عصمت نبی علیہ السلام کا اصول و عقیدہ اہل ایمان میں مسلمہ ہے جس پر کوئی اختلاف نہیں، عام طور سے عصمت سے مراد ‘‘اصول و عقائد دین میں خطا و گناہ سے بری ہونا’’ لیا جاتا ہے ۔ لیکن اصل میں عصمت سے یہ مراد ہے کہ انبیاء علیہم السلام اصول و عقائد ہی میں نہیں تمام معاملات میں معصوم ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ بشر اور عبد بھی ہوتے ہیں لہٰذا ان سے غلطی، خطا اور زلت قدم کا صدور ممکن ہے، مگر ان کی خطا کی فوری اصلاح اور غلطی کے صدور کے ساتھ ہی ازالہ کر دیا جاتا ہے اور وہ خدا و زَلت باقی ہی نہیں رہتی۔ انتہائی عصمت کے قائل علما و حکمائے اسلام انبیائے کرام سے غلطی کا صدور ممکن ہی نہیں سمجھتے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ نبی و رسول سے کسی قسم کی خطا دین و شریعت کے معامالت میں سرزد نہیں ہوتی۔ دونوں نظریات کا بہرحال ماحصل ایک ہے اور وہ یہ کہ نبی و رسول کی خطا و غلطی باقی رہتی ہے نہ اس کا اثر۔ (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، سیرت سرور عالم مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی بار سوم، مورخہ ۱\ ۷۶۔۷۷، نے دوسرے نقطۂ نظر سے بحث کی ہے، مولانا عبد السلام ندوی، امام رازی، دار المصنفین اعظم گڑھ ۱۹۵۰ء، بحث بر نظریہ نبوت از امام رازی، ۲۲۹ وما بعد، نیز کتب دیگر)
متعدد علمائے اصول و دین نے عصمت انبیا پر مدلل و مفصل بحثیں کی ہیں کہ وہ منصب نبوت کا لازمی حصہ ہے۔ ان میں متعدد کتب خاص اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں اور اسلامی عقائد کی کتب میں اس پر ایک مبحث ضرور ہوتا ہے، علامہ ابو زید بلخیؒ (م ۳۳۲/ ۹۳۴ء) کی عصمۃ الانبیاء کا حوالہ یاقوت حموی نے اپنی کتابوں میں دیا ہے۔ امام رازی (ابو عبد اللہ فخر الدین محمد بن عمر بکری تیمی صدیقی ۵۳۴/ ۱۱۴۸/ ۱۲۰۰) کی اسی عنوان سے ایک کتاب ہے۔ امام ابن حزم اندلسی (علی بن احمد م، ۴۵۶ / ۱۰۶۴) نے ‘الفصل فی الملل والنحل ’ (جلد چہارم) میں، قاضی عیاض (بن موسیٰ یحصبی م ۵۴۲ / ۱۱۴۷) نے الشفاء (قسم ثالث، باب اول) میں اور ان کے شارح امام خفاجی (احمد بن محمد م ۱۰۶۹ / ۱۶۵۹) نے (شرح الشفاء جلد چہارم) میں اس موضوع پر بحث کی ہے۔ ان کے علاوہ بھی متعدد دوسرے اہل قلم کے مباحث بھی ملتے ہیں۔ (جیسے دوست محمد کابلی، تحفۃ الاخلاء فی عصمۃ الانبیاء)، سید سلیمان ندوی، سیرۃ النبی جلد چہارم اور عقائد وغیرہ کی کتب شرح مواقف وغیرہ نیز مقالہ ‘‘عصمۃ’’ اردو معارف اسلامیہ لاہور. از گولڈ زیرہو ادارہ)
عصمت نبی کا دیباچۂ حفاظت
رسول اور نبی کے بعد منصب نبوت و رسالت کی عصمت کا عقیدہ متفقہ ہے، مگر اصل مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ بعثت و نبوت سے قبل کسی نبی و رسول کو یہ عصمت حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ عام طور سے اس مسئلہ کو زیر بحث لایا ہی نہیں جاتا کیونکہ علما کے اس خیال و فکر میں وہ منصب رسالت کا تقاضا اور رسول و نبی کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے اور علمائے کرام نے بالعموم اسے خصائص انبیائے کرام کے تحت بیان کیا ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے اسی ذیل و ضمن میں ‘‘نبی کی تیسری اہم خصوصیت’’ کی ذیلی سرخی کے تحت ‘‘عصمت و بے گناہی’’ پر بحث کی ہے۔ اس مفصل بحث میں تمام انبیائے کرام کی عصمت ثابت کرنے کے بعد قبل بعثت و نبوت کے زمانے میں ان کی ‘‘ضلالت’’ کے معانی و مفاہیم پر بحث کی ہے کہ وہ ‘‘انبیاء کے حق میں ضلالت سے مقصود گنہگاری، عصیان کاری اور گمراہی نہیں بلکہ عدم نبوت کا دور اور رسالت سے پہلے کا عہد ہے جو نبوت و رسالت کی ہدایت کے مقابلہ میں نسبتاً ضلالت ہے۔’’ (سیرۃ النبی، دار المصنفین اعظم گڑھ، ۱۹۸۴ء، ۹۲۔ ۱۱۲، بالخصوص آخری صفحہ) اس تعبیر و تشریح میں بھی قبل بعثت رسول کریمؐ کی حفاظت و عصمت کا تصور و خیال موجود نہیں ہے۔
بعض دوسرے علمائے کرام اور بالخصوص سیرت نگاروں میں متقدمین نے رسول اکرمؐ کی ماقبل بعثت زندگی میں بھی ایک طرح کی عصمت و محفوظیت کا ذکر واضح الفاظ میں کیا ہے اور احادیث میں اس کی تصدیق ملتی ہے۔ متعدد قدیم و جدید سیرت نگاروں نے احادیث و روایات کی بنا پریہ تو لکھا ہے کہ رسول کرامؐ ابتدائے حال ہی سے فطری طور پر ہر بری بات سے بیزار اور متنفر تھے۔ اور ‘‘حضرات انبیاء اللہ کے نفوس قدسیہ ابتدا ہی سے کفر و شرک او رہر قسم کے فحشاء اور منکر سے پاک اور منزہ ہوتے ہیں ....’’ مولانا محمد ادریس کاندھلوی کا یہ بیان قاضی عیاض کی شفا کی ایک بحث کا خلاصہ ہے اور مولانا شبلی نعمانیؒ کے بیان کا چربہ۔ عصمت محمدی قبل بعثت کے واقعات میں اس پر بحث آ رہی ہے۔ (محمد ادریس کاندھلوی، سیرۃ المصطفیٰ، دار الکتاب دیو بند غیر مورخہ، ۱/ ۱۲۴/ ۱۲۵، شبلی، سیرۃ النبی، اعظم گڑھ، ۱۹۸۳ء، ۱ / ۱۹۹ و مابعد)
حفاظت نبوی پر تبصرے
مولانا شبلیؒ نے ایک عام تبصرہ کیا ہے کہ ‘‘ .... آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا دیگر رسوم جاہلیت میں کبھی شرکت نہیں کی’’ اسی طرح قریش کے انحرافات اور احمس کے نظریات سے پرہیز کیا، انھوں نے قریش کے بعض انحرافات کا ذکر کیا۔ بعض اور واقعات سیرت کے ذکر کے بعد مولانا مرحوم کا تبصرہ بڑا معنی خیز ہے ‘‘یہ فطرت سلیم اور نیک سرشتی کا اقتضا تھا لیکن ایک شریعت کبری کی تاسیس، ایک مذہب کا مل کی تشیید اور رہنمائی کونین کے منصب عظیم کے لیے کچھ اور درکار تھا .... (سیرۃ النبی ۱/ ۲۰۰)
سیرۃ المصطفیٰ کے مولف گرامی نے حضرت شداد بن اوسؓ کی ایک روایت کا اضافہ کیا ہے۔ اس کے مطابق رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ‘فلما نشأت بغضت الیّ الاوثان وبغض الیّ الشعر’ کہ جب میرا نشو و نما شروع ہوا (کذا) اسی وقت سے بتوں کی شدید عدوات اور اشعار سے سخت نفر ت میرے دل میں ڈال دی گئی ... چونکہ منصب نبوت و رسالت آپ کے لیے مقدر ہو چکا تھا اس لیے حق جل شانہ نے ابتدا ہی سے آپ کے قلب مطہر کو ان تمام امور سے متنفر اور بے زار کر دیا جو منصب نبوت و رسالت کے منافی اور متباین تھی (کذا)۔ (سیرۃ المصطفیٰ ۱/ ۱۲۶، بحوالہ کنزل العمال جس میں یہ روایت بحوالہ ابی یعلیٰ و ابی نعیم ذکر کی گئی ہے)۔
اس قسم کے تبصرے دوسرے سیرت نگاروں کے ہاں بھی ملتے ہیں جن کا ذکر یا حوالہ آتا رہے گا۔ سیرت نبوی کے قبل بعث کے دور او ر اس میں رسول اکرمؐ کی پرورش و پرداخت کے حوالے سے ان کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں خاص وہ واقعات ہیں جن کے ذریعہ رسول اکرمؐ کے نیک طینت، نیک خصلت اور سلیم الفطرت ہونے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جیسے لہو و لعب اور گانے بجانے سے حفاظت کا خاص انتظام الٰہی یا منکرات و فواحش و شرک سے حفاظت کا تکوینی معاملہ۔
بعثت نبوی سے قبل حفاظت نبوی کے دو ابعاد
قدیم سیرت نگاروں نے قبل بعثت کی حیات طیبہ کے بارے میں خاص طور سے عصمت و حفاظت نبوی کے دو ابعاد و جہات کا ذکر کیا ہے۔ ان کی روایات و احادیث میں اس کا جتنا واضح تصور ملتا ہے دوسروں کے ہاں نہیں ملتا۔ ایک جہت یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کی بچپن سے ہی منکرات اور مقام عالی سے فروتر چیزوں سے حفاظت کی گئی جیسا کہ بعض عام تبصروں کے حوالے سے اوپر گزر چکا ۔ اس ضمن میں بعض واقعات کا ذکر تقریباً سب نے ہی کیا ہے۔جن کا مختصر تجزیہ اس جہت کے تحت پیش کیا جائے گا۔
دوسری جہت کو بالعموم قدیم سیرت نگاروں اور محدثین و شارحین کرام نے مثبت طور سے بیان کیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ رسول اکرمؐ کے صحیح اقدامات اور قریش مکہ اور عرب کے انحرافات کے بالمقابل صحیح دینی اعمال و سنن کا اختیار کرنا اور قریش و عرب کے تجاوزات و انحرافات کی اصلاح کرنا شامل ہے۔ اسے قدیم سیرت نگاروں نے ‘‘توفیق الٰہی’’ سے تعبیر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو خاص ہدایت ملی تھی، بعد کے بعض سیرت نگاروں نے اسے فطرت سلیمہ اور اندرونی خیر سے تعبیر کیا ہے، مگر وہ اس سے بلند تر چیز تھی۔
قریش مکہ اور عام عرب کے طبقات احناف نے بھی اپنی فطرت سلیم اور مروجہ دین عرب سے تنفر کی بنا پر صحیح دین ابراہیمی کی تلاش شروع کر دی تھی مگر بقول شبلیؒ ‘‘سب مذہب حق کی تلاش کے لیے نکلے تھے لیکن ناکامی کی دیوار سے سر ٹکرا ٹکرا کر رہ گئے۔’’ (۱ / ۲۰۰) رسول اکرمؐ نے بھی اسی سماجی اور دینی فضا میں پرورش پائی تھی مگر ‘‘توفیق الٰہی’’ نے آپؐ کی خاص رہنمائی کی اور آپؐ نے بعثت سے پہلے ہی قریشی تجاوزات و انحرافات سے صرف دامن ہی نہیں بچایا بلکہ ان کی ‘‘اصلاح’’ بھی فرمائی۔ اسے صرف دین ابراہیمی کے بقیہ نقیہ کا عطیہ او ردین نہیں کہا جا سکتا۔
مقام و مرتبہ سے فروتر چیزوں سے حفاظت الٰہی
تمام محدثین اور اہل سیر نے بالاتفاق لکھا ہے کہ رسول اکرمؐ کو بچپن سے شرک اور اس کے تمام مسرام و اثرات سے بطور خاص محفوظ رکھا گیا۔ مولانا شبلی اور ان کے جامع سید سلیمان ندوی اور دوسرے جدید اہل علم نے بڑی قطعیت کے ساتھ تمام ابنیائے کرام کی قبل بعثت ان سے حفاظت و عصمت کا قرآن مجید کی آیات کریمہ اور احادیث شریفہ سے مدلل ذکر کیا ہے اور رسول اکرمؐ کی محفوظیت کو بطور خاص اجاگر کرتے ہوئے دوسرے گناہوں سے بھی آپ کا دامن پاک بتایا گیا ہے، اس میں مقام و مرتبۂ محمدی کی بزرگی اور کمال بھی چھپا ہوا ہے کہ جب احناف کے فروتر افراد ان آلائشوں سے محفوظ رہ سکے تو منصب رسالت اور اس سے زیادہ ختم المرسلین کے اعلیٰ و افضل مقامم و منصب پر فائز ہونے والی ذات والا صفات کا اس سے محفوظ و مبرا ہونا تقدیر الٰہی سے زیادہ حفاظت و عصمت الٰہی کا خاص منصوبہ تھا۔ دور جاہلی کے بہت سے اکابر قریش اور عظمائے عرب دوسرے بڑے گناہوں جیسے بدکاری، شراب نوشی، قتل و غارت گری سے اپنی فطرت سلیم کی بنا پر محفوظ رہے تھے تو ان ‘‘کاملین’’ کے سرخیل اور اکمل عرب ان سے کیونکر محفوظ نہ رہتے! (شبلی ۱/ ۱۹۹ وما بعد، کاندھلوی ۱/ ۱۱۶۔ ۱۱۸، مودودی، ۲ / ۱۰۴: بوانہ نامی بت کی زیارت وغیرہ سے آپ کے انکار اور چچا اور پھوپھیوں کے اصرار پر شرکت پر ایک شخص غیب کی تہدید و حفاظت بحوالہ ابن سعد، قیافہ شناس سے اجتناب بحوالہ ابن ہشان وغیرہ)
نبی کریمؐ کی قبل بعثت زندگی میں محفوظیتو حقانیت کا جو بزرگ تر اور کامل تر حصہ ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو ان گناہوں سے کہیں فروتر اور کسی حد تک سماجی و ثقافتی لحاظ سے جائز چیزوں سے بھی محفوظ رکھا گیا۔ وہ لوگوں یا دوسروں کے لیے اتنی ممنوع یا ناپسندیدہ نہ تھیں جتنی ختم النبیین ہونے والی ذات والا صفات کے لیے تھیں، لہٰذا آپؐ کے آنے والے منصب و مرتبہ کی خاطر ان فروتر چیزوں سے بھی آپؐ کی حفاظت کی گئی۔ قرآن مجید کی آیت کریمہ میں آپؐ کی ماقبل بعثت زندگی کو آپ ؐ کی نبوت پر اسی لیے دلیل و حجت بنایا گیا ہے۔ (سورۂ یونس: ۱۶، .... فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ’: کیونکہ میں رہ چکا ہوں تم میں ایک عمر اس سے پہلے’’ شاہ عبد القادر دہلوی)
فروتر چیزوں سے محفوظیت کے دو واقعات سب جدید و قدیم سیرت نگاروں نے بیان کیے ہیں لیکن قلم شبلی کی رعنائی نے ان کو پیکر پاکیزگی بنادیا ہے، لہٰذا ان کا ذکر اس یقادر الکلامی سے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ ‘‘عرب میں افسانہ گوئی کا عام رواج تھا۔ راتوں کو لوگ تمام اشغال سے فارغ ہو کر کسی مقام پر جمع ہوتے تھے۔ ایک شخص جس کو اس فن میں کمال ہوتا تھا، داستان شروع کرتا تھا، لوگ بڑے ذوق و شوق سے رات رات بھر سنتے تھے۔ بچپن میں ایک دفعہ آنحضرتؐ نے بھی اس جلسہ میں شریک ہونا چاہا تھا، لیکن اتفاق سے راہ میں شادی کا کوئی جلسہ تھا، دیکھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، وہیں نیند آ گئی۔ اٹھے تو صبح ہو چکی تھی۔ ایک دفعہ اور ایسا ہی موقع تھا، اس دن بھی یہی اتفاق پیش آیا۔ چالیس برس کی مدت میں صرف دو دفعہ اس قسم کا ارادہ کیا لیکن دونوں بار توفیق الٰہی نے بچا لیا کہ تیری شان ان مشاغل سے بالا تر ہے۔ (بزار و مستدرک بحوالہ نسیم الریاض ج۱، ص ۶۰۹، خصائص کبریٰ سیوطی ج اول ، ص ۸۸ ہیں۔ نیز سر ولیم مور، لائف آف محمدؐ کا تبصرہ بر عصمت و پاکیزگی، ادریس کاندھلوی، سیرۃ المصطفیٰ ۱/ ۱۱۸۔ ۱۱۹، مودودی سیرت سرور عالم ۲ / ۱۰۲۔ ۱۰۳، دیگر کتب سیرت)
رسول اکرمؐ کے لڑکپن میں تعمیر کعبہ کے واقعہ میں شرکت نبوی کا واقعہ محدثین اور اہل سیر دونوں نے بیان کیا ہے۔ حدیث بخاری ۳۸۲۹ کے مطابق رسول اکرمؐ اور آپؐ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب ہاشمی پتھر ڈھو ڈھو کر لا رہے تھے ۔ حضرت عباسؓ نے رسول اکرمؐ سے کہا کہ آپ اپنی ازار اپنی گردن پر رکھ لیں تو وہ آپ کو پتھر سے بچا لے گی۔ اور آپؐ زمین پر گر پڑے اور آپ کی دونوں آنکھیں آسمان کی طرف نگراں ہو گئیں۔ پھر آپؐ کو افاقہ ہوا اور آپؐ نے فرمایا: ‘‘میری ازار میری ازار، اور آپؐ نے اپنی ازار باندھ لی۔’’ حدیث میں صرف اتنا بیان ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اور دوسرے اہل سیرت و حدیث نے مزید تفصیل بیان کی ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آپؐ کو اسی عالم بے خبری میں ہدایت دی گئی کہ کبھی عریاں نہ ہوں۔ اور پھر آپؐ عمر بھر عریانی سے محفوظ و مامون ہی رہے۔ (بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب بنیان الکعبہ، فتح الباری ۷ / ۱۸۴۔ ۱۸۵ وما بعد جس میں دیگر روایات حدیث و سیرت بھی ہیں)
جسمانی تطہیر کا تکوینی نظام
انسانی جسم روح و مادہ سے تشکیل پانے کی بنا پر مادی آلائشوں کا شکار بن سکتا ہے اور بنتا ہے۔ بقول حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اس میں قوت ملکیہ رکھی گئی ہے اور وہ اس کو ملکوتی صفات سے آراستہ و پیراستہ کرتی ہے اور اس کو عالم ملکوت سے وابستہ کرنے کی خاطر اوپر لے جاتی ہے کہ عالم ملکوت ملاء اعلیٰ اور صالحین کی آماج گاہ ہے۔ دوسری قوت بہیمیہ بھی رکھی گئی ہے جو اس کو آلائشوں سے ملوث کرتی ، گناہوں میں مبتلا کرتی اور بہائم جیسا بناتی ہے اور اس بنا پر وہ عالم ناسوت / مادی دنیا کی طرف نیچے گراتی ہے کہ مادہ کا مزاج و تاثیر مقام سے گرانا ہوتا ہے۔ یہ سارا نظام انسان کی جبلت میں اس لیے قائم کیا گیا کہ ‘‘اختیار’’ سے ایک حد تک نوازا و سرفراز کیا گیا ہے اور اس پر یعنی اختیار کے صحیح استعمال پر اس کو نجات ملتی ہے اور غلط استعمال پر اس کو مواخذہ و عذاب کا سامنا ہوتا ہے۔ (شاہ ولی اللہ دہلوی، حجۃ اللہ البالغہ، مکتبہ رشیدیہ دہلی ۱۹۵۳/ مکتبہ سلفیہ لاہور مذکورہ بالا پر مبنی، ۱ / ۲۰ وما بعد، سیر التکلیف، بحث کے لیے ملاحظہ ہو خاکسار کا کتابچہ: حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی۔ شخصیت و حکمت کا ایک تعارف، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۲۰۰۱، ۳۶)
قرآن و حدیث اور اسلامی فلسفۂ حیات نے ان قوتوں کا مرکز انسانی قلب کو قرار دیا ہے۔ وہ قلب جو خون کی تقسیم کا ذمہ دار ہے۔ یہ حسی قلب کی ترعیف ہے ارو وہ صحیح اور غلط پھٹکیوں کا مرجع و ماویٰ بھی ہے۔ اسی کے نیچے ایک اور قلب کا مقام ہے جو عالم ملکوت سے رشتۂ انسانی استوار رکھتا ہے اور ملکوتی صفات پیدا کرتا ہے۔ حسی اور روحانی قلب میں ایک خاص تکوینی تفاعل ہے جس کی صحیح تفہیم و تعبیر مشکل ہے کہ وہ عقل انسانی کے دائرے میں نہیں آتا۔ بشریت کے ناطے انبیائے کرام اور مرسلین عظام بھی ان دوگانہ قلوب اور ان کی کارکردگی اور کارگزاری سے بھی نوازے گئے ہیں۔ احادیث سے اور قرآن مجید کی متعدد آیات سے بھی اس بشری قلب کی ناسوتی پھٹکی کا ذکر ملتا ہے۔ اسی کو شیطان کا حصہ بھی کہا گیا ہے اور اسی کو انسان کی گمراہی، ناپاکی اور ضلالت کا ذریعہ و واسطہ بھی بتایا گیا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، قسم اول کے ابواب میں اس پر حکیمانہ بحث ہے ، جیسے باب سر التکلیف، باب انشقاق التکلیف من التقدیر وغیرہ، قلب پر آیات قرآنی اور احادیث نبوی بھی ملاحظہ کی جائیں۔ جیسے رعد: ۲۸، حج: ۴۶ وغیرہ اور حدیث : الا وہی القلب وغیرہ)
سید المرسلین اور خاتم النبیینؐ کے قلب مبارک کے اسی حصہ ناسوتی کی تطہیر کا واقعہ بہت اہم ہے ، اسے عام طور سے معجزۂ شق صدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ معجزہ اس بنا پر کہ وہ عقل انسانی کو عاجز کر دیتا ہے۔ ورنہ دراصل وہ تکوینی نظام کا اکی طریقۂ تطہیر ہے۔ جس طرح رسول اکرمؐ کی ذہنی، شعوری اور عقلی و وجدانی تطہیر کا انتظام کیا گیا تھا اور اس کے لیے بسا اوقات حسی اور محسوس طریقے اختیار کیے گئے اور کبھی کبھی غیر محسوس طریقے بھی جیسے القاء، الہام اور وحی وغیرہ۔ اسی طرح جسمانی تطہیر کے لیے خالص مادی اور حسی طریقے اختیار کیے گئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ، تفہیمات الٰہیہ وغیرہ میں مختلف مقامات پر اس معجزہ پر بحث کی ہے۔ جیسے حجۃ اللہ البالغہ ۲ / ۲۰۵ میں ہے: ‘‘ وظہرت الملائکۃ فشقت عن قلبہ فملأتہ ایمانا و حکمۃ وذلک بین عالم المثال والشہادۃ، فلذلک لم یکن الشق عن القلب اہلاکا وقد بقی منہ اثر المخیط ....’۔
شق صدر کا اولین تطہیری واقعہ رسول اکرمؐ کے لڑکپن / بچپن میں حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے گھر پرورش و پرداخت کے زمانے کے بالکل اواخر میں پیش آیا کیونکہ اسی معجزہ کی تاثیر سے گھبرا کر حضرت حلیمہ سعدیہ آپ کو آپ کے جد امجد عبد المطلب ہاشمی او روالدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وہب زہری کو مکہ آ کر حوالے کر گئی تھیں۔ متعدد سیرت نگاروں اور محدثین کرام نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے تمام روایات جمع کر کے ان کے اعتبار و ثقاہت پر بحث بھی کی ہے۔ قبل بعثت کے اس واقعہ کا بیان مولانا نے یوں لکھا ہے:
‘‘ .... ایک روز آپ جنگل میں تھے کہ دو فرشتے جبرئیل اور میکائیل سفید پوش انسانوں کی شکل میں ایک سونے کا طشت برف سے بھرا ہوا لے کر نمودار ہوئے اور آپ کا شکم مبارک چاک کر کے قلب مطہر کو نکالا، پھر قلب کو چاک کیا اور اس میں سے ایک یا دو ٹکڑے خون کے جمے ہوئے نکالے اور کہا کہ یہ شیطان کا حصہ ہے۔ پھرشکم اور قلب کو اس طشت میں رکھ کر برف سے دھویا۔ بعد ازاں قلب کو اپنی جگہ رکھ کر سینہ پر ٹانکے لگائے اور دونوں شانوں کے درمیان ایک مہر لگا دی۔ ’’ (مولانا مرحوم نے اس مہر کو مہر نبوت قرار دے کر اس کی حکمت بھی بیان کی ہے۔ (سیرۃ المصطفیٰ ۱ / ۷۳۔ ۷۷: مولانا مرحوم کے خیال میں شق صدر کا معجزہ چار بار پیش آیا جن مین سے دو بار بعثت سے پہلے ہوا تھا بحوالہ مسند احمد، معجم طبرانی، مستدرک حاکم، تلخیص مستدرک از حافظ ذہبی / مسند بزار، دارمی، زرقانی، ضیاء الدین مقدسی کی مختارہ، دلائل ابی نعیم، دلائل بیہقی اور حافظ ابن حجر عسقلانی / ابن سعد، علاماۃ النبوۃ قبل الاسلام / سیوطی، خصائص بحوالہ بیہقی و ابن عساکر / ابن حجر، فتح الباری، باب خاتم النبوۃ اور علامہ زرقانی، شرح مواہب ۱/ ۱۵۰ بحوالہ مسند ابی یعلیٰ، ودلائل ابی نعیم / ابن سعد، طبقات ۱ / ۹۶ نیز ابن اسحاق / ابن ہشام، سیرۃ ۲ / ۵۶، ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، یہ چھ روایات اس اولین واقعہ شق صدر کے بارے میں نقل کی ہیں جو مختلف صحابہ کرام سے اور بعض تابعی حضرات سے مروی ہیں۔)
دس سال کی عمر شریف میں شق صدر کا دوسرا واقعہ پیش آنے کا ذکر صحیح ابن حبان، دلائل ابی نعیم، حافظ مقدسی کی مختارہ اور عبد اللہ بن احمد کی زوائد مسند، زرقانی ، صحیح مسلم اور فتح الباری، باب علامات النبوۃ فی الاسلام کے حوالے سے کیا اور ان تمام روایات و احادیث کی تصحیح و تصویب پر خاصا کلام بھی کیا ہے اور دونوں کو صحیح واقعات قرار دیا ہے۔ سردست واقعہ کو بار بار دہرانے کی حکمت سے بحث نہیں کہ وہ ایک الگ تحقیقی موضوع ہے۔ تفصیل کا ایک حصہ مذکورہ بحث میں بھی ہے۔ سید سلیمان ندوی ۳ / ۴۸۴۔ ۵۰۴، شق صدر یا شرح صدر نیز ۳ / ۶۰۸ ۔ ۶۰۹ نے پانچ اوقات کا ذکر کیا ہے، جن میں سے تیسرا موقع بیس سال کی عمر میں پیش آیا اور وہ بھی قبل بعثت کا معاملہ ہے، لیکن اسے تسلیم نہیں کیا گیا البتہ چار کو تسلیم کیا گیا ہے اور بعض نے صرف دو موقعوں کو تسلیم کیا ہے۔ یہ سہیلی کا خیال ہے اور قاضی عیاض کے نزدیک صرف ایک مرتبہ کا واقعہ صحیح ہے۔ جو حضرت حلیمہ کے گھر پیش آیا تھا۔ سید صاحب نے اس واقعہ کے دو بار ہونے کی روایت تسلیم کر کے تاویل کی ہے کہ پہلی بار حصۂ شیطانی نکالا گیا اور دوسری مرتبہ علم و حکمت سے معمور کیا گیا۔ (۳۰ / ۴۹۷)
مولانا مودودی نے اپنے بیان واقعہ میں خلاف معمول کسی ماخذ کا ذکر نہیں کیا لیکن ان کا حاشیہ دلچسپ ہے ‘‘ واضح رہے کہ یہ شق صدر کا واقعہ اسرار الٰہی میں سے ہے جس کی کنہ کو انسان نہیں پہنچ سکتا۔ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایسے واقعات بے شمار پیش آئے ہیں جن کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی لیکن توجیہ کا ممکن نہ ہونا اس کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ ان کا انکار کر دیا جائے۔’’ (۲ / ۹۷، حاشیہ از مولف۔ اس نقطۂ نظر کی تائید دوسرے اکابر کی بحث سے بھی ہو سکتی ہے۔)
مولانا سید سلیمان ندوی نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے حوالہ و تائید سے اس واقعہ کو شرح صدر قرار دیتے ہوئے لکھا ہے ‘‘... ان تمام غیر متحمل الالفاظ معنی کو تمثیل کے رنگ میں دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عالم برزخ کے حقائق ہیں جہاں روحانی کیفیات جسمانی اشکال میں اسی طرح نظر آتے ہیں جس طرح حالت خواب میں تمثیلی واقعات جسمانی رنگ میں نمایاں ہوتے ہیں او رجہاں معنی اجسام کی صورت میں متمثل ہوتے ہیں۔ (۳ / ۴۹۸ بحوالہ حجۃ اللہ البالغہ ۲ / ۱۵۴: ‘اما شق الصدر وملؤہ ایمانا فخصتہ الخ غلبۃ انوار الملکیتہ وانطفاء لہیب الطبیعۃ وخضوعہا لما یفیض علیہا من خظیرۃ القدس’ شاہ صاحب کی بحث کے دوسرے معانی بھی ہیں)
توفیق الٰہی کی عطا
قریشی تجاوزات اور عرب انحرافات میں صراط مستقیم یا صحیح دین ابراہیمی پر گامزن ہونے کے ضمن میں روایات سیرت و حدیث دونوں رسول اکرمؐ کے لیے توفیق الٰہی ارزانی کیے جانے کا باقاعدہ ذکر ملتا ہے لیکن اس توفیق الٰہی کے عطیہ و عطا کے طریقہ کا حوالہ نہیں آتا کہ وہ القاء و الہام کے ذریعہ ہوا تھا یا خاص وحی کے ذریعہ۔ عام سیرت نگاروں نے اور محققین فن دونوں نے ان اقدامات نبوی کو اصلاحات سے بھی تعبیر کیا ہے کہ آپؐ نے قریشی غلطیوں یا بدعات کی اصلاح فرما دی تھی۔ ان میں دونوں طرح کی اصلاحات نبوی ملتی ہیں: بعض ناروا چیزوں کی ممانعت فرما دی اور بعض تسامحات کو بدل کر صحیح طریقہ اختیار فرمایا۔ مولانا شبلیؒ نے عریاں طواف کرنے کی ممانعت او رعرفات کے قیام و وقوف کے احیاء و اجرا کا ذکر ان اصلاحات نبوی میں کیا ہے جو قبل بعثت آپؐ نے کی تھیں۔ (سیرۃ النبی ۱ / ۱۹۹، بحوالہ ابن ہشام ۱ / ۶۹، نیز ان اصلاحات نبوی پر دوسری کتب سیرت میں مباحث)
روایت حج و عمرہ سے بہرحال یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے متعدد امور و مناسک حج میں اسی زمانے میں اصلاح فرمائی تھی۔ ان میں سے بعض کے قرینے ہیں اور بعض کے بارے میں واضح شہادتیں ملتی ہیں۔ (خاکسار کی کتاب مکی عہد نبوی میں اسلامی احکام کا ارتقاء، فرید بک ڈپو، نئی دہلی / قرآن اکیڈمی ۲۰۰۷ کے مختلف ابواب میں متعدد مباحث ہیں جن میں خاص باب حج کی اصلاحات ہیں، ۱۹۱۔ ۱۹۲ وغیرہ)
عریاں طواف کی ممانعت
بیشتر سیرت نگار بالخصوص جدید سیرت نگار کعبے کے طواف کا بحالت عریانی انجام دینا ایک عام ابتلا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ اس جامۂ عریانی سے قبل کئی اور مرحلے تھے اور اس کا تعلق صرف مردوں تھا، عورتوں سے نہیں۔ بہرحال اس پر تفصیل سے کہیں اور لکھا جا چکا ہے۔ طواف عریاں کرنے کے باب میں امام بخاریؒ نے رسول اکرمؐ کے لڑکپن میں ازار اتارنے کے واقعہ کو نماز وغیرہ میں عریاں نہ ہونے کے لیے بیان کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس اصلاح کا تعلق بہت قدیم دور سے ہے۔ (بخاری ، کتاب الصلاۃ، فتح الباری ۱ / ۶۱۵ ومابعد ۳ / ۵۵۴ وما بعد، مکی عہد نبوی میں اسلامی احکام کا ارتقاء)
وقوف عرفات کا احیاء
قریش مکہ مکرمہ بیت اللہ کے مقدس ہالہ کے باسی ہونے کی بنا پر اپنے کو حمس کہتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ ان کے لیے دوران حج حرم سے باہر جانا مناسب نہیں جیسا کہ تمام عرب جاتے ہیں، لہٰذا انھوں نے حج میں عرفات کا وقوف جیسا رکن اعظم ترک کر دیا تھا اور مزدلفہ سے ہی لوٹ آتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی متعدد دوسرے احمسی نظریات تھے جن کا ذکر ابن اسحاق / ابن ہشام وغیرہ نے کیا ہے اور خاکسار نے اپنی کتاب مکی عہد نبوی میں اسلمی احکام کا ارتقاء میں اس پر کافی مفصل بحث کی ہے۔ (مکی عہد نبوی میں اسلامی احکام کا ارتقاء ۱۷۵ ومابعد ۱۸۶ وما بعد، حدیث بخاری: ۴۵۲۰)
امام سیرت ابن اسحاقؒ اور امام حدیث امام بخاریؒ دونوں نے ایک ہی صحابی حضرت جبیر بن معطم نوفلیؓ سے قریب قریب یکساں الفاظ معانی کے ساتھ حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق رسول اکرمؐ کو موصوف نے دوران حج عرفات میں اپنے اونٹ پر وقوف کرتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ اپنی قوم کے تنہا فرد تھے۔ عام لوگوں / عربوں کے ساتھ آپؐ نے بعثت سے قبل اس کا وقوف کیا اور ان ہی کے ساتھ واپس بھی آئے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضرت راوی کو اس پر سخت تعجب ہوا تھا کہ آپ حمس میں سے تھے پھر آپؐ نے عرفہ / عرفات کا وقوف کیسے کیا؟ راوی گرامی اپنے کھوئے ہوئے اونٹ کی تلاش میں عرفات تک جا پہنچے تھے وہ خود وقوف کے ارادے سے نہیں گئے تھے۔ بعثت سے قبل سرت نگاروں نے آپؐ پر حی نازل ہونے سے قبل: ‘قیل ان ینزل علیہ الوحی’ کا فقرہ استعمال کیا ہے اور اس کو خاص اللہ کی طرف سے توفیق بھی کہا ہے: ‘توفیقا من اللہ’۔ مزید بحث کتاب مذکورہ بالا میں کی گئی ہے۔ (ابن ہشام ۱ / ۳۰۴، سہیلی، الروض الانف، بیروت ۱۹۵۶، ۳ / ۲۹۴، حدیث بخاری، ۱۶۶۴: کتاب الحج، باب الوقوف بعرفۃ، فتح الباری ۳ / ۶۵۳، ابن کثیر، تفسیر ۱ / ۲۴۲ بحوالہ امام مسلم کی حدیث، مکی عہد نبوی میں اسلام احکام کا ارتقاء ۱۷۸۔ ۱۷۹ وما بعد۔ جس میں متعدد روایات و احادیث اس مسئلہ کی ہیں)
دیگر اصلاحات نبوی او رتحفیظات الٰہی
نبوی اصلاحات میں بعض دوسرے معاشرتی اور سماجی اور اقتصادی امور و معاملات بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر بلکہ سب ہی کو نبوی دور بلکہ بعد ہجرت کے زمانے کا بتایا جاتا ہے، یہ توقیت زمانی جزوی طور پر صحیح ہے کیونکہ بہت سے معاملات و امور کا تعلق مکی دور سے تھا اور ان میں سے بہت سوں کا پیشرو انبیاء کے دور سے تھا۔ موخر الذکر میں خاص خصال فطرت کا معاملہ ایک سامنے کی مثال ہے۔ ان کو سنت انبیاء بھی قرار دیا گیا ہے کہ وہ تمام رسولوں اور نبیوں کی شرائع اسلامیہ میں پائی جاتی تھیں۔ ان میں سے بیشتر پر جاہلی دور کے پیروان دین براہیمی پر عمل بھی تھا۔ (خصال فطرت پر ملاحظہ ہو: مضمون خاکسار ‘‘خصال فطرت’’ نداء الصفاء نئی دہلی ۲۰۰۵، جون ۱۵۔ ۲۵، نیز مکی عہد نبوی میں اسلامی احکام کا ارتقا، ۵۳۰ ومابعد زیر عنوان سنت انبیاء کرام کا تسلسل’’ جس کے تحت یہ خصال ملتی ہیں، مونچھیں کتروان، داڑھی بڑھانا، ناخن ترشوانا، بغل اور زیر ناف کے بال مونڈنا، ختنہ کروانا، کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا وغیرہ بحوالہ بخاری / فتح الباری ۱۰ / ۴۱۹ وما بعد، مسلم / نووی ۳ / ۴۹۲، کتاب الطہارۃ، باب الفطرۃ وغیرہ، سید سلیمان ندوی، سیرۃ النبی ۶ / ۵۰۴)
اسی طرح حلال و حرام امور میں سے متعدد کا ذکر اسلامی شرائع ماقبل میں بھی ملتا ہے اور مکی عہد میں بھی بالخصوص مکی سورتوں میں۔ بعض مکی احادیث و روایات سیرت میں بھی ان کا ذکر پایا جاتا ہے اور ان سے قبل بعثت کا زمانہ متعین ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت زید بن عمرو بن نفیل عدوی مشہور حنیف کو رسول اکرمؐ نے ایک بار اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی تو موصوف نے فرمایا تھا کہ وہ بتوں کے چڑھاوے کو اور غیر ذبیحہ گوشت کو نہیں کھاتے اور اس پر آپؐ نے بھی اپنے اجتناب کا اظہار فرمایا تھا۔ شراب خوری، جوئے بازی، زنا و بدکاری اور متعدد ایسے سماجی کاموں سے جاہلی دور کے متعدد ‘‘اشراف و اکابر’’ محفوظ رہے تھے ان میں سے سر فہرست رسول اکرمؐ کا نام نامی ہے۔ محمد بن حبیب بغدادی اور بعض دوسرے وقائع نگاروں نے ایسی حفاظتوں کا ذکر کیا ہے۔ ان سب سے حفاظت و محفوظیت کی دو صورتیں ملتی ہیں: ایک دین ابراہیمی حنیفی کی خالص پاس داری جو ان کو حرام بتاتی تھی۔ دوسری اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص حفاظت و عصمت کی تکوینی توفیق جو ہونے والے پیغمبر اعظم کی قبل بعثت سیرت کو دلیل نبوت بنانا چاہتی تھی۔ (مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو: مکی عہد نبوی میں اسلامی احکام کا ارتقاء، باب احکام تحریم و کراہت وغیرہ، ۴۵۱ وما بعد)
خاص تکوینی نظام حفاظت و صیانت نبوی
رسول اکرمؐ کے باب خصا میں اور تمام پیشرو انبیائے کرام کے باب عام میں ایک خاص تکوینی نظام حفاظت اور انتظام صیانت کا سراغ ملتا ہے اور وہ بیشتر کتب حدیث و سیرت میں موجود ہے۔ بالعموم سیرت نگاروں نے اس کی بعض روایات کو متفرق طور سے کردار نبوی کی عظمت کے ضمن میں بیان بھی کیا ہے مگر ان روایات اور احادیث کو پرو کر ایک جامع نظام عصمت و حفاظت کے تحت نہیں بیان کیا محض اس بنا پر کہ ان کی نظر مجموعی تجزیے اور احادیث و روایات کے مجموعی تناظر کی طرف نہیں گئی۔
اس خاص تکوینی نظام حفاظت نبوی کے دو ابعاد ہیں: ایک سلبی جو فروتر اور غیر شایان شان عمل سے بچاتا ہے اور دوسرا ایجابی جو مثبت طور سے عصمت نبوی قبل بعثت کا اہتمام کرتاہے ۔ ان دونوں میں باہمی تفاعل و تعامل بھی ملتا ہے۔ اور مشہور محاورے کے مطابق ان دونوں کو ایک ہی سکے کے دو رخ اور ایک ہی معاملے کے دو پہلو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس خاص نظام عصمت کا تعلق رسول اکرمؐ کی ولادت با سعادت کے ماقبل زمانے سے ہے اور حقیقت میں وہ روز آفرینش سے حکمت الٰہی کا تقدیری منصوبہ اور تکوینی معاملہ ٹھہرتا ہے کہ اصلاً وہ علم و ارادۂ الٰہی سے متعلق ہے۔
ایک مشہور حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے میرے خاندان کی ہر پیڑھی میں نکاح سے پیدا فرمایا اور سفاح (بدکاری) کا اس پر سایہ بھی نہ پڑنے دیا: ‘‘ولدت من نکاح غیر سفاح’ اس حدیث نبوی کے مختلف متون و الفاظ ہیں اور یہ تمام ارشادات نبوی اس سنت مبارکہ کے مطابق ہیں کہ آپؐ نے بار بار مختلف مواقع پر مختلف مخاطب افراد و جماعت کے سامنے بیان فرمائے۔ ان اللہ اخرجنی من النکاح ولم یخرجنی من السفاح. خرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح من لدن آدم الی ان ولدنی ابی وامی ولم یصبنی من سفاح الجاہلیۃ شیء. ما ولدنی من نکاح الجاہلیۃ شیء الا نکاح کنکاح الاسلام. (ابن کثیر، البدایۃ والنہایہ، ۲ / ۲۵۶۔ ۲۵۹، علی بن برہان الدین حلبی، سیرت حلبیہ، قاہرہ ۱۹۶۴ء، ۱ / ۴۱ وغیرہ، ابن سید الناس، عین الاثر، مؤسسۃ عز الدین بیروت، ۱۹۸۶ء ۱/ ۳۵۔ ۳۶، شاہ ولی اللہ ، حجۃ اللہ البالغہ ۱ / ۱۲۷ وغیرہ، مفصل بحث کے لیے: مکی عہد نبوی میں اسلامی احکام کا ارتقاء، باب نکاح و طلاق، ۲۶۷ وما بعد)
جس نکاح نبوی کو اس حدیث کے بعض اطراف و متون میں نکاح اسلام قرار دیا گیا ہے وہ بقول حضرت عائشہؓ دور جاہلی میں بھی رائج تھا اور وہی صحیح طریق نکاح سمجھا جاتا تھا۔ اور وہ وہی تھا جو آج اسلام کا نکاح ہے۔ اس تبصرہ او رحدیث کے واقعہ دونوں میں دو اہم ‘‘تسلسلات’’ کی حقیقت چھپی ہوئی ہے جو معنی خیزی کے لحاظ سے اہم ترین ہے۔ ایک یہ کہ حضرت آدمؑ کے زمانے سے حضرت فخرؐ آدمؑ کے زمن تک نکاح اسلام تمام اسلامی شرائع میں جاری رہا۔ اسی بنا پر رسول اکرمؐ کے نسب پاک میں نکاح کی طہارت شامل تھی۔ اور تمام پیڑھیوں اور نسلوں میں نکاح جاہلیت کی پرچھائیں بھی نہیں پڑی تھی یعنی رسول اکرمؐ کا نسب اور آپؐ کے تمام آباء و اجداد کے نکاح کا پاکیزہ، اسلامی، صحیح، سنت انبیاء کے مطابق اور تکوین الٰہی کے مطابق تھے۔ رسول اکرمؐ کے نسب مبارک کو خاص طاہر و مطہر بنانے کا یہ وہ تکوینی نظام تھا جو روز آفرینش سے جاری رہا، اسی اسلامی نکاح کی خوصیت ہر زمانے میں رہی کہ اس میں کسی قسم کی جاہلی آلائش کسی طرح نہ ملنے پائی۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اسی خاص واقعہ تکوینی اور تقدیر الٰہی سے ایک اہم نتیجہ نکالا ہے اور وہ دراصل حدیث ہرقل کی صحیح تفہیم پر مبنی ہے اور اس کی طرف حافظ ابن حجر نے اپنی شرح فتح الباری میں بھی وضاحت کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تمام انبیائے کرام عام طور سے او رسیدنا محمد بن عبد اللہ ہاشمیؐ خاص طور سے اپنے اپنے زمانے کے اشراف و سادات کے خاندانوں میں بھی افضل و اعلیٰ ہوتے تھے تاکہ خاندانی عظمت و جلالت کی بنا پر وہ اپنے مخاطبین میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں اور ان پر کسی طرح کی فروتر خاندان کی پرچھائیں بھی نہیں پڑنے دی جاتی کہ رسول عصر بالخصوص خاتم النبیینؐ کی کسی خاندانی مسکنت یا سماجی سبکی کا کوئی بھی احساس دلوں میں پیدا ہو سکے اور کار پیغمبری اور کار دعوت میں کسی طرح سے مانع بن سکے۔ (حجۃ اللہ البالغہ ۲ / ۲۰۴: ‘وکذلک الانبیاء علیہم السلام تبعث الا فی نسب قومہا فان الناس معادن کمعادن الذہب والفضۃ وجودۃ الاخلاق یرثہا الرجل من آباۂ....’)
مثبت طور سے رسول اکرمؐ کا خاندان بنو ہاشم میں پیدا ہونا بھی دوسرا تکوینی نظام حفاظت ہے۔ اس باب میں رسول اکرمؐ کی ایک دوسری مشہور حدیث ہے کہ ‘‘اللہ نے اولاد اسماعیل ؑ میں سے کنانہ کو منتخب کیا، کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا، قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب کیا اور بنو ہاشم میں سے مجھے منتخب کیا۔’’ (مسلم، کتاب الفضائل، حدیث (۵۹۳۸)۔ (۲۲۷۶) .... انہ سمع واثلۃ بن الاسقع یقول: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ان اللہ عزو جل اصطفیٰ کنانۃ من ولد اسماعیل علیہ الصلوٰۃ السلام واصطفی قریشا من کنانۃ، واصطفی من قریش بنی ہاشم واصطفانی من بنی ہاشم’)
رسول اکرمؐ کے خاندان حضرت ابراہیم کی شاخ اسماعیلی پیدا ہونے کا معاملہ بھی بالکل تکوینی ہے۔ قرآن مجید کی آیت کریمہ کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے فرزند اکبر حضرت اسماعیل ؑ کو خانہ کعبہ کے ارد گرد آباد کرتے ہوئے دعا مانگی تھی کہ ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فمرا جو ان کو ہدایت دے اور ان کی تعلیم و تزکیہ کرے اور وہ دعائے ابراہیمی اس وقت قبول ہو گئی تھی اور اس قبولیت کا اظہار بھی قرآنی آیات کریمہ میں پایا جاتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی مذکورہ بالا حدیث اصفطاء اور ان آیات کریمہ کا ایک مختلف اصلاب میں منتخب فرمانے کا جو ذکر زبان رسالت مآب ؐ سے ہوا ہے وہ اسی تکوینی نظام کے تحت ہوا ہے جس کو ایک طرف اللہ تعالیٰ نے اپنی منشا سے جہاں چاہتا ہے رکھ دیتا ہے اور دوسری طرف خاص رسول اکرمؐ کو ایک خاص خاندان، قبیلہ، عشیرہ اور اسرہ میں منتقل فرماتا ہوا صرف عبد اللہ بن عبد المطلب ہاشمی اور بی بی آمنہ بت وہب زہری سے پیدا فرماتاہے ۔ اسی واقعہ سے نور محمدی کی منتقلی کا معاملہ بھی سمجھ میں آتا ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۱۲۹: ‘ربنا وابعث فیہم رسولا منہم...’ اسی کے بعد دعائے ابراہیمی کی قبولیت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے۔ نور محمدی اور اس کی منتقلی پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے تفہیمات الٰہیہ وغیرہ میں بہت عمدہ بحث کی ہے جو اس تکوینی راز کو کھولتی ہے)
غیبی محفوظیت/ عصمت کے طریقے
نبوت و رسالت سے پہلے چالیس برستوں کو محیط طویل و مبارک زندگی میں رسول اکرم کی غیبی حفاظت اور الٰہی عصمت کے متعدد واقعات و روایات میں ختلف طریقے یا وسیلے نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک ترتیب سے تجزیہ اس مسئلہ کی تنقیح اور حل میں کافی معاون ثابت ہو گا کیونکہ وہ تکوینی نظام کے ذرائع تھے۔ اس تکوینی نظام کے ذرائع و طرق جو بعد میں رسول و نبی منتخب ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عصمت نبوی کے ضمن میں اختیار کیے گئے تھے۔ دونوں کا تقابلی مطالعہ بھی قبل بعثت کی حفاظت نبوی کا امتیاز عصمت نبوی سے ثابت کر دے گا۔
مقالے کے اندرونی موضوعاتی نظم و ترتیب کے لحاظ سے منکرات اور فروتر چیزوں سے حفاظت و محفوظیت کے غیبی طریقوں کا ذکر پہلے کیا جا رہا ہے اور مثبت او رہدایت الٰہی پر مبنی توفیق کی ارزانی کے طریقوں کا بعد میں۔ پھر ان دونوں کا باہمی تقابل بھی خاصا دلچسپ ہو لا۔
منکرات سے حفاظت نبوی کے تکوینی ذرائع
ان میں سے بعض کا ذکر اوپر کی روایات میں آ گیا ہے اور بعض کا ذکر اب کیا جا رہا ہے۔
نیند طاری ہونا
دو مواقع طرب پر رسول اکرمؐ کو شرکت سے روکنے کے لیے نیند طاری کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث اور سیرت کی اصطلاح میں اس کو ‘‘نعاس’’ میں مبتلا کر دینے کا طریقہ کہا گیا ہے جیسا کہ سورۂ انفال : ۱۱۔ اور سورۂ آل عمران : ۱۵۴ میں فرمایا گیا ہے کہ غم کے بعد نیند طاری کر دی گئی تاکہ صدمہ ، قابل برداشت ہو جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے اول الذکر آیت کریمہ کے متعلق موضح القرآن میں لکھا ہے کہ ‘.... اور ایک اونگھ آ پڑی اس سے چونکے تو دل کا خوف جاتا رہا’’۔ مولانا مودودی نے اس واقعہ کو بیہقی اور ابن جریر کے حوالے سے بروایت حضرت علی نقل کیا ہے جبکہ جب مولانا شبلی / سلیمان نے بار، مستدرک، نسیم الریاض اور خصائص کبریٰ کے حوالے سے۔ مولانا ادریس کاندہلوی نے مسند بزار کے علاوہ مسند اسحاق بن راہویہ سے اور اس کی تصحیح حافظ ابن حجر کے حوالے سے بیان کی ہے۔ اس کے دوسرے مآخذ بھی مل سکتے ہیں۔
بیہوشی طاری ہونا
حفاظت نبوی میں نیند کی مانند بیہوشی طاری ہونے اور اس کے زیر اثر کھڑے کھڑے گر جانے اور آنکھوں کے پھٹ کر جانب آسمان نگراں ہونے کا ذکر بھی حدیث و سیرت کے بعض واقعات میں قطعی طور سے آتا ہے۔ تعمیر کعبہ کے واقعہ میں شرکت نبوی کے ضمن میں ازار اتارنے کے سلسلے میں حدیث بخاری: ۳۸۲۹ کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس میں یہ ذریعۂ غیبی بیان کیا گیا ہے۔ روایت / حدیث کے الفاظ ہیں: ‘فخر الی الارض وطمحت عیناہ الی السماء أفاق ...’ (بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب بنیان الکعبہ، فتح الباری ۷/ ۱۸۴۔ ۱۸۵ ومابعد) حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی تشریح میں امام سیرت ابن اسحاق کی ایک اور روایت اسی جیسی بیان کی ہے مگر ان دونوں کا موقع الگ الگ ہے۔ اس میں غیبی حفاظت کا ایک نئے طریقہ اور ایک دوسرے تکوینی نظام کا بھی ذکر ہے۔ اس کا ذکر ذرا آگے آتا ہے مگر اس روایت سیرت اور حدیث بخاری مذکورہ بالا کے بارے میں حافظ موصوف نے ایک امکان کا ذکر کیا ہے۔ اس سے سردست بحث کرنی ضروری ہے جو اس نظام تکوینی کی کارفرمائی کو اجاگر کرتاہے۔
حدیث بخاری: ۳۸۲۹ میں ازار اتارنے کا واقعہ کعبہ کی تعمیر نو کا موقع ظاہر کر رہا ہے جبکہ روایت ابن اسحاق بچپن (صغرہ) میں بچوں کے ساتھ کھیل کے دوران پتھروں کے کاندھوں پر لانے کا موقع سامنے لاتا ہے۔ حافظ موصوف کا خیال ہے اور صحیح خیال ہے کہ یہ دو موقعے تھے اور ن دونوں مواقع پر آپؐ کو ازار اتارنے سے منع کیا گیا تھا۔ تعمیر کعبہ کے موقع پر حضرت عباس بن عبد المطلب ہاشمی کے مشورے پر اور بچوں کے ساتھ کھیلنے کے موقع پر ان کے طفلی طریقے کے زیر اثر۔ ان دونوں مواقع پر رسول اکرمؐ کو عریاں ہونے سے منع کیا گیا اور اس کے دو طریقے اختیار کیے گئے۔ بیہوشی طاری کرنے کا طریقہ تعمیر کعبہ کے وقت استعمال کیا گیا۔ یہ بھی بچپن کا واقعہ ہے، حافظ موصوف کو پکی عمر میں تعمیر کعبہ کے واقعہ سے التباس ہو گیا ہے اور انھیں خواہ مخواہ کبیر (بڑے شخص) پر غلام کے اطلاق کی دور از کار توجیہ کرنی پڑی ہے۔
الہام و القاء
حضرت شداد بن اوسؓ کی جس حدیث در کنز العمال کا حوالہ اوپر آیا ہے اس میں زبان رسالت مآبؐ سے منقول بتایا گیا ہے کہ نشو و نما کے شروع ہی میں رسول اکرمؐ کے قلب مبارک میں شرک، مراسم شرک اور بت پرستی کے مظاہروں اور میلوں ٹھیلوں کی طرف سے شدید نفرت و بیزاری ڈال دی گئی تھی اور اسی نے آپؐ کو محفوظ رکھا۔ الہام و القاء کا غیر حسی طریقہ انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ بعض دوسرے پاکیزہ حضرات و شخصیات کے باب میں بھی ملتا ہے ۔ اسے کبھی وحی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے جیسے حضرت موسیٰ کی والدہ ماجدہ کے لیے فرزند گرامی کی حفاظت کے باب میں قرآن مجید نے اسے بیان کیا ہے۔ (سورۂ قصص: ۷) حضرت شاہؒ نے الہام و القاء کے مواقع اور طرق پر حجۃ اللہ البالغہ اور دوسری نگارشات میں کافی عمدہ اور حکیمانہ بحثیں کی ہیں۔ (۱ / ۱۵: الہام ملائکہ در نفوس بشر، اور مابعد کے صفحات)
رجال غیب کی ہدایت
امام ابن سعد کی روایت کے مطابق رسول اکرمؐ اپنی طبعی نفرت و بیزاری کے سبب، جو الہام و القاء کی دین تھی، قریش کے ایک استھان، بوانہ کے بت کے معبد، کی زیارت کو کسی طرح نہ جاتے تھے۔ چچا ابو طالب بن عبد المطلب ہاشمی اور اپنی بعض پھوپھیوں کے بار بار کے اصرار اور سخت ناراضی کی بنا پر ایک بار تہوار میں چلے گئے مگر تھوڑی دیر بعد ہی اس مقام نفرت سے غائب ہو گئے اور تمام گھر والے آپؐ کے لیے پریشان و فکر مند ہو گئے، کافی دیر بعد واپس تشریف لائے تو سخت خوف زدہ تھے اور چہرۂ انور کا رنگ فق تھا۔ استفسار پر آپؐ نے اپنی خشیت کا ذکر فرمایا اور وجہ بتائی کہ جیسے ہی میں اس بت خانے کی طرف جاتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی گورے رنگ کا ایک لمبا تڑنگا آدمی کھڑا مجھے سے کہتا ہے کہ ‘‘اے محمد! دور رہو، اسے مت چھونا’’۔ راویہ حضرت ام ایمن کے مطابق ‘‘آپؐ پھر کبھی اس تہوار میں نہیں گئے’’۔ (مودودی ۲/ ۱۰۳)
رجال غیب کی حسی کار گذاری کا ایک واقعہ لڑکپن میں رسول اکرم ؐ کے تعمیر کعبہ کے دوران ازار اتارنے کے سلسلہ میں ندائے ہاتف کے ساتھ آتا ہے۔ اس کا ذکر امام ابن اسحاق نے کیا ہے، امام موصوف کا بیان ہے کہ مجھ سے جیسا ذکر کیا گیا رسول اکرمؐ کے بچپن میں بھی اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرماتا تھا۔ اس کے بعد واقعہ کا وہ حصہ ہے جس میں رسول اکرمؐ کے ازار کا اپنی گردن پر رکھنے کا ذکر ہے کہ جیسے ہی میں نے یہ کیا ایک نادیدہ دھکا دینے والے نے مجھے دھکا دیا اور پھر اس نے کہا کہ اپنی ازار باندھو اور میں نے اپنی ازار باندھ لی ...: ‘وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم، فیما ذکر لی یحدث عما کان اللہ یحفظہ فی صغرہ، انہ قال ... اذ لکمنی لاکم ما ارادہ، ثم قال: شد علیک ازارک، قال : فشددتہ علیّ، ثم جعلت احمل وازاری علیّ من بین اصحابی’ (فتح الباری ۷ / ۱۸۵، مودودی ۲ / ۱۰۳۔ ۱۰۴ نے بحوالہ صحیحین، عبد الرزاق، طبرانی اور حاکم کے حوالے و سند کا ذکرنے کے بعد لکھا ہے کہ ‘‘ ....کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضورؐ اس وقت بالکل برہنہ ہو گئے تھے۔ قبل اس کے کہ ازار برہنگی کی حد تک اٹھتی بے ہوشی آپ پر طاری ہو گئی’’۔ یہ تشریح و تعبیر دل چھو لینے والی بھی ہے اور صحیح تر بھی کہ اس میں مقام و مرتبہ محمدی کا لحاظ بھی ملتا ہے اور اس سے زیادہ حفاظت الٰہی کا ثبوت و اثبات بھی پایا جاتا ہے۔ برہنگی ہو جاتی تو حفاظت و محفوظیت اور عصمت کہاں باقی رہی! حافظ موصوف کی شرح امام سہیلی کے حوالے سے ہے۔)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام یرت کی یہ روایت بچوں کے کھیل کھیلنے کے سلسلہ میں درج کی ہے۔ ابن اسحاق نے اس روایت کے بیان کا آغاز ہی رسول اکرمؐ کے لڑکپن / بچپن میں خاص حفاظت الٰہی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ : ‘وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیما ذکر لی یحدث عما کان اللہ یحفظہ فی صغرہ’۔ اس کے بعد کا واقعہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں قریش کے کچھ لڑکوں کے درمیان تھا اور ہم کھیل کھیل میں پتھروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈھو رہے تھے اور ان سے کھیل رہے تھے۔ سب نے عریاں ہو کر اپنی اپنی ازاروں کو اپنی گردنوں پر رکھ لیا تھا اور ان پر پتھر رکھتے تھے تب مجھے ایک دھکا دینے والے نے دھکا دے کر ازار باندھنے کا حکم دیا اور میں نے اس پر عمل کیا اور اپنے تمام ساتھیوں میں تنہا میں ہی تھاجس کی ازار بندھی ہوئی تھی۔ (فتح الباری ۷ / ۱۸۵: ‘ ... لقد رأیتنی فی غلمان قریش ننقل حجارۃ لبعض مما تلعب بہ الغلمان، کلنا قد تعری واخذ ازارہ فجعلہ علی رقبۃ یحمل علیہ الحجارۃ ...’)
ندائے ہاتف
تکوینی نظام میں بالعموم اور نبوی رشد و ہدایت میں بالخصوص ندائے ہاتف یا ندائے غیب کا بڑا مقام ہے۔ وہ اپنی ذات و کار گذاری کی بنا پر بھی بہت اہم ہے اور اس کی دنیوی زندگی میں تاثیر بھی کافی اہم جہات کی حامل ہے۔ رسول اکرمؐ کی قبل بعثت حفاظت الٰہی کے ضمن میں اس کا ذکر رسول اکرمؐ کے تعمیر کعبہ کے موقع پر ازار اتارنے کے حوالے سے آتا ہے۔ اس واقعہ کی دوسری حدیث حافظ ابن حجرؒ نے حضرت ابو الطفیلؓ کے طریقے اور سند سے بیان کی ہے۔ اس کے مطابق جیسے ہی کشف ستر ہوا نداء دی گئی: ‘‘اے محمد! اپنا ستر ڈھانپو’’۔ یہ ان اولین واقعات میں سے ہے جن میں آپؐ کو ندا دی گئی تھی: ‘... اذا انکشفت عورتہ فنودی: یا محمد غط عورتک، فذلک فی اول ما نودی ...’ (فتح الباری ۷/ ۱۸۵: اس روایت و حدیث میں صرف ندائے ہاتف کا ذکر ہے جبکہ دوسری روایات مین رجال غیب کا ذکر بھی ہے) اسی بنا پر محدثین اور شارحین کا خیال اس طرف گیا ہے کہ ایسے متعدد واقعات پیش آئے تھے اور دوسری توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ ایک ہی واقعہ میں مختلف طریقے حفاظت کے اختیار کیے گئے تھے۔ متعدد واقعات کا خیال کافی اہم او رمعنی خیز ہے۔
شجر و حجر کی ندائے تسلیم
کلام الٰہی کا فرمان و ارشاد ہے کہ وہ ان چیزوں کو بھی کلام کی قدرت بخش سکتا ہے اور بخش دیتا ہے جو ظاہری آلات کلام نہیں رکھتے۔ انسانی عقل کی بو العجبی بھی ہے اور نارسائی بھی کہ وہ آلات و ذرائع کو اکثر و بیشتر اصل کا رگذار سمجھ لیتے ہیں، اسی لیے بعض نارسا و نافہم افراد و طبقات کی عقل کل میں یہ بات نہیں آتی کہ شجر و حجر کیونکر اور کیسے کلام کر سکتے ہیں۔ جہان قضا و قدر او رنظام تکوین و امر کا یہ مسلمہ فیصلہ ہے کہ وہ کر سکتے ہیں اور رسول اکرمؐ کو یا رسول اللہ کہہ کر سلام کرتے تھے۔ ایسا بعثت سے پہلے بھی ہوتا تھا اور بعثت کے بعد بھی جاری رہا۔ اس میں اہم چیز رسول اکرمؐ کی رسالت کی گواہی دینا ہے۔ (مسلم، کتاب الفضائل، حدیث (۵۹۳۹) ۲۔ (۲۲۷۷) : ‘انی لاعرف حجرا بمکۃ کان یسلم علیّ قبل ان ابعث انی لاعرفہ الآن) اور اس میں غیبی نظام کا ایک دوسرا مظاہرہ ندائے ہاتف، صدائے جبریلی اور غیر مرئی آوازوں کی شہادتوں میں بھی ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم، مسند احمد، مسند دارمی، کتاب الفضائل / ما اکرم اللہ بہ نبیہ، صحیح بخاری، باب اسلام عمر وغیرہ میں بت خانوں اور بعض جانوروں کی صداؤں کا ذکر ہے جو نبوت آخر الزماں کا ذکر کرتی ہیں۔ ان مبشرات میں بھی حفاظت و عصمت نبوی کا عنصر تائید و گواہی کی شکل میں موجود ہے)
فرشتہ۔ حضرت جبریلؑ ۔ کی کارگذاری
شق صدر کے معجزہ کی بحث اور جسمانی تطہیر کی شرح میں جو روایات و احادیث بیان کی گئی ہیں ان میں خاصا اضطراب پایا جاتا ہے۔ عام روایات میں دو فرشتوں جبریل اور میکائیل کے آنے کا ذکر ہے۔ بعض میں صرف حضرت جبریل کے تنہا آنے کا اور شق صدر کے کام کو اپنے ہاتھوں سے انجام دینے کا بیان ہے۔ اور بعض میں پانچ پانچ فرشتوں کے ساتھ حضرت جبریل کے تشریف لانے کا ذکر ہے۔ ان کی توجیہ بھی کی گئی ہے۔ بہرحال ان روایات سے فرشتوں کے آنے اور رسول اکرمؐ کے ساتھ قبل بعثت معاملہ کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ اسی بنا پر بعض علما و شارحین نے لکھا ہے کہ حضرت جبریل کی اولین آمد اور ان کی دیدار نبوی کا پہلا واقعہ یہی ہے جو عمر شریف کے پانچویں سال پیش آیا تھا۔ اس واقعہ میں فرشتہ / فرشتوں کے ناموں اور شخصیتوں کی تعیین کے ساتھ ان کا ذکر آتا ہے، ورنہ دوسرے بعض واقعات میں غیر متعین شخص یا مرد غیب کا ذکر کیا گیا ہے۔ علما و محدثین اور سرت نگارون کی ایک کثیر جماعت نے جاگتی آنکھوں سے عالم بیداری اور شعوری حالت میں اس کو ایک عینی واقعہ لکھا ہے۔ رسول اکرمؐ نے بھی اپنی آنکھون سے ان کو دیکھا تھا اور فرزندان حضرت حلیمہ سعدیہؓ نے بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرشتہ / فرشتے انسانی شکل و صورت میں اس طرح آئے تھے کہ وہ سفید پوش مرد لگتے تھے جیسے بعد نبوت کے واقعات میں حضرت جبریل ؑ کو حضرت صحابہ صرف حضرت دحیہ کلبی کی صورت میں بطور انسان دیکھتے تھے اور ان کی ملکوتی شخصیت سے واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ یہ آگاہی رسول اکرمؐ ان کو عطا فرماتے تھے۔ بہرحال بعض دوسرے علماء و اہل فکر نے ان فرشتوں کو خواب میں دیکھنے اور کارگذاری کرنے کا خیال بھی ظاہر کیا ہے۔ اور وہ اسے تمثیلی واقعہ سمجھتے ہیں، عینی نہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے معجزۂ شق صدر میں یہی موقف اختیار کیا ہے البتہ نوبت سے پہلے آنحضرتؐ کے خواب میں فرشتوں کو دیکھنے کا ذکر بخاری ، کتاب التوحید، باب صفۃ النبیؐ اور کتاب الانبیاء کے حوالے سے تین فرشتوں کے بطور خاص دیکھنے اور ان کا کلام سننے کا ذکر کیا ہے۔ (۳ / ۶۱۳)
مختصر تجزیہ
نبوت و رسالت کی مسلمہ اور باقاعدہ عصمت انبیاء کے قانون و نظام اور ان کے کارگداز ہونے سے پہلے قبل بعثت کے زمانے میں بھی تمام انبیاء کی حفاظت و صیانت کا ایک خاص انتظام الٰہی اور تکوینی نفاذ رہتا تھا۔ اس کی شہادت قرآن مجید کی ان تمام آیات کریمہ سے ہوتی ہے جو تمام انبیائے کرام کے قبل بعثت کردار و عمل سے بحث کرتی ہیں۔ سید المرسلین اور خاتم النبیینؐ کی قبل بعثت حفاظت و محفوظیت کا معاملہ او ربھی مہتم بالشان اور منطقی ہے۔ پیغمبر آخر الزماں کے اسی عظیم و جمیل کردار کا حوالہ سورۂ یونس، ۱۶ میں دے کر اسے ایک واقعاتی دلیل نبوت بنایا گیا ہے۔
حضرت محمد بن عبد اللہ ہاشمیؐ کی قبل بعثت حفاظت و عصمت کا ایک واقعی ارو دینی پس منظر بھی ہے۔ آپؐ جس عرب مکی قریشی معاشرے میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے تھے وہ دین ابراہیمی کے ماننے والوں کا معاشرہ تھا۔ سیدنا حضرت ابراہیم ؑ بانی و معمار نو بیت اللہ او رسیدنا حضرت اسماعیل ؑ ذبیح اللہ جد امجد نبوی کا خاندان و معاشرہ، جس کے بانی نے دعائے بعثت محمدی مانگی تھی اور جن کی کی ملت ابراہیمی کے احیاء کے لیے آپؐ مبعوث ہوئے تھے۔ تمام انحرافات کے باوجود ان جاہلی عربوں میں دین ابراہیمی کے بقیہ نقیہ موجود تھے جن کا ذکر حضرت شاہؒ اور اس خاکسار نے کیا ہے۔
اس واقعی اور تاریخی دینی اور معاشرتی پس منظر میں رسول اکرمؐ کی بعثت کی بشارتیں انبیائے کرام دیتے آئے تھے۔ عالم انسانیت ان مبشرات کی کارگذاری کی بنا پر رسول آخر الزماںؐ کی آمد و بعثت اور ظہور نبوت کی منتظر تھی، اگرچہ وہ متعینہ طور سے نہیں جانتی تھی کہ وہ شخص مبعوث اور انسان کامل کون ہو گا، لیکن علامات نبوت سے واقف ہو چکی تھی۔ ان علامات نبوت میں کردار صالح، شخصی عبقریت، دیین وجاہت اور معاشرتی و دینی سیادت کے علاوہ حفاظت و عصمت بھی شامل تھی۔ ہونے والے رسول اعظمؐ کو منکرات و آثام سے منزہ ہونا ہی تھا، فروتر اور گری ہوئی چیزوں سے بھی محفوظ و مامون ہونا تھا۔
حضرت محمدؐ کی ولادت با سعادت سے پہلے ہی ان علامات نبوت کا ظہور شروع ہو گیا تھا۔ نکاح سے ولادت، سفاح سے حفاظت، خاندان بنی ہاشم میں سے انتخاب جیسے تکوینی نظام کے امور اسی حفاظت کے مظاہر تھے۔ ‘‘شخص انسانی’’ میں ظہور کے بعد جسمانی طور سے بھی آپؐ کی تطہیر و تزکیہ کا کام تکوینی نظام حفاظت نے شروع کر دیا۔ رضاعت و پرورش اور جسمانی نشو و نما کے تمام دوسرے مراحل میں بھی نظام قدرت نے غیر صالح عنصر داخل نہ ہونے دیا او رایک عمر کو پہنچتے ہی باقاعدہ جسمانی تطہیر اور حفاظت و صیانت کا حسی عمل کا پاکیزہ سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
شق صدر خالص حسی اور جسمانی تطہیر کا معاملہ ہے، صرف شرح صدر کا نہیں، روایات حدیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ اور دوسرے صحابہ کرام کا مشاہدہ تھا کہ وہ جسم اطہر میں سینۂ مبارک پر سلائی کا نشان دیکھتے تھے۔ اور مہر نبوت (خاتم النبوۃ) کا مشاہدہ تو تمام صحابہ کرام کو ہوا تھا۔ یہ حسی علائم و نشانات اس کو عینی واقعہ بناتے ہیں۔ منکرات و فواحش سے حفاظت تو ہونی ہی تھی کہ رسول اعظمؐ شرک، مراسم شرک اور گناہون سے محفوظ رہیں کہ متعدد کاملین عرب بھی ان سے محفوظ رہے تھے۔ آپؐ کے بلند ترین مقام و مرتبے کے لحاظ سے معمولی اور فروتر چیزوں سے حفاظت کی گئی۔
ممنوعات اور قابل گرفت چیزوں سے حفاظت کا سب سے زیادہ نظام یوں ہوا کہ گانے بجانے، مجالس طرب میں شرکت کرنے، ناروا چیزوں کا ارتکاب کرنے بلکہ ان کے قریب بھی نہ پھٹکنے کا غیبی انتظام محسوس طور سے کیا گیا۔ صحیح اعمال و سنن اختیار کرنے اور صحیح تر دین ابراہیمی کے خالص حسنات ومبرات کرنے کی توفیق الٰہی ارزانی فرمائی گئی۔ حفاظت و صیانت اور عصمت نبوی کے جن ذرائع کا ذکر روایات حدیث و سیرت میں ملتا ہے وہ ان کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ناپسندیدہ امور کو دیکھنے اور کرنے سے روکنے کی خاطر نیند طاری کی گئی، بیہوشی و بے خبری اتاری گئی، ندائے ہاتف نے ممانعت کی، رجال غیب اور ملائکہ مقربین نے ظہور کر کے دھکا مکی بھی کی اور تہدید و سرزنش بھی۔ ایسے ہی دوسرے وسائل اختیار کیے گئے، اس قبل بعثت حفاظت و صیانت اور ان کے غیبی انتظام کا خالص نبوی عصمت و بعد نبوت سے مقابلہ کیا جائے تو وہ عصمت خاص کا پرتو معلوم ہوتا ہے۔ یہی طریقے عصمت نبوی کے لیے اختیار کیے گئے تھے او ران دونوں کے مآخذ زبان رسالت مآبؐ کے ارشادات ہیں۔
(بشکریہ ماہنامہ ‘‘معارف’’ اعظم گڑھ، نومبر 2009ء)
٭٭٭