سچی كہانی
تلخ حقيقت--میں نے ڈونیشنز جمع کرکے لوگوں کی مدد کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟
كرن خان
میں نے ڈونیشنز جمع کرکے لوگوں کی مدد کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟آئیے ایک دو واقعات سے سمجھتے ہیں۔۔مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کہ لینے والے مستحق نہیں تھے۔ یا مجھے کوئی دھوکہ دیا ۔۔مسئلہ کچھ اور ہوا۔۔۔جس کسی کی ڈونیشنز جمع کرکے مالی امداد کی۔ ان میں سے پچانوے فی صد لوگ میری جان کو آگئے۔ ہر دو تین مہینے بعد پیسوں کا تقاضہ کرنے لگتے اور اس انداز میں مانگتے گویا میں ان کی قرضدار ہوں۔۔۔صبح شام کالز ۔۔مسیجز۔۔حد تو یہ کہ جو گھر کا پتہ جانتا وہ گھر تک پہنچ آتا۔۔خود تو آتا ہی اپنے ساتھ چار اور ضرورت مند لے آتا۔۔اور سب کی ایک ہی ڈیمانڈ۔۔جہاں سے لاو ہماری تو مدد کرو۔۔۔میں پریشاں رہنے لگی۔۔میرے پاس اتنی ڈونیشنز جمع نہ ہوتیں جتنے مانگنے والے ہوتے ۔ نتیجتًا مجھ پر دباؤ بڑھنے لگا۔۔ مدد مانگنے والے بھی پیسوں کی خاطر ہر حد کراس کرنے لگے۔۔بنیادی اخلاقیات کے تقاضے کیا ہوتے ۔اس سے کوسوں دور ۔ جس محرومی کو مٹانے کے لیے مدد کرتی۔۔ اگلوں نے اسی محرومی کو ٹاکی شاکی مار چمکا کر ذریعہ روزگار بنا رکھا تھا۔۔۔مثال کے طور پر۔۔پیسے جمع کرکے ایک مریض کا علاج کرانا چاہا۔۔۔یہ اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔۔اسکی ٹانگ میں کوئی ناسور ٹائپ زخم تھا جو بڑھتا جا رہا تھا۔۔سی ایم ایچ بہاولپور میں اسکا علاج شروع کرایا۔ماہر ڈاکٹروں کی زیر نگرانی ٹریٹمنٹ شروع ہوی۔۔بتایا گیا ایک مہینہ ہسپتال رکھنا ہوگا ۔ پورے مہینے کا راشن اسکے گھر بھجوایا۔۔ساتھ ہی نقد رقم بطور جیب خرچ اسکے بیوی بچوں کو بھجوای۔۔تاکہ اسکے علاج کے دوران انہیں کوئی تنگی نہ ہو۔۔۔اچھے علاج کی بدولت دس بارہ دن کے اندر اندر اسکا زخم ٹھیک ہونے لگا۔۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے اسکے زخم کی تصاویر بھیجیں۔۔جو تیزی سے مندمل ہو رہا تھا۔۔۔مجھے خوشی ہوی۔ چلو ایک انسان کو تکلیف سے نجات دلانے میں اللہ نے مجھے اسکا وسیلہ بنایا۔۔
ٹھیک اٹھارہ دن بعد یہ بندہ ہسپتال سے غائب ہوگیا۔ اور سیدھا ہسپتال کے ساتھ موجود فارمیسی پر پہنچ گیا۔۔ اس فارمیسی پر پورے مہینے کی دوائیوں کے پیسے جمع تھے ۔۔ان سے تقاضہ کرنے لگا کہ میرے بقایا پیسے واپس کرو ۔۔ڈاکٹروں کے پاس پہنچ گیا کہ اٹھارہ دن کے پیسے کاٹ کر بقایا دو۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے کال کی۔۔سارا معاملہ سن کر شدید شرمندگی ہوی۔۔میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ یہ بندہ علاج مکمل کرا لے۔۔۔نہ اس نے کرانا تھا نہ کرایا۔۔الٹا آے روز میرا جینا حرام شروع کردیا کہ ہمارے لیے جو جمع کیے ہونگے وہ سارے پیسے دو۔۔یہ ایک عجیب نوعیت کی ہراسانی تھی جس سے میں گزر رہی تھی۔ بڑی مشکلوں سے ان سے جان چھڑائی۔۔اب بھی دو تین بار انہوں نے مجھ سے رابطے کی کوشش کی ہے ٹانگ کے زخم کا واسطہ دے کر۔۔لیکن میں بات کرنے سے سختی سے انکار کردیتی ہوں۔۔ جس کی بھی مدد کی سوائے چند ایک کے کسی کی حالت بہتر نہ ہوئی۔ بھوک اور تنگدستی تو تھی ہی اب کم ظرف اور کمینے بھی ہوگئے۔۔ ایسے مانگنا جیسے بھتہ وصولی ۔مسلسل پریشان کرنا۔انہوں نے وطیرہ بنا لیا۔۔تب جا کے اس سوشل ورک کا بخار سر سے اتر گیا۔۔اور میں نے ڈونیشنز جمع کرنی بند کردیں۔۔کہ کچھ تو ان سے ہمدردی رہے۔ان کا اصل چہرہ مجھے بڑی تکلیف دے رہا تھا۔۔
ٹھیک ٹھاک خواری اٹھانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ کسی کی مدد کرنی ہے اپنے خاندان میں ڈھونڈ ڈھانڈ کر مدد کردو۔۔ایسے طریقے سے مدد کرو کہ انہیں یہ بھی پتہ نہ چلے کہ امداد آپ نے دی ہے۔۔ اب سمجھ آئی ہے کیوں دین نے پوشیدہ مدد کرنے کی ترغیب دی ہے۔۔۔کہ ایسے دو کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔۔ اِدھر اس مستحق کو پتہ چلا مدد آپ نے کی ۔۔ پھر اس غریب سے ہراساں ہونے کے لیے تیار رہیں۔۔