بحریہ ٹاؤن پاکستان کی ایک بڑی تعمیراتی اسکیم ہے۔ اسلام آباد اور لاہور کے بعد کراچی میں اس کے پروجیکٹس کا آغاز ہوا جس میں ہزاروں لوگوں نے بھاری منافع کی امید پر سرمایہ کاری کی۔ میں کچھ عرصہ قبل ایک عزیز دوست سے ملنے ان کے گھر بحریہ ٹاؤن گیا تو انھوں نے مجھے اس پورے علاقے کو تفصیل کے ساتھ دکھایا۔ دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ یہاں پہلے جو پلاٹ سستے مل رہے تھے وہ اب بہت مہنگے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ان کی بات سن کر مجھے ایک خیال آیا۔ وہ یہ کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے پاس کوئی عام آدمی چلا جائے تو وہ اسے فری میں ہرگز کوئی پلاٹ نہیں دیں گے۔ کوئی بھی یہ کام نہیں کرے گا۔ بلکہ ایک بڑا کاروباری آدمی کسی معمولی آدمی سے ملنے سے بھی انکار کردے گا۔ کجا یہ کہ اپنے کاروبار میں سے ایک پلاٹ اسے مفت میں دیدے۔ مگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی ہستی وہ واحد ہستی ہے کہ کوئی بھی شخص منہ اٹھا کر ان کے پاس جاسکتا ہے۔ دن رات کسی بھی وقت جاسکتا ہے۔ وہ مفلس و قلاش ہونے کے باوجود بھی پورے اطمینان اور اعتماد کے ساتھ ان سے ان کی بیش قیمت جنت مفت میں مانگ سکتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اسے یہ جنت مل جائے گی۔اسے جا کر صرف یہ کہنا ہوگا کہ مالک سنا ہے آپ کی جنت میں پلاٹ مل رہے ہیں۔ میں نے اس جنت کو نہیں دیکھا لیکن یقین ہے کہ کہنے والے نے بالکل سچ کہا ہے۔ میرے پاس کوئی سرمایہ نہیں، صرف یہ یقین ہے کہ آپ جنت کے مالک ہیں اور میں جنت کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ میں دل سے ہر تعصب اور غیر اللہ سے ہر امید ختم کر کے آپ کے پاس آگیا ہوں۔ میری سن لیجیے۔باخدا یہ یقین اتنی بڑی چیز ہے کہ اگلے لمحے انسان کے لیے جنت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ جنت کی شرط اگر عمل صالح ہے تو اس کی توفیق بھی اس یقین و ایمان کے صلے میں دے دی جائے گی۔ یہی سخاوت اللہ تعالیٰ کو ملک السموات و الارض بناتی ہے۔ مگر افسوس کہ ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن میں سرمایہ کاری کرنے والے بہت ہیں۔ ملک السموات و الارض سے مانگنے والے کم ہیں۔
٭٭٭