‘‘نہیں اماں، میں تو آج عید کی کوئی کہانی سنوں گا۔’’ یوسف مچل رہا تھا۔ ہر روز کی طرح آج بھی وہ اپنی دادی اماں سے کہانی سننے کی ضد کر رہا تھا۔
‘‘اچھا اچھا شور مت مچاؤ ۔ سناتی ہوں کہانی۔’’ دادی اماں نے بستر ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
‘‘عید کی کہانی سنوں گا میں ، ہاں!’’
‘‘بیٹے، عید ہی کی کہانی سننا۔’’
تھوڑی دیر بعد دادی اماں کہہ رہی تھیں:
‘‘بیٹے میں تمھیں آج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ سناتی ہوں۔ ایک دفعہ عید کے روز جب آپ باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا …… بڑے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے …… ’’
‘‘دادی اماں! یہ کہانی تو مجھے آتی ہے …… میں بتاؤں پھر کیا ہوا؟’’
‘‘ہاں بتاؤ!’’
‘‘آپ اس بچے کو اپنے گھر لے آئے، اسے نئے کپڑے پہنائے اور کھانا کھلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ کیا ہوا جو تمھارے والد فوت ہو چکے ہیں۔ میں تمھیں اپنا بیٹا بنا لیتا ہوں۔’’
‘‘شاباش بیٹے! تمھیں تو سچ مچ یہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔’’
‘‘ہاں دادی اماں …… ’’ یوسف نے کہا اور خاموش ہوگیا۔ اب اس نے دوبارہ کہانی کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ چھت کو گھورنے لگا۔ لگتا تھا کہ کسی گہری سوچ میں ہے۔
اگلے دن وہ اپنے والد کے ساتھ درزی کی دکان پر اپنے سلے ہوئے کپڑے لینے گیا۔ وہاں پر اسے چھوٹے بڑے کئی لڑکے کام کرتے نظر آئے۔ کچھ تو بالکل چھوٹے چھوٹے تھے۔ وہ بٹن ٹانک رہے تھے۔ ایک لڑکا اسے بالکل اپنا ہم عمر نظر آیا۔ اس کی نگاہیں اس پر ٹک گئیں۔ اس نے میلے کچیلے، پرانے سے کپڑے پہن رکھے تھے۔ سخت گرمیوں کے موسم میں سردیوں کے موٹے کپڑے۔ اچانک اس نے یوسف کی طرف دیکھا۔ یوسف کو اپنی طرف اس قدر غور سے دیکھنے پر اس کی نگاہیں اٹھیں، مگر یوسف کی چمکدار آنکھیں ابھی بھی اسے مسلسل دیکھ رہی تھیں۔ وہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ یوسف کو یوں معلوم ہوا کہ جیسے اس کی آنکھوں میں دو آنسو تیر رہے ہوں، اور جو گرنے کے لیے بے تاب ہوں!
‘‘چلو بیٹا چلیں ۔’’ اچانک اس کے ابو نے کہا اور وہ چپکے سے ان کے ساتھ ہو لیا۔
یوسف کے ذہن میں وہ ننھا درزی ہی چھایا ہوا تھا کہ اس کے کان میں موٹر سائیکل کی انتہائی بے ڈھنگی آواز آئی۔ آواز کیا تھی کان پھاڑ دینے والا شور تھا۔ ماتھے پر تیوری چڑھائے، پریشانی کے ساتھ اس نے آواز کا تعاقب کیا۔ اسے سڑک پر ایک ورکشاپ نظر ائی۔ بہت ساری موٹر سائیکلیں اور سکوٹر کھڑے تھے۔ کالے سیاہ بھجنگ کپڑے پہنے ایک مستری موٹر سائیکل کو ٹھیک کر رہا تھا۔ وہ اس کا ایکسی لیٹر دباتا تو سائی لینسر اتری موٹر سائیکل سے بجلی کے کڑکے جیسی آواز نکلتی اور ساتھ ہی سفید دھواں ساری سڑک پر پھیل جاتا۔ یوسف نے مستری کے ساتھ ایک چھوٹے سے لڑکے کو بھی دیکھا۔ چہرے پر کالک، ہاتھ کالے سیاہ، کپڑے میلے، دھوئیں، پٹرول اور پتا نہیں کن کن چیزوں سے لتھڑے ہوئے۔ پھر اسے اس جیسے کئی اور بچے نظر آئے۔ وہ چاہتا تھا کہ رک کر انھیں دیکھے مگر اس کے ابو اس کا ہاتھ پکڑے ورکشاپ کے سامنے سے گزر گئے۔
درزی کی دکان کے بچے …… ورکشاپ کے ننھے مستری، اسے سب ایک سے لگے …… ان سب کے چہرے اس کی آنکھوں میں گھومنے لگے۔ ان سب کی آنکھوں میں محرومی کے آنسو تیر رہے تھے۔ وہ سب اس سے کہہ رہے تھے …… پرسوں عید ہے مگر عید کیا ہوتی ہے؟ عید تو ان کی ہے، جن کے پاس نئے کپڑے ہیں، جن کی جیب عیدی کے نوٹوں سے بھری ہوتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہ روتا ہوا بچہ آگیا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لے گئے تھے اور پھر اس کے بدن پر پھٹے پرانے، میلے کچیلے کپڑوں کے بجائے اجلے کپڑے تھے۔ چہرے پر آنسوؤں کی جگہ مسکراہٹوں کا ڈیرا تھا۔ اس مسکراتے بچے کو دیکھ کر اس کا ڈوبتا اور غم زدہ دل بھی کھل اٹھا۔ اس کے پریشانی سے مرجھائے چہرے پر اطمینان اور سکون کے آثار نظر آنے لگے۔
ظہر کی نماز کے بعد وہ اپنی والدہ سے کہہ رہا تھا: ‘‘امی! مجھے اس دفعہ کتنی عیدی ملے گی؟’’
‘‘یہ تمھیں کیا ہو گیا ہے، پہلے سے ہی پوچھنا شروع کر دیا!’’ اس کی امی حیرت سے بولیں۔
‘‘نہیں آپ بتائیں نا! کتنی ملے گی عیدی؟’’
‘‘بھئی کمال ہے ندیدے پن کی ! اچھا تم بتاؤ کتنی چاہیے تمھیں عیدی؟’’ امی نے کہا۔
‘‘مجھے آج ہی چاہیے عیدی، میں پرسوں نہیں لوں گا۔’’ یوسف نے مچلتے ہوئے کہا۔
‘‘کیوں، پرسوں کا دن نہیں آئے گا کیا؟ بھئی عجیب لرکا ہے یہ !’’
‘‘نہیں …… مجھے نہیں معلوم …… میں تو آج ہی لوں گا اور ابھی !’’
دادی اماں یوسف کی ضد سن رہی تھیں۔ بولیں: ‘‘بیٹی دے دو اسے، آج اور پرسوں میں فرق ہی کا ہے۔ پتا نیں میرے لاڈلے کو کتنی ضرورت ہو گی۔ تم نہیں دیتیں تو میں دے دیتی ہوں۔’’
‘‘اماں جان، دے دیتی ہوں۔’’
انھوں نے جھٹ سے عیدی یوسف کے ہاتھ میں تھما دی۔ یوسف نے خوشی خوشی روپے جیب میں ٹھونسے اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ عصر کی نماز کے بعد وہ چپکے سے گھر سے باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا بھی تھا۔ درزی کی دکان پر بیٹھنے والے لڑکے کا اس نے گھر کسی طرح معلوم کر لیا تھا۔ وہ اب اس کے گھر پہنچ چکا تھا۔ اس کا گھر کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ دروازہ کھٹکھٹانے ہی کو تھا کہ اس کے کانوں میں کسی کے رونے کی آوز آئی۔ اس کے ہاتھ خود بخود رک گئے۔
‘‘مجھے نہیں معلوم، میں تو نئے کپڑے پہنوں گا۔ سارے دوست پہن رہے ہیں۔’’ یہ ایک لڑکے کی آواز تھی۔ ‘‘بیٹے! میں تمھیں کہاں سے لا کر دوں نئے کپڑے! تمھارا باپ زندہ ہوتا تو لا دیتا۔ تم اللہ کا شکر کرو کہ دو وقت کی روٹی کھا لیتے ہو …… اور بیٹے!’’ آواز میں اب بہت پیار اور دلاسا تھا …… ‘‘جلدی جلدی سیکھو کام ، جب تم کپڑے سینا سیکھ جاؤ گے تو تمھیں اچھے سے کپڑے لا کر دوں گی۔ خود ہی سینا اور خود ہی پہننا۔’’
‘‘نہیں، میں اس عید پر نئے کپڑے پہنوں گا۔’’ اس بچے نے پھر ضد کی اور رونے لگا۔ یوسف دروازہ کھول کر اندر چلا گیا اور جاتے ہی بولا: ‘‘یہ لو بھائی، تم عید پر یہ کپڑے پہننا۔’’
ننھادرزی اور اس کی والدہ کبھی یوسف کی طرف دیکھتے اور کبھی اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیلے کی طرف، جس میں اس کے نئے سلے ہوئے کپڑے تھے۔
‘‘رکھ لو ، میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں۔’’ انھیں خاموش دیکھ کریوسف نے کہا۔
‘‘لیکن بیٹے تم …… ’’
یوسف نے عورت کی بات مکمل کی: ‘‘خالہ جان میں افضل صاحب کابیٹا ہوں، ہم دوسرے محلے میں رہتے ہیں۔’’
‘‘اچھا اچھا !’’ لگتا تھا کہ اس کی والدہ یوسف کے گھر سے واقف تھیں۔
ننھے درزی نے یوسف سے کپڑے لے لیے۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ یوسف کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سارے جہان کی خوشیاں اس کے دامن میں ڈال دی گئی ہوں۔
یوسف موٹر سائیکل ورکشاپ پر کھڑا تھا۔ اس کے ارد گرد تین چھوٹے چھوٹے لڑکے تھے۔ ان میں دو تو اس کے ہم عمر تھے اور ایک اس سے بھی چھوٹا۔ اس نے اپنی عیدی کے پیسے ان میں بانٹ دیے۔ پیسے دیتے ہوئے اسے یوں محسو ہوا جیسے وہ چند روپوں کے بدلے میں ان گنت خوشیاں خرید رہا ہو۔ اس سودے سے اسے جو سکون ، اطمینان اور خوشی حاصل ہوئی، اس کے خیال میں وہ ان روپوں سے کئی گنا زیادہ تھی جو اس نے ننھے مستریوں کو دے دیے تھے۔
یوسف جب گھر جا رہا تھا تو اس کی نگاہوں میں پھر اس ننھے عرب بچے کی تصویر گھوم گئی، جس کے سر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شفقت بھرے ہاتھ نے اسے وہ پیغام دیا جس سے اسے خوشیاں بکھیرنے کا گر معلوم ہوا۔