یہ جنوری ۱۹۸۵ کی بات ہے، میں ایک ٹھٹھرتی شام نیویارک کی گلیوں سے گزرتا گھر کی طرف رواں دواں تھا۔ اچانک میرے قدموں تلے کوئی ابھری شے آ گئی۔ دیکھا تو ایک بٹوہ پایا۔ اس میں صرف تین ڈالر تھے اور ایک بوسیدہ سا خط بھی! لگتا تھا کہ بٹوے والے نے کئی برس سے اسے سنبھال کر رکھاہوا ہے۔ بٹوے میں کسی قسم کی شناختی نشانی موجود نہ تھی۔
میں نے خط دیکھا بھالا تو الفاظ تقریباً مٹ چکے تھے۔ بس خط میں واپسی کا پتا کچھ پڑھا جاتا تھا اور تاریخ بھی۔ اسی سے افشا ہوا کہ یہ خط ۴۲۹۱ء-04 میں لکھا گیا تھا۔ گویا اسے وجود میں آئے ۰۶ برس بیت چکے تھے۔ میں نے پھر اسے آلہ مکبر کی مدد سے پڑھا تا کہ لکھنے والے کا کوئی سراغ ڈھونڈ سکوں۔یوں میں تقریباً سارا خط پڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔
آغاز میں ‘‘پیارے جان’’ درج تھا۔ پھر خط لکھنے والی خاتون نے بڑے نفیس و نازک انداز میں جان مائیکل کو مطلع کیا کہ ماں نے اسے منع کر دیا ہے کہ وہ اس سے نہ ملے۔ اس کے باوجود وہ اسے سدا چاہتی رہے گی۔ آخر میں حناہاکے دستخط پڑھے جاتے تھے۔ خط کی تحریر دلفریب اور دل چھو لینے والی تھی لیکن سوائے نام کے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ اس اچھوتے سندیسے کا مالک کون ہے؟ چنانچہ میں نے یہ سوچ کر سرکاری شعبہ معلومات فون کیا کہ شاید وہاں سے کوئی مدد مل سکے۔ میں نے آپریٹر کو بتایا ‘‘میری ایک غیر معمولی درخواست ہے۔ مجھے ایک بٹوہ ملا ہے۔ اس میں موجود خط میں ایک پتا درج ہے۔ کیا مجھے اس پتے سے وابستہ ٹیلی فون مل سکتا ہے؟’’
تھوڑی دیر بعد آپریٹر نے مجھے اپنی خاتون سپروائزر سے ملا دیا۔ موصوفہ نے بتایا : ‘‘ہمیں اس پتے کا ٹیلی فون مل گیا ہے لیکن ہم آپ کو نمبر نہیں دے سکتے۔ البتہ میں اس نمبر پر فون کر کے انھیں صورت حال بتاتی ہوں۔ اگر پتے کے کسی رہائشی نے آپ سے گفتگو کرنا چاہی، تو میں رابطہ کرا دوں گی۔’’ میں نے ہامی بھر لی۔ ایک منٹ بعد سپروائزر دوبارہ فون پر آئی اور بتایا کہ ایک خاتون آپ سے بات کرنا چاہتی ہے۔’’میں نے پھر خاتون سے دریافت کیا کہ کیا وہ حناہا کو جانتی ہے؟ اس نے کہا ‘‘ہاں جانتی ہوں۔ ہم نے حناہا خاندان ہی سے یہ گھر خریدا ہے۔’’ میں نے پوچھا: ‘‘آپ بتا سکتی ہیں کہ حناہا خاندان اب کہاں مقیم ہے؟’’ ‘‘جی نہیں، میں نہیں جانتی البتہ کئی سال قبل حناہا نے نرسنگ ہوم میں اپنی ماں کو داخل کرایا تھا۔ ممکن ہے کہ ہوم والے آپ کو کچھ بتا سکیں۔’’
خاتون نے پھر مجھے نرسنگ ہوم کا نام اور ٹیلی فون نمبر بتایا۔ وہاں رابطہ کرنے سے معلوم ہوا کہ حنا ہا کی والدہ چل بسی ہیں۔ ہوم استقبالیہ کلرک نے پھر مجھے ایک ٹیلی فون نمبر دیا جہاں اس کے خیال میں حناہا مل سکتی تھی۔
اب میں نے وہاں فون کیا۔ فون اٹھانے والی نے بتایا کہ اب حناہا خود ایک نرسنگ ہوم میں مقیم ہے۔ اس نے مجھے نرسنگ ہوم کا نمبر دے دیا۔ یہ نیا نمبر ملایا تو جواب ملا ‘‘جی ہاں، حناہا اسی ہوم میں رہتی ہے۔’’ رات کے ۹ بج چکے تھے لیکن میں نے خواہش ظاہر کی کہ کیا میں حناہا سے مل سکتا ہوں؟ معلوم ہوا ‘‘وہ نو ساڑھے نو بجے سو جاتی ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ وہ ہال میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی ہو۔ آپ دیکھ لیں۔’’ میں نے کار نکالی اور اپنے گھر کے قریب واقع نرسنگ ہوم پہنچ گیا۔ ہوم کا ایک ملازم مجھے لیے تیسری منزل پہنچا جہاں ایک کمرے میں حناہا رہتی تھی۔ معلوم ہوا کہ واقعی وہ تیسری منزل کے ہال میں بیٹھی ٹیلی ویڑن دیکھ رہی ہے۔اب مجھے ہال کا راستہ دکھایا گیا۔ حناہا سفید بالوں، دلکش مسکراہٹ اور دوستانہ آنکھوں والی بوڑھی خاتون نکلی۔ میں نے اسے بٹوے کے متعلق بتایا اور پھر خط دکھایا۔ خط دیکھتے ہی حیرت کے مارے اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور ان میں نمی تیرنے لگی۔ حناہا نے پھر گہرا سانس لیا اور بھرائی آواز میں بولنے لگی ‘‘جان کے نام یہ میرا آخری خط تھا۔ میں اسے بہت چاہتی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ لیکن تب صرف16 برس کی تھی۔ چنانچہ میری ماں سمجھتی تھی کہ لڑکیاں نادانی کی اس عمر میں صحیح فیصلہ نہیں کرتیں۔ یوں میں نے مجبوراً جان سے ناتا توڑ دیا۔ اب تمھیں کیا بتاؤں کہ وہ کتنا خوبصورت تھا! اداکار سین کو نری لگتا تھا۔’’
اس بات پر ہم دونوں ہنس پڑے۔ حناہا نے پھر مزید بتایا: ‘‘اس کا اصل نام مائیکل گولڈسٹین تھا۔ اگر وہ تمھیں مل جائے تو اسے بتانا کہ میں آج بھی اکثر اس کے متعلق سوچتی ہوں۔ میں نے اب تک شادی بھی نہیں کی۔’’ یہ کہتے ہوئے خاتون کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔ وہ پھر بولی:‘‘شاید وجہ یہ ہے کہ جان کے علاوہ کوئی میرے من میں نہیں بس سکا۔’’
میں نے حناہا کا شکریہ ادا کیا، خدا حافظ کہا اور لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔ لفٹ میں اتفاقاً وہی ملازم مل گیا جو مجھے خاتون کے پاس لے گیا تھا۔ اسے پہلے میں مختصراً ساری داستان سنا چکا تھا۔ لہٰذا مجھے دیکھتے ہی اس نے سوال کیا ‘‘آپ کو مطلوبہ معلومات مل گئیں؟’’ ‘‘نہیں، لیکن مجھے کم از کم خط لکھنے والے کا اصل نام ضرور معلوم ہو گیا۔ لیکن اب مجھ میں اس کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں۔ میں شام سے بٹوے کے مالک کی تلاش میں ہوں اور اب خاصا تھک چکا ہوں۔’’
بات کرتے ہوئے میں نے جیب سے سرخ بٹوہ نکالا اور ملازم کو دکھایا۔ بٹوے کے گرد سنہرا حاشیہ موجود تھا۔ ملازم نے بٹوہ الٹا پلٹا اور پھر بولا ‘‘ارے، میں جانتا ہوں کہ یہ کس کا ہے۔ یہ مسٹر گولڈسٹین کا ہے۔ اس سے اکثر یہ کھو جاتا ہے۔’’ ‘‘میں نے یہ سنا تو خوشی سے چلا اٹھا’’ کیا؟ مسٹر گولڈسٹین؟ تم انھیں جانتے ہو؟’’ ‘‘بھئی وہ بھی اسی نرسنگ ہوم کی آٹھویں منزل پر مقیم ہے۔ یہ یقینا اسی کا بٹوہ ہے۔ وہ اکثر باہر جائے تو اسے گم کر بیٹھتا ہے۔’’ اب میں نے ملازم سے کہا کہ وہ مجھے اس کے پاس لے چلے۔ چنانچہ ہم آٹھویں منزل پہ پہنچے۔
میں دعا مانگنے لگا کہ وہ ابھی جاگ رہا ہو۔ وہاں موجود نرس نے بتایا کہ مسٹر گولڈسٹین ابھی ہال ہی میں ہیں۔ دراصل سونے سے قبل اسے مطالعہ کرنا پسند تھا۔ ہم ہال میں پہنچے، بوڑھا آدمی وہاں تنہا بیٹھا کسی کتاب میں کھویا ہوا تھا۔ ملازم نے اس سے دریافت کیا ‘‘آپ کا بٹوہ کہاں ہے؟’’ مسٹر گولڈسٹین نے نظر اٹھائی، پتلون کی پشت ٹٹولی اور پھر کہا ‘‘افوہ، کم بخت پھر کہیں گر گیا۔’’اسی وقت موصوف کی نظر میرے ہاتھ میں پکڑے بٹوے پر پڑی۔ وہ مسکرایا اور بولا ‘‘شکر کہ یہ مل گیا۔ یقینا سہ پہر کو یہ گر گیا ہو گا۔ اب میں تمھیں انعام دینا چاہتاہوں۔’’ یہ کہہ اس نے جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں فوراً بول اٹھا ‘‘نہیں نہیں، اس کی ضرورت نہیں بلکہ مجھے ایک ضروری بات بتانی ہے۔ میں نے بٹوے میں موجود خط پڑھ لیا ہے تا کہ مالک کی بابت کچھ جان سکوں۔’’ مائیکل گولڈسٹین کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کافور ہو گئی۔ وہ مردہ آواز میں بولا ‘‘اوہ! تو تم نے خط پڑھ لیا۔’’ ‘‘خط ہی نہیں پڑھا، بلکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ حناہا کہاں ہے۔’’
یہ سن کر وہ بھونچکا رہ گیا پھر بے تابی سے بولا ‘‘حناہا؟ تم جانتے ہو کہ وہ کہاں ہے؟ وہ کیسی ہے؟ کہاں رہتی ہے؟’’ میں ہچکچایا۔ اس نے اصرارکیا ‘‘بتاؤ، وہ کہاں ہے؟‘‘وہ اچھی ہے اور اب بھی اس کی کشش ماند نہیں پڑی۔’’ مسٹر گولڈسٹین نے میرا ہاتھ پکڑا اور التجا کرتے ہوئے بولا: ‘‘مجھے اس کا پتا دو، میں پہلی فرصت میں حناہا سے ملنا چاہتا ہوں۔ شاید تم ہمارے ماضی سے واقف ہو چکے۔ جب اس کا خط ملا، تو میری دنیا اندھیر ہو گئی۔ میں آج تک اس کا منتظر ہوں۔ حناہا کے علاوہ کوئی اور لڑکی میرے دل میں بس نہ سکی۔’’
میں نے یہ سنا تو حیران رہ گیا۔ جب حواس بحال ہوئے تو اسے کہا ‘‘مائیکل، میرے ساتھ آؤ۔’’ ہم تینوں بذریعہ لفٹ تیسری منزل پر پہنچے۔ پھر اس کے ہال کی طرف ہو لیے۔ وہاں حناہا بیٹھی بدستور ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ ہم دونوں دروزاے پر کھڑے ہو گئے، ملازم پہلے اس کے پاس پہنچا۔ ‘‘حناہا’’ وہ نرم لہجے میں بولا: ‘‘تم اس آدمی کو جانتی ہو؟’’ ملازم نے دروازے کی سمت اشارہ کیا جہاں ہم دونوں ایستادہ تھے۔ خاتون نے عینک درست کی، پھر غور سے ہمیں دیکھنے لگی۔ ‘‘حناہا! یہ میں ہوں مائیکل گولڈسٹین! تمھیں کچھ یاد آیا؟’’
مائیکل! یہ تم ہو؟ تم مائیکل-85!’’ وہ ہولے ہولے چلتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ چند لمحے وہ ایک دوسرے کو تکتے رہے پھر ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھوں میں ہاتھ دیے باتوں میں مصروف تھے۔ میں ملازم کے ساتھ خاموشی سے باہر نکل آیا۔ لفٹ کی طرف بڑھتے ہوئے میں گویا ہوا ‘‘دیکھا خدا کیونکر اپنی کرشمہ سازی دکھاتا ہے۔ سچ ہے وہ جو چاہے اسے کرنے پر قادر ہے۔’’ تین دن بعد نرسنگ ہوم کے ناظم کا فون آیا۔کہنے لگا: ‘‘کیا آپ اس اتوار شادی کی ایک تقریب میں شرکت کرنے آ سکتے ہیں؟’’ وہ پھر میرے جواب کا انتظار کیے بغیر بول اٹھا ‘‘جی ہاں، مائیکل گولڈسٹین اور حناہا کا بیاہ ہو رہا ہے۔’’ وہ بڑی سادہ مگر پر وقار تقریب تھی۔ پیارو محبت کی پھوار میں بسی اس محفل میں نرسنگ ہوم کے سبھی مکین شریک ہوئے۔ حناہا نے سفید جوڑا پہنا جس میں وہ پری لگتی تھی۔ مائیکل نیلا سوٹ زیب تن کر کے بڑا وجیہہ نظر آیا۔شادی کے بعد وہ نرسنگ ہوم کے ایک کمرے میں بس گئے۔ اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایک ۸۷ سالہ دولہا اور ۶۷ سالہ دلہن کیونکر نوجوان جوڑے کی طرح چہلیں کرتے ہیں تو انھیں دیکھ لیجیے۔ یہ اس عشق کا بہترین اختتام تھا جو تقریباً ۶۰ برس چلا اور محبت کی نئی داستان رقم کر گیا۔(بحوالہ ریڈرز ڈائجسٹ نومبر ۲۰۱۲)