گھربچانے كے ليے

مصنف : جويريہ ساجد

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اگست 2024

سچی كہانی

گھربچانے كے ليے

جويريہ ساجد

ایک ملنے والی سے بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی -بیس سال پہلے زارا ہمارے گھر کے پورشن میں کرائے دار کے طور پہ آئی تھیں میں ان دنوں ایم ایس سی کر رہی تھی ان کی شادی کو دو سال ہوئے تھے ان کا ایک چند ماہ کا پیارا سا بچہ تھا۔ان کی شادی بھی ایم بی اے کے فوری بعد ہوئی تھی ہماری عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا میں ان کا نام ہی لیتی تھی زارا کا رنگ روپ پہلے بھی کمال کا تھا اب تو جیسے دو آتشہ ہو گیا تھا- ان کے میاں ترقی کرتے کرتے بہت کامیاب بزنس مین بن گئے تھے جب ہم پہلے ساتھ رہتے تھے تو ان کے میاں منڈی میں اپنے چچا کی آڑہت کی دکان پہ بیٹھتے تھے اور گزارے لائق  کماتے تھے۔زارا پیاری اور سٹائلش سی خاتون تھیں پہننے اوڑھنے کا سلیقہ تھا گھر بھی بہت اچھا سنبھالتی تھیں پڑھی لکھی بھی تھیں تو بات کرنے کا سلیقہ بھی بہت تھا۔ان سے ہماری اچھی سلام دعا تھی جو بعد میں کسی حد تک دوستی میں بدل گئی -پکوان کے تبادلے ہوتے شاپنگ کے مشورے ہوتے۔بس ایک بات جو امی ابو کو کھٹکتی تھی کہ شروع سے ہی ان کے گھر میں مخلوط محفلیں ہوتیں شوہر کے دوست کھلم کھلا آتے سب کو بھائی بنایا ہوا تھا یہ فلاں بھائی وہ فلاں بھائی۔ یہ بھائی صاحبان کبھی بیویوں کے ساتھ آتے کبھی اکیلے آجاتے لیکن ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ خاتون گھر میں اکیلی ہوں تو کوئی آیا ہو۔ پھر بھی ابو نے ہمیں ان کے گھر زیادہ آنے جانے سے منع کر رکھا تھا اکثر وہ ہی ہمارے گھر آتیں ہم نے جانا ہوتا تو ہم امی کے ساتھ جاتیں۔پھر ان کے میاں نے دوسرے بڑے شہر میں اپنا کاروبار شروع کیا اور یہ فیملی دوسرے شہر شفٹ ہو گئی رابطہ منقطع ہو گیا۔میری شادی ہو گئی میں بیاہ کے لاہور آگئی وقت گزرتا گیا بچے ہائی سکول اور کالجوں میں پہنچ گئے کافی عرصے بعد کلب میں ملاقات ہو گئی پہلے تو میں پہچانی ہی نہیں ایسی شاندار لگ رہی تھیں میں تو دیکھتی رہ گئی خوبصورت تو پہلے بھی تھیں اب تو چمک دمک ہی نرالی تھی خیر ہمارے درمیان فون نمبرز کا تبادلہ ہوا گھر کا ایڈریس پوچھا تو پتا چلا چند ماہ پہلے ہماری ہی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بہت شاندار گھر بنایا ہے میاں ارب پتی بن چکے ہیں۔میں نے گھر جا کے اپنے میاں کے سامنے خوشی سے ان کا ذکر کیا- ان کے میاں کا نام بتایا تو وہ چونک گئے کہنے لگے یہ اچھی فیملی نہیں ہے تم ان سے مت ملنا -میں حیران پریشان میں نے کہا میں ان کو بہت پرانا جانتی ہوں کہنے لگے لیکن اب تم کچھ نہیں جانتیں اور بات ختم کر دی۔کچھ دن بعد شہر میں طوفانی بارش ہوئی میں بچوں کو سکول اور کالج سے پک کر کے آ رہی تھی میری گاڑی پانی میں پھنس گئی اور اس بری طرح پھنسی کہ نکلنے کی کوئی صورت نہ بنی میں نے اپنے میاں کو فون کیا لیکن ان کو پہنچتے پہنچتے بھی ایک گھنٹہ لگنا تھا -خیر لوگوں کی مدد سے میں نے بچوں کو گاڑی سے اتارا اور سڑک کے کنارے کھڑی ہو گئی طوفانی بارش جاری تھی اتنے میں ایک کار قریب آ کے رکی- زارا تھیں شیشہ نیچے کیا مجھے کہنے لگیں کیا ہوا بچوں کے ساتھ برستی بارش میں یہاں کیوں کھڑی ہو میں روہانسی ہو گئی میں نے گاڑی خراب ہونے کا بتایا انہوں نے بہت خلوص سے زبردستی ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور گھر ڈراپ کر دیا۔بارش رکنے کے کچھ دیر بعد میرے میاں بھی گاڑی ریسکیو کروا کے گھر پہنچ گئے۔جب میں نے انہیں بتایا کہ زارا شہاب ہمیں اپنی گاڑی میں گھر چھوڑ کے گئی ہیں تو وہ مجھ پہ بگڑنے لگے کہ میں نے ان سے مدد کیوں لی تب انہوں نے مجھے ان کی حقیقت بتائی کہ وہ خاتون اپنے میاں کی ترقی اور کامیابی کے لیے ان کے پارٹنرز اور دوستوں کے ساتھ ہر جائز ناجائز میں ملوث رہی ہیں۔ ایک دن فارم ھاؤس میں چھاپے پہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئیں اثر و رسوخ کی وجہ سے فوری رہا ہو گئیں پھر یہ لوگ دبئی شفٹ ہو گئے اب کافی عرصے بعد پاکستان واپس آئے ہیں -مہنگی ہاوسنگ سوسائٹی میں شاندار محل نما گھر بنایا ہے کلب جوائن کیا ہے مگر سب ان کی شہرت جانتے ہیں جو کافی خراب ہے۔يہ سب سن کے تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اور میں ان سے ملنے یا رابطہ رکھنے سے توبہ تائب ہو گئی کلب میں بھی ان کو نظر انداز کرتی اور ان سے دور رہتی- زارا بھی میرے کھنچنے کو بھانپ گئیں اور دور رہنے لگیں۔کچھ عرصہ بعد ایسی سچویشن بنی کہ ہماری پھر سے ملاقات ہو گئی وہ اور میں ایک ساتھ ہی پارلر سے نکل رہے تھے مجھے دیکھ کے میرے قریب آ گئیں اور کہنے لگیں تھوڑا سا ٹائم دو میں کچھ بات کرنا چاہتی ہوں کلب میں بھی تم دور رہتی ہو بات نہیں ہو سکتی -میرے ڈرائیور کے آنے میں دیر تھی میں نے ان کی بات مان لی ہم ایک قریبی کافی شاپ میں آگئے۔کہنے لگیں میں جانتی ہوں تم مجھ سے دور اور بیزار کیوں رہتی ہو ہمارا بہت پرانا تعلق ہے تم تو مجھے جانتی ہو میں ایسی نہیں تھی مگر میں مجبور ہو گئی تھی- میرے میاں نے میرے حسن کو استعمال کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کیں اپنے دوستوں اور پارٹنرز سے دوستیاں کروائیں کبھی انہیں گھر بلا لیتے کبھی مجھے کسی فارم ہاؤس میں بھیج دیتے ہر ملاقات کے بعد ان کی شاندار بزنس ڈیل پکی ہو جاتی ان کو کروڑوں کا فائدہ ہوتا۔دیکھتے دیکھتے ہم ایلیٹ کلاس میں آگئے مہنگی ترین کالونیوں میں شاندار گھر بنا لیے کاروبار آسمان کو چھونے لگا ہر سال فارن ٹور لگاتے دوبئی میں بھی پراپرٹی خرید لی بچے مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھنے لگے ہمارا تو وقت ہی بدل گیا۔میں نے حیرانگی سے پوچھا آپ نے یہ سب کیوں کیا آپ پڑھی لکھی تھیں اچھے خاندان سے تھیں-سسکتے ہوئے کہنے لگیں میں مجبور تھی اپنے میاں کی بات نہ مانتی تو کیا کرتی؟ اپنا گھر خراب کرتی؟ بچے رل جاتے میرا گھر اجڑ جاتا سب تباہ ہو جاتا۔

مجھے یاد تھا کہ زارا اچھی فیملی سے تھیں ان سے تین بڑی بہنیں اور دو بھائی تھے سب شادی شدہ اور سیٹل تھے خود زارا بھی پڑھی لکھی تھیں آخر کیا مجبوری تھی کہ دولت کے حصول کے لیے اس قدر گر گئیں۔کہنے لگیں بس وہ کچھ وقت کی بات تھی وہ سب اب ماضی بن چکا ہے اب مال و دولت کی فراوانی ہے میں دوبئی سے واپس آئی ہوں خود کو مصروف رکھنا چاہتی ہوں ایک بڑے سکول کی فرنچائز لی ہے بلڈنگ کی رینوویشن کا کام ہو رہا ہے میں چاہتی ہوں تم مجھے جوائن کرو تمہارا شہر میں اچھا سرکل ہے۔میں نے مصروفیت کا بہانہ بنا کے معذرت کر لی۔گھر واپسی کے سفر میں میں مستقل سوچ رہی ہوں کہ یہ کیسی مجبوری تھی کیا گھر بچانے کے لیے جائز ناجائز سب حد پار کرنی چاہیے۔" گھر کا مطلب ہوتا ہے تحفظ۔ "جس گھر میں عزت کا تحفظ نہ ہو وہ گھر تو نہ ہوا پھر اس کو بچانا کیسا۔۔۔۔۔؟

اگر یہ اپنے میاں کو حرام کاری کرنے سے انکار کرتیں اور ان کے ناجائز مطالبوں کو ان کے خاندان کے سامنے رکھتیں یا رکھنے کی دھمکی دیتیں تو ہو سکتا ہے میاں بھی باز رہتا۔۔۔۔۔؟انہوں نے میاں کو روکنے کے بجائے اس کا ساتھ کیوں دیا۔۔۔۔۔؟

یہ کیسی مجبوری تھی زارا پڑھی لکھی تھیں جاب کر لیتیں اس وقت میاں بھی اتنا سیٹ نہیں تھا کہ ان کو گھر سے نکال کے کوئی اور لے آتا اور اگر چھوڑ بھی دیتا تو یہ خود کما سکتی تھیں بھائیوں سے مدد مانگ سکتی تھیں لیکن اس نے عزت کا سودا کیا۔۔۔۔۔۔؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔؟ یہ کیسی مظلومیت ہے کہ میں گھر بچانے کے لیے مجبور تھی۔۔۔۔۔۔؟

کیا صرف انکا میاں اکیلا قصور وار ہے۔۔۔۔۔۔۔؟سوچيے-