۔یہاں مجاز کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ ایک بڑی عمدہ تمثیل میں انھوں نے اپنا مدعا بیان کیاہے۔یہاں الفاظ اور اسالیب اپنا مفہوم خود بتا رہے ہیں۔ اس کے لیے تشریح کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کے موقع پر اپنی امت کی طرف سے دو اونٹ ذبح کیے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں بعض بڑی بڑی عصبیتیں ذبح کر دیں اور ذبح کرنے سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے ان سب عصبیتوں کو لیا جو اس وقت عرب کی جاہلیت میں پائی جاتی تھیں اوراپنے پاؤں کے نیچے رکھ دیا تو ظاہر ہے کہ اس سیاق وسباق میں اس مفہوم کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ الفاظ کسی کلام میں حقیقی یامجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں تو یہ جملوں کا دروبست ہے، جو یہ تعین کرتاہے کہ کہاں کون سا لفظ حقیقی مفہوم میں ہے اورکہاں مجازی میں۔
قرآن مجید بھی ظاہر ہے کہ ایک زبان میں نازل ہواہے پھر وہ ایک مربوط کلام ہے۔ اس کی تفہیم میں بھی یہ تمام امور پیش نظر رہیں گے۔یعنی اس میں جتنے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ہم ان کے مادوں کی تحقیق بھی کر سکتے ہیں کہ وہ مختلف ادوار میں ترقی کرتے ہوئے اس مفہوم تک کیسے پہنچے ہیں۔ لیکن یہ تحقیق اگراس مقصد کے لیے کی جائے کہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ لفظ میں یہ معنی کیسے پیداہوئے؟تویہ لسانیات کی بڑی اعلیٰ بحث ہوگی اور اگر یہ تحقیق اس مقصد کے لیے کی جائے کہ لفظ کا وہ مفہوم جس میں وہ آج استعمال ہوتاہے یا اس وقت استعمال ہوتا تھا ،اس کوتبدیل کرکے ایک نیا مفہوم اس میں شامل کر دیا جائے تو اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو ہم مثالوں سے واضح کر چکے ہیں ۔ یعنی قرآن کی آیات کا صحیح مفہوم ہماری نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔
ہم اس بحث کوعربی کی ایک مثال سے سمجھتے ہیں ‘‘لفظ’’ عربی زبان کامصدر ہے۔ مصدر عربی قاعدے کے مطابق اسم فاعل اوراسم مفعول دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے یہ لفظ کے معنی میں عربی میں بھی مستعمل ہے ، اور اردو میں بھی استعمال ہوتاہے۔ دونوں زبانوں میں اس کے معنی ایک ہیں۔ لیکن اگر اس کے مادے کی تحقیق کی جائے تو اس کا مطلب ہے ‘‘پھینکی ہوئی چیز’’ ۔ کسی چیز کو اگر پھینک دیں تو کہیں گے ‘‘لفظ’’ ۔ اب فرض کیجیے کہ اگر کوئی آدمی یہ کہے ‘‘میں نے ایک لفظ بولا’’ اور آپ یہ کہیں کہ اس نے ایک پھینکی ہوئی چیز بولی ، تو اس تحقیق کی کوئی کیا داد دے گا؟وہ یہی کہے گا کہ آپ زبان سے بالکل واقف نہیں ہیں۔
عربی زبان میں ایک دو حضرات نے لسانیات کے پہلو سے لغت ترتیب دی ہے۔ ان میں ایک تو امام راغب ہیں، جن کی مشہور لغت ،قرآن مجید کے مفردات پر ہے اور دوسرے ایک اور صاحب ہیں جنھوں نے ‘‘مقاییس اللغتہ ’’ لکھی ہے ان دونوں نے لسانیات کے پہلو سے اپنے لغات میں بتایا ہے کہ کوئی لفظ حقیقت میں کیا تھا ۔ اب فرض کیجیے کہ یہ چیز کسی آدمی کے سامنے آگئی ۔ اس نے سوچا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اب ایک راز میرے ہاتھ لگ گیاہے ، تو اب میں اس کے ذریعے تشبیہوں کو ، استعاروں کو ، مطالب کو ، مفاہیم کو ہر چیز کو بدل ڈالوں گا۔ یہ حرکت جیساکہ ہم نے عرض کیا ایسا ہی شخص کرسکتاہے جو زبان سے اور اس کے قواعد اور اسالیب سے بالکل نا واقف ہواور یا اس صورت میں کر سکتاہے کہ وہ جانتے بوجھتے ایک بات کو نہیں ماننا چاہتا اور ایک دوسری بات متکلم کے منہ میں ڈالنا چاہتاہے ،اور اب اس نے زبان کے اس پہلوکو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیاہے۔
زبان میں ‘‘ عرف ’’ کا مقام
عربی زبان ہی نہیں اردو زبان کا بھی ایک اورپہلو ہے جسے عرف کہتے ہیں ۔ زبان کے اعتبار سے یہ عرف نہ صرف یہ کہ ہر معاشرے میں ہوتاہے ۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر بعض اوقات ایک شاعر’ ایک ادیب ’ ایک محقق اور ایک فلسفی کے کلام میں بھی ہوتاہے ۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں ‘‘خودی ’’ کو جس معنی میں استعمال کیا ہے وہ اس سے پہلے شاید ہی کسی نے استعمال کیاہو۔ جس مفہوم میں یہ لفظ انھوں نے استعمال کیا ہے، اس سے بالکل مختلف، ہمارے ہاں یہ ایک برے مفہوم میں مستعمل تھا۔ لیکن اس لفظ کو انھوں نے ایک مخصوص مفہوم دیا اور اس کو اپنے فلسفے میں ایک اعلیٰ جگہ دی۔ یہ ان کا عرف ہے۔ یہ لفظ اب اقبال کے ہاں اپنے لغوی مفہوم میں نہیں رہا۔ علامہ اقبال کے کلام میں اس کو اقبال کے عرف کی روشنی میں دیکھا جائے گا اور عرف کی روشنی میں سمجھا جائے گا۔ مثال کے طورپر یہ لفظ سر سید کے ہاں ایک منفی مفہوم میں استعمال ہوتاہے۔ سرسید کے مضامین کا مطالعہ کرتے وقت اگر ہم خودی کواس کے مخصوص عرف سے اٹھا کر لغوی یا پھر اقبال کے عرف میں لینا شروع کر دیں تو اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ سرسید کی بات کا مفہوم کتنا بدل جائے گا۔
ایک اور مثال لیجیے ۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ وہ گاڑی جس کو ہم ‘‘تیز گام’’ کہتے ہیں اصل میں مسافر ٹرین ہے اور وہ گاڑی جوساہیوال سے چلتی ہے اور ہر اسٹیشن پر رکتی ہے ، وہ بھی مسافر ٹرین ہے ۔ لغت کے لحاظ سے تو دونوں ہی مسافر گاڑیاں ہیں لیکن اگر کوئی آدمی یہ کہتاہے کہ میں پیسنجر ٹرین سے آیاہوں تو کوئی بھی اس سے مراد تیز گام نہ لے گا۔بلکہ یہ سمجھ جائے گا کہ وہ ایسی ٹرین پر آیاہے جو ہر اسٹیشن پر رکتی ہے ۔ یہ معاشرے کا عرف ہے۔ یعنی لغت میں لفظ کاایک مفہوم موجود ہے۔ لیکن معاشرے کے عرف نے اس کو بالکل دوسرے مفہوم میں مستعمل کردیا ہے یہ وہ چند معروف باتیں ہیں جو کسی زبان اور اس میں موجود کلام کی تفہیم میں پیش نظر رہنی چاہییں۔ ان کو نظر انداز کرنے سے ہم کلام کے مفہوم سے دور سے دور تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
پرویز صاحب کی اصل غلطی
قرآن مجید کے ساتھ پرویز صاحب نے دراصل وہی سلوک کیاہے جس کو ہم نے بعض مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے قرآن کی زبان کواس کے استعمال ، عرف اورہر چیز سے جدا کر کے لغت سے سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ یعنی قرآن مجید کے اس عرف کوجومعاشرے نے پیدا کیا، وہ عرف جو سیاق و سباق نے پیدا کیا، وہ عرف جومتکلم نے پیدا کیااسے ملحوظ رکھے بغیر اس کے الفاظ کو اسی طرح کے معانی پہنا دیے جیسے کوئی علامہ اقبال کے کلام میں خودی کا وہ مفہوم داخل کردے جو لغت میں لکھا ہوا تھا۔ اسی طرح سے ایک مقام پر کوئی قرینہ موجود نہیں کہ لفظ کو مجازی مفہوم میں لیا جائے لیکن وہ اس کا مجازی مفہوم ہی لینے پر مصر ہیں۔ مثلا جملہ یہ ہے کہ میری بیوی چولہے میں آگ جلا کر چائے بنا رہی ہے اور وہ اس بات پر مصرہیں کہ یہاں آگ سے مراد حسد کی آگ ہے ایک مقام پر تشبیہہ اور استعارے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ زبان انکار کرتی ہے کہ وہاں حقیقی مطلب کے علاوہ کوئی اور مفہوم ماناجائے لیکن وہ اس کو تشبیہہ اور استعارے کے مفہوم میں لے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ جو بات متکلم کہنا چاہتا ہے وہ کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے۔ اس کے لیے وہ وہی طریقے استعمال کرتے ہیں جواس سے قبل ہم بیان کر چکے ہیں۔ یعنی جہاں لفظ کے ایک مفہوم کو وہ قبول نہیں کرنا چاہتے، یا یہ کہیے کہ ان کوغلطی لگی ہے، دونوں ہی صورتیں ہوسکتی ہیں، تو ایسے موقع پر وہ مادے کی تحقیق پیش کریں گے، اس مادے کی تحقیق سے وہ اس لفظ میں ایک نیا مفہوم پیدا کریں گے، جس سے ضروری نہیں کہ اہل عرب بھی واقف ہوں۔ لیکن وہ نیا مفہوم پیدا کرکے آیت کی تاویل کر دیں گے ۔ جیسے ہم نے گذشتہ سطور میں بیان کیاکہ وہ مادے کی تحقیق کریں گے اور یہ جملہ کہ میں نے ایک ٹیلی وژن خریدا، کا مطلب بیان کر دیں گے کہ میں نے ایک ‘‘انتقال منظر’’ خریدا۔ وہ عرف کو نظر انداز کر دیں گے اور تمثیل اور تشبیہ وہاں پیدا کردیں گے جہاں ان کو کوئی قرینہ ہی نہیں ہے۔
ہم اس بات کے قائل ہیں کہ تنقید سے پہلے ایک فرد کے بارے میں ممکن حد تک حسن ظن سے کام لینا چاہیے ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ تفہیم کلام میں غلطی لگ جائے اوریہ وہ بات ہے جس سے کوئی غیر معصوم مستثنیٰ نہیں ہے۔ تاہم بعض ‘‘تحقیقات ’’ ایسی ہوتی ہیں کہ حسن ظن سے کام لینا آسان نہیں ہوتا۔ پرویز صاحب کامطالعہ کرتے وقت بھی ایک ایسا مرحلہ آتاہے جب صاف یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ قرآن مجید کی بعض صریح باتوں کو نہیں ماننا چاہتے اور جب نہیں ماننا چاہتے تو پھر اس کے بعد وہ یہ طریقے اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس تاثر کے باوجود کہنا یہی چاہیے کہ ہوسکتاہے کہ ان کو غلطی لگی ہو۔
ہمارے پیش نظر ان کی تصانیف ‘‘مفہوم القرآن’’ اور ‘‘لغات القرآن’’ ہیں ۔ ‘‘مفہوم القرآن’’ میں انھوں نے اپنی تحقیق کے مطابق قرآن مجید کا مفہوم بیان کیاہے اور ‘‘لغات القرآن ’’ میں انھوں نے اپنے بیان کردہ مفہوم کاپس منظر اور اس کا علمی استدلال واضح کیا ہے۔ ہم اپنے اس تاثر کی تائید میں ان دونوں کتابوں سے چند مثالیں پیش کر رہے ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوجائے گا کہ وہ قرآن کی آیات سے کس طرح نئے معنی دریافت کرتے ہیں۔
‘‘ مفہوم القرآن ’’ میں ایک جگہ جناب غلام احمد پرویز نے سورہ نمل کے ان مقامات کی تشریح کی ہے، جن میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے واقعات زیر بحث ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ان مقامات کے انتخاب کا سبب یہ نہیں کہ پرویز صاحب کے ہاں یہی چند مثالیں ہیں، جہاں انھوں نے اپنا مخصوص انداز تحقیق استعمال کیاہے۔ اس انتخاب کا سبب یہ ہے کہ یہ مقامات تفہیم مدعا کے لیے سہل ہیں، ورنہ صورت حال یہ ہے کہ ‘‘مفہوم القرآن’’ کی تینوں جلدیں اگر ابتدا سے پڑھنی شروع کر دی جائیں تو ان میں سے ہر صفحہ اس کی مثال ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب آئیے سورۂ نمل کی طرف ۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کی روانگی کا ذکر ہے۔
قرآن اس کو اس طرح بیان کرتا ہے: وحشر لسلیمن جنودہ من الجن و ا لانس والطیر فھم یوزعون۔(النمل۔۱۷)
یعنی حضرت سلیمان علیہ ا لسلام کے لیے سارا لشکر اکٹھا کیا گیا جس میں جن بھی تھے، انسان بھی تھے اور پرندے بھی تھے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والا لفظ ‘‘ جن ’’ عربی زبان کا معروف لفظ ہے۔ یہ اردو زبان کا بھی معروف لفظ ہے ۔ اسی طرح لفظ ‘‘انس’’ عربی کا معروف لفظ ہے جو اردو میں بھی استعمال ہوتاہے۔ انس وجان کے علاوہ ‘‘طیر ’’ بھی اردو میں استعمال ہوتاہے اور عربی میں بھی ۔ پرویز صاحب کے لیے یہ تسلیم کرنا توآسان تھا کہ ‘‘انس ’’ کا مطلب آدمی ہے۔ اس لیے کہ اس دنیا میں آدمی تو بہر حال پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات کہ جن اور پرندے بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں شامل تھے، ان کے لیے ماننا آسان نہیں تھا۔ اس مسئلے کاحل انھوں نے یہ دریافت کیا کہ ‘‘جن ’’ اور ‘‘طیر ’’ دونوں کو ویسے ہی تختہ مشق بنایا جیسے ہم نے گذشتہ صفحات میں شور بے کی مثال پیش کی ہے۔
‘‘جن’’ عربی کا معروف لفظ ہے۔ اگر کوئی آدمی اس پر تحقیق کرے تویہ کہے گا کہ جنوں کوجن اس لیے کہتے ہیں کہ عربی میں جن، جنا، جنون کے معنی ہیں چھپاہوا۔ یہ چونکہ نظرنہیں آتے اس وجہ سے ان کو جن کہا جاتاہے ایک دوسرا محقق داد تحقیق دیتے ہوئے یہ کہتاہے کہ جنہ کے معنی ہوتے ہیں ‘‘ چھپاہوا’’ ۔ لہذاچھپی ہوئی مخلوق سے مراد صحرا کے باشندے بھی ہو سکتے ہیں۔(لغات القرآن جلداول ص ۴۴۷)
پرویز صاحب چونکہ ‘‘جن’’ کو ‘‘انس’’ کی طرح الگ سے کوئی مخلوق ماننے پرآمادہ نہیں، اس لیے انھوں نے لغت کو سامنے رکھتے ہوئے جنوں کوصحرا کے باشندے بنادیا۔ اسی اصول کا اطلاق انھوں نے ‘‘طیر’’ پر بھی کیا،لیکن وہاں معاملہ کچھ الجھ گیا۔ ‘‘طیر’’ عربی زبان میں اتنا معروف اور عام استعمال ہونے والا لفظ ہے کہ کوئی دوسرا لفظ تلاش کرنا شاید مشکل ہو جائے۔ چونکہ وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں پرندے بھی ہو سکتے ہیں ، اس لیے انھوں نے اس معروف معنی سے انحراف کی جوکوشش کی، وہ علم کی دنیا کاایک عجوبہ ہے۔ لفظ ‘‘طیر’’ کی تحقیق کے ضمن میں اس کے مختلف مفاہیم بیان کرتے ہوئے وہ ‘‘لغات القرآن’’ میں لکھتے ہیں: فرس طیار، ہوشیار اور تیز رفتار گھوڑے کو کہتے ہیں ۔ سورہ نمل میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر جن ’ انس اور طیر پر مشتمل تھے۔جن سے مرادوحشی قبائل ہیں ۔ انس مہذب آبادیاں اور طیرتیز رفتار گھوڑے ہیں۔ (لغات القرآن ج۔۳۔ص۱۱۰۵)
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ مفہوم کہاں سے برآمد ہوا۔ عربی زبان کی تمام لغتوں میں اگر اس کے تمام استعمالات کودیکھا جائے تو ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ طیر گھوڑے کے لیے استعمال ہوتاہو۔ہم یہ جملہ کہہ سکتے ہیں ‘‘یہ گھوڑا کیا ہے؟ یہ تو اڑتا ہواپرندہ ہے ’’ یہاں جملہ خود بتا رہاہے کہ گھوڑے کے لیے مجازاً پرندے کالفظ استعمال کیاگیا ہے۔ یہ زبان و بیان کا ایک اسلوب ہے، لیکن اگر قرینہ موجود ہی نہیں ہے تو پھر ‘‘طیر ’’ کے معنی پرندے ہی کے ہوں گے۔پرویز صاحب نے مثال دی ‘‘فرس طیار ’’ یعنی تیز رفتار گھوڑا ۔ اس مقام پہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جب فرس کا لفظ بولاجائے گا اور ساتھ طیار بولا جائے گا تویہ معنی اس میں پیداہوجائیں گے لیکن یہ معنی مجازاً پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم مجازی مفہوم میں جہاز کوطیارہ کہہ دیتے ہیں۔ لیکن جب لفظ ‘‘طیر ’’ ان سارے قرینوں سے بالا تر ہو کر آئے گا یعنی اس کے ساتھ‘‘ فَرَس ’’ نہیں لکھا گیاتو اس کے معنی گھوڑے کے کیسے ہو جائیں گے ؟ وہ تو پرندہ ہی رہے گا۔
معلوم ہوتاہے کہ پرویز صاحب کوبعد میں یہ خیال پیدا ہواکہ یہ دوراز کارتاویل ہے تو انھوں نے ‘‘مفہوم القرآن ’’ میں اس کو مختلف اندازسے بیان کیا۔یہاں انھوں نے لکھا:‘‘سلیما ن علیہ السلام کے لشکروں میں شہروں کے مہذب باشندے ’ جنگلوں اور پہاڑوں کے دیو ہیکل وحشی اور قبیلہ طیر کے شاہ سوار سب شامل تھے’’ (مفہو م القرآن۔ ج۲۔ص۸۶۴)
گویا ‘‘لغات القرآن’’ سے ‘‘مفہوم القرآن’’ تک آتے آتے تیزرفتار گھوڑے قبیلہ طیر کے شاہسواروں میں تبدیل ہوگئے۔ اگر پہلا مفہوم لیا جائے توغرابت محسوس ہوتی ہے اس لیے یہاں انھوں نے یہ ترجمہ کردیا۔اب اس تاویل پر بھی ایک نظر ڈالیے۔
یہ ‘‘قبیلہ الطیر’’ کیا چیزہے؟ کسی قبیلے کا نام قرآن نے لینا ہوتو کیا اس کا یہی طریقہ ہے؟ یعنی ‘‘الطیر’’ کہہ دیا جائے کہ ساری دنیا اس مصیبت میں پڑی رہے کہ یہ ‘‘پرندے’’ ہیں لیکن اس سے اصلاً مراد قبیلہ ہے۔ اگر کسی قبیلے کانام بھی ‘‘الطیر’’ ہو تو اس کے لیے بھی زبان اور بیان کا ایک قرینہ ہو گا اورزبان اور بیان کے قواعد میں وہ چیز موجود ہوگی کہ اس کوجان لیا جائے۔ قرآن مجید میں صحرا کے باشندوں، جنگل میں رہنے والوں کے لیے معروف لفظ ‘‘اعراب ’’ استعمال ہواہے۔فرض کریں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ لشکر میں یہ لوگ تھے تو قرآن نے جہاں صحرا کے باشندوں کاذکر کیاہے تو کہا ہے ‘‘وَقَالَتِ الْاَعْرَابْ اٰ مَنَّا’’ اعراب ایک معروف لفظ ہے۔اب ایک معروف لفظ کوچھوڑ کر قرآن نے ایک نیا لفظ استعمال کیا جس سے نہ عربی زبان واقف تھی نہ عرب واقف تھے۔ گویا کسی طرح بھی یہ تاویل اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس کے بعد پرویز صاحب فرماتے ہیں‘‘جب یہ سب لشکر تیار ہو گئے ‘‘حَتّٰی اِذَآ اَتَوْا عَلٰی وَادالنَّمْل‘‘ یہاں تک کہ وہ وادی نمل میں آئے۔
نمل عربی زبان کا معروف لفظ ہے جو چیونٹیوں کے لیے بولتے ہیں۔ یعنی مطلب ہوگا کہ چیونٹیوں کی وادی میں آئے۔ یہ قرآن مجید کا مشہور مقام ہے لوگ اسے جانتے بھی ہیں لیکن پرویز صاحب کے لیے یہ بڑا مشکل مقام ہے جو بات آگے بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وہاں چیونٹی نے گفتگو کی اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے سن لی۔ ان کے لیے یہ ماننا بہت مشکل کام ہے۔ وہ اپنے ذوق کے تحت اس کو نہیں ماننا چاہتے ۔ اس لیے انھوں نے جو راستہ اختیار کیا ، وہ بہت دلچسپ ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:‘‘ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم ہو ا کہ سبا کی مملکت ان کے خلاف سرکشی کا ارادہ رکھتی ہے چنانچہ وہ بطور حفظِ ما تقدم اس کی طرف لشکر لے کر روانہ ہوئے۔اس راستے میں وادی نمل پڑتی تھی۔ملکہ سبا کی طرح اس مملکت کی سر براہ بھی ایک عورت تھی۔ جب اس نے اس لشکر کی آمدکی خبرسنی تو اپنی رعایاکوحکم دیاکہ وہ اپنے گھروں میں جا کرپناہ گزیں ہوجائیں۔ (مفہوم القرآن ج.۲. ص۸۶۴)
یہاں ان کے نزدیک نملہ ایک عورت کانام ہے جووادی نمل کی تھی۔اب دیکھیے یہ تسلیم کرنے سے کیامسئلہ پیدا ہوتاہے۔ قرآن مجید نے کہا قَالَتْ نَمْلَۃٌ نمل اسم جنس ہے۔نملہ چیونٹی کو کہتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ عورت اس قبیلے کی سربراہ تھی تو عربی کے کس قاعدے کی رو سے یہ نکرہ استعمال ہوسکتاہے۔اسے ایک نملہ (A NAMLA) تو نہیں کہہ سکتے "THE NAMLA" ہی کہیں گے۔ لیکن قرآن میں تو یہاں قَالَتْ نَمْلَۃٌ کہا ہے یعنی نکرہ استعمال ہواہے۔ دوسری بات یہ ہوسکتی ہے کہ نملہ اس کا نام تھا اوریہ بات نمل سے معلوم ہوتی ہے ۔لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ عربی زبان کے معروف استعمال کے خلاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت قبیلہ بنی عبدالشمس کی ہوتو کیا کہیں گے؟ عبدالشمسیہ کہیں گے یا کہ عبدالشمسہ ؟ یعنی فرض کیجیے کہ قرآن مجید نے یہاں کہنا ہوتا کہ ‘‘قبیلہ نمل کی عورت ’’ توکیا قرآن کہتا قَالَتْ نَمْلَۃٌ؟ جب آپ ایک پاکستانی بولیں گے تو نسبت کے لیے ‘‘ی’’ لگائیں گے، اس کے بعد لفظ میں یہ مفہوم پیداہوگا۔ پرویز صاحب نے زبان کے سب مسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرکے فرمایا :ان کی سربراہ بھی ایک عورت تھی ’’ اوراس کا نام اس لیے نملہ آیا ہے کہ وہ قبیلہ نمل سے تعلق رکھتی تھی۔ اگر فرض کیجیے کہ اس کو قبیلہ نمل کی عورت کے معنی میں لیں تو عربی زبان کی رو سے یہ ضروری ہو گا کہ قَالَتْ نَمْلَیۃ کہاجائے گویا علاقے سے نسبت کریں یا قبیلے سے بہرحال اسی طرح بولیں گے۔ اب اسی سورہ میں پہلے ذکر ہوا کہ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ اَلطَّیْر یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے اوپر اللہ کا یہ احسان بیان کیا ہے کہ ہم کو پرندوں کی زبان سکھائی گئی۔ منطق معروف لفظ ہے۔ طیر بھی معروف لفظ ہے۔ پرویزصاحب کے لیے یہ ماننا مشکل ہے کہ سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان سکھائی گئی ان کے نزدیک طیر سے مراد ہے گھوڑوں کا لشکر اورعُلِّمْنَا مَنْطِقَ اَلطَّیْر سے مراد ہے گھوڑوں کے لشکر کو سدھانے اور استعمال میں لانے کے قواعد اور ضوابط جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو سکھائے (مفہوم القرآن ج ۲ ص ۸۶۳) سوال یہ ہے کہ عربی زبان کا کوئی جاننے والا لفظ منطق کو اس معنی میں بولے گا؟ طیر کو اس معنی میں بولے گا؟اس کا کوئی امکان نہ اردو میں ہے نہ عربی میں۔
سورہ نمل کے ساتھ جو سلوک پرویز صاحب نے کیا وہ ان کی قرآن فہمی کی ایک مثال ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ وہ قرآن کو کیا سمجھتے ہیں اور انھیں کتاب اللہ کا کتنا احترام ہے اور اپنے خیالات کے سامنے قرآن کوکس مقام پر رکھتے ہیں ؟ اگرچہ یہی مثال پرویز صاحب کے فہم قرآن کے اصول سمجھنے کے لیے کافی ہے لیکن اپنے نقطۂ نظر کی مزید وضاحت کے لیے ہم قرآن کا ایک اور مقام دیکھتے ہیں۔ اذا لشمس کورت واذا النجوم انکدرت واذا الجبال سیرت واذا لعشار عطلت واذا لوحوش حشرت واذا البحار سجرت واذا لنفوس زوجت واذا الموؤدۃ سئلت بای ذنب قتلت واذا الصحف نشرت واذا السماء کشطت واذا لجحیم سعرت واذا الجنۃ ازلفت علمت نفس ما احضرت۔
جب کہ سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور تارے بے نور ہو جائیں گے ۔پہاڑ چلا دیے جائیں گے اور دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں آوارہ پھریں گی ۔وحشی جانور اکٹھے ہو جائیں گے اور سمند ر ابل پڑیں گے جب کہ نفوس کی جوڑیں ملائی جائیں گی اور زند ہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گاکہ وہ کس گنا ہ پر ماری گئی۔جب کہ اعمال نامے کھولے جائیں گے اور آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔ جب کہ دوزخ بھڑکا دی جائے گی اور جنت قریب لائی جائے گی ۔ تب ہرجان کو پتہ چلے گا کہ وہ کیالے کر آئی ہے۔
اس سورہ میں قیامت کے اس زلزلے کا ذکر ہے جس میں پہاڑ اپنی جگہ سے چل پڑیں گے۔ ستارے اپنے مقام سے گر پڑیں گے۔ سورج پر تیرگی چھا جائے گی۔ اس میں وہ آیت بھی آتی ہے جو قرآن مجید کے اسلوب کا شاہکار ہے کہ زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تمھیں کس گناہ میں قتل کیا گیا۔ واذالمؤدۃ سئِلت. بایِّ ذنبٍ قتلت۔ کیونکہ عرب لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔ اس کے لیے ‘‘مودۃ’’ کا لفظ کلام عرب میں اتنا عام لفظ ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اب ذرا دیکھیے کہ پرویز صاحب ان آیات کامفہوم کس طرح بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ‘‘کسی آنے والے دور میں جب انسانوں کے خود ساختہ نظام تمدن و معاشرت کی جگہ قرآنی نظام لے لے گا تو اس وقت کی انقلابی کیفیات سے متعلق یوں سمجھو کہ ملوکیت کا نظام لپیٹ دیا جائے گا اور ان کے اہالی موالی( چھوٹی چھوٹی ریاستیں) سب جھڑ کر نیچے گر جائیں گی ۔ ان کا شیرازہ بکھر جائے گا۔
ان کی قوت ماند پڑ جائے گی اور پہاڑوں جیسے محکم امرا و روسا اپنی اپنی جگہ سے ہل جائیں گے۔ اور جن رسل و رسائل مثلااونٹوں کو اس وقت اتنی اہمیت دی جا رہی ہے ۔ وہ سب بے کار ہو جائیں گے اور وحشی او ر نامانوس قومیں بھی اجتماعی زندگی کی طرف آتی جائیں گی اور سمندورں میں آمدو رفت کا سلسلہ اتنا وسیع ہو جائے کا کہ ہر وقت بھرے بھرے دکھائی دیں گے اور ان کے کناروں کی بستیاں بھی بڑی آباد ہو جائیں گی اور اطراف و اکناف کی آبادیا ں ایک دوسرے کے ساتھ ملتی جائیں گی ۔جب ان لڑکیوں کے متعلق پوچھا جائے گا کہ جنہیں معاشرہ زندہ درگور کر دیتا ہے اور ان بے چاریوں کا پرسان ِ حال کوئی نہیں ہوتا۔ا ن سے پوچھا جائے گا کہ انہیں بالآخر کس جرم کی پاداش میں ذبح کیا جاتا رہا۔ یعنی عورتوں کو ان کے حقوق دلائے جائیں گے اور اخبارات و رسائل جگہ جگہ پھیل جائیں گے او راجرام فلکی پر پڑے ہوئے پردے ایک ایک کر کے اٹھتے جائیں گے ۔ ان کے حالات دریافت کئے جائیں گے۔تو اس وقت خدا کے قانونِ مکافات کا عمل تیز تر ہو جائے گاکیونکہ اس وقت آخر الامر وہ نظام متشکل ہو جائے گا جس میں ہر معاملہ انصاف اور قانون کے مطابق طے پائے گالہذا اس کی رو سے مجرمین کے لیے جہنم کے شعلے تیزی سے بھڑک اٹھیں گے اور اس نظام کی پابندی کرنے والوں کے لیے جنتی معاشرہ قریب تر لایا جائے گا۔یعنی اس وقت ہر شخص اپنے اپنے عمل کے نتائج اپنے سامنے بے نقاب دیکھے گا۔ (مفہوم القرآن ج.۳ ص.۱۴۱۸)
اب اس پرکیا تبصرہ جاسکتا ہے؟ زبان وبیان کے جن اصولوں کا ہم نے اس سے قبل ذکر کیا ہے ان کی روشنی میں دیکھ لیجیے انھوں نے کیا کِیا ہے؟انھوں نے زبان کے عرف کو، زبان کے سیاق کو’ اس کے سباق کو، الفاظ کے ان مدلولات کو جو واضح ہیں، تشبیہ اور تمثیل کے ان طریقوں کو، جن میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی ، بالکل تلپٹ کرکے ہمیں اخبارات اور رسائل کی دنیا میں پہنچا دیا ہے اور وہ آیت جس کو پڑھ کر طبیعت لرز اٹھتی ہے اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ قرآن نے اس زمانے کا ذکر کیا ہے جب عورتوں کو ان کو حقوق دلائے جارہے ہیں۔یعنی یہ تحریکِ آزادیِ نسواں (FEMINISM) کا تذکرہ ہے اس ترجمہ کی روشنی میں اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ پرویز صاحب نے قرآن مجید کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی کوئی چیزان کے مدعا کے خلاف محسوس ہوئی اس کو انھوں نے تبدیل کر دیا ۔ یہ پرویزصاحب کے ترجمے اور تفسیر کا انداز ہے اس بنیاد پر ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ اب دو باتیں ہوسکتی ہیں یا تو یہ کہ وہ زبان اور اس کے اسالیب ،اس کے مفہوم کو طے کرنے کے طریقوں سے ناواقفِ محض ہیں یایہ ہے کہ وہ ان حقائق کوجو قرآن میں بیان ہوئے ہیں ماننا نہیں چاہتے چنانچہ جہاں جہاں وہ ماننا نہیں چاہتے وہاں انھوں نے تمثیل ،تشبیہ اور عرف کے یہ اصول اختیار کرکے قرآن کی وہ تشریح کی ہے جس کی تصویر سورہ تکویر کے مفہوم کی صورت میں پیش کی گئی ہے ۔
یہ وہ بنیادی اور اصولی چیز ہے جس کی وجہ سے ہم پرویز صاحب کے سارے نقطۂ نظر ہی کو ضلالت سمجھتے ہیں اور چونکہ انھوں نے بڑے زور و شور کے ساتھ ہمارے نئے تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے جو ان چیزوں کی حقیقت سے واقف نہیں ہے اسے پیش کیا اس لیے اس کی حقیقت واضح کرنا پڑی ۔ قرآن فہمی کے باب میں یہ اتنی بنیادی اور بڑی غلطی ہے کہ اس کے بعد کوئی چیزاپنی جگہ پر باقی نہیں رہتی۔ اس لیے پرویز صاحب کی فکر کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ دین کو سمجھنے کا ایک زاویہ ہے، جیسے اس سے قبل امت میں مختلف نقطہ ہائے نظر رہے ہیں۔ پرویزصاحب کی تعبیر نہ تو علمی ہے اور نہ ہی امت کے اجتماعی تعامل کے مطابق ہے ، اس لیے اسے اس روایت سے الگ کرکے دیکھنا پڑے گا ، جسے ہم امت کی علمی روایت کہتے ہیں۔
خطاب ، جاوید احمد غامدی
تحریر، شکیل احمد عثمانی
٭٭٭