حبیب جالب کہتے ہیں ، حرار رہنما سید عطاء اللہ شاہ بخاری بے پناہ خطیب اور مقرر تھے۔ ان کا یہ عالم تھا کہ وہ کسی جلسے میں صبح تک بلا تکان تقریر کرتے اور لوگ ان کو سنا کرتے۔ ان کے خطبات اور تقریروں میں ایسا جادو تھا کہ لوگ انہیں سن کر کبھی روتے تو کبھی ہنستے۔ وہ بہت بڑے عالم تھے۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے میری ملاقات شیخ حسام الدین نے ماڈل ٹاؤن میں کرائی تھی۔ شیخ حسام الدین نے مجھ سے کہا کہ دو ایک شعرترنم سے سناؤ۔ میں نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو اپنی یہ غزل سنائی تھی جس کا مطلع تھا۔۔۔
اپنوں نے وہ رنج دیے ہیں بے گانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں
اور مقطع تھا کہ
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں
ان کے دل کی حالت بڑی نازک تھی۔ غزل کے اشعار سن کر ان پر رقت طاری ہو گئی اور انھوں نے مجھے پڑھنے سے روک دیا۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کے ترقی پسندوں سے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ جیل میں رہنے کی وجہ سے وہ سب لوگوں سے ملا جلاکرتے تھے۔ وہ خود ایک انقلابی آدمی تھے۔ ساحر لدھیانوی کا ایک بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ان سے اپنی ایک قطعہ بند غزل کا دوسرا شعر نہیں ہو رہا تھا۔
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
ساحر لدھیانوی فوراً سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے پاس گئے اور ان سے جا کر کہا کہ مجھ سے دوسرا شعر نہیں ہو رہا ہے۔ شاہ صاحب نے سنا اور اسی وقت دوسرا شعر کہہ دیا کہ
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
ساحر نے پوچھا کہ ‘‘ یہ شعر میرا ہے ؟ ’’ انھوں نے کہا کہ ‘‘ ہاں اب تمہارا ہو گیا۔
(جالب بیتی، صفحہ ۲۴۸، طاہر اصغر ،جنگ پبلشرز لاہور،اگست ۱۹۹۳ء)