سوال : آپ اپنا تعارف کرایئے۔
جواب : میرا پرانا نام رام چندر ہے جو میرے گھر والوں نے رکھا، میں تقریباً ۲۸ سال قبل مہرولی دہلی کے ایک بھنگی خاندان میں پیدا ہوا میرے چا چا نے پتاجی سے زبردستی کرکے مجھے چھ سال کی عمر میں ایک اسکول میں داخل کرادیا جہاں سے میں نے آٹھویں کلاس پاس کی، بچپن سے مجھے پڑھائی کا شوق تھا اور ذہن بھی اللہ نے اچھا دیا تھا، سرکاری اسکول میں نویں کلاس میں داخلہ لے لیا، جب میں گیارہویں کلاس میں تھا تو میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا میں گھر میں بڑا تھابڑی مشکل سے مزدوری کرکے میں نے انٹرپاس کیا سائنس سے۔ انٹر میڈیٹ میں نے الحمدللہ فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا تھا، میرے گھریلو حالات ایسے خراب تھے کہ میں بیان نہیں کرسکتا کہ انٹر میڈیٹ تک میں کس طرح پہنچا۔ کئی بار ایسا خیال ہوا مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑے گی میرے چاچا گورنمنٹ کالج میں ملازم تھے۔ ہمارے کالج میں کئی بر ہمن ٹیچر تھے اور ایک راجپوت بھی تھے مجھے بھنگی سمجھ کر مجھ سے جس طرح کا معاملہ کرتے تھے میں اس ذلت آمیز رویہ کو بیان نہیں کرسکتا۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا کہ میں خود کشی کرلوں ۔کبھی یہ بھی خیال آتا تھا کہ میں ان لوگوں کو قتل کردوں۔ انٹر کے بعد میں ریگو لر تعلیم جاری نہیں رکھ سکا اور ملازمت کی تلاش میں تھا۔ میرے والد صاحب ایک سیّد صاحب کی کوٹھی پر جو گریٹر کیلاش میں ہے ملازم تھے ۔میں سےّد صاحب کے یہاں گیا انھوں نے مجھے کوٹھی پر صفائی اور چوکی داری کے لئے ملازم رکھ لیا، میں نے پرائیویٹ بی اے کا فارم بھر دیا بس یہ میرا خاندانی تعارف ہے۔
سوال : اپنے قبول اسلام کا واقعہ سنایئے ؟
جواب : احمد بھائی میرا قبول اسلام، میرے نبی پر کروڑوں اربوں سلام اور درود ہوں، ان کے رحمۃ للعالمین ہونے کا زندہ ثبوت ہے ایک بھنگی پر اللہ کا ایسا احسان ہے کہ ہر روز احساس شکر سے میرا رواں رواں کھڑا ہو جاتا ہے۔ ہندو مذہب کے ذات پات کے نظام سے، میں بیان نہیں کرسکتا کہ اس چھوٹی سی زندگی میں، میں نے کتنے تکلیف دہ واقعات کا سامنا کیا ہے، ذات پات کے ظالمانہ نظام سے کچلا ہوا حد درجہ شکستہ دل تھا کہ اچانک رحمت اسلام کا ایک جھو نکا مجھے چھو گیا اور اس ایک جھونکے کی ٹھنڈک نے مجھے ماں کی ممتا کی طرح اپنی آغوش میں لے لیا شاید مولانا صاحب نے آپ سے واقعہ بتایا ہو۔
سوال : ایک بار ابی نے اپنی تقریر میں بڑے درد کے ساتھ آپ کا واقعہ سنایا تھا اور مسلمانوں کو جھنجھوڑا تھا کہ نبی رحمتﷺ کی امانت کے ہم امین، برادران وطن کے رواجوں سے متاثر ہو کر اونچ نیچ اور ذات پات کے نظام میں جی رہے ہیں۔ پچاس کروڑ ہمارے خونی رشتہ کے دلت بھائی صرف ہمارے ساتھ کھانے اور ہمارے برتن میں پانی پینے کو ترس رہے ہیں، ہم اللہ کو کیا منھ دکھائیں گے، آپ ذرا پورا واقعہ سنایئے؟
جواب :سید ندیم صاحب جن کے یہاں میں کوٹھی میں صفائی اور چوکی داری پر ملازم تھا، مالدار اور خاندانی آدمی ہیں۔ وہ الہ آباد کے رہنے والے ہیں، گریٹر کیلاش میں ان کی کوٹھی ہے، نوئیڈا میں دو کارخانے ہیں، آپ کے والد صاحب (مولانا کلیم صدیقی) سے کافی دنوں سے تعلق رکھتے ہیں اور دعوتی مزاج رکھتے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ مولانا صاحب ان کی دعوت ایک بار قبول کرلیں۔ ایک بار مولانا صاحب نے وعدہ کرلیا تھا مگر وہ کسی وجہ سے نہیں آسکے۔ ایک روز پہلے فون آ گیا کہ کوئی حادثہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے نہیں آ سکیں گے اصل میں مجھ سے سیّدصاحب نے کہا تھا کہ رام چندر ہمارے مولانا صاحب آئیں گے میں تمہیں ان سے ملواؤں گا، ان سے دعا کو کہنا۔ مجھے بھی خوشی تھی کہ کوئی دھارمک گرو ہیں، اچھا ہے ملاقات ہوجائے گی مگر ان کے فون آنے سے مایوسی ہوگئی تھی۔ ۲۰؍جون ۱۹۹۹ء کو انھوں نے اپنے الور کے سفر سے واپسی پر ہمارے سید صاحب کے یہاں کھانے پر دوپہر بعد آنے کا وعدہ کیا۔ پونے تین بجے مولانا صاحب آئے میں بھی انتظار کر رہا تھا، آندھی اور تیز ہوا کی وجہ سے پوری کوٹھی میں مٹی کوڑا ہوگیا تھا میں اس خیال سے کہ مولانا صاحب آنے والے ہیں جھاڑو لے کر صفائی کرنے لگا ابھی صفائی آدھی کی تھی کہ مولانا صاحب کی کار آگئی۔ میں چونکہ باربار سیدصاحب سے معلوم کرتا رہا تھا کہ مولانا صاحب کب آئیں گے، اس لئے جیسے ہی میں نے کار کو اندر کھڑا کرنے کے لئے دروازہ کھولا سیّد صاحب نے میرا تعارف کرایا کہ یہ ہمارا جمعداررام چندر ہے۔ میں نے اس سے آپ کے آنے کاذکر کردیا تھا یہ آج دوپہر کو کھانا کھانے بھی نہیں گیا۔ مولانا صاحب نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا، نہ جانے کس طرح جیسے میرے اندر کے زخموں کوانہوں نے دیکھ لیا ہو۔ مولانا نے سیّد صاحب سے بھی پہلے مجھ سے ہاتھ ملایا اور پھر اپنے سینہ سے لگا یا اور دیر تک میری پیٹھ کو پیار سے دباتے رہے ۔اس کے بعد سید صاحب سے ملے، دوپہر کے کھانے کو دیر ہوگئی تھی، فوراً ڈرائنگ روم میں تخت پر دستر خوان لگا دیا گیا ۔میں اپنی جھاڑو کو پورا کرنے لگا، میرے اندر ایک بھونچال سا آگیا یہ مسلمانوں کے دھرم گرو ہیں میں تو سمجھتا تھا کہ وہ مجھ سے ملیں گے بھی نہیں، مگر یہ کس سنسار کے آدمی ہیں ایک بھنگی کو سیّد صاحب سے پہلے گلے لگا لیا۔ ایک چوکیدار ایک چپراسی کو ایسی محبت سے گلے لگا نے والے یہ کس یگ کے آدمی ہیں۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ مولانا صاحب ڈرائنگ روم سے باہر آئے اور بولے آؤ رام چندر کھانا کھالو۔ پہلے تو میں یہ سمجھاکہ مولانا صاحب ایسے ہی فارمیلٹی پوری کررہے ہیں، مگر انھوں نے زور دینا شروع کیا اور کہا کہ دیکھو تم نے کھا نا تو کھایا نہیں اور میرے ہاتھ سے جھاڑو لے کر ایک طرف رکھ دی اور میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچ کر واش بیسن کے پاس لے گئے کہ ہاتھ دھولو۔ مجھ سے کہا تمہارے ہاتھ جھاڑو کے ہورہے ہیں صابن سے دھو لو، ہاتھ دھلا کر میرا ہاتھ پکڑ ا اور ڈرائنگ روم میں لے گئے اور تخت پر بٹھا نے لگے۔ میں بار بار نیچے بیٹھنے پر زور دیتا رہا مگر مولانا صاحب نے میری ایک بھی نہ مانی اور کہا تمہیں میرے برابر میں بیٹھ کر کھا نا کھانا ہے میرے لئے بالکل عجیب تجربہ تھا۔ میرے لئے اس دستر خو ان پر بیٹھنا کتنا مشکل کام تھا اور پھر بیٹھ کر ساتھ کھا نا کھانا، پلیٹ میں مولانا صاحب نے اپنے ہاتھ سے سالن نکالا روٹی اٹھا کر میرے ہاتھ میں دی، ایک ایک لقمہ میرے لئے کتنا مشکل ہورہا تھا میں بیان نہیں کر سکتا۔ اچانک مولانا صاحب نے ایک لقمہ میری پلیٹ میں لگا یا میں اچھل سا گیا، مولانا صاحب نے محبت سے معلوم کیا کہ رام چندر مجھ گندے سے گھن ( کراہیت ) آرہی ہے ؟تمہارے ساتھ خوب اچھی طرح صابن سے ہاتھ دھوئے ہیں، میری آواز نہ نکل سکی۔ مولانا صاحب نے میری پلیٹ میں اپنی پلیٹ کا سالن الٹ دیا اور پھر میری پلیٹ میں کھا نے لگے۔ بریانی بھی نکالی اور میٹھا بھی ایک پیالے میں کھایا۔ مجھ سے کھا نا تو کہاں کھایا جا رہا تھا مجبوراً کچھ نہ کچھ کھا تا رہا۔ دستر خوان اٹھا لیا گیا مگر میں اس لائق نہیں رہا تھا کہ اپنے پاؤں اٹھ سکوں۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس سنسار میں اس جنم میں میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا۔ میرے مالک جن کا میں چوکیدار ہوں ان کے پیر صاحب اور دھرم گرو میری پلیٹ میں کھانا کھائیں، میں یہ سب خواب تو نہیں دیکھ رہا تھا۔ کیا واقعی یہ سچ تھا مجھے خود اپنے حواس پر اعتماد سا اٹھتا جا رہا تھا۔ شاید آدھا گھنٹہ میں اسی حالت میں بیٹھا رہا اور نہ جا نے کیا کیا سوچتا رہا۔ اچانک سید صاحب نے کہا رام چندر تمہیں گھر نہیں جا نا ؟مولانا صاحب سے کیوں ملنا چاہتے تھے، کچھ کہنا ہو کہہ لو اور گھر جاؤ، گھر پر تمہارا انتظار ہورہا ہوگا۔ تمہاری ماں پریشان ہورہی ہوگی کہ کھانا کھانے کیوں نہیں آیا، میں نے ہمت کر کے سر اٹھا یا اور سید صاحب سے کہا ‘ میاں صاحب اب آپ مجھے اس گندگی میں کیوں بھیج رہے ہو جب ساتھ کھلا لیا ہے تو بس مسلمان کر کے اپنے میں ملالو۔ مولانا صاحب نے جواب دیا کہ بیٹے تم ہمارے ہی تو ہو، کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ تم ہم ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور تم ہمارے خونی رشتے کے بھائی ہو، یا بھتیجے البتہ ایک خاندان کے لوگوں کو ایک خدا کا بندہ بن کر ایک اسلام کا قانون ضرور ماننا چاہئے۔ اللہ کے نبی ﷺ جو قانون اسلام کی شکل میں ہمارے لئے لائے اور جس نے اونچ نیچ، ذات پات کے نظام کو آکر پیروں کے نیچے روندا اس کا ماننا تمہارے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہمارے لئے۔ تم نے بہت اچھا سوچا بس تم نے ارادہ کرلیا تو مسلمان تو تم ہوگئے، مگر ہم بھی ساکشی (گواہ ) بن جائیں اس لئے اپنے مطلب کے لئے تم سے کہتے ہیں کہ دو لائنوں کا کلمہ ہے وہ پڑھ لو۔ میں نے کہا جی پڑھاؤ، مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں اس کا ترجمہ بھی کہلوایا اور پھر کہانام بدلنا ضروری نہیں مگر نام بھی بدلنا چاہوتو بتادو۔ میں نے کہا نہیں جی نام تو ضرور بدل دو۔ مولانا صاحب نے کہا میں تمہارا نام محمد احمد رکھتا ہوں، اس لئے رکھتا ہوں کہ محمد اور احمد ہمارے نبیﷺ کے نام ہیں، تم نے چونکہ ایک زمانے تک اونچ نیچ کے نظام میں ذلت برداشت کی ہے اب اسلام میں تمہارے لئے، میں سب سے عزت والا بلکہ دونوں ناموں کو ملاکر معزز ترین نام رکھتا ہوں اور مجھے جماعت میں جانے کا مشورہ دیا۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : شام کو میں گھر چلا تو گیا مگر مجھے وہاں حد درجہ گھٹن محسوس ہوئی ساری رات خیالوں میں مجھے نیند نہ آئی اگلے روز میں ڈیوٹی پر گیا تو سید صاحب نے مجھے جماعت میں جانے کا مشورہ دیا۔ گھر والوں سے یہ کہہ کر کہ مجھے میرے مالک سوا مہینہ کے لئے باہر بھیج رہے ہیں، میں جماعت میں چلاگیا۔ مرکز کے سامنے سے کچھ کتابیں ہندی انگریزی میں مجھے سید صاحب نے خرید کردیں، علی گڑھ کی جماعت کے ساتھ مراد آباد میں ہمارا وقت لگا۔ سب پڑھے لکھے لوگ تھے میرا وقت بہت اچھالگا جماعت میں وقت لگا کر میں واپس آیا، تو سید صاحب جن کو میں اب ابی کہتا ہوں مجھے لینے کے لئے مرکز آگئے۔ مجھے لے کر گریٹر کیلاش پہنچے، ساتھ میں کھانا کھلایا پھر مجھ سے کہا تم نے پڑھائی کیوں چھوڑ دی ہے میں نے گھریلو حالات کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے مجھ سے کہا میں تمہارا داخلہ کرادوں ؟ میں نے کہا اگر کہیں ہوجائے تو اس سے بہتر میرے لئے اور کیا ہوسکتا ہے، جامعہ میں میرا داخلہ اللہ کے کرم سے سفارشوں کے بعد ہوگیا۔ میں نے بی اے آنرس کرلیا اور الحمدللہ فرسٹ ڈویژن، بی اے میں بھی آئی، پھر انگلش سے ایم اے بھی کیا اس دوران میں نوئیڈافیکٹری میں جانے لگا۔ ایم اے پہلے سال میں ایک روز شام کو سید صاحب نے مجھے بلایا اور کہنے لگے کہ اگر تمہیں قبول ہو تو میں تم سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں ششدر رہ گیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں خاموش ہوگیا تو انھوں نے کہا آج رات تمہارا نکاح ہوگا عشاء کی نماز کے بعد کچھ لوگ اکٹھا ہو گئے سید صاحب نے خود میرا نکاح پڑھایا اور لوگوں کو بتایا کہ بہتر ہے کہ لڑکی کا باپ اگر نکاح پڑھا سکتا ہو تو وہ نکاح پڑھائے۔ مدینہ کی کھجوریں نکاح کے بعد تقسیم ہوئیں، رخصتی تو بعد میں ہونی طئے تھی نکاح کے بعد ساری رات میں سوچتا رہاآخر میں کون سی دنیا میں آگیا ۱۰؍جنوری ۲۰۰۳ء کو میرا نکاح ہوا اور اسی سال مئی میں رخصتی ہوئی اور رخصت کرکے ہم دونوں کے لئے ابی صاحب نے عمرہ کا پروگرام بنایا۔ عمرہ میں میری عجیب کیفیت رہی مدینہ منورہ ہم پہنچے تو روضہ اطہر پر میری عجیب کیفیت ہوگئی، مجھے خیال تھا، یہ ساری نئی دنیا میرے اس محسن نبیﷺ کے قدموں کا صدقہ ہے جی چاہتا تھا کہ فرط عقیدت میں جان دیدوں۔ میں نے ابھی تک داڑھی بھی نہیں رکھی تھی روضہ مبارک پر حاضر ہوا تو مجھے ایسا لگا کہ میرے نبیﷺ مجھے مشرکوں کی صورت بنائے ہوئے امتی کو دیکھ رہے ہیں۔ میں نے اسی وقت داڑھی رکھنے کا عہد کیا حرم کے اماموں کو قرآن شریف پڑھتے ہوئے سن کر میرا دل بہت متا ثر ہوتا تھا، مجھے احساس ہوا کہ یہ بھی کوئی بندگی ہے کہ اپنے مالک کا کلام بھی نہ سمجھ سکے۔ الحمدللہ قرآن شریف ناظرہ میں نے تجوید کے ساتھ ایم اے کے دوران پڑھ لیا تھا اور اردو بھی خوب لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا ۔میں نے عربی پڑھنے کا بھی عزم کیا اور مدینہ منورہ میں ہی ایک مولانا صاحب سے اس کی بسم للہ بھی کرائی، الحمدللہ یہ عمرہ کا سفر میرے لئے بڑا مبارک رہا۔ میں نے بارہا اپنے رسولﷺ کی خواب میں زیارت کی ایک بار میں خواب میں آپ کے قدموں سے چمٹ گیا اور خوب بوسے دیئے۔ اسی سال دوبارہ الحمد للہ ہم دونوں کا حج کا سفر بھی ہوا، پی ایچ ڈی میں میرا رجسٹریشن ہوگیا تھا، الحمدللہ ۲۰۰۳ء سے اس سال میری تحقیق مکمل ہوگئی ہے۔
سوال : آپ نے کس مضمون میں پی ایچ ڈی کیا اور عنوان کیا تھا ؟
جواب : میں نے جے این یو سے انگریزی میں پی ایچ ڈی کیا ہے، میرا عنوا ن بھی بہت پیارا تھا، اس کے لئے مجھے وزرات تعلیم سے زور ڈلوانا پڑا، میری پی ایچ ڈی کا عنوان تھا ‘‘ انسانیت اور تہذیبوں پر محمد رسول اللہﷺ کے احسانات ’’
سوال : آپ کی پی ایچ ڈی مکمل ہوگئی ؟
جواب : جی الحمدللہ تقریباًمکمل ہوگئی، وایوا کا ایک مرحلہ مکمل ہوگیا ہے، ایک باقی رہا ہے۔
سوال : آپ کی اہلیہ محترمہ کا رویہ آپ کے ساتھ کیساہے ؟
جواب : وہ بہت دین دار لڑکی ہے، میں نے چار سالہ ملازمت میں اس کو نہیں دیکھا تھا، ایک دین دار خاتون ہونے کی حیثیت سے وہ مجھے اپنا شوہر سمجھتی ہیں، اسلام میں آنے کے بعد سب سے بڑا مجاہدہ اور مشکل میرے لئے ان کو بیوی سمجھنا ہے۔ مجھے ہر لمحہ یہ خیال ہوتا ہے یہ میرے نبیﷺ کی آل سے ہیں، الحمدللہ میں نے کبھی ان سے پانی بھی اس اکرام کی وجہ سے نہیں مانگا، بڑا دعوتی ذہن ہے، مولانا صاحب کی ساری دعوتی کتابیں پڑھتی ہیں کبھی کبھی جب مجھے نبی اکرمﷺ کی عقیدت کا جذبہ آتا ہے تو میں بے اختیار ان کے قدموں کوچوم لیتا ہوں کہ ان قدموں میں میرے نبی کا خون ہے، پیارے نبی کا ذکر، آپ کا خیال، میرے لئے زندگی کا سہارا ہے ۔آپ کی رحمۃ للعالمینی کا جو پر تو میری زندگی پر ہے وہ شاید کسی کو نصیب ہوا ہو۔ کاش بلکتی انسانیت کو آپﷺ کا تعارف کرایا جاتا تو انسانیت ظلم کے اندھیروں سے نکل سکتی ابھی کچھ روز پہلے ڈنمارک کے ناسمجھوں اور احمقوں کا واقعہ ہوا، اپنے کو ترقی یافتہ سمجھنے والے مغرب اور یورپ کے لوگ کیسی ذلالت کی حرکت کرتے رہے، میں بیان نہیں کرسکتا مجھے کیسی تکلیف ہوئی، میں نے بلک بلک کر دعائیں کیں میرے اللہ ان کمینوں نے میرے پیارے نبیﷺ اربوں سلام ہوں آپ پر اور کروڑوں درود، کی شان کو نہیں سمجھا، میرے اللہ ان کو سزا دیجئے، مجھے امید ہے کہ دنیا ان بدبختوں کا انجام ضرور دیکھے گی اور آگ ان کو کھائے گی، کئی بار میں اٹھ کر بیٹھ جاتا، میرے نبیﷺ کی توہین کرنے والوں کو اللہ کی زمین پر رہنے کا حق نہیں ہے اور جی چاہتا کہ ابھی اٹھ کر چل دوں اور ان کمینوں کو اپنے جوتوں کے نیچے مسل دوں، ایک روز مولانا صاحب سے میں نے اس کا ذکر بھی کیا، مولاناصاحب نے بتایا کہ اس توہین کے بیک واسطہ ذمہ دار ہم مسلمان ہیں کہ ہم نے رسول رحمتﷺ کا دنیا کو تعارف ہی نہیں کرایا، تو مجھے واقعی اپنے قصور کا احساس ہوا اور غصہ کچھ کم ہوا، پھر بھی مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ وہ بد بخت ضرور اس دنیا میں اس کا خراب انجام دیکھیں گے۔
سوال : آپ نے عربی پڑھنے کا کیا کیا؟
جواب : الحمدللہ دو گھنٹہ روز عربی پڑھ رہا ہوں اللہ کا شکر ہے پورا قرآن شریف سمجھ میں آرہا ہے،شیخ سدیس اور شیخ شریم دونوں کے لہجوں میں قرآن شریف پڑھ لیتا ہوں، میں نے حفظ کرنا بھی شروع کردیا ہے اور چار پارے مکمل کرلئے ہیں، اس مرتبہ میں نے نوئیڈا کی مسجد میں جمعہ کی نماز بھی پڑھائی مولانا صاحب نے مجھ سے اصرار کیا، میں نے بھی سعادت سمجھ کر قبول کرلیا۔
سوال : آپ کو دیکھ کر بالکل نہیں لگتا کہ آپ نئے مسلمان ہیں بلکہ آپ کو سب لوگ مولانا ہی سمجھتے ہوں گے۔
جواب : آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا اکثر لوگ مجھے دیکھ کر مولانا ہی کہتے ہیں، میں معذرت کرتا ہوں کہ میں تو مولانا کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں۔
سوال : آپ خود آئینہ دیکھتے ہیں، تو کیسا لگتا ہے؟
جواب : میرا خود اپنے چہرے کو بوسہ لینے کو جی چاہتا ہے، یہ خیال ہوتا ہے کہ میرے نبی کی اتباع میں یہ چہرا ہے، یہ نہیں لگتا کہ مجھ گندے کا یہ چہرا ہے، میرے اللہ نے میرے حلیہ کو بھنگی سے سید بنا دیا، مجھے غیر اسلامی حلیہ میں ہرشخص ایسا لگتا ہے جیسے مجھ بھنگی کا اسلام سے پہلے کا چہرہ اور حلیہ ہو۔
سوال : مگر کسی کو حقیر تو نہیں سمجھنا چاہئے۔
جواب : آپ کے علم میں ہے کہ ہم دونوں مولانا صاحب سے بیعت ہیں الحمد للہ کسی کافر کی حقارت کبھی نہیں آتی کسی کو غیر اسلامی حلیے میں دیکھتا ہوں خصوصاً مسلمانوں کو تو اندر سے دعا نکلتی ہے، الٰہی اندر سے تو یہ مسلمان ہے اس کو باہر سے بھی مسلمان بنادیجئے اور اس کو یہ سمجھا دیجئے کہ بھنگی کے حلیے میں عزت ہے یا سید کے حلیے میں؟
سوال : اپنے گھر والوں کے بارے میں آپ نے کچھ کام شروع کیا؟
جواب : اصل میں تعلیمی مصروفیات میں زیادہ رہیں، تاہم دعوت سے بالکل غافل نہیں رہا میری والدہ اور ایک بہن مسلمان ہو گئی ہے اور ہم نے ایک گھر نوئیڈا میں بنا لیاہے، اس سال میرا عمرے کے لئے جانے کا ارادہ ہے اور پھر ہم دونوں بس دعوت کے لئے زندگی کو وقف کریں گے، میری اہلیہ محترمہ تو بہت جذبے کی داعی خاتون ہیں، الحمدللہ ان کی کئی سہیلیاں مسلمان ہوچکی ہیں اور انھوں نے اپنے والدکے خرچ پر ان کی شادیاں بھی کی ہیں ایک ہزار بار درود شریف اور ایک منزل قرآن مجید روزانہ پڑھتی ہیں۔
سوال : آپ کے معمولات کا کیا حال ہے۔
جواب :میں بھی الحمد للہ ان کے پیچھے پیچھے ساتھ ساتھ چلتا ہوں سونے سے پہلے ایک ہزار بار درود شریف اور ایک منزل قرآن حکیم پورا کر لینا تو ہم دونوں ضروری سمجھتے ہیں، بس اللہ ان میں جان اور اخلاص پیدا فرمائیں۔
سوال : آ پ ارمغان کے قارئین کے بارے میں کچھ پیغام دینا چاہیں گے۔
جواب : ہمارے ملک میں پچاس کروڑ دلت ہیں، بنگلہ دیش میں پچاس لاکھ لوگ دلت رہتے ہیں، اس طرح دنیا میں ڈیڑھ ارب لوگ وہ ہیں جو ذات پات کے نظام سے متاثر اور مظلوم
ہیں، ان میں ہر ایک میری طرح صرف ایک بار ساتھ کھلانے کے لئے ترس رہا ہے، رسولﷺ کے آخری حج کے خطبے کو حقیقی معنوں میں اگر ان تک پہنچا دیں اور ذرا اسلامی انداز میں ان کو گلے لگا لیا جائے تو اتنی بڑی آبادی دونوں جہاں میں ہدایت یاب ہوکردوزخ کی آگ سے بچ سکتی ہے ہم نے پھلت میں دیکھا ہے صفائی کرنے والا جمعدار اور کام کر نے والے دلت مزدور مولانا کے برابر میں بیٹھ کر چائے اور ناشتہ کرتے ہیں اور اللہ کا شکر ہے ہدایت یاب ہوتے ہیں اور دلت اور پسماندے اور کالے ہی کیا اسلام تو پوری دنیا کے ظالمانہ نظام کا تر یاق ہے انسانیت تک اسلام اور نبی رحمتﷺ کا تعارف اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے۔
سوال : بہت بہت شکریہ جزاکم اللہ خیر الجزاء، آخر میں چند آیتیں شیخ شر یم کے لہجے میں سنائیے ۔ (آپ قرّاء میں کس کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟)
جواب : مجھے شیخ شریم سے زیادہ مناسبت اور عقیدت ہے ایک تو وہ خود بہت سادہ مزاج کے انسان ہیں (نیز وہ) اندر اندر گھٹتے ہیں اور حدیث میں جو آتا ہے کہ خوش الحانی یہ ہے کہ قاری کی آواز اور لہجے سے یہ محسوس ہو رہا ہو کہ عظمت قرآن سے دباجارہا ہے، شیخ شریم کے پڑھنے میں یہ بات پائی جا تی ہے جیسے رعب میں آواز دی جارہی ہو ۔( شیخ شریم کے لہجہ میں اعوذباللہ بسم اللہ سے شروع کر کے پوری سورہ مدثر تلاوت کی )
سوال : سبحان اللہ محمد احمد بھائی ا ٓپ نے تو تڑپا کررکھ دیاقرآن مجید سے اس درجہ منا سبت بہت مبارک ہو۔
جواب : احمد بھائی آپ کو بھی مبارک ہو، ہمیں بھی مبارک ہو، قرآن مجید مبارک ہو، اسلام مبارک ہو قرآن مجید کے الفاظ مبارک ہو اس کا لہجہ مبارک ہو، اس کی زبان مبارک ہو، اس کا رسول مبارک ہو، اس کی ہدایت مبارک ہو، اس کی تعلیمات مبارک ہوں، بلاشبہ مبارک صد مبارک ہزار مبارک، اہل زمین کو مبارک ساری کا ئنات کو مبارک خصوصاً آپ کو مبارک ہو آپ کے گھر انے کو مبارک ہو، نبی کا فیض مبارک ہو قرآنی دعوت کی تو فیق مبارک ہو اللہ کے یہاں آپ کے گھر کا انتساب مبارک ہو، آپ کو ارمغان مبارک ہوں ارمغان دعوت مبارک، ہدیہ دعوت مبارک، تحفہ دعوت مبارک۔ ( بہت زیادہ روتے ہوئے) مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، جولائی ۲۰۰۶ء