سیرت رسول کا بنیادی ماخذ ، قرآن

مصنف : ثاقب اکبر

سلسلہ : گوشہ سیرتﷺ

شمارہ : جنوری 2013

Click here to read in English

سیرت رسولﷺ کے حوالے سے دنیا کی تقریباً سوزبانوں میں لاکھوں جلدوں پر مشتمل کتب موجود ہیں۔ اس سیرت نویسی کا آغاز مغازی رسولؐ کے حوالے سے حضرت عروہؓ بن زبیر(م96ھ) نے پہلی دستاویز تیارکرکے کردیا تھا۔اْن کے بعد یہ سلسلہ مختلف حوالوں سے شروع ہوگیا۔ کسی نے حدیث کے عنوان سے آنحضرتؐ کے اقوال و فرمودات کی جمع آوری سے آغاز کارکیا، کسی نے تاریخ نویسی کے عنوان سے قلم سنبھالا اور کسی نے سیرت نگاری کے عنوان سے کام کی ابتدا کی۔ چودہ صدیاں گزر گئیں اور یہ سلسلہ شرق و غرب میں متنوع انداز سے آگے بڑھ رہا ہے۔ سیرت رسولؐ پر لکھی گئی کتب کی فہارس و کتابیات انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بات بڑے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں کسی شخصیت کے بارے میں اتنا نہیں لکھا گیا جتنا آنحضرت کے بارے میں۔ شاید یہ جملہ حقِ مطلب ادا نہیں کر پایا۔ کہا جاسکتا ہے کہ کسی شخصیت کے بارے میں آنحضرت کی نسبت عشرِ عشیر بھی نہیں لکھا گیا۔ قرآن حکیم کی یہ بات اس پہلو سے بھی حق ثابت ہوتی ہے کہ: وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَکَ ایسا ہونا ہی تھا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ذیل میں ہم مثال کے طور پرچند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

وجوہات

(1) حضرت محمد اللہ کے آخری رسول ہیں۔آپ کے بعد کسی اور نبی کو نہیں آنا۔اس لیے رہتی دنیا تک آپ کے پیغام کو باقی رکھنا ضروری ہوگیا۔

(2) اللہ نے آپ کو ‘‘ کَآفَّۃً لِّلنَّاس’’ یعنی ساری انسانیت کے لیے ہادی و راہنما بنا کر بھیجا اور آپ کو ’’رَحمَۃً لِّلعٰلَمِینَ’’ اور‘‘لِیَکْونَ لِلعٰلَمِینَ نَذِیرَا‘‘ کا تاج پہنا کرعالمین کی رشدوہدایت کا مسند نشیں قرار دے دیا۔

(3) اللہ تعالیٰ آنحضرت کے بارے میں اہل ایمان سے فرمایا: لَقَد کَانَ لَکْم فِی رَسْولِ اللّٰہِ اْسوَۃ حَسَنَۃ بے شک تمھارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔

اس کے پیش نظر مسلمانوں کے لیے ضروری ہوگیا کہ آپ کی سیرت اور اسوہ پر نظر رکھیں اوراسے اپنی انفرادی واجتماعی حیات کے لیے آئینہ قراردیں۔

جو لوگ آپ کی حیات مبارکہ کے ایام میں آپ کی خدمت میں شرفیاب تھے ان کے لیے تو آپ کا اسوہ نگاہوں کے سامنے پیکر کامل کے طور پر موجود تھا۔آنے والی نسلوں کے لیے آپ کی سیرت و اسوہ تک پہنچنے کا وسیلہ کیا ہے؟ یہ سوال سامنے آتا ہے توبے ساختہ سب مسلمانوں کی زبان سے پہلا لفظ ‘‘قرآن’’ نکلتا ہے۔ اس کی تائید کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس کے کئی ایک بنیادی اسباب ہیں۔ آئیے ان پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔

۱۔ محفوظ ترین دستاویز

مسلمانوں کے پاس سب سے اہم، اساسی، محفوظ ترین اورہر جہت سے متفق علیہ دستاویز قرآن ہی ہے۔ تمام مسلمان اسے ایک غیر محرف آسمانی کتاب مانتے ہیں جیسا کہ خود قرآن حکیم نے فرمایا ہے:

اِنَّا نَحنْ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَ اِنَّا لَہ لَحٰفِظْونَ

بے شک ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

۲۔ دیگر مآخذ پر قرآن کی فوقیت

تمام مسلمان محققین اس امر پر متفق ہیں کہ حدیث،تاریخ،تفسیر اور سیرت کے عنوان سے جتنی دستاویزات آج ہمارے پاس سرمائے اوراثاثے کے طور پرموجود ہیں تمام پر ناظر اورحکم قرآن ہے۔ بعض جمود زدہ افراد کی یہ رائے محققین نے قبول نہیں کی کہ حدیث قرآن پر ناظر ہے اورحدیث قرآن کے کسی حکم کو نسخ کر سکتی ہے۔ اصول فقہ کی بنیادی کتابوں میں علما نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ قرآن کا صدور من اللہ ہونا یقینی ہے۔ قرآن کی ہر آیت حد تواتر کی بھی اعلیٰ ترین منزل پر فائز ہے۔ حدیث کا صدور ظنی ہے اور ظن یقین پر غالب نہیں آسکتا جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے: اِنَّ الظَّنَّ لَا یْغنِی مِنَ الحَقِّ شَیئًا۔

اس سلسلے میں آئمہ اہل بیت سے بھی کئی ایک ایسی روایات منقول ہوئی ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ اْن سے مروی روایات کو قرآن پر پیش کیا جائے، اگر وہ اس کے مطابق نہ ہوں تو انھیں دیوار پر دے مارا جائے۔ گویا ان کے نزدیک بھی قرآن، حدیث کی صحت کو پرکھنے کا معیار ہے۔ جب یہ بات احکامِ شریعت کے اخذ کرنے میں اصول کی حیثیت رکھتی ہے اورمحکم عقلی ونقلی دلائل کی بنا پر ایک برحق اصول ہے تو پھر دین کے تمام امور میں قرآن کے کسوٹی ہونے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتا۔دیگر انبیاء کے بارے میں اسرائیلیات کو پرکھنے کے لیے بھی ہم قرآن ہی کو معیار قرار دیتے ہیں۔ بعض انبیاء بنی اسرائیل کے بارے میں جو بے سروپا قصے اور افسوس ناک کہانیاں اسرائیلی روایات میں آگئی ہیں عقلی دلائل کے علاوہ قرآن حکیم کی روشنی میں ہی ہم ان پر نقد کرسکتے ہیں۔ یہی اسلوب ہم آنحضرت کی سیرت پاک کو جاننے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ ایسی تمام روایات جو آنحضرت کی شخصیت، روش اور سیرت کے اْس تصور سے ٹکراتی ہیں جو قرآن حکیم نے پیش کیا ہے ہم انھیں ہرگز قابل قبول نہیں سمجھتے۔

۳۔ قرآن اورآپ کا اسوہ کامل

قرآن حکیم میں نبی کریمﷺ کی زندگی کے مختلف پہلو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔قرآن حکیم اسلامی تعلیمات و احکام ہی کا سرچشمہ نہیں بلکہ یہ تعلیمات جو کامل نمونہ عمل تخلیق کرتی ہیں وہ بھی وادی قرآن میں چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے۔مثال کے طور پر آپ کی زندگی کے مندرجہ ذیل پہلوؤں کو قرآن حکیم میں دیکھا جاسکتا ہے:

(i) آنحضرت کا ایمان باللہ، عبادت الٰہی میں آپ کا استغراق،اللہ کے حضور آپ کا احساس مسئلیت وغیرہ۔

(ii) آنحضرت کی خانگی اورعائلی زندگی۔

(iii) مشرکین کے ساتھ آپ کی روش اور ان کے طرح طرح کے اصرار، مطالبات، سازشوں اور ستم رانیوں کے مقابلے میں آپ کی روش۔

(iv) مختلف طرح کے اہل کتاب کے ساتھ آپ کا برتاؤ۔

(v) جنگوں کے مختلف مراحل میں آپ کا کردار۔ فتح و شکست کی صورتوں میں آپ کا ردّعمل۔

(vi) ساتھیوں اور اصحاب کے ساتھ آپ کا طرز عمل۔ اْن سے مشاورت اور مختلف مراحل میں اْن کی تربیت اوراْن سے سلوک۔

(vii) منافقوں کے ساتھ آنحضرت کا سلوک

(viii) آپ کی سچائی، امانت داری،حوصلہ مندی، اصحاب سے نرم خوئی وغیرہ۔

(ix) آپ کا اسلوب دعوت اور اس کے مختلف مرحلے۔

(x) انبیاء اورکتب ماسبق کے بارے میں آپ کا پیغام۔

اوراسی طرح ایک قائد، راہبر، ہادی، پیغمبر، پیغمبرخاتم اور انسان کامل کی حیثیت سے آپ کی زندگی کے مختلف گوشے قرآن میں محفوظ ہیں۔

4۔ ہمہ گیر اوردائمی کردار ،اصولوں کا سرچشمہ

قرآن حکیم بیشتر کلیات اور اصولوں کی حامل کتاب ہے بلکہ جہاں وہ کوئی واقعہ بیان کرتا ہے اس میں سے بھی وہ کسی اصول اور قانون اورسنت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا اور بہت سے مقامات پر وہ ایک قانون اور کلیے کے طور پر اس کا نتیجہ بیان کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسی دستاویز جسے تمام زمانوں،تمام علاقوں اورانفرادی واجتماعی زندگی کے تمام مرحلوں میں راہنما اورہادی اورگائیڈلائن کاکردار ادا کرنا ہے اْسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اسی طرح جس ہستی کو سرحدِ زمان ومکان کے اس پار ایک آفاقی، ہمہ گیر، جامع، کامل،کائناتی اورلازوال کردار واسوہ کے طور پر فلک ہدایت پر سراج منیر بن کر جلوہ گر ہونا ہے اسے بھی بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اس کی زندگی کو انسانی ہدایت کے اصولوں کا سرچشمہ ہونا چاہیے، ایسے اصول جو انسانی فکروعمل کے ہرنئے موڑ پر راہ کشا اور راہ نما ہوں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو زندگی کے مختلف شعبوں اور مرحلوں میں آنحضرت کا قرآنی اسوہ انتہائی خوبصورت صراحت سے انہی آیات الٰہی میں جلوہ فگن ہوتا ہے۔

۵۔ آنحضرت کا تابعِ وحی ہونا

قرآن حکیم میں ہے کہ رسول اکرم معجزہ طلب افراد سے فرماتے ہیں:اِن اَتَّبِعْ اِلَّا مَا یْوحٰی اِلَیَّمیں تو صرف اس امر کی اتباع کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے:قْل اِنَّمَآ اَتَّبِعْ مَا یْوحٰی اِلَیَّ مِن رَّبِّیکہیے میں تو صرف اس امر کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے میری طرف وحی ہوتا ہے۔

آنحضرت اپنے پیروکاروں سے بھی یہی تقاضا کرتے ہیں: اِتَّبِعْوا مَآ اْنزِلَ اِلَیکْم مِّن رَّبِّکْم وَ لَا تَتَّبِعْوا مِن دْونِہ اَولِیَآءَ

جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اس کے علاوہ اولیا کی اتباع نہ کرو۔

یہ آیات اس امر کی شاہد ہیں کہ آنحضرت کا کردار وحی الٰہی کے تقاضوں کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا لہٰذا آپ کے وجود کو چلتا پھرتا قرآن یا قرآن ناطق کہا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں ہوگا۔آپ قرآن کے سب سے پہلے مومن اوراحکام قرآن کے سب سے پہلے عامل تھے۔

یہی وجہ ہے کہ آنحضرت کے ممتاز ترین سیرت نگاروں نے قرآن حکیم کو آنحضرت کی سیرت نگاری اوراسوہ شناسی کے لیے اولین اور قابل اعتماد ترین ماخذ قرار دیا۔چند آرا کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر محمد حسین ہیکل کی رائے

‘‘حیاۃ محمد’’ کے مولف ڈاکٹر محمد حسین ہیکل اپنی کتاب کے مقدمے میں رقم طراز ہے:

مجھے یہ باریک نکتہ معلوم ہوچکا تھا کہ آنحضرت صلعم کی سیرت کے سلسلہ میں اگر کوئی بہترین مرجع و ماخذ ہے تووہ قرآن حکیم ہے کیونکہ آیات قرآنی میں آنحضرت صلعم کی حیات طیبہ سے متعلق اشارات پائے جاتے ہیں اور کوئی محقق اگر چاہے تو حدیث و سیرت کی کتابوں کی مدد سے اس ضمن میں تسلی بخش تحقیق کر سکتا ہے۔ اس خیال سے میں نے ان تمام آیات کو جو آنحضرت صلعم کے حالات زندگی سے متعلق ہیں جمع کرنے کی ٹھانی۔

مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا نظریہ

اہل حدیث کے ممتاز عالم شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے ڈاکٹر محمد حسین ہیکل کی کتاب کے اردو ترجمے پرایک مبسوط مقدمہ لکھا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:آنحضرت کے حالات مبارکہ اور حضور علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ معلوم کرنے کا سب سے زیادہ یقینی، سب سے زیادہ مستند اورسب سے زیادہ صحیح ذریعہ قرآن کریم ہے کیونکہ یہ کتاب عظیم ہر تغیر سے پاک اور ہر تبدیلی سے مبرا ہے۔ابتدائے نزول سے اب تک نہ اس میں کوئی ترمیم وتنسیخ ہوئی ہے اورنہ آئندہ کبھی ہوسکتی ہے۔ایک حرف اورایک لفظ بھی اس کا کسی عہد اورکسی دور میں نکالا یا بڑھایا نہیں گیا۔ جس طرح حضور سرور کائنات علیہ الصلوٰ والسلام پر نازل ہوا تھا ایک نقطے کی کمی بیشی کے بغیر آج ہمارے ہاتھوں میں ہے اور یقیناً ہمیشہ اسی طرح رہے گا۔

سر ولیم میور کا نقطہ نظر

شیخ محمد اسماعیل نے اپنے اسی مقدمے میں ہندوستان میں انگریزی دور کے ایک سابق گورنر اورلائف آف محمد کے مولف سرولیم میور کی یہ عبارت بھی نقل کی ہے:

قرآن کی اس خصوصیت میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں کہ محمد کی سیرت و سوانح اور اسلام کی ابتدائی تاریخ معلوم کرنے کے لیے اس میں بنیادی باتیں موجود ہیں اورمحمد کی زندگی کے تمام تحقیق طلب امور کو اس کے ذریعے پوری صحت کے ساتھ جانچا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں محمد کے مذہبی خیالات ،محمد کے پبلک افعال اورمحمد کی پرائیویٹ زندگی کے متعلق تمام مواد قرآن میں مکمل طور پر مل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد کی سیرت اوراْس کا اندرونی کردار معلوم کرنے کے لیے قرآن ایک ایسا شفاف آئینہ ہے جس میں ہمیں سب کچھ صاف طور پر نظر آجاتا ہے۔ چنانچہ اسلام کے ابتدائی عہد میں یہ بات ضرب المثل کے طور پر مشہور تھی کہ ‘‘محمد کی تمام سیرت قرآن میں محفوظ ہے۔’’

ایک وضاحت:

ہماری مندرجہ بالا تمام گفتگو کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حدیث، تاریخ اور سیرت کی تمام کتابیں لائق اعتنا نہیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ یہ کتابیں آنحضرت کی تاریخ حیات اور تعلیمات تک رسائی کے لیے بہت مدد گار ہیں لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن حکیم اس سلسلے میں سب سے پہلا اور سب سے زیادہ بھروسے کے لائق مرجع و ماخذ ہے اوردیگر تمام متون بلکہ افکار پر بھی ناظر اور حَکَم کے مرتبے پر فائز ہے۔ قرآن کی اس حیثیت اورمقام کو نظرانداز کرکے لکھی گئی کتابوں نے جو گل کھلائے ہیں وہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ کتابیں ہیں جو دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں میں ان کے مقاصد ِشوم کے لیے دستاویز بن گئی ہیں۔