"دلال کا سبق "

مصنف : احسان كوہاٹی

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اكتوبر 2024

سچی كہانی

"دلال کا سبق "

احسان كوہاٹی

وہ کراچی میں سمندر کنارے بیابان میں ڈیفنس کا نوآباد علاقہ تھا اور ابھی مکمل طور پر آباد نہیں ہوا تھا،خال خال اور فاصلے پر گھر تھے جن کے ارد گرد زیادہ تر مکان زیر تعمیر تھے- ایسے علاقوں میں کسی کے گھر کا پتہ پوچھنا پی ٹی آئی کے کسی دوست کو نوازشریف کی سالگرہ کا کیک کھلانے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے، خیر کسی نہ کسی طرح ہم اس مکان تک پہنچ ہی گئے - دروازے کے ساتھ اطلاعاتی گھنٹی کا بٹن دبانے پر اندر کہیں مترنم سا شور ہوا جس کے ردعمل میں تھوڑی دیر بعد ایک گہری رنگ کے خضاب زدہ مونچھوں والے ادھیڑ عمر شخص کی آنکھیں ہم پر آ جمیں، تعارف کرانے پر وہ سیلانی اور اسکے ساتھی رپورٹر کو لے کر ایک حیرت کدے میں داخل ہوگیا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب روزنامہ امت کے ایڈیٹر رفیق افغان مرحوم کے اپنے سسر صلاح الدین مرحوم کے انتقال کے بعد اپنی اہلیہ سے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے- ہفت روزہ تکبیر کی ادارت صلاح الدین صاحب کی صاحبزادی نے سنبھال لی تھی جس کے جواب میں رفیق افغان صاحب نے ہفت روزہ غازی کا اجراء کیا ، سیلانی اور دیگر رپورٹر امت کے ساتھ ساتھ "غازی" کے لئے بھی کام کرتے تھے انہی دنوں ایڈیٹر صاحب کی طرف سے ایک عجیب سی اسٹوری کا ٹاسک ملا، کہا گیا کہ کراچی کے رنگین مزاج لوگ اپنی رنگین راتوں پر کیا خرچ کرتے ہیں، کراچی میں جسم فروش گینگ کتنے ہیں ، کتنی خواتین ان سے منسلک ہیں وغیرہ وغیرہ کور اسٹوری کی جائے-ان دنوں کراچی کی ہائی کلاس سوسائٹی میں دو بڑے دلالوں نے سیاہ راتوں کی سیاہی مزید سیاہ کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا ایک پر ہم نے ہاتھ ڈالا تو بدک گیا- اسے اپنے تعلقات پر بڑا زعم تھا اس نے کسی قسم کی معلومات دینے سے انکار کردیا اس کا کاروباری حریف سمجھدار تھا اس نے اس شرط پر تعاون کیا کہ اس کا کہیں نام نہ آئے گا ، گارنٹی ملنے پر وہ مان گیا ۔ اسٹوری چھپی تہلکہ مچ گیا ان ہی دنوں ایک کام کے سلسلے میں "مانی " کو ملنے کے لئے کہا اس نے درخواست کی کہ شام کو میرے ٹھکانے پر ہی آجائیں - میں رات دس بجے تک ہر قسم کی "تفتیش" کے لئے حاضر ہوں اس کے بعد مجھے لڑکیاں بھیجنی ہوتی ہیں وقت نہ دے سکوں گا۔اس درخواست کے جواب میں سیلانی اپنے ساتھی رپورٹر کے ہمرا ہ مانی کے مکان پر تھا -یہ لوگ زیادہ تر ایسے ہی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں کوئی کسی کے آنے جانے سے غرض رکھتا ہے نہ کنسوئیاں لیتا ہے یہ شام کو کار کی ٹنکی فل کراتے ہیں اور لڑکیاں بٹھا کر ڈراپ کرنے نکل جاتے ہیں، ساری رات پک اینڈ ڈراپ چلتی ہے جس کے بعد صبح سے شام تک ان کی رات ہوتی ہے سوئے رہتے ہیں -مانی نے ملازم سے کہا تھا کہ مہمانوں کو بیڈروم میں ہی لے آؤ، وہ سیدھا وہیں لے گیا شام کا وقت ہو رہا تھا دن کی روشنی رات کے اندھیرے میں جذب ہورہی تھی اور اس عشرت کدے میں تیز خوشبوئیں چوڑیوں کی کھنکنے کی آوازیں نقرئی قہقہے بتا رہے تھے  كہ تیاریاں ہو رہی ہیں - مجبور اور گھروں سے دور "گوشت فروش لڑکیاں" رات کی تیاریوں میں مصروف تھیں اس اسٹوری میں کام کے دوران سیلانی کو پتہ چلا کہ ان مظلوموں کے چمکتے چہروں کے پیچھے دکھوں کے بلیک ہول ہوتے ہیں اکثر کو بہلا پھسلا کر اس لائن میں لایا جاتا ہے بہت کم ایسی ہوتی ہیں جو پیسے کی طلب میں اس راہ کی راہی بنی ہوں ۔

مانی بہت عاجزی سے ملا ملازم نے ہمارے لئے کرسیاں رکھیں اور رسمی گفتگو ہونے لگی ،اس دوران ایک شوخ لباس میں ملبوس لڑکی، کھلی زلفیں لہراتے ہاتھ میں پلیٹ لئے آئی جس پر کوئی بوٹی سلگ رہی تھی دھواں اٹھ رہا تھا اس نے کمرے کے چاروں کونوں کو دھونی دی اور پھر پلیٹ مانی کے سامنے کردی -مانی نے اپنے موبائل فون کو دھونی والی پلیٹ کے گرد پھیرے دیئے ہاتھ جوڑ کر زیر لب کچھ بڑبڑایا اور کہنے لگا" دھندا بڑا مندا جارہا تھا ساری ساری رات گزر جاتی کوئی لڑکی جاتی ہی نہ تھی پھر میں مرشد کے مزار پر حاضر ہوا دیگ چڑھائی تو سکون ملا شکر ہے اب کام زوروں پر ہے دس بجے تک ہی سب کی بکنگ ہوجاتی ہے ۔

مانی کی باتیں سیلانی آج بھی نہیں بھولا ، عبادت اور دھندا دو الگ الگ معاملات ہیں ، دھندا کتنا ہی گندا کیوں نہ ہو بندہ عادی ہوجائے تو وہ اس گند کا حصہ بن جاتا ہے اور پھر دھندا گندا نہیں لگتا جیسے مچھلی فروش کے پاس بُو كے پہلے پندرہ سیکنڈ ہی مشکل ہوتے ہیں اور پھر انسان اس سڑاند کو ایڈجسٹ کرنے لگتا ہے اور پھر پانچ منٹ کھڑا رہنا پڑے تو کیسی بُو اور کیسی سڑاند۔۔۔ ان دھندے والوں کے اپنے اپنے اخلاقی اور مذہبی معیار ہوتے ہیں انہیں اپنا کام اچھا نہ بھی لگے تو برا نہیں لگتا -مانی کو بھی اپنے کام میں کچھ برا نہیں لگتا تھا اس دن سیلانی کو اندازہ ہوا کہ عبادت گزار ہونا اور باکردار ہونا دو الگ الگ معاملات ہیں- ہر عبادت گزار باکردار نہیں ہوتا - وہ باتوں باتوں میں ہمیں مطلوبہ معلومات دے رہا تھا میرا ساتھی اس سے باتیں کررہا تھا اور سیلانی بس اسے دیکھے اور سوچے جارہا تھا اور پھر سیلانی کن اکھیوں سے اسے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔