اتاترک اایئرپورٹ استنبول میں
تقریباً دیئے گئے وقت پرہی جہاز استنبول کی فضاؤں میں پہنچ گیا اور جہاز کے ساؤنڈ سسٹم سے مسافروں کو لینڈنگ کی تیاری کی ہدایات دی جانے لگیں۔استنبول شہر پر سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔دور دور تک ،سبزہ،بلندو بالا عمارات اور سمندر کا نیلگوں پانی دِلفریب لگ رہا تھا۔جہازاستنبول ایئرپورٹ کی فضاؤں میں داخل ہوا ،تھوڑی بہت کھڑکھڑاہٹ ،ہلکا سا ایک آدھ جھٹکا اور پھررن وے پر،جہاز کے قدموں کے ملاپ کی دھپ کرتی آواز نے جتلا دیا کہ ہم سرزمین ترکی پراُتر چکے ہیں۔ایک ایک کرکے مسافر اُترنا شروع ہو گئے اور ہم بھی ٹرکش ایئر ہوسٹس کی الوداعی مسکراہٹ وصول کرتے سرنگ کے راستے چلتے ایمیگریشن ہال میں آ گئے۔ ایمیگریشن ڈیسکس کے سامنے ایک لمبی لائن لگی تھی، ہم بھی اُس میں لگ گئے اوراُس میں چلتے چلتے آفیسر کے پاس پہنچے اور اُسے اپنا پاسپورٹ پیش کیا ۔اُس نے ہمارا پاسپورٹ لیا،بغیر کسی تاثر اور سوال و جواب کے، اُس پر سٹیمپ لگائی اور پاسپورٹ ہمیں پکڑا دیا اور آگے نکلنے کا اشارہ کر دیا۔وہاں سے آگے بڑھ کرہم انتظار گاہ میں آگئے۔ہماری اگلی منزل انطالیہ شہر تھا جس کے لیے ہمیں اسی ایئرپورٹ سے ہی لوکل فلائٹ لینی تھی۔ یہ فلائٹ ہمیں کہاں سے ملے گی،کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔مختلف لوگوں سے پوچھتے، پوچھتے،ہم لوکل فلائٹس لاج میں آگئے۔ اس دوران میں ،ہمارا جن لوگوں سے بھی واسطہ پڑا اُن کا سلوک بہتر تھا۔ایئرپورٹ کا اندرونی ماحول بھی،صاف ستھرا،رفیقانہ اورپر سکون تھا۔گہما گہمی تو تھی لیکن افراتفری اورآپا دھاپی نہ تھی۔عمارت بھی خاصی کُشادہ، پُر شکوہ اورمنظم تھی ۔ظہر کی نماز کا کا وقت ہو چکا تھالیکن وضو اور نماز کے لیئے کوئی جگہ نہ ملی۔فلائیٹ کا وقت بھی تنگ ہو چکا تھا،لہٰذا فوراًجہاز پر سوار ہو گیا۔ہماری اگلی منزل انظالیہ تھی۔
تر کی اورترک قوم
ترکی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔جمہوریہ ترکی ایک ایسا ملک ہے جس کا ایک حصہ (بڑا حصہ) بر اعظم ایشیا میں اور ایک حصہ بر اعظم یورپ میں واقع ہے۔مسلم تاریخ میں ،خلافت عثمانیہ کا مرکز ہونے کے باعث،یہ ایک اہم مقام رکھتا ہے اور اس حیثیت میں یہ صدیوں تک دنیا کی ایک سپر پاور رہا ہے۔اس کا رقبہ تقریباً ۸ لاکھ مربع کلو میٹر اور آبادی اندازاً ۸ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔(پاکستان کا رقبہ تقریباً ۹ لاکھ مربع کلو میٹر اور ہماری آبادی ۲۲ کروڑ نفوس ہے )۔ترکی میں ۹۶ فیصد مسلمان ہیں اور ان کی بھی عظیم اکثریت سنی حنفی مسلمانوں کی ہے۔
حدود اربعہ
ترکی آٹھ ممالک سے گھرا ہوا ہے۔اس کے نقشے کو دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ بظاہر ایک شرقاً غرباً پھیلامستطیلی خطہ ارضی ہے۔جس کے کم و بیش تین اطراف سمندرہے اور ایک طرف خشکی۔مشرق سے مغرب لمبائی قریباً ۱۶۰۰ کلو میٹر ہے اورشمال سے جنوب چوڑائی تقریباً۶۵۰ کلو میٹر ہے۔جنوب میں قریباً آدھا حصہ بحر روم اور جنوب مشرق میں شام اور عراق ،مشر ق میں،عراق،ایران،آذربئیجان،ارمینیا اور جارجیا سے ملا ہوا ہے،شمال میں،چوتھائی حصہ ،روس ،جارجیا اور باقی کا تین چوتھائی شمالی بارڈر بحر اسود سے ملا ہے۔بحر اسود اور بحر روم دو بڑے سمندر ہیں،ان دونوں کو آبنائے باسفورس آپس میں ملاتی ہے۔یہ آبنائے ترکی کو مغربی سمت میں دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔باسفورس کے مغرب میں ترکی کا حصہ تھریس کہلاتا ہے۔یہ ترکی کا قریباً چوتھائی رقبے پر مشتمل ہے۔اور باسفورس کے مشرق میں واقع ترکی کے حصے کو اناطولیہ کہتے ہیں اور یہ قریباً تین چوتھائی رقبے پر مشتمل ہے۔اسی اناطولیہ ہی کو ایشیائے کوچک کہا جاتاہے۔ترکی کی یہ مغربی سرحد،نیچے یونان اور اوپر بلغاریہ سے ملتی ہے۔اس مغربی سرحد کا بھی آدھاحصہ سمندر سے ہم آغوش ہے۔ اس سمندر کو بحیرہ مر مر کہتے ہیں۔بحیرہ مرمر سب سے چھوٹا سمندر ہے جو چاروں طرف سے ترکی سے گھِرا ہے ۔
ترکی کی سرزمین کئی چھوٹے بڑے پہاڑوں سے ڈھکی ہے،جو نہایت سرسبزوشاداب ہیں۔بیشتر علاقہ سطح مرتفعائی ہے۔وسیع میدان بھی نہیں۔ترکی بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور آمدنی کا بڑا ذریعہ زراعت ہے اگرچہ اب صنعتیں بھی لگ رہی ہیں ۔اس کی سرزمین کے قدرتی حسن،زیب نظر مناظر اورازمنہ قدیم کے آثارات کے باعث اور حکومت کی بھر پور توجہ اور بہتر پالیسیوں کے باعث سیرو سیاحتtourisimبھی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ترکی کاشمال مشرقی علاقہ دشوار گزار اور بلند ترین پہاڑوں پر مشتمل ہے ان میں سے ایک کوہ ارارات ہے ،جس کی چوٹی پر،کہا جاتا ہے کہ سیدنا نوح علیہ السلام کی کشتی،طوفان کے تھمنے پر،آکرٹکی تھی۔دنیائے عرب کے دو مشہور دریا فرات اوردریائے دجلہ ترکی کے مشرقی پہاڑوں ہی سے نکلتے ہیں۔ترکی کی سرزمین کی تاریخ بہت پرانی ہے۔یہ ۱۰ ہزار سال کی قدیم تہذیبی ورثے کا حامل ملک ہے۔یہ علاقہ تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ترکی کے اناطولیہ ریجن میں ،پتھر کے زمانے سے انسان موجود ہے۔ترکی نے کئی قوموں کو بنتے ،عروج پاتے،بگڑتے ، زوال پذیر ہوتے اور صفحہ ہستی سے مٹتے دیکھا ہے۔مختلف تہذیبوں کے آثار،نشانات،کھنڈرات اور عمارات،جگہ جگہ ترکی میں پائی جاتی ہیں، جو عام سیاحوں کے ساتھ ساتھ، انسانی تہذیبوں کے مطالعہ اور تحقیقات کرنے والے علما کرام کی توجہ اور تحقیق کا مرکز ہیں۔زمانہ قبل از تاریخ،کانسی کا دور،لوہے کا دور،یونانی تہذیب،رومن ایمپائر ، بازنطینی شہنشاہیت،سلجوقی دور اسلام اور عثمانی دورِ خلافت،اور اب ۱۹۲۲ء سے جاری جدید ترک جمہوریہ کا دور،اس کی تاریخ کے نمایاں ادوار ہیں لیکن تفصیل کا یہ نہ موقع ہے اور نہ ہی ہمارا موضوع۔
ترک قوم
آبادی کا تقریباً ۹۰ فیصدحصہ نسلاً ایک ہی قوم قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جسے ترک قوم کہا جاتا ہے۔یہ قوم سیدنا حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد سے ہے۔یہ لوگ تقریباً ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ترک بنیادی طور پر وسط ایشیائی ممالک میں آباد قوم ہے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں ترک قبائل نے اپنے آبائی وطن سے ہجرت کر کے مختلف دیگر علاقوں میں آباد ہوئے۔ان کے کئی قبائل نے دنیا میں بڑی بڑی حکومتیں قائم کیں۔ان مختلف ترک قبائل میں،سلجوق قبیلہ وہ پہلا قبیلہ ہے جو حلقہ بگوش اسلام ہوا اور یہی وہ قبیلہ ہے جس نے سب سے پہلے ترک سر زمین میں عظیم الشان اسلامی حکومت قائم کی۔ان کے بعد آنے والا حکمران خاندان ترکان عثمانی تھے جنھوں نے یہاں شاندار خلافت اسلامیہ قائم کی ۔ان کے دور حکومت میں ایک وقت ایسا بھی تھاجب ایک وقت میں دنیا کے تین بر اعظموں پراسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔مغل اور تاتار بھی ترک اقوام تھیں۔ امیر تیمور ترک تھا ،چنگیز خان بھی ترک تھا۔۱۹۹۱ء میں روس کے شکنجے سے آزادہونے والی وسط ایشیائی مسلمان ریاستیں،آذربائیجان، کازکستان، کریغستان ،ترکمانستان اور اُزبکستان وغیرہ بھی ترک اقوام پر مشتمل ہیں اور یہ سب مسلمان لوگ ہیں۔چائنی ترکستان،جو کہ چین کا حصہ ہے،بھی ترک ہیں۔ ان کے علاوہ،دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ترک لوگ موجود ہیں۔بیشتر ترک مسلمان ہیں اور کچھ لوگ ابھی تک غیر مسلم بھی ہیں۔
ترکی میں اسلام
جمہوریہ ترکی کی۹۶ فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے تویقیناًیہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ ترکی میں اسلام کیسے آیا اور کیسے پھیلا۔اگرچہ یہ موضوع خاصاتحقیق طلب اورسنجیدگی کا حامل ہے اور ہماری اس کتاب کے سکوپ سے باہر ہے،لیکن اس سوال کاسامنا کیئے بغیر بھی ہم نہیں گزر سکتے کیونکہ یہ موضوع ہماری زندگی بھر کی دلچسپیوں کامحور ہے اس لیے مختصراً ہی سہی،ہم اس راہ پر آپ کو ضرور لیئے چلیں گے۔
ترکی میں جو آدمی بھی ،کسی مقصد کے لیئے ہی سہی،جب جاتا ہے تووہ استنبول ضرور جاتا ہے،اور وہاں جا کراور کچھ دیکھے نہ دیکھے ، دو چیزیں ضرور دیکھتا ہے ،ایک آیا صوفیہ اور دوسرے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخری آرام گاہ ۔
آیا صوفیہ وہ عظیم الشان عمارت ہے جو عیسائی عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ، عیسائیت کے سیاسی غلبے ،رعب اور شان و شوکت کی علامت تھی اور اب محض اک میوزیم اور سیروتفریح گاہ،اورسیدنا ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ کی قبر مبارک،تویہ،عیسائیت کے اس غلبے کو توڑنے کی جدوجہد کرنے والے اسلامی مجاہدین کی جرأت و بہادری کی علامت ہے۔ان دونوں چیزوں کا مفصل تذکرہ آگے چل کر ہوگا۔
یہاں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کی آمد سے پہلے یہاں عیسائیت کا غلبہ تھااورقسطنطنیہ اس کا پایہ تخت تھا جسے آ جکل استنبول کہتے ہیں۔ترکی کی کی تاریخ کامطالعہ کریں،تو اُس میں کئی انبیا علیہ السلام کا تذکرہ ملتا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسایئت سے قبل بھی یہاں اللہ کے رسولوں کا پیغام موجود تھا۔جیسا کہ قبل ازیں سیدنا نوح علیہ السلام کا ذکرآچکا ہے،ترکی میں کچھ یادگاریں سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بھی وابستہ بیان کی جاتی ہیں۔سیدنا الیسع علیہ السلام اور سیدنا ذوالکفل علیہ السلام،کے مزارات بھی مبینہ طور پر ترکی کے علاقے دیار بکر میں بیان کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی، یہاں بہت سے دیگرانبیا بنی اسرائیل،سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں ،عیسائیت کے بڑے بڑے علما کرام اور اولیا کرام کے مزارات کی موجودگی ثابت ہے ،جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ علاقہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات سے فیضیاب ہو تا رہا ہے اور عیسائیت کا مرکز اور گڑھ ہونا توتسلیم شدہ حقیقت ہے ہی۔
اوراس علاقے کی طرف اسلام کی پہلی آمد،شایدمجاہدین کے اُس لشکر کی صورت میں تھی جو قسطنطنیہ پر حملہ آور بن کر آیا تھا اور جس میں،میزبان رسول ﷺ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چند دیگر بوڑھے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین شامل تھے۔اگر چہ یہ لشکر قسطنطنیہ توفتح نہ کر سکا تھا لیکن رشدوہدایت کے جوچراغ،یہ لشکر روشن کر گیا تھا اُن کی ٹمٹماتی لو ،مجاہدین اسلام کے لیے ،صدیوں تک ،چراغ راہ کا کا م دیتی رہی حتیٰ کہ ۱۴۵۳ء میں، کہیں آکر ،یہ عظیم الشان قلعہ فتح ہوا اور وہ دِن اورآج کا دِن،استنبول عالم اسلام کے نمایاں ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ استنبول میں سیدنا ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ چند دیگر صحابہ کرام کی قبور بھی زیارت زدِخاص و عام ہیں۔ ان نفوس قدسیہ کی یہاں موجودگی گواہی دے رہی ہے کہ اللہ کے یہ بندے اللہ کا دین یہاں تک لائے تھے۔ان کے یہاں کا سفر اختیار کرنے کی بھلے وجوہات کچھ بھی ہوں،یہ بات تو بہر حال طے ہے کہ یہ نفوس جہاں بھی گئے اپنے کردار و عمل سے،اپنی گفتار سے اور اخلاق عالیہ سے لوگوں کے دلوں کی کھیتی میں دین اسلام کا بیج بو گئے۔
اِس مذکورہ لشکرکی آمد تو استنبول میں ثابت ہے ،لیکن اس سے قبل بھی ،مسلمانوں کے کئی لشکروں یا تجارتی قافلوں کی آمد،اناطولیہ یعنی مشرقی ترکی میں ثابت ہے۔۶۴۷ء میں، امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،جب وہ شام کے گورنر تھے،نے بازنطینی حکمرانوں سے جنگ کی اور کپا ڈوکیا کے کچھ علاقے فتح بھی کیئے لیکن انھوں نے اُن کو سنبھالے رکھنے کی طرف کوئی زیادہ توجہ نہ دی اور کچھ عرصے بعد یہ مفتوحہ علاقے بازنظینیوں نے واپس لے لیے۔لیکن ظاہر ہے کہ مجاہدین کے قدموں کی دھول کے صدقے اور علما کرام کی کاوشوں کے نتیجے میں ،کئی قبیلوں کے اندر شمع ایمان روشن ضرورہو گئی تھی۔ دوسرے اموی خلفا اوربعد میں آنے والے عباسی حکمران بھی،اناطولیہ کی سرزمین پرچڑھائیاں کرتے رہے اورکبھی فتح اور کبھی شکست سے دو چار ہوتے رہے۔ترکی کے آس پاس کے جزائر جیسے قبرص اورcreteپرعباسیوں کا جھنڈاایک عرصے تک لہراتا رہا۔ظاہر ہے یہ تمام فوجی لشکر کشیاں اسلام کو ان علاقوں میں پہنچانے کا باعث بنتی رہیں حتیٰ کہ عباسیوں کے عہد میں ہی ایک ترک قبیلہ،جو اسلام قبول کر چکا تھا اور عباسی خلفا کے درباروں میں وزیر اورمشیر رہ کرسیاسی تربیت بھی حاصل کر چکا تھا،نے اپنی مجاہدانہ کاوشوں کا مرکز سرزمینِ ترکی کو بنایا اورآخر کار وہ،۱۰۳۷ء میں، اناطولیہ میں ایک اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔یہ ترک مجاہدین تاریخ میں سلاجقہ کہلاتے ہیں۔ان کو سلاطین روم بھی کہا جاتا ہے۔اس خاندان نے ڈیڑھ پونے دو سو سال تک ترکی میں حکومت کی اور اس سارے علاقے کو شمع اسلام سے روشن کر دیا۔ان لوگوں سے ہی عثمانیوں نے حکومت حاصل کی اورکم و بیش ایک ہزارسال تک،سپر پاور بن کر،انھوں نے تین بر اعظموں پراسلامی سلطنت قائم کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس جدید ترک جمہوریہ کی سرزمین پر۹۶فیصد آبادی مسلمان ہے اور اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتی ہے۔
قلعے چی
ترکی کے وزٹ کے پہلے دن (جمعرات 21/7/2017) کو جب ہم شہر کے ٹور پر نکلے تو خاتون گائیڈ ہمیں قدیمی شہر کی طرف لے گئی جس کو وہ اپنی زبان کے تلفظ میں ’’قلعے چی‘‘ بو ل رہی تھی ۔ اُس نے بتایاکہ یہ ہمارا مختصر سا ٹور ہوگا جس میں ہم پرانے شہر کا ایک حصہ دیکھیں گے،اس علاقے کا نام( Kaleichi)ہے۔یہ علاقہ ہمارے ہوٹل مرمرہ سے قریباًپچیس تیس منٹ کی ڈرائیوپرہوگا۔گاڑی شہر کی مختلف شاہراہوں سے گزرتی چلی گئی اورشہرکودیکھنے کا موقع ملتا گیا۔جہاں پہ گاڑی رکی وہ ایک بڑا سا پارک تھا جو سمندر کے کنارے پر بنایا گیا تھا۔گائیڈ نے ہمیں گاڑی سے نیچے اُترنے کو کہا ۔یہ سٹی پارک ہے ،گائیڈ نے بتایا۔بڑا ہی خوبصورت منظر ہماری نظروں کے سامنے تھا۔سامنے سمندر تھا،اس کا نیلگوں شفاف پانی اور اُس کے سینہ پر دوڑتی بھاگتی خوبصورت کشتیاں،سبحان اللہ سمندر کے نظارے کے لیے ایک نقطہ نظارہ (View point) بنایا گیا تھا،ہم چلتے چلتے اس پر پہنچے۔ یہ سمندر کے کنارے ایک پلیٹ فارم ساتھا جس پر کھڑے ،بہت سے دیگر لوگ سمندر کا نظارہ کر رہے تھے ۔ہم نے بھی ان کے ساتھ شامل ہو کرسمندر کے نیلے پانیوں کا نظارہ کیا ۔ ہم لوگ کافی زیادہ اوپر کھڑے تھے ،سمندر کی سطح بہت نیچے تھی۔ اوپر سے لوگ بونے سے نظر آتے تھے ۔نیچے بیچ پہ رش نظر آرہا تھا۔گائیڈ ہمیں ساتھ ساتھ رہنمائی بھی دیتی جا رہی تھی۔ اس سمندر کا نام medetranian seaہے۔(اردو میں بحیرہ روم کہتے ہیں)اوریہ ( Konyaltie) بیچ کہلاتی ہے۔اُس نے بتایا کہ’’ انظالیہ شہر ایک نیم دائرئے یا ہلال کی شکل میں بحرِ روم کے ساحل پر واقع ہے۔‘‘نیچے ساحل تک جانے کے لیے لفٹ لگی ہو ئی تھی اور لوگ آجا رہے تھے لیکن ہم نیچے نہیں اُترے کیونکہ ہمارے پاس وقت کم تھا۔’’وہ سامنے پرانے شہر کی فصیل کے کھنڈرات ہیں۔‘‘ گائیڈ کہنے لگی۔’’انطالیہ شہر تاریخ کے مختلف عہد میں، مختلف حکمران تہذیبوں کا مر کز رہا تھا،یہ فصیلِ شہر ان مختلف تہذیبوں کے فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ ‘‘ اُس نے دور سے بعض نشانیوں کی نشان دہی بھی کی،لیکن اب وہ مجھے یاد نہیں رہیں۔ سمندر کے پار ایک پہاڑ نظر آرہا تھا ،گائیڈ نے بتایا کہ اس پہاڑ کوBey mountain))کہا جاتا ہے۔سامنے کا منظر بہت ہی دلکش تھا ،سرسبز پہاڑ،پہاڑ کے اُوپر اُڑتے ہلکے ہلکے بادل،سامنے وسیع، نیلگوں سمندراوراُس میں ڈوبتا ہوا سنہری سورج۔ یہ سمندرمیں اُترتی شام کا ایک نہایت زبردست اوربے نظیر منظرتھا۔میری زندگی میں ایسی خوبصورت شام پہلے کبھی نہیںآئی تھی۔سبحان اللہ و بحمدہٖ سبحان اللہ العظیم۔
yivliمیناراورقدیمی مسجد
گائیڈ کے اشارے پر،ہم اس نقطہ نظارہ سے واپس مڑے ،سٹی پارک سے گزر رہے تھے کہ مغرب کی اذان شروع ہو گئی ۔ ہم نے گائیڈ سے کہا کہ وہ ہمیں قریبی مسجد تک لے چلے ۔یہ ترکی میں پہلی اذان تھی جو میں سن رہا تھا۔نہایت خوبصورت انداز تھا اذان کا۔گائیڈ نے اشارہ سے بتایا’’ کہ وہ پاشا مسجد کے مینار ہیں ،وہ قدرے دور ہے ،البتہ ادھر قریب ہی ایک اور تاریخی مسجد ہے ادھر چلتے ہیں۔‘‘پارک میں چلتے چلتے پندرہ بیس سیڑھیاں نیچے اترے ،آگے پھر ایک پارک تھا،کچھ اور آگے بڑھے تو ایک قدیمی مینار نظر آیا جسے(Yivli) مینار یا پھر ((flutted menarکہتے ہیں۔ ساتھ ہی مسجد تھی جس میں مغرب کی نماز ادا کی جارہی تھی۔ہم نے فوراً جوتے اتارے اور مسجد میں داخل ہو کر آخری رکعت میں جا شامل ہو ئے ۔ مسجد میں اس وقت بیس پچیس نمازی ہوں گے ،یہ انطالیہ ترکی میں ہماری پہلی جہری نماز تھی ۔ امام صاحب نے سلام پھیرا تو ہم نے اُٹھ کر باقی نما ز پوری کی۔ ایک بچے کی آواز مسلسل آرہی تھی جو قدرے بلند اور نہایت خوبصورت تجویدکے ساتھ ذکر کر رہا تھا ۔وہ وقفے وقفے سے با آوازِ بلند ذکر کرتا اور خاموش ہو جاتا۔ ہمارے ساتھی اُس کی ہر ادا پر سبحان اللہ ، سبحان اللہ کہتے ہو ئے اُس بچے کو پیار کرنے لگے ۔ بعد میں جب ہم نے دیگر مساجد میں با جماعت نمازیں ادا کیں تو اس بچے کا یوں وقفے وقفے سے ذکرکرنا سمجھ میں آگیا جس کی تفصیل بعد میں آگے آئے گی۔ ہم نے مسجد کی عمارت کا جائزہ لینا شروع کیا۔ستونوں اور گنبدوں پر مسجد کی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔بہت قدیمی لگ رہی تھی بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سلجوقی دور حکومت کی یادگار تھی۔ محراب اور گنبدوں کی بناوٹ سے خوبصورت طرز تعمیر کا اندازہ ہو رہا تھا ۔ اندرون مسجد کو پلستر نہیں کیا گیا تھا اینٹوں پر ہی زرد رنگ پھیر دیا گیا تھا محرابوں اور آرچوں کے ایک سیٹ پر چھوٹے گنبداور اُن کے ساتھ مرکزی گنبد تعمیر کیا گیاتھا۔مسجد میں سرخ قالین بچھا تھا ،ایک بڑا اے سی بھی چل رہا تھا ،مسجد کے مین ہال میں ہی پچھلی دیوار کے ساتھ فرش کے ایک حصہ کو علیحدہ کر دیا گیا تھا ، یہ ایک حوض تھا جس کو شیشے کی چھت سے ڈھک دیا گیا تھا، اُس کے اندر کچھ مٹی کے بنے ہوئے پانی کے پرانے پائپ اور نالیاں تھیں۔ یہ غالباً پانی کی ترسیل کاکوئی قدیمی ڈھانچہ تھاجو کھدائی کے دوران دریافت ہوااور اسے ہمارے ایسے ٹوریسٹوں کے لیئےpreserveکر دیا گیاتھا۔بظاہر تو یہ ایسی کوئی متائثرکن چیز نہیں لگ رہی تھی لیکن بہرحال ان لوگوں کے ماضی کے آثار کو سنبھالنے کے جذبے کی ترجمانی ضرور ہو رہی تھی۔ہم اُن کے اس جذبے کی تعریف کرتے ،مسجد سے باہر نکلے تو ہمارے سامنے(Fluted menar) تھا ۔یہ ایک قدیم مینار ہے جو انطالیہ شہر کا مونوگرام ہے۔بیان کیا جاتا ہے کہ اس مینار کو ۱۳ویں صدی عیسوی میں ،سلجوق بادشاہ علاؤالدین قیقباذ نے تعمیر کرایا تھا ۔ چالیس میٹر بلند یہ مینار صدیوں سے قائم ہے اور سلجوقی عہد اقتدار کی عظمت و سطوت کی یادگار ہے ۔
یہ مینار سرخ اینٹوں سے بنا ہے جس کی بنیادمیں سنگ مر مر کا ایک بہت بڑا چوکورسنگل singleٹکڑارکھا ہے۔ مینار گول ہے جس کے آٹھ ابھرے ہو ئے دندانے ہیں جو اُفقی حالت میں جاتے ہیں اور اوپر جاکر پینسل کی نوک کی طرح باریک ہو جاتے ہیں۔نوک سے ذرا پہلے مینار کا پھول بنایا گیا ہے جس پر خوبصورت ڈیزائن بنائے گئے ہیں پھول کے اوپرمینار کی بالکونی ہے ۔بالکونی میں بڑی ہی خوبصورت جالی لگی تھی غالباًسنگ مرمر کی ہوگی ۔میں کافی دیر تک اس مینار کی صناعی پر غور کرتا رہا اوردِل ہی دِل میں اُن کاریگرہاتھوں اور فن کارمستریوں کوداد دیتا رہا جنھوں نے یہ شاہکار تخلیق کیاتھا۔
اس مینار کے سامنے ایک مدرسے کا کمپلیس ہے جوایک سلجوق وزیر نے بچوں کی دینی تعلیم کے لیئے ۱۲۵۰ء میں بنایاتھا۔اس کا نام کیراتے مدرسہ تھا۔اس کا داخلی گیٹ خوبصورت سنگ مر مر سے بنایا گیا تھا ۔ ہماری گائیڈ نے بتایا کہ اب یہ عمارت دینی مدرسے کے طور پر استعمال نہیں ہو تی بلکہ اب یہ ایک شاپنگ مال میں بدل دی گئی ہے جس میں انطالیہ کے روائتی ملبوسات و مصنوعات بیچی جاتی ہیں جس کو سیاح یادگاری تحائف کے طور پہ خرید کرلے جاتے ہیں۔ہم اس شاپنگ مال میں داخل ہو گئے ۔اپنے انگ انگ سے یہ ایک قدیمی بلڈنگ لگ رہی تھی اور اپنے ماضی کوقائم رکھنے والوں کے لیئے زبان حال سے معترف تھی۔یہ عمارت بذاتِ خود ایک اینٹیق چیز تھی اور اس کے اندر بھی اینٹیق چیزیں ہی فرخت ہو رہی تھیں۔کچھ دیر تک ہم نے اس کا جائزہ لیا،ترکی قہوہ پیااوربغیر کچھ خریدے باہر نکل آئے۔
اس شاپنگ مال کے سامنے ایک اورقدیمی مدرسے کا داخلی دروازہ تھا،عمارت حوادثِ زمانہ کا شکار ہو چکی تھی البتہ یہ دروازہ تاریخ کی دست برد سے بچ نکلا تھا۔ تا ہم دروازے کا شکوہ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ کبھی ایک عظیم عمارت کا دروازہ رہا ہو گا۔ اس حصے میں قدیمی حماموں کی بھی ایک دو عمارتیں موجود تھیں ۔ یہ حمام کیا ہو تے ہیں یہ بڑی دلچسپ چیزیں تھیں ازمنہ قدیم میں لوگ اس طرح کی عمارتیں بناتے تھے جس میں عام لوگوں کے لیے غسل کا وسیع پیمانے پہ اہتمام کیا جاتا تھا ۔ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ جب حمام میں کوئی آدمی غسل کے لیے آتا تو اُس کی پوری تعظیم کی جاتی ، اُس کے کپڑے لیے جاتے اور اسے غسل کا مختصر لباس فراہم کیا جاتا ، پھر اُس کا مساج کیا جاتا جس کے بعد غسل کی نوبت آتی ۔یہ حمام غسل کاایک پورا پیکج فراہم کرتے تھے۔مرد و خواتین کے لیئے الگ الگ انتظام۔کپڑے تبدیل کرنے کے کمرے،پہلے مساج کے کمرے اور پورا سازو سامان، پھر بھاپ لینے کے کمرے، پھربالترتیب،گرم پانی کے ٹب، پھر نیم گرم پانی کے ٹب،اسی طرح ٹھنڈا پانی،پھر بہت ہی ٹھنڈاپانی،سب سب الگ،مختلف قسم کے پرفیوم،صابن،تیل وغیرہ وغیرہ،پھر تیراکی کے بڑے بڑے تالاب،ان حماموں کا عملہ ،مساج ،غسل،اور عطریات کے لیئے ماہر کاریگر،غرض ایک پورا نظام قائم تھا ان حماموں کے ساتھ۔یہ حمام صحت و تفریح کا مکمل پیکج فراہم کرتے تھے۔
)جاری ہے)