لاس اینجلس امریکہ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ 1994 کے بعد میرا اس شہر کا تیسر ا وزٹ تھا۔ لاس اینجلس کو عام طور پر ‘‘ ایل اے’’ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 1781 میں جب اس شہر کی بنیاد رکھی گئی تو یہ سپین کی ملکیت تھا۔ اس کے بعد میکسیکو کا حصہ بنا اور 1848 میں اس پورے علاقے اور کیلی فورنیا ریاست کو امریکہ نے خرید لیا۔گویا یہ شہر بھی ان بستیوں میں سے ہے جسے اہل ِ نظر آباد کرتے ہیں اور اہلِ زر خرید لیتے ہیں۔ نظر اور زر کی یہ کشمکش بہت قدیم ہے۔
لاس اینجلس بزنس’ کلچر’فلم’آرٹ’فیشن اور ٹیکنالوجی کا ایک عظیم مرکز ہے ۔ دنیا کے امیر ترین شہروں کی فہرست میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔ ہالی وڈ کی وجہ سے ایل اے کو Entertainment Capital of the World بھی کہا جاتا ہے۔ فلم سے متعلقہ دنیا کی اکثر نامور شخصیات یہیں رہتی ہیں۔ 1821 میں اس شہر کی آبادی صرف ایک ہزارافراد پر مشتمل تھی جو 1900 میں بڑھ کر ایک لاکھ ہوگئی اور آج اس شہر میں ایک کروڑ تیس لاکھ کے قریب لوگ بستے ہیں۔ 1876 میں یہاں ریل آئی اور1892 میں تیل دریافت ہوا۔ پھر آہستہ آہستہ ہالی وڈ نے قبضہ کرلیا۔ لاس اینجلس قدرتی مناظر کا شاہکار ہے۔ یہاں پہاڑ بھی ہیں’ میدان اور سمندر بھی۔ چوالیس میل لمبے اور تیس میل چوڑے اس شہر میں نیویارک کی طرح Scrappers Sky نظر نہیں آتے کیونکہ زلزلوں کی وجہ سے یہاں بلند و بالا عمارتیں بنانے پر پابندی عائدہے۔یہاں کے لوگ آرٹ اور فن سے محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے Creative Capital of the World بھی کہا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں آج تک کسی ایک شہر میں اتنے فنکار ’ ادیب’ رقاص اور موسیقار جمع نہیں ہوئے جتنے اس شہر میں رہائش پذیر ہیں۔ شاید روم اور ایتھنز میں کبھی یہ منظر نظر آیا ہو۔کچھ لوگ لاس اینجلس کو حسنِ تخلیق کا گہوارہ بھی کہتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ آپ اس تخلیقی حسن کے گرویدہ بھی ہوں۔ عریانی’ فحاشی ’ بے راہ روی’ مادیت پسندی ’ جنسی تلذز……آپ کئی طرح کے الزامات بھی عائد کرسکتے ہیں۔ لیکن اس امر سے انکار نہیں کہ یہ جگہ فن کا خزانہ ہے۔ شہربھر میں موجود ساڑھے آٹھ سوآرٹ گیلریز اور عجائب گھر اس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ گیلریاں خونِ جگر سے مزین ہیں۔ امریکہ میں نیویارک کے بعد سب سے زیادہ یہودی اسی شہر میں رہتے ہیں۔یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ یہودی وہیں بستے ہیں جہاں دولت بستی ہے۔ 1923 میں یہودیوں نے اس شہر میں اپنی سب سے بڑی عبادت گاہ بنائی لیکن اب اس عبادت گاہ کو میوزیم اور کمیونٹی سنٹر میں بدل دیا گیا ہے۔ عبادت گاہیں عجائب گھروں میں تبدیل ہونے لگیں تو اقدار کا مٹنا ٹھہرجاتا ہے۔ دنیا کی تگ و دو میں خدا کہیں پیچھے رہ گیا۔ میں نے یہ بات اپنے ایک دوست کو بتائی تو اسکا کہنا تھا کہ ہالی وڈ بہت ظالم جگہ ہے ۔ یہاں خدا کو عجائب گھر میں بھی جگہ مل جائے تو غنیمت ہے ۔دولت کی ریل پیل دیکھ کے کھلا کہ یہاں دولت ہی خدا ہے ۔ سارا شہر اسی کی پوجا کرتا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ بدھ مت’ ہندو مت’ زرتشت’ بہائی’ سکھ’ ہر مذہب کے لوگ اور ان کی عبادت گاہیں یہاں موجود ہیں۔مسلمانوں کی ایک بھاری اکثریت بھی یہاں آباد ہے لیکن حتمی اعداد و شمار موجو د نہیں۔ اپنی اقدار کے حوالے سے مسلمان ابھی تک اپنا الگ تشخص قائم رکھے ہوئے ہیں۔لیکن بھلا کب تک؟
ٹوکیو اور نیویارک کے بعد ایل اے دنیا کا سب سے بڑا کاروباری مرکز بھی ہے۔ دنیا کی چند بہترین یونیورسٹیاں بھی یہاں پر ہیں لیکن یہ Ivy League کی تمکنت اور جاہ و جلال سے پیچھے ہیں۔ سو کے لگ بھگ پبلک لائبر یریاں ۔ ہالی وڈ کی بے باک فضا پہ تو اعتراض کی گنجائش نکلتی ہے لیکن لائبریوں پہ کون نکتہ چیں ہوسکتا ہے۔فلمی دنیاکی چکا چوند بے شک مرعوب کرے نہ کرے ان کتابوں کی روشنی ضرور مرعوب کرتی ہے۔
لاس اینجلس میں ایک سو چوالیس ممالک کے لوگ رہتے ہیں جو سوا دو سو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔ سفید فام انچاس فیصد اور دیگر اقوام کے لوگ تقریباً اکیاون فیصد ہیں۔ گویا یہ ایک شہر نہیں پوری دنیا ہے۔ اس دنیا میں کرائم بھی بہت منظم انداز میں ہوتا ہے۔مجرموں کے چھوٹے بڑے ساڑھے چار سو سے زائد گینگ ہیں جن کی وجہ سے اس شہر کو Gang Capital of America بھی کہا جاتا ہے…………لاس اینجلس مجھے اچھا لگا۔ اس لیے بھی کہ اس کو پاکستان کے ایک شہر فیصل آباد سے خصوصی نسبت ہے۔ 2009 میں دونوں شہروں کو جڑواں شہر یا Sister Cities قرار دیا گیا تھا۔
کیلی فورنیا اور آبائی امریکی
کیلی فورنیا امریکہ کی ایک منفرد ریاست ہے۔یہاں ساڑھے چھ لاکھ سے زائدارب پتی رہتے ہیں۔ پاکستانی روپے کے اعتبار سے یہ کھرب پتی ہوئے۔ یہ تعداد امریکہ کی کسی بھی ریاست سے کہیں زیادہ ہے۔ دولت کی یہ ریل پیل اس تیل اور سونے کی وجہ سے ہے جو یہاں دریافت ہوا۔ اس پر ہالی وڈ کی فلمی صنعت اور ٹیکنالوجی۔ امریکہ کی تاریخ کی طرح کیلی فورنیا کا ماضی بھی مثالی نہیں۔ ایک طرف خوشحالی کی دلکش کہانی اور دوسری طرف قتل و غارت کی غارت گر داستانیں۔یہ جنت یونہی آباد نہیں ہوئی۔ اس کی بنیاد میں ان لوگوں کا بہتا ہوا لہو بھی ہے جنہیں کبھی Red Indians کہا جاتا تھا لیکن اب یہ آبائی امریکی یا Native Americans کہلاتے ہیں……یہ لو گ ہزاروں سال سے یہاں آباد تھے ۔ پھر پندرھویں صدی میں ایک طوفان اٹھا اور وہ یورپ سے آنے والے اس طوفان کی تاب نہ لا سکے۔سفید فام آبادکاروں نے انہیں یا تو تہہ تیغ کردیا یا پھر ان کی آزادی سلب کرلی۔ لاکھوں نہتے اور معصوم لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے۔ کرائے کے سپاہیوں اور مسلح لشکروں نے ظلم کی انتہا کردی۔ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔جو لوگ قتل و غارت سے بچ گئے انہیں بڑے بڑے قید خانوں میں بند کردیا گیا۔ بھوک’ قحط ’ بیماری۔ رفتہ رفتہ یہ لوگ صفحہ ء ہستی سے ناپید ہونے لگے۔کہیں کہیں کچھ گروہ اپنی روایات کو ابھی تک گلے سے لگا کر زندہ ہیں لیکن یہ مروجہ معنوں میں امریکی شہریت کے حامل نہیں۔ دوسری جانب وہی لوگ جن کے ہاتھ میں خنجر تھا آج مسیحا ہیں۔ یہی تاریخ کا المیہ ہے:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
شکاگو
تیز ہوائیں ٗ بلند عمارتیں ٗ خوبصورت جھیلیں۔ شکاگو صرف یہی کچھ نہیں بلکہ کاروبار اور تجارت کا بہت بڑا مرکز بھی ہے۔ 1833میں جب یہ شہر آبادہوا تو اس کی آبادی دو سو افراد پہ مشتمل تھی۔ آہستہ آہستہ اس آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان دنوں آمدورفت کے لئے ریل ہی واحد ذریعہ تھی۔ شکاگو ریلوے کا مرکز قرار پایا اور اس شہر میں صنعتی سرگرمیاں تیزی سے نشوونما پانے لگیں۔ نیلگوں جھیلیں ٗ برفیلا پانی ٗ رنگین نقش ونگار والے پرندے۔ کون ہے جو اس رومان پرور ماحول میں نہ رہنا چاہے۔ پرندوں کو ایک اچھا دوست مل گیا۔ شہر ابھی آباد ہو رہا تھا کہ1871میں ایک روز آگ بھڑک اٹھی۔ تیز ہوائیں اس آگ کو تیز تر کرنے لگیں۔ کئی دن تک شعلے آسمان سے باتیں کرتے رہے۔ جب آگ سرد ہوئی تو آدھا شہر جل کے راکھ ہو چکا تھا۔ لکڑی کی بنی ہوئی خوبصورت عمارتوں کا نام ونشان باقی نہ رہا۔ راکھ کے اس ڈھیر میں تعمیر نو کا ایک شعلہ مگر زندہ تھا۔ اسی شعلے نے اس شہر کو ایک نیا روپ دے دیا۔ وہی عمارتیں جو خاکستر ہو گئیں ٗ دوبارہ تعمیر ہونے لگیں۔لیکن اب کی بار معماروں نے ان میں لکڑی کی بجائے سٹیل بھر دیا ۔ یہ تعمیر کا ایک نیا انداز تھاجس کی بدولت دنیا بھر میں فلک بوس عمارتوں Sky Scrappers کا دور شروع ہوا۔ تعمیر وترقی ٗ صنعت و حرفت ٗ کارخانے۔ یہی وہ دن ہیں جب برصغیر پستیوں میں ڈوب رہا تھا ۔آہستہ آہستہ یہ شہر مزدوروں کی آماجگاہ بننے لگا۔ دنیا بھر میں منائے جانے والے مزدوروں کے دن یکم مئی کی روایت یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ ان دنوں یہاں کسی کو انسانی حقوق کی اتنی پروانہ تھی۔ مزدوروں کو تھوڑا معاوضہ دیا جاتا اورزیادہ کام لیا جاتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک روز احتجاج ہوا اور احتجاج کے دوران کچھ لوگ بغاوت پہ تل گئے۔ بغاوت کا پہلا انعام تشدد اور دوسرا موت ہے۔ گولی چلی اور کچھ بے گناہوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ شکاگو کے ان شہیدوں کا لہو ایک علامت بن گیا۔ یہ علامت ایک سو سال تک ان کا لہو گرماتی رہی۔ اب نہ وہ علامت ہے اور نہ اس علامت کے علمبردار ہیں۔ سرمائے کی آندھی نے احتجاج کی یہ شمع بھی گل کردی۔ شکاگو نے اپنے مزدوروں کو بھلا دیا اورمزدوروں نے شکاگو کو۔ ہاں کہیں کہیں یکم مئی کی چھٹی ضرور ہوتی ہے۔ لیکن حقو ق چھٹی سے نہیں ملتے۔ 1871میں شکاگو میں لگنے والی آگ تو بجھ گئی لیکن اس آگ نے معاشی ترقی کے الاؤ کواور بھڑکا دیا۔ یورپ کے دور دراز ممالک سے لوگ شکاگو کا رخ کرنے لگے ۔ شہر میں موجود خوبصورت جھیلوں کے گرد گھر ٗ دفتر اور کاروباری مراکز بن گئے۔ آج تقریباََ ایک تہائی شہر جھیلوں کے ارد گرد آبادہے۔ شکاگو ڈاؤن ٹاؤن کو لوپ ( Loop)کہا جاتا ہے۔کاروباری مراکز’ ریستوران ٗ شاپنگ مالز ٗ عجائب گھر ٗ آرٹ گیلیریز ٗ سنگ وخشت کی بلند عمارتیں اور ان سب میں گھرا ہوا انسان ۔سیئرز ٹاور’ جوشکاگو کی سب سے بلند عمارت ہے’ کی آخری منزل سے نیچے دیکھیں تو انسان بہت چھوٹا نظر آتا ہے۔بڑے بڑے ترقی یافتہ شہروں کا یہی المیہ ہے۔
٭٭٭