گرامی قدر محمد صدیق صاحب بخاری
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
‘‘سوئے حرم’’ کی دس سالہ اشاعت پر خصوصی شمارہ موصول ہوا۔ لِلّٰہِ الحمد! کہ میں بھی ‘‘سوئے حرم’’ کا ہم سفر رہا ہوں۔ اور جب کبھی تاخیر ہوجائے تو اس کی راہ ‘‘تکتا’’ رہتا ہوں۔یہ خصوصی شمارہ علم و ادب کے گہر ہائے تاب دار کی گویا ایک مالا ہے۔ اس میں میرے فکری رہنما مولانا ابو الکلام آزادؒ کے مضامین بھی ہیں اور اکثر اوقات چھپتے رہتے ہیں۔ ہر چند کہ میرے پاس ان کا گراں قدر سرمایہ کتب ہے۔
‘‘چراغِ راہ’’ کو پڑھ کر مجھے فیضؔ کا یہ شعر یاد آگیا۔
حلقہ کئے بیٹھے رہو اِس شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
ربّ کریم آپ کی مساعی ء جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے ، چراغ سے چراغ جلتا رہے۔ اسلام کی ابدی صداقتیں ان کی راہیں اس چراغ سے منور ہوتی رہیں۔مِنَ الظُلمٰت اِلیٰ النُّوْر ایک ایسا حیران کن سلسلہ ہے ۔ ہم ایسے موروثی مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے۔علامہ اقبالؒ کو اِ ن تاثرات سے خصوصی دلچسپی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ انہیں قلم بند ضرور کرنا چاہیے تا کہ ہمیں اسلام کی اس عظمت اور صداقت کا پتہ چل سکے جو غیر مسلموں نے محسوس کی ہے۔محترم عارف علوی صاحب نے آپ کی ملاقات کا ذکر کیا ۔ مجھے بھی یہ اشتیاق تھا۔ فروری ۱۲ء میں آٹھ دس دن میرا لاہور میں قیام رہا۔ فون پر آپ کا پتہ کرایا تو آپ ابو ظبی جا چکے تھے۔ اور یہ حسرت ہی رہی۔ اب اگر خدا نے چاہا تو جب کبھی لاہور جانا ہوا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی کوشش کروں گا۔ محترم عارف صاحب نے حمد و نعت کو کتابی شکل دینے کا لکھا ہے۔ مجھ ایسے فقیر نے تو اکثر حمد و نعت کی فوٹو سٹیٹ کروا کر ایک کاپی پر چسپاں کر رکھا ہے۔ شاید کچھ لوگ اس تردد میں نہیں پڑتے۔ اب کی بارڈاکٹر خورشید رضوی کی نعت نے بے خود کر دیا ہے۔سوئے حرم کی سچی کہانیاں میں اکثر اپنی اولاد کو پڑھاتا رہتا ہوں۔ یہ درد کی واردات ہیں۔ اور اخلاقی قدروں کے گم شدہ نشانات، اے کاش کہ ہماری قوم انہی راہوں پہ چل نکلے۔محترم بخاری صاحب آپ کے قلم سے درد کی سوغات ملتی ہے۔ رب کریم ہمیں اسی درد سے زندہ رکھے۔ اور اپنے احکام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کرے۔ بنیاد کے تعلق ایک بار عرض کیا تھا کہ یہ تو بنیادِ زیست ہے۔والسلام علیکم ورحمۃ اللہ!
ابو عبدالسلام شاہد۔ شیخ بشیر احمد ساجد باہر وال ضلع گجرات