ہماری رائے میں حدیث اور سنت میں فرق بالکل واضح اور متعین ہے۔ سنت ہمارے نزدیک دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اْس کی تجدید واصلاح (یعنی اْسے دوبارہ زندہ اور درست کرنے) کے بعد اور اْس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ اور جسے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم نے اپنے کامل اتفاق کے ساتھ بغیر کسی اختلاف کے نسلاً بعد نسل اْس پر عمل کرتے ہوئے پوری حفاظت،پورے اہتمام اور قطعیت کے ساتھ دنیا کو منتقل کیا ہے۔ وہ قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے۔ جبکہ حدیث اصطلاح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب (یعنی کسی چیز پر نکیر نہ کرنے اور اْسے درست قراردینے) کی اْس روایت کو کہتے ہیں جو زیادہ تر اخبار آحاد (یعنی چند لوگوں کی روایت) کے طریقے پر نقل ہوئی ہے۔اِن دونوں اصطلاحات پر اگر مندرجہ ذیل پہلووں سے غور کیا جائے تو اِن کے مابین فرق نہ صرف یہ کہ بالکل واضح ہوجاتا ہے،بلکہ اِسے سمجھنے میں کوئی تردد اور ابہام بھی باقی نہیں رہ جاتا :
لغوی معنی میں فرق
حدیث اور سنت،دونوں الفاظ عربی زبان میں اپنے لغوی معنی ہی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حدیث کے معنی بات،قول،اور کلام کے ہیں اور یہ لغت میں جدید یعنی نئی چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے،جبکہ سنت کے معنی پٹے ہوئے راستے،عام طریقے اور جاری وساری عمل کے ہیں۔
اصطلاحی معنی میں فرق
اصطلاح میں حدیث،جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر وتصویب کی روایت کو کہا جاتاہے،جبکہ لفظِ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والے اْن مستقل بالذات احکام وہدایات کے لیے مستعمل ہے جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی ہے۔ سنت کا لفظ قرآن مجید کے ساتھ دینِ اسلام کے دوسرے مستقل ماخذ (Source) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
استعمالاتِ زبان کے اعتبار سے فرق
حدیث اور سنت عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ لوگ اگر چہ بعض اوقات اِن دونوں لفظوں کو مترادف کے طور پر بھی استعمال کرلیتے ہیں،لیکن اِس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہیے کہ اِن دونوں کی حقیقت بھی ایک ہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عربیت کی رو سے ہر جگہ حدیث اور سنت کو مترادف کے طور پر استعمال کیا بھی نہیں جاسکتا۔ مندرجہ ذیل چند مثالوں سے قارئین اِس مقدمے کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں :
ا۔ 'النِّکَاحْ مِن سْنَّتِی کے بجائے ہم اگر کہیں: 'النِّکَاح مِن حَدِیثِی تو بالبداہت واضح ہے کہ استعمالاتِ زبان کے اعتبار سے اِس جملہ کو غلط قرار دینے میں کسی شخص کو تردد نہیں ہوسکتا۔ اِس مثال سے واضح ہے کہ حدیث اور سنت دو مختلف چیزیں ہیں۔ چنانچہ اِن الفاظ کو مترادف کے طور پر استعمال کرنا درست نہیں ہے۔
ب۔ اگر کہا جائے کہ ملاقات کے موقع پر'السَّلاَمْ عَلَیکْم کہنا اور اْس کا جواب دینا "سنت" ہے،تو ظاہر ہے کہ یہ بیان ہر پہلو سے درست ہے۔ لیکن ہم اگر کہیں کہ ایسا کرنا "حدیث" ہے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ زبان کی رو سے یہاں "حدیث" کے لفظ کا استعمال قطعاً درست نہیں ہے۔ یہ مثال بھی پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر رہی ہے کہ حدیث اور سنت دو متفرق چیزیں ہیں۔
ج۔ اگر کوئی شخص کہے کہ لڑکوں کا ختنہ کرنا "حدیث" ہے تو اْس کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ یہ "حدیث" نہیں،بلکہ "سنت" ہے۔ اِسے حدیث کے لفظ سے تعبیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اِس مثال سے بھی ہر شخص حدیث اور سنت کے فرق کو با آسانی سمجھ سکتا ہے۔
د۔ اسی طرح اگر کہا جائے کہ نماز کے قیام میں سورہ فاتحہ کی قرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "حدیث" کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اِس جملے کو بھی ہر لحاظ سے غلط ہی قرار دیا جائے گا۔ صحیح تعبیر یہ ہوگی کہ آپ نے اِسے "سنت" کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ یہ مثال بھی واضح کررہی ہے کہ حدیث کا مصداق اور ہے اورسنت کا کچھ اور۔
دینی حیثیت میں فرق
سنت کی حیثیت قرآن کے علاوہ اللہ تعالٰی کے آسمانی دین اور اْس کی مستقل بالذات شریعت کی ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک مستقل دینی حیثیت رکھتی ہے۔ جبکہ حدیث میں دین کی حیثیت سے جو کچھ روایت ہوا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے قرآن وسنت کے مستقل بالذات احکام کی شرح و وضاحت اور اْن پر آپ کے عمل کے نمونے کا بیان ہے۔
ماخذ و مصدر کے اعتبار سے فرق
سنت کا ماخذ و مصدر محمد رسول اللہ کی ذاتِ والا صفات ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ سنت کو دین میں اْس کی حیثیت کے پیش نظر آپ نے بذاتِ خود پورے اہتمام،پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ متعین شکل میں اللہ کے دین کی حیثیت سے اپنے ماننے والوں میں باقاعدہ طور پر جاری فرمایاہے۔ آپ اِسی کے مکلّف تھے۔ جبکہ حدیث کا معاملہ اِس کے بر عکس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اْس کی حفاظت،تبلیغ و اشاعت اورتدوین و کتابت کے لیے خود کبھی کوئی اہتمام نہیں فرمایا۔ حدیث کی روایت کا آغاز آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہوا ہے۔ اِس کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ صحابہ میں سے جس نے چاہا اپنے ذوق کے مطابق جو کچھ اْس کے علم وضبط میں تھا،اپنے حفظ و اتقان ہی کی بنیا د پر فطری جذبہ ابلاغ کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس روایت کو اْس کے طلبہ میں منتقل کیا اور ضرورت کے مواقع پر بیان فرمایا۔
ذریعہ انتقال اور ثبوت کے لحاظ سے فرق
سنت کا ذریعہ انتقال،جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے،اْمت کا اجماع اور تواتر عملی ہے۔ چنانچہ اِس کا ثبوت بھی قرآن ہی کی طرح بالکل قطعی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کا استناد علمِ یقین کے درجے میں ثابت ہے۔ لہذا اِس کے بارے کسی بحث اور اختلاف کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ یہی و جہ ہے کہ سنت کے حوالے سے صحیح،حسن،ضعیف اور موضوع کی بحث بھی سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی۔ جبکہ حدیث کا معاملہ اِس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ اخبارِ آحاد (یعنی چند لوگوں کی روایت) کے طریقے پر نقل ہوئی ہے۔ اور اخبارِ آحاد سے کسی چیز کا روایت ہونا جس طرح اْس کے ثبوت کو قطعیت کا درجہ نہیں دیتا،اِسی طرح اْس سے حاصل ہونے والا علم بھی کبھی درجہ یقین کو نہیں پہنچتا۔ چنانچہ معلوم ہے کہ حدیث کے ثبوت پر بحث و تحقیق ہوتی ہے اور اِس کے نتیجہ میں کوئی روایت صحیح،کوئی ضعیف اور کوئی موضوع بھی قرار پاتی ہے۔ کسی روایت کو قبول کیا جاتا ہے اور کوئی رد کردی جاتی ہے۔
نوعیتِ انتقال میں فرق
سنت کو اصلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے جاری فرمایا تھا،وہ ہو بہو ویسے ہی اپنی اصل شکل میں،بغیر کسی ادنٰی تغیر کے منتقل ہوئی اور آج بھی اْسی صورت میں اْمت کے پاس موجود ہے۔ جبکہ حدیث کے بارے میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اْس کی روایت میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اْسے باللفظ ہی روایت کیا جائے۔ بلکہ بالعموم وہ روایت بالمعنٰی ہی کے طریقے پر نقل ہوئی ہے۔ یعنی راوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اِس میں جو کچھ روایت کرتے ہیں؛اپنے فہم کے مطابق بالعموم اپنے ہی الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں۔
مشمولات کے اعتبار سے فرق
مشمولات (Contents) کے اعتبار سے دیکھا جائے تب بھی حدیث اورسنت کئی پہلووں سے دو متفرق حقیقتوں کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں:
ا۔ مشمولات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو سنت کے تمام اعمال اپنی نوعیت ہی کے لحاظ سے دین ہیں۔ وہ اعمال یا تو عبادات کی نوعیت کے ہیں،یا تطہیر بدن سے متعلق ہیں،یا خور و نوش کے تزکیہ کے لیے ہیں اور یا اْن کا تعلق تطہیر اخلاق سے ہے۔ جبکہ حدیث کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اْس کے مشمولات میں یہ چیز شرط نہیں ہے۔ ذخیرہ حدیث کا ہم جب بالتفصیل مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اْس میں دینی نوعیت کے مضامین بھی ہیں۔ جیسے دین کی شرح و وضاحت سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اْس پر عمل کے لیے آپ کے اْسوہ حسنہ کا بیان۔ اِسی طرح اْس ذخیرے میں اِس کے علاوہ بھی بہت سے مشمولات ایسے ہیں جن کا اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہونا ضروری نہیں ہے۔ مثلاً قریش کے دورِ جاہلیت کے اعمال و تصورات کابیان؛ماضی کے اخبار؛مستقبل کی عمومی پیشن گوئیاں؛نبوت سے پہلے اور بعد از نبوت آپ کی سوانح حیات کی روایات اور لباس و خور و نوش میں آپ کی عادات اور اندازِ گفتار و رفتار کا بیان وغیرہ۔
ب۔ سنت عملی نوعیت کی چیز ہے۔ اْس کے تمام مشمولات انسان کی عملی زندگی سے متعلق احکام ہیں۔ جبکہ حدیث کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ اصلاً زبانی روایتوں کی نوعیت کی چیز تھی۔ پھر اْسے کتابوں اور صحیفوں کی صورت میں محفوظ کیا گیا۔ اب اْس کا سارا ذخیرہ چند متعین کتابی مجموعوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اْس کے مشمولات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اْس میں عملی نوعیت کی چیزوں کے ساتھ ساتھ علم و عقیدہ اور ایمانیات سے متعلق مباحث بھی موجود ہیں،تاریخ کی چیزیں بھی ہیں،تفسیر اور شانِ نزول کی روایات بھی ہیں اور انبیا کی قوموں کے حالات اور اْن کے فکر و عمل سے متعلق روایات بھی موجود ہیں؛جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث اور سنت میں مشمولات کے لحاظ سے بھی فرق ہے۔
ج۔ حدیث اور سنت کے مشمولات میں اِس اعتبار سے بھی ایک واضح فرق ہے کہ سنت میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے قرآن کی شرح و وضاحت قرار دیا جاسکے۔ جبکہ حدیث کے ذخیرہ میں قرآنی احکام کی شرح و وضاحت پر مبنی روایات بھی پائی جاتی ہیں،تفسیر کی نوعیت کی چیزیں بھی ہیں اور یہاں تک کہ خود سنت کا بیان اور اْس سے متعلق شرح و وضاحت پرمبنی روایات بھی اْس میں موجود ہیں۔ حدیث کا ذخیرہ گویا متفرق چیزوں کا مجموعہ ہے۔
د۔ سنت کے بارے میں یہ اْصول بھی بالکل متعین ہے کہ اْس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعمال بھی شامل نہیں ہیں جنہیں آپ نے شریعتِ سماوی کے حکم کے طور پر نہیں،بلکہ اپنے طور پر نفل کی حیثیت سے اختیار کیا ہے۔ آپ سے مروی اِس نوعیت کے تمام اعمال کا بیان اگر کہیں پایا جاتا ہے تو حدیث ہی میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ واضح ہوا کہ حدیث اورسنت دونوں کے مشمولات میں اِس پہلو سے بھی ایک واضح فرق ہے۔
ھ۔ سنت کے مشمولات میں ایسی چیزیں بھی نہیں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محض فطرت کے بیان اور اْس کی رہنمائی کے طور پر صادر ہوئی ہوں۔ آپ سے منسوب اِس نوعیت کی تمام چیزیں بھی یہ واقعہ ہے کہ اگر کہیں پائی جاتی ہیں تو حدیث ہی میں پائی جاتی ہیں۔ جیسے پالتو گدھے کا گوشت کھانے
کی ممانعت اور اعلٰی اخلاق اپنانے کی تاکید و تلقین وغیرہ۔ چنانچہ اِس سے بھی واضح ہوا کہ حدیث اور سنت دونوں کے مشمولات مختلف ہیں۔
و۔ سنت کا معاملہ یہ ہے کہ اْس میں ایسی کوئی چیز بھی نہیں ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اْن کے پوچھنے پر بتائی ہو یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے اْنہیں بتائی تو ہو لیکن اْس رہنمائی کی نوعیت ہی پوری قطعیت کے ساتھ واضح کردیتی ہو کہ اْسے اللہ کی ہدایت کے طور پر مقرر کرنا آپ کے پیش نظر ہی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونے والی اِس نوعیت کی تمام ہدایات بھی اگر کوئی دیکھنا چاہے تو حدیث ہی کے ذخیرے میں دیکھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر نماز کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے آپ نے اپنی ایک دعاے استفتاح سیدنا ابو ہریرہ کے پوچھنے پر اْنہیں بتائی اور قعدے کی دعا میں جب بعض لوگوں کی غلطی آپ کے سامنے آئی تو آپ نے اْن کی غلطی کی اصلاح فرما کر اْن کی رہنمائی فرمائی (مسلم، رقم ۱۳۵۴،۸۹۷)۔
ز۔ تمام سنن کو اگر سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اْن میں باہم کسی قسم کا کوئی تعارض اور تضاد نہیں پایا جاتا۔جبکہ ذخیرہ حدیث کے بارے میں اْس کا ہر طالب علم اِس حقیقت سے واقف ہے کہ اْس میں بے شمار ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں باہم دگر تعارض اور تضاد پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی کوئی چیز کھالینا و ضو کو توڑ دینے و الی چیزوں میں سے ہے (مسلم،رقم۷۸۹،۷۸۸)۔ جبکہ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے (مسلم،ر قم ۷۹۰،۷۹۱)۔
ح۔ اعمالِ سنن میں کسی ایسی چیز کی نشاند ہی نہیں کی جاسکتی جو قرآن سے متصادم ہو،جبکہ حدیث کے ذخیرہ میں ایسی بہت سی روایات دکھائی جاسکتی ہیں جو قرآن سے متعارض و متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ بات بیان فرمائی کہ:'' یقیناً مْردے کو اْس کے گھر والوں کے رونے کی و جہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ نے سنا تو قرآنِ مجید کی بنیاد پر اِس روایت کی تردید کرتے ہوئے اْنہوں نے فرمایا:اللہ تعالٰی عمر پر رحم فرمائے۔ بخدا رسول اللہ نے ایسا نہیں فرمایا ہوگا کہ اللہ تعالٰی مومن کو کسی کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ (اِس معاملہ میں فیصلہ کن چیز کی حیثیت سے) تمہارے لیے قرآن کی یہ آیت ہی کافی ہے کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اْٹھائے گی۔ (مسلم،رقم ۲۱۵۰)