ہارٹ تھروپس کویت کے ملیالم ایف ایم ریڈیو سے نشر ہونے والا ایک ہر دلعزیز پروگرام ہے۔ پچھلے دنوں پروگرامر نے ایک بڑاہی انوکھا موضوع چھیڑ دیا تھا۔ اس نے سامعین سے پوچھاتھاکہ ‘‘ آپ اپنی زندگی کے آخری ایام (رٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی ) کہاں اور کس کے سنگ گزارنا پسند کریں گے ؟’’اس بارے میں بہت سارے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا مگر ان میں سے ایک جواب بے اختیار میری آنکھوں کو نم کر گیا۔ کالر (Caller) کا نام حفصہ تھا۔ وہ ایک معمر خاتون ہے۔ شوہرکے انتقال کے بعد گذشتہ سولہ برسوں سے کویت میں مقیم ہے۔ چار بیٹیوں میں سے تین کا تو گھر بسا چکی ہے۔ایک لڑکی اس خوبصورت گھڑی کے انتظار میں ہے۔ اس خاتون کا اپنا کوئی گھر نہیں ہے۔اس کی ساری جمع پونجی تو بچیوں کی تعلیم اور ان کی شادیوں میں خرچ ہوچکی ہے۔اس کا جواب بڑا ہی دلسوز تھا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ ‘‘ میری آرزو اب بس یہی ہے کہ چھوٹی کوبیاہ دینے کے بعد یہاں سے چلی جاؤں اور کسی وردّھاشرم(اولڈہاؤس) میں اپنی زندگی کے آخری ایام اس طرح بتا دوں کہ کسی کو مجھ سے کوئی شکایت نہ رہ جائے ’’
عرصہ قبل ایک پاکستانی بزرگ نے مجھے فون کیا اور ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ جب ان سے ملاقات ہوی تو وہ اپنے آنسو پر قابو نہ پاسکے۔ وہ ایک باپ کی حیثیت سے اپنے نافرمان بیٹے کی شکایت لے کر پہنچے تھے۔ وہ بیٹا جسے ماں باپ نے اپنی اولاد میں سب سے زیادہ لاڈ پیار سے پالا اور نازو نعم میں پروان چڑھایا۔ اپنی سکت بھر بہتر تعلیم دلانے کی کوشش کی۔جب وہ روزی روٹی کمانے کے لایق بنا تو کویت کی ایک نامورکمپنی میں نوکری کے لیے ویزا نکلوایا۔شادی تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ اب ایک لڑکی بیوی بن کر زندگی میں کیا آئی کہ اس کے لیے ماں باپ کچھ بھی نہ رہے تھے۔ حسرتوں کا مارا باپ ہر پل سرد آہیں بھرتا ہے گویا زبان حال سے کہہ رہا ہو کہ
صبح کو آہیں بھر لیں گے ہم رات کو نالے کر لیں گے ہم
مست رہو تم حال میں اپنے تم بن کیا ہم جی نہ سکیں گے!؟
اور ماں تو آخر ماں ہے ہر آہٹ پر دروازے پر نظریں جمادیتی ہے کہ صبح کا بھولا شام کو لوٹ تو نہیں آیا۔
سارے رشتے وقت کی موجوں کے ساتھ بہہ گئے
زندگی کی بھیڑ میں ہم تم اکیلے رہ گئے
قسمیں وعدے پیار چاہت اور وفاؤں کا بھرم
ریت کی دیوارتھے سو ڈھہتے ڈھہتے ڈھہ گئے
میرے ایک عزیز کویت میں موجود ایک صاحبزادے کا واقعہ سنارہے تھے ، وہ اوراس کی ہمشیر بچپن ہی میں یتیم ہوچکے تھے۔ مگر ماں نے انہیں کبھی باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔ اس کی ماں گھر گھر جاکر محنت مزدوری کرتی اور اپنے بچوں کی بھوک مٹاتی تھی۔ وہ ان کی آنکھوں کو مستقبل کے حسین سپنے ہی نہیں دکھاتی تھی بلکہ اس کی تعبیر کے لیے ازخود کوشاں رہتی۔ اس نے انہیں تعلیم دلوائی اور اس لایق بنایا کہ وہ دنیا میں سر اٹھاکر جی سکیں۔ آج اس کے دونوں بچے اپنے بال بچوں سمیت کویت میں مقیم ہیں۔ماں بھی یہیں آئی ہوی ہے۔ مگر اب ماں بیٹے کے رشتے میں دراڈ پڑ چکی ہے۔ ماں بیٹی کے گھر رہ رہی ہے۔ مہینوں سے اس نے اپنی ماں کی صورت نہیں دیکھی ہے۔ وہ اب ایک بیٹے سے زیادہ کسی کے شوہر ہونے کا رول زیادہ نبھاتا ہے۔ ماں نے اس کے لیے سماج میں سر اْٹھاکر جینے کے سپنے دیکھے تھے۔ مگر اس نے اسی سر کو ایک عورت کے آگے خم کیا ہوا ہے۔ وہ جتنا ‘‘فرماں بردار’’ شوہر ہے اتنا ہی ‘‘نافرمان’ ’ بیٹا بنا ہوا ہے۔ بچوں کے سوا اس ماں کا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔ وہ جیسے انتظار میں ہے کہ اس کا بیٹا آئے گا اور اسے اپنے گھر لے جائے گا۔
اک وہ ہیں جنہیں کوئی پیمانِ وفا یاد نہیں
اک ہم ہیں جنہیں کوئی جفا یاد نہیں
یہ تین واقعات تو صرف ایک آئینہ ہے ہمارے موجودہ معاشرتی نظام کا جہاں ماں باپ اپنا مقام کھوتے جارہے ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں والدین اور اولاد کا رشتہ ناقابل یقین حدتک تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں اس کا تناسب اوروں سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک طرف بچے گریجوایٹ بن کر آئی ٹی ، بی ٹی (IT,BT)میں نام کمارہے ہیں اور اونچی نوکریوں کی تلاش میں ملک و بیرون ملک میں مقیم ہیں تو دوسری جانب ان کی خاطر اپنی جوانی، چین ،سکون ، آرام سب کچھ قربان کرنے والے ان کے والدین کی زندگی مصیبت بنی ہوی ہے۔ شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ بچے سافٹ ویئر بنتے جارہے ہیں اور ان کے والدین ہارڈ ویئر۔
ماں باپ کے ساتھ بچوں کا جارحانہ و ظالمانہ سلوک اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بوڑ ھے ، ناتواں اور کمزور ماں باپ بے سہارا ہوکر دردر کی ٹھوکر کھاتے ہیں یا اپنی قسمت پر آنسو بہاتے ہوے کسی وردھاشرم کی کنج تنہائی میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اولاد خود کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے کے چکر میں اپنے ہی ماں باپ کو آوٹ ڈیٹڈ سمجھنے لگی ہے۔
برسوں پہلے جب ہم نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں تو ہماری زندگی کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالنے والی ہماری ‘ماں’ تھی۔ اف کتنی تکلیفوں کے بعد اس نے ہمیں جنم دیا تھا۔ اور جب تک ہم اس کے پیٹ میں تھے تو نڈھال ہی تو ہو گئی تھی وہ۔ اپنے تن کا خون نچوڑ نچوڑ کر پلا دیا تھا اس نے۔ہماری جان میں جان آجائے، اس کے لیے پل پل اپنی جان ہلاکت میں ڈال آئی تھی وہ۔ کمزورو ناتواں تو وہ پہلے سے تھی مگر جب تک ہمیں جہانِ رنگ وبو کا دیدار کراتی، ہلکان ہی ہوچکی تھی وہ تبھی تو اللہ میاں فرماتے ہیں ‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کے حقوق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اْٹھاکر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دوسال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو یہ نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا ، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ ’’ (سورۃ لقمان)
اور سورۃ الاحقاف میں فرمایا ‘‘ ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے ’ اس کی ماں نے مشقت اْٹھاکر اسے پیٹ میں رکھا ’ اور مشقت اْٹھاکر ہی اس کو جنا ’ اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگے۔
ماں اور بچوں کا رشتہ یہ کتنا مضبوط رشتہ ہوتاہے۔ ‘‘ناف’’ ہر انسان کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ مرتے دم تک رحمِ مادر میں کٹے ایام کی وہ ہمیں یاد دلاتی ہے۔ یہیں سے ‘ماں’ سے ہمارے رشتے کی نوعیت بھی نمایاں ہوجاتی ہے۔
بچپن میں جب ہم روتے تھے توماں کا چین ختم ہوتا تھا۔ جب ہم بھوک سے بلکتے تھے تو ماں اپنی بھوک بھلا کر ہمیں کھلاتی پلاتی تھی۔ اس لمحے کی اس کی خوشی کی ہم کن لفظوں سے تعبیر کر سکتے ہیں؟۔ جب ہم ‘گندگی’ کرتے تو نہ اس کے پیشانی پر بل پڑتا تھا اور نہ اسے صاف کرنے میں اسے کوئی پریشانی ہوتی تھی۔ ہمیں سْلاتے سلاتے نہ جانے کتنی راتیں اسے جاگ جاگ کر گذارنا پڑتا تھا۔ ہمیں سْکھ پہنچانے کی آرزو میں نہ جانے کتنے دکھ اس نے ہنس ہنس کر جھیلے ہیں۔ اگر ہم کبھی بیمار ہوتے تو بلاؤں کو کوستی ماں کے معصوم دل میں ہمارے لیے کتنی محبت ہوتی ہے ، اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے؟
اور جب ہم کچھ بڑے ہوئے اور چلنے پھرنے کے قابل بنے تو ہم اکثر باہر رہنے کی کوشش کرتے۔ ہم جب تک باہر رہتے ماں کا دل بھی باہر ہی اٹکا رہتا تھا۔ جب ہم سکول جاتے یا کہیں باہر جاتے تو اپنے دل میں ہزاروں اندیشے پالنے والی ماں ہماری واپسی کی راہ میں آنکھ بچھاکربیٹھ جایا کرتی تھیں۔
اپنی بیٹیوں کی شادی ، ان کے کپڑے ، ان کے زیورات اور ان کے مستقبل کے بارے میں ، ماں سالوں تک خیال ہی خیال میں سپنے دیکھتی ہے۔ اور جب بیٹا کسی لڑکی کو بیاہ لاتا ہے تو اپنی بہو کو خوش کرنے کے بہانے تلاش کرنے والی ماں کے اندروں میں کون جانے کہ کیا جذبات ہوتے ہیں۔ مگر بیوی کو پاکر ، اپنے بچوں میں اْلجھ کر اپنی ہی ماں سے روگردانی کرنے والے بیٹے سے بڑھ کر اس روئے زمین پر اور کون بد نصیب ہوسکتا ہے؟
ہمارے ماں باپ وہ جنہوں نے اپنے خدا سے ہماری زندگیاں مانگیں، جن کی آنکھیں ہماری فرقت پر اشکبار ہوئیں ، ہمارے حسین مستقبل کے لیے خواب دیکھتے دیکھتے انہوں نے اپنی ہزاروں خواہشوں کا گلا گھونٹ دیا بچپن میں ہماری ننھی ننھی آرزوؤں کے لیے اور بڑے ہونے کے بعد ہماری بڑی بڑی آشاؤں کی تکمیل کے لیے اپنی سکت سے زیادہ محنت کرنے والے تھے ہمارے ماں باپ ۔کل جنہوں نے ہمارا بوجھ اْٹھایا تھا آج وہی ماں باپ ہمارے لیے بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ کل انہوں نے ہماری زندگی کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگادی تھی اور آج وہ کمزور اور بیمار ہیں تو ہم ان کی موت کی تمنا کر کر رہے ہیں۔ کل ہمارے چہرے پر مسکان سجانے کے لیے وہ چھپ چھپ کر آنسو بہاتے تھے اور آج ان کے ساتھ ہماری بد سلوکی پر روتے روتے ان کے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔ کل وہ ہمارے لیے شجر سایہ دار تھے اور آج وہی ماں باپ سوکھے درخت کی مانند سوختہ جاں ہوچکے ہیں۔ کل جن سے گھر بھر میں چہل پہل رہتی تھی آج حالات نے ان کے ہونٹوں پر مہر سکوت لگا دیا ہے۔ زندگی کی شاہراہ سے ہٹاکر بے قیمت و بے وزن گھر کے کسی کونے میں پڑے رہنے پر انہیں مجبور کیا گیا ہے۔
یہ نوجوان ، سارے لوگوں میں اس کے چرچے ہیں۔ ہر ایک سے مسکرا کے ملتا ہے۔ دوستوں کی محفل میں یہ شمع محفل بنا رہتا ہے۔ مگر اسکے پاس اپنے بوڑھے ماں باپ سے کہنے کو کوئی بات ہی نہیں ہوتی ! ان کے ساتھ بتانے کے لیے اسے لمحہ بھر کی بھی فرصت نہیں ہے محض اس لیے اس نے انہیں اپنے گھر میں رکھا ہے کہ ‘‘ورنہ لوگ کیا کہیں گے؟’’
زندگی کے ‘‘چھوٹے بڑے’’ امور میں فیصلہ لینے سے پہلے یہ ہر کس و ناکس سے مشورے کرتا ہے۔ہر ایرے غیرے سے اس موضوع پر گفتگو کرتا ہے۔ سب کی‘‘ شْبھ کامناؤں ’’سے اپنے ارادوں کو عمل کا روپ دیتاہے مگر ماں باپ کو اس کی اِن سرگذشتوں کی کوئی شْد بْد نہیں ملتی۔ اس کے معاملات میں ‘دخل اندازی’ کی انہیں سرے سے کوئی‘ اجازت ’ہی نہیں ہوتی۔اگر وہ خو دبڑھ کر اس کے کسی کام میں کوئی سْجھاؤ دیتے ہیں تو پھر ‘قیامت ’ ہی کھڑی ہوجاتی ہے۔ ان پر ‘بجلیاں ’ ٹوٹ پڑتی ہیں۔ اور کچھ اس طرح وہ انہیں خاموش کر دیتا ہے کہ ‘‘ آپ سے میں نے کوئی مشورہ نہیں پوچھاہے ’’ ‘‘ مجھے سکھانے کی کوئی ضرورت نہیں’’ ‘‘ میں اپنا اچھا بْرا خود سمجھتا ہوں، مجھے آپ کی نصیحتوں کی چنداں ضرورت نہیں ’’۔ وہ دو مجبور مخلوق یہ گستاخانہ باتیں سنتے ہیں اور اشک پی کر رہ جاتے ہیں۔
یہ شخص پردیس میں رہتا ہے۔ گھریلو حالات جب نا گفتہ بہ تھے تو ماں باپ نے بڑی کوششوں کے بعد اسے سمندر پار ملک بھیجا کہ کما کر ان کا سہارا بنے گا۔ صاحبزادے بھی بڑے ‘احسان شناس ’ نکلے! سات سال تک پلٹ کر نہیں دیکھا۔ یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ اس کے ‘ماں باپ’ کس حالت میں ہیں۔ اس کی پردیس یاترا سے ان کے مسائل کیا کم ہوتے کہ یہ اس کے فراق میں اور بوڑھے ہوگئے۔ اب اس کی شادی ہوچکی ہے۔ اب کی بار پردیس پہنچے سال بھی پورا نہیں ہوتا اور اس کا دل اْڑ کر وطن جانا چاہتا ہے!
پردیس میں ہم نے ایسے بھی ‘مردوں’ کو دیکھا ہے جو اپنی بیوی بچوں سے فون میں گھنٹوں کھسر پسر کرتے ہیں مگر اپنے ماں باپ کے دل کے احوال پوچھنے کے لیے ان کے پاس دو منٹ بھی نہیں ہوتے۔ ان کا موبائل اسی وقت ڈسچارج ہوجاتا ہے۔
کتنی امیدوں سے ماں باپ لڑکے کی شادی کراتے ہیں۔ انہیں کیسے پتا ہوتا کہ ان کا ‘لاڈلا’ عنقریب انہیں آنے والی دلہن کی ‘غلامی’ میں دینے والا ہے۔ انہیں کیا خبر ہوتی کہ یہ ‘موہنی صورت ’ کی ‘نازک ’ سی لڑکی ایک دن ان کے گھر کی ‘ڈکٹیٹر’ بن جائے گی اور انکی ‘آنکھ کاتارہ’ اتنی آسانی سے اس کی جادو کا شکار ہوجائے گا کہ اپنے ہی ماں باپ کی زندگی اجیرن بنا دیگا ؟۔ ماں باپ کو بیس سال لگتے ہیں اس کو ‘انسان’ بنانے میں اوریہ ‘عورت ’ بیس روز ہی میں اس کی ‘انسانیت ’ کی دھجیاں بکھیر دیتی ہے۔
برا ہو مغربی طرز معاشرت کا کہ اس نے ہماری پہچان ہی ختم کردی ہے۔ ہمارے پاس ‘خاندان ’ ماں باپ ، بھائی بہن ، اور بیوی بچوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اگر دادا دادی، نانا نانی با حیات ہوں تو یہ بھی اسی خاندان کا حصہ ہوتے۔ اب ‘فیملی’ سے مقصود صرف بیوی اور بچے ہوتے ہیں۔ ماں باپ بھی اس ‘فیملی ’کا پارٹ نہیں بن سکتے۔
ایک شخص نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر عرض کیا:‘‘ اے اللہ کے رسول ! میرے حسن صحبت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ‘‘تیری ماں’’ اس نے عرض کیا :پھر کون؟ آپ نے فرمایا‘‘تیری ماں’’ اس نے عرض کیا : پھر کون؟ آپ نے فرمایا:‘‘تیری ماں’’اس نے عرض کیا:پھر کون؟ آپ نے فرمایا:‘‘ تیرا باپ’’ (بخاری، مسلم)
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:‘‘تیری ماں ،پھر تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیرا باپ،پھر جوشخص زیادہ قریب ہے ، وہ اسی قدر زیادہ مستحق ہے۔’’( مسلم)
اس حدیث کی روشنی میں اس ‘فیملی ’ کا موازنہ کیجئے جو ہمارے سماج میں رواج پارہا ہے اور جس میں ماں باپ کو کوئی حق ہی حاصل نہیں ہے۔ حقوق کی ادائیگی میں ہم
نے اْلٹا حساب شروع کیا ہوا ہے۔ یہاں پہلا نمبر بیوی کا ہوتا ہے پھر بچوں کا اور پھر دوسروں کا حسن صحبت کی بات اور ہے یہاں تو شادی کے بعد بیوی کی باتوں میں آکر ہم نہ ماں باپ کے ساتھ رہنا چاہتے اور نہ انہیں اپنے پاس رکھنا ہی چاہتے ہیں۔
ہم مسلمان ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک ہمارے لیے صرف ایک سماجی ضرورت نہیں ہے بلکہ رب کے حکم کے ساتھ ہی وہ ہمارا مذہبی فریضہ بن چکا ہے۔ ان کی نافرمانی سے ہم رب کی نگاہوں میں گنہگار ہوجاتے ہیں۔ گناہ بھی وہ جسے کبائر میں شمار کیا گیا ہے۔ اس کی خوشنودی ان کی خوشنودی کے ساتھ مشروط ہے۔ ماں باپ کو ناراض کرنے سے وہ بھی ناراض ہوجاتا ہے۔ اور جس سے وہ ناراض ہواس کی خیریت کی کہاں سے ضمانت مل سکتی ہے ؟
ہمارے لیے رب کا حکم ہے کہ ‘‘ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک ،یا دونوں، بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو ، اور دعا کیا کرو کہ ‘‘ پروردگار ، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالاتھا ’’۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے سب لوگوں کے لیے درگذر کرنے والا ہے جو اپنے قصور پرمتنبہ ہوکر بندگی کی رویّے کی طرف پلٹ آئیں’’۔( بنی اسرائیل: ۲۳۔۲۵)
شاید ہم بھول چکے ہیں کہ جنّت اور دوزخ کا راستہ ماں باپ سے ہو کر گذرتا ہے۔ ایک صحابی رسول اللہ کے پاس تشریف لاتے ہیں اور آپ سے کہتے ہیں ‘‘ اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کے سنگ جہاد میں شریک ہونے کی نیت کی ہے۔ آپ مجھے کیا مشورہ دیں گے؟’’ آپ ا نے دریافت کیا ‘‘ کیا تیری ماں( زندہ) ہے ؟’’ انہوں نے کہا ‘‘ جی ہاں ’’ آپ نے فرمایا ‘‘ تو پھر اس کے ساتھ رہو کہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے ’’ (نسائی کی روایت سے)ایک بار پیارے نبی نے صحابہ کی محفل میں فرمایا ‘‘ اس کی ناک خاک میں مل گئی (یعنی وہ بربادہوگیا)! آپ ا نے تین بار ان الفاظ کو دہرایا۔ صحابہ نے عرض کیا ‘‘ وہ (بد نصیب ) کون ہے اے اللہ کے رسول ؟ ’’ آپ نے فرمایا ‘‘ جس نے اپنے ماں باپ ، دونوں یا ان میں سے ایک کو ان کے بڑھاپے میں پا لیا مگر پھر بھی ( ان کی خدمت و خاطر داری نہ کر کے ) جنت سے محروم رہا ۔ (صحیح مسلم کی روایت سے )
( بشکریہ ، ماہنامہ مصباح ، کویت)