از: سعادت حسن منٹو (انتخاب: کاشف علی خان شروانی)
سعادت حسن منٹو اردو ادب کے سب سے بڑے لیکن سب سے متنازعہ افسانہ نگار ہیں۔خاص طور پر مذہبی حلقوں میں انھیں کبھی بھی کھلے دل سے قبول نہیں کیا گیا۔ جبکہ ان کے کئی افسانے واقعتا قابل داد ہیں۔ انھیں افسانوں میں سے ایک ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بنیادی موضوع اپنی مٹی سے جدائی کا دکھ ہے۔ افسانہ 1947 کی تقسیم کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ایک پاگل بشن سنگھ ہے اور یہ منٹو کاکمال فن ہے کہ انھوں نے موضوع کی رعایت رکھتے ہوئے ایک پاگل کو مرکزی کردار کی حیثیت سے چنا ۔ایسا شخص جس کا ذہن الٹ چکا ہو، اس کی جذباتی زندگی بڑی محدود ہوتی ہے ۔ عام گزرنے والے حالات و واقعات کا اس کی زندگی پر بڑا معمولی اثر ہوتاہے۔ افسانہ نگار نے دکھایا ہے کہ زمیں سے جدا ہونا اسے بھی قبول نہیں ہوتا۔منٹو نے متاثرہ افراد کی ایک انتہائی صورت لے کر پورے افسانے کو انتہائی معنی خیز بنا دیاہے۔اس افسانے کی دوسرے خوبی بشن سنگھ کا یہ جملہ ہے ‘‘اوپڑ دی گڑگڑ دی انیگس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین ’’ بشن سنگھ کے پاس اپنے ہر جذبے کے اظہار کے لیے یہی ایک جملہ ہے۔ جب بشن سنگھ کے سامنے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جدائی کا مسئلہ آتاہے تو وہ اس جملے کے ذریعے سے پہلے اپنی بے چینی کا اظہار کرتاہے۔ پھر یہی بے چینی احتجاج، غصہ اور بالآخر فریاد میں بدل جاتی ہے۔ اورجب فریاد بھی بے اثر ثابت ہوتی ہے تو افسانے کا اختتام ان الفاظ پر ہوتاہے۔
‘‘سورج نکلنے سے پہلے …………ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا’’
منٹو کے اس افسانے کا شمار اردو ادب کے بہترین افسانوں میں ہوتاہے۔ اب یہ افسانہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ افسانہ خود منٹو کے بارے میں قارئین کی کئی آراء کی ترتیب بدل دے گا’’۔
بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جومسلمان پاگل ، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ، پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے ۔
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول ، بہرحال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہو گیا ۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی ۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے، وہیں رہنے دئیے گئے تھے۔جو باقی تھے، ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو ، سکھ جا چکے تھے۔ اس لیے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔جتنے ہندو، سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دئیے گئے ۔
ادھر کا معلوم نہیں، لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی توبڑی دلچسپ
چہ مے گوئیاں ہونے لگیں۔ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہرروز باقاعدگی کے ساتھ ‘‘زمیندار ’’ پڑھتا تھا، اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا: ‘‘مولبی ساب ; یہ پاکستان کیا ہوتا ہے ؟’’ تو اس نے بڑے غور وفکر کے بعد جواب دیا : ‘‘ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔’’
یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہوگیا۔
اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا:‘‘سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جارہاہے ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی ۔’’
دوسرا مسکرایا: ‘‘مجھے تو ہند ستوڑوں کی بولی آتی ہے ہندوستانی بڑے شیطانی ، آکڑ آکڑ پھرتے ہیں۔’’
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے ‘‘پاکستان زندہ باد’’کانعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔
بعض پاگل ایسے بھی تھے جوپاگل نہیں تھے۔ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے ،ا فسروں کو دے دلا کر ، پاگل خانے بھجوا دیا تھاکہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیاہے۔لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی بے خبر تھے۔اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی ان پڑھ اورجاہل تھے۔ان کی گفتگوؤں سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کوقائداعظم کہتے ہیں۔اس نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے یہ کہاں ہے، اس کا محلِ وقوع کیا ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا ،اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں اگر ہندوستان میں ہیں توپاکستان کہاں ہے!
اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے!
ایک پاگل توپاکستان اور ہندوستان،اور ہندوستان اورپاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتاراہوا کہ اورزیادہ پاگل ہوگیا۔جھاڑودیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کوکہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ڈرایا دھمکایا گیاتو اس نے کہا:‘‘میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں میں اس درخت ہی پر رہوں گا۔’’
بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تووہ نیچے اتر اور اپنے ہندو ، سکھ دوستوں سے گلے مل مل کررونے لگا۔ اس خیال اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائیں گے۔
ایک ایم ۔ایس ۔سی پاس ریڈیو انجینئرجو مسلمان تھا اوردوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ، باغ کی ایک خاص روش پر ، سارا دن خاموش ٹہلتا رہتاتھا، یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کردفعدار کے حوالے کر دئیے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کردیا۔
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جومسلم لیگ کا سرگرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا ، یک لخت یہ عادت ترک کردی۔اس کا نام محمد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تاراسنگھ بن گیا۔قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کردیا گیا۔
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہوکر پاگل ہوگیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرادیا تھا ، مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دتیا تھا جنہوں نے مل ملا کرہندوستان کے دوٹکڑے کردئیے اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اوروہ پاکستانی۔
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تووکیل کوکئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برانہ کرے، اس کوہندوستان بھیج دیا جائے گا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔اس لیے کہ اس کاخیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔
یورپین واڑد میں دواینگلوانڈین پاگل تھے۔ ان کوجب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کرکے انگریز چلے گئے ہیں توان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی۔یورپین واڑد رہے گایا اڑا دیاجائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گایا نہیں۔کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہرمار نہیں کرنا پڑے گی۔
ایک سکھ تھا جس کوپاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب وغریب الفاظ سننے میں آتے تھے‘‘اوپڑ دی گڑگڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین۔’’۔دن کو سوتاتھا نہ رات کو۔ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سویا۔لیٹتا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتاتھا۔
ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں ، مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ہندوستان ، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا: ‘‘او پڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ۔’’
لیکن بعد میں آف دی پاکستان گورنمنٹ کی جگہ اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھناشروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے، وہ خوداس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سناہے کہ پاکستان میں ہے، کیا پتا ہے کہ لاہور جواب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یاسارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے ، اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتاتھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہو جائیں۔
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہوکر بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتاتھا اس لیے داڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہوگئی تھی۔ مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے، وہ اس کے متعلق جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کر ا گئے۔
مہینے میں ایک بار ملاقات کے لیے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کرکے چلے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔پر جب پاکستان ، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا۔
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کویہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے یاکتنے سال بیت چکے ہیں۔لیکن ہرمہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لیے آتے تھے تواسے اپنے آپ پتاچل جاتا تھا۔چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آرہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا ، بدن پر خوب صابن گھستا اور سرمیں تیل لگاکر کنگھاکرتا۔اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا، نکلوا کے پہنتا اوریوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یاکبھی کبھار ‘‘اوپڑدی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین ’’ کہہ دیتا۔
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہرمہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہوگئی تھی۔بشن سنگھ اس کو پہچانتاہی نہیں تھا۔وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کودیکھ کر روتی تھی ، جوان ہوئی تب بھی اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کا قصہ شروع ہوا تواس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیاکہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے ۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔پہلے تواسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا کہ ملنے والے آرہے ہیں پر اب جیسے اس کی دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمدکی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جواس سے ہمدردی کااظہار کرتے تھے اوراس کے لیے پھل ، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقینا اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یاہندوستان میں کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کوخدا کہتاتھا ۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں تو اس نے حسب عادت قہقہہ لگایا اور کہا : ‘‘وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔اس لیے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا ’’۔
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو، مگر وہ بہت مصروف تھا اس لیے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آکر وہ اس پر برس پڑا :‘‘اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف واہے گورجی داخالصہ اینڈ وا ہے گوروجی کی فتح …… جو بولے سونہال ،ست سری اکال۔’’
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو …… سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا، ملاقات کے لیے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا، مگر سپاہیوں نے اسے روکا: ‘‘یہ تم سے ملنے آیاہے…… تمہارا دوست فضل دین ہے۔’’
بشن سنگھ نے فضل دین کوایک نظر دیکھااور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پرہاتھ رکھا: ‘‘میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی …… تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے۔ مجھ سے جتنی مدد ہوسکی میں نے کی…… تمہاری بیٹی روپ کور…………’’
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا : ‘‘بیٹی روپ کور! ’’
فضل دین نے رک رک کر کہا: ‘‘ہاں …… وہ …… وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ان کے ساتھ ہی چلی گئی۔’’
بشن سنگھ خاموش رہا۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا : ‘‘انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیرخیریت پوچھتا رہوں…… اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جارہے ہو…… بھائی بلبیر سنگھ اوربھائی ددھاواسنگھ سے میرا سلام کہنا۔ اوربہن امرت کور سے بھی ………… بھائی بلبیر سے کہنا فضل دین راضی خوشی ہے۔ دو بھوری بھینسیں جووہ چھوڑ گئے تھے، ان میں سے ایک نے کٹّا دیاہے……اور دوسری کے کٹی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مرگئی ………… اور ………… میرے لائق جو خدمت ہو کہنا میں ہر وقت تیار ہوں ………… اوریہ تمہارے لیے تھوڑے سے مرونڈے لایاہوں۔’’
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کردی اور فضل دین سے پوچھا : ‘‘ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟’’
فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا : ‘‘کہاں ہے…… وہیں ہے جہاں تھا۔’’
بشن سنگھ نے پھر پوچھا : ‘‘پاکستان میں یاہندوستان میں ؟’’
‘‘ہندوستان میں …… نہیں نہیں ،پاکستان میں۔ ’’ فضل دین بوکھلا سا گیا۔
بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا: ‘‘اوپڑ دی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی درفٹے منہ !
تبادلے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ ادھر سے اُدھر اور اُدھرسے اِدھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کادن بھی مقرر ہو چکا تھا۔
سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔واہگہ کے بارڈر پر طرفین کے سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کاروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کولاریوں سے نکالنا اوران کودوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض توباہر نکلتے ہی نہیں تھے۔جو نکلنے پر رضا مند ہوتے تھے ، ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا کیونکہ ادھرادھر بھاگ اٹھتے تھے جوننگے تھے، ان کوکپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کراپنے تن سے جدا کردیتے …… کوئی گالیاں بک رہے ہے۔ کوئی گارہا ہے۔ آپس میں لڑجھگڑ رہے ہیں۔ رو رہے ہیں ، بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی…… پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی، اس لیے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جارہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے، ‘‘پاکستان زندہ باد’’ اور پاکستان مردہ باد’’ کے نعرے لگا رہے تھے۔ دوتین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آگیا تھا۔
جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسراس کا نام رجسٹرمیں درج کرنے لگا تواس نے پوچھا : ‘‘ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے …… پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟’’
متعلقہ افسر ہنسا : ‘‘پاکستان میں ۔’’
یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا: ‘‘ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے…… ’’ اور زور زور سے چلانے لگا: ‘‘اوپڑ دی گڑگڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان۔’’
اسے بہت سمجھایاگیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیاہے……اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائے گا، مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی ۔ اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اورتبادلے کا باقی کام ہوتا رہا سورج نکلنے سے پہلے ساکت وصامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی …… ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جوپندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا، اوندھے منہ لیٹا ہے۔ ادھر خاردارتاروں کے پیچھے ہندوستان تھا…… ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان ۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا!