روایتی علماء کا رویہ
ہمارے مذہبی طبقے کا ایک بڑا گروہ سائنس کو دین اور اسکے بعض معاملات میں اپنی ناقابلِ توجیہہ تعبیرات (Interpertations) کے خلاف ایک چیلنج سمجھتاہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سائنس اُس قوم کی نمائندگی کررہی ہے جو اِسکے اسرار و رموز کو کھوجنے میں پیش پیش ہے اوریہ کہ وہ قوم جب تک اپنی سائنسی تحقیقات اور اُن کے حیرت انگیز نتائج سے کنارہ کش اور بیگانہ ہوکر ان کی دینی تعبیرات کی قائل نہ ہوجائے تب تک اس کی فلاح کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ حالانکہ ان سائنسی نتائج سے فائدہ اٹھانے میں خود یہ اصحاب بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس نقطۂ نظر کا زبانی اظہار اب اتنا عام اور مؤثر نہیں رہا لیکن ہماری مذہبی نفسیات آج بھی اس سے بری طرح متاثر ہے۔
اِس سوچ کا نقصان یہ ہے کہ یہ لوگ جدید علوم سے اِس قدر دور ہیں کہ دین کا انتہائی مطالعہ اور علم ہونے کے باوجود وہ اِس دنیا کے معاملات میں اِس کا اطلاق نہیں کرسکتے۔ چنانچہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہمیں ایک بڑی تعداد میں علماء اِس نقطۂ نظر کے قائل ملیں گے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اور اِس معاملے میں سائنس کا نقطہ نظر اِسلام کے خلاف ہے جو کسی طرح ٹھیک نہیں ہوسکتا۔اِس خرابی کی ایک وجہ تو ظاہر ہے ان کی سائنسی علوم سے ناواقفی ہے لیکن اِس سے بڑی وجہ جو اِس ناواقفی کا سبب بھی بنتی ہے وہ ہے ان کا سائنس کے معاملے میں غلط تصور اور یہی بنیادی غلطی ہے۔
سائنس کیا ہے
خدا نے اس کائنات کو کوئی ملبے کا ڈھیر نہیں بنادیا اور انسان کو محض گوشت کا ایک ٹکڑا ہی نہیں بنادیا۔ بلکہ ان کے وجود میں اِس قدر پیچیدہ اور نفیس نظام اور شعبے رکھے ہیں کہ انسان شاید ہی کبھی انکی پوری حقیقتوں کو ڈُھونڈ پائے گا۔کائنات کے ذرّے ذرّے کو خدا نے اپنے قوانین کا تابع کردیا ہے اور ہر شۓ ان اصول و قوانین کے مطابق اپنے سفرمیں ہے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو وہ انسانوں کے لیے ہدایت کی کتاب ہے تاکہ انسان اِس پر عمل کرکے اپنی آخرت سنوار سکیں۔ وہ اصلاً کوئی سائنس کی کتاب نہیں لیکن کچھ ضمنی بحثوں میں وہ ، کائنات میں کارفرما ، خدا کے قوانین کا تذکرہ ضرورکرتا ہے۔یہ تذکرہ ظاہر ہے کہ خدا کی نشانیوں کو دیکھنے اور اِسکی قدرت وعنایت کا اعتراف کرنے کے لیے ہی کیاجاتا ہے ۔ یہی اصول و قوانین جب بارہا کے مشاہدوں اور تجربات سے گزرکر اپنی بہترین صورت میں دریافت کرلیے جاتے ہیں تو سائنس بن جاتے ہیں۔ یہ قوانین کبھی ‘‘دو اور دو چار ’’ اور کبھی انتہائی پیچیدہ اعصابی نظام ( Nervous System) کی صورت میں دریافت ہوتے ہیں اور ایک حقیقت کی طرح جانے جاتے ہیں ۔
سائنس اور وحی
ان ثابت شدہ سائنسی حقائق کے بارے میں یہ خیال کہ وہ کبھی خداکے تصوریا اِسکی شریعت سے ٹکرا سکتے ہیں صرف اِسی صورت میں ممکن ہے جب یہ سمجھاجائے کہ ان اصول و قوانین کا بنانے والا اور انہیں اِس کائنات میں لاگُو کرنے والا خدا کے سوا کوئی اور ہے۔ کیونکہ یہ تو ہونہیں سکتا کہ خدا اپنی خدائی کے جلوے دکھانے کے لیے کچھ چیزیں ہمارے سامنے رکھے او ر ان پر غور و فکر کی دعوت بھی دے مگر ان چیزوں سے خود اس کے اپنے وجود یا اِسکی ہدایت کا انکارہوجائے۔
صد معذرت کے ساتھ، محض اس بنیادی نکتہ کو سمجھنے کیلئے، فرض کریں کہ جبرائیلِ ؑ امین کی لائی ہوئی وحی سے ہمیں یہ سمجھ آئے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں توہمارا رویہ کیا ہو گا؟ کیا ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ آپؑ از راہِ کرم دوبارہ پوچھ کر آئیں کہ آپ کو کیا پیغام دیاگیا ہے ،کیونکہ خدا نے اپنی آفاتی نشانیوں کے ذریعے ہمیں جو علم دے رکھا ہے اُس کے مطابق دو اور دو چار ہوتے ہیں؟ یا پھرکیا ہم ساری دنیا کے طنزوتعریض کو نظرانداز کر کے آئیندہ کیلئے ‘‘ دو اور دو پانچ ’’ کو ہی صحیح مانناشروع کردیں گے؟ یہ دونوں رویے عجیب ہیں کیونکہ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ ہم پُورے عقل وشعُور کے ساتھ کبھی وحی کے انکار پر مجبور ہوجائیں اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ خدا ہمارے کسی ایسے سوال کے جواب میں (نعوذ باللہ) خود ہی بے بس ہوجائے کہ اب انسان کو کیسے سمجھایا جائے۔ اِس موقع پر ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ ہم ذرا غور کریں کہ وحی کو سننے یا سمجھنے میں ہمیں کوئی غلطی تو نہیں لگی؟ آپ یقین کریں کہ ہم جب بھی یہ غور کریں گے تو ہم پر واضح ہوجائے گا کہ نہ تو دو اور دو پانچ ہیں اور نہ ہی خدا کے پیغام کے پہنچائے جانے میں(نعوذ باللہ) کوئی خیانت ہوئی ہے بلکہ وہ ہم ہی ہیں جو اِس پیغام کو سننے یا سمجھنے میں ٹھوکر کھاگئے تھے۔ ‘‘ دو اور دو چار ’’کی سادہ سی سائنس تو سبھی جانتے ہیں لیکن یہی حقیقت دیگر سائنسی قوانین کے معاملے میں سمجھنے کیلئے ہم تیار نہیں ہوتے۔
نظریات اور قوانین کا فرق
یہاں ایک انتہائی اہم بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے، وہ یہ کہ ہم یہ رویہ صرف اُنہی سائنسی حقائق کے بارے میں رکھیں گے جو بار بار کی آزمائشوں گزر کر سائنسی قوانین (Laws) کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں اور ان کے نتائج اور فوائد اب کائنات میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ محض سائنس دانوں کے نظریات (Theories) کو یہ حیثیت نہیں دی جاسکتی کہ ہم انہیں بنیاد بنا کردین کو سمجھیں۔ مثال کے طور پر ڈارون کانظریہ ارتقاء جو اِس وقت تاریخ کا حصہ اور ایک قصۂ محض بن چکا ہے یہ حیثیت نہیں پاسکتا تھا کہ اِس کے مقابلے میں تخلیقِ آدمؑ کے قرآنی تصور کر ردکردیا جاتا کیونکہ وہ نظریہ کبھی ایک قانون(Law) کی حیثیت پاہی نہیں سکا اور یقیناً ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ دو اور دو چار کا سبق انسان نے محض کسی قصے اور کہانی کو سن کر یاد نہیں کرلیا بلکہ یہ علم بھی دیگر سائنسی قوانین کی طرح ایک مختصر یا طویل عمل سے گزرکر ہی ہمارے ہاتھ لگا ہے اور اِس کے نتائج اور فوائد بھی ہمارے شب و روز میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔
ہماری ذمہ داری
سائنس کسی قوم کے عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ کائنات کی دریافت شدہ حقیقتوں کا انبار ہے اور اِسلام دین فطرت ہے جو نہ تو کبھی حقیقت سے مختلف کوئی بات کہتا ہے اور نہ ہی کسی حقیقت سے نظر چراتا ہے۔ آج کے دور میں اِسلام کو صحیح شعور کے ساتھ دنیا میں پھیلانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سائنس سے نفرت کرتے ہوئے اِس سے آنکھیں نہ چرائیں۔ بلکہ اِسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کریں تاکہ دنیا Falsification Tests کے ایک سلسلہ کے بعد اِسلام کو بھی ایک حقیقت ماننے پر مجبور ہوجائے۔ ہمیں یقین ہے کہ عقلی اور سائنسی طریقے پر اِسلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اِس میں ادنیٰ درجے میں بھی کوئی نقص ڈھونڈا جاسکے۔ یہی انداز خود قرآن میں استعمال کیا گیا ہے، بغیر کوئی دھونس جمائے خدا لوگوں کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ اگرسچے ہیں تو اسکی باتوں کو غلط ثابت کرکے دکھادیں اور اِسکے خلاف اپنے نظریات کو ٹھیک ثابت کرکے دکھائیں۔
’’ تم خدائے رحمٰن کی تخلیق میں کوئی خلل نہیں پاؤ گے ! تو نگاہ دو ڑاؤ، کیا تمہیں کوئی نقص نظر آتا ہے ؟ پھر بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ ناکام، تھک کر واپس آجائے گی۔ ‘‘ (الملک)
یہی صحیح رویہ ہے جو ہمیں سائنسی علوم کے بارے میں اپنانا چاہئے اور یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ مذہبی طبقے کے ایک گروہ نے سائنسی حقائق کو اپنا دشمن گمان کرلیا۔ مسیحی چرچ نے اہل مغرب کے تاریک دور میں اِس سے بھی زیادہ افسوسناک رویہ اُن سائنسدانوں کے بارے میں دکھایا جن کی آج دنیا مداح ہے اور پھر ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ بائیبل میں تحریفات اور اِسکے اندر سائنسی اغلاط (Scientific Errors) ثابت کرنے کا معاملہ ہو تو ہم انہی ثابت شدہ سائنسی قوانین کی روشنی میں یہ معرکہ سرانجام دیتے ہیں جو ان کتابوں کے ماننے والے ہی ہمارے سامنے رکھ گئے ہیں۔ یہ بہترین موقع ہوتا ہے اس بات کو سمجھنے کا کہ سائنس اگر ان غیر مسلموں کے نظریات کا نام ہے تو پھرکیوں یہ نظریات اُن کی مذہبی کتابوں پر تنقید اور ان کے رد کاذریعہ بنتے ہیں؟ یہ اگر خدا کے قائم کردہ قوانین نہیں تو کیوں خدائے رحمان کے الفاظ کو سچ کردکھاتے ہیں کہ قرآن سے پہلے کے الہامی صحائف میں بہت حد تک تحریف ہوچکی ہے۔
خدا کی ذات اور اسکے خالق کائنات ہونے پر اعتماد کا لازمی تقاضا ہے کہ ہم اِس بات کا یقین رکھیں کہ اُسکی ہدایت یا کوئی بیان کبھی حقیقت اور عقل ِعام (Common Sense)کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ ورنہ تو خدا کو خود ہی آکر اپنی بات منواناہوگی کیونکہ دنیا کو توشعُوری طور پر صرف اُسی نقطہ نظر کا قائل کیا جاسکتا ہے جو وہ اپنے سامنے پڑے ہوئے حقائق کی روشنی میں قائم کرسکتی ہے۔ اور یہ حقائق اگر بالآخر اسی خدا کی طرف رہنمائی نہیں کرتے تو پھر لوگوں کو محض جبر ہی سے قا ئل کیا جا سکتا ہے لیکن خود خداے ٔ ذوالجلال ہی کا فیصلہ ہے کہ
’’ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں،ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہو چکی ہے۔ ‘‘ (البقرۃ۔257)
اور
’’ ہم نے انسان کو راہ سُجھادی ہے ۔ اب وہ چاہے تو شکرگزاری کی روِش اپنائے اور چاہے تو ناشکری کی۔ ‘‘(الدھر۔3)
حاصلِ کلام
اس ساری بحث کا مقصد یہ واضح کرنے کی کوشش ہے کہ:
۱۔سائنس اسلام کے خلاف کسی قوم کا نقطہ نظر نہیں بلکہ ان حقیقتوں کا مجموعہ ہے جو رب کی تخلیق کے نتیجے میں اس کائنات میں کارفرما ہیں۔
۲۔قرآن ہمیں اِس دنیا میں موجود خداکی نشانیوں اور اِس کے بنائے ہوئے اصول و قوانین کی بنیاد پر ہی اپنے نظریات کا قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
۳۔قرآن کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہمیں سائنسی علوم سے کنارہ کشی نہیں بلکہ ان کے حصول کو اپنا ہدف بنانا ہوگا۔
۴۔اگر ہمیں قرآن اور اِسلام کو درپیش جدید دنیا کے چیلنجوں کا جواب دینا ہے تو ہمیں اپنی اُن دینی تعبیرات اور نظریات پر نظرثانی کرنی چاہیے جو نہ تو ثابت شدہ سائنسی حقائق کے مطابق ہیں اور نہ ہی عقل و فطرت کے مسلّمات کی گرفت میں آتے ہیں۔