مخلوط تعلیم۔ مضمرات، خطرات اور نقصانات

مصنف : پروفیسر ملک محمد حسین

سلسلہ : تعلیم و تعلم

شمارہ : ستمبر 2014

            مخلوط تعلیم کوئی اکیلا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ شعبہ تعلیم میں مغربی استعماری اثرات کی پیداوار بہت سے مسائل میں سے ایک ہے۔تعلیم ایک سماجی عمل ہے اور سماجی اقدار تعلیم کے نظریے اور تعلیمی عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن ہم ذہنا ًاور عملاً سیکولر اقدار ، سیکولر نظریات اور سیکولر افعال پر عمل پیرا ہیں اوراس میں کوئی استثنیٰ نہیں۔دفتر کا مسٹر ہو یا مسجد کا مولوی زبان سے کچھ بھی کہیں عملاً سب سیکولر ہیں۔ یعنی اُن کا دین کا خانہ الگ ہے اور دنیا کا خانہ الگ۔

            حکومت جو اجتماعیت کا مظہر ہوتی ہے وہ دین کی مداخلت پسند نہیں کرتی اور اہل مسجد و مدرسہ جو دین اسلام کی نمائندگی اور اظہار کا دعوٰی کرتے ہیں وہ حکومت کی مداخلت کو برداشت کرنے کو تیا ر نہیں۔یہ جو کچھ کہا گیا، نتیجہ ہے مغربی استعمار کے اَن مٹ اثرات کا جو ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔

            سگمنڈ فرائڈاور دیگر مغربی ماہرین نفسیات انسان کی زندگی کے تقریباً تین چوتھائی اعمال اور فیصلوں کو اس کے لا شعور اور تحت الشعورکا کارنامہ سمجھتے ہیں جب کہ اسلام انسانی زندگی کے تمام کاموں کو شعوری اور ارادی عمل سے وابستہ قرار دیتا ہے۔ اس طرح تصورِ انسان اور تصورِ حیات کا بنیادی فرق تعلیم کے ہر ہر شعبہ میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ پاکستانی فیصلہ سازوں کا اصل مسئلہ ان کی وہ فکری اور ذہنی مرعوبیت ہے جس کی بنا پر وہ لادینی مغربی تصورِ علم اور تصورتعلیم کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ ان کے فکری سانچوں سے نکلنا بھی چاہیں تو باآسانی نہیں نکل سکتے ، لیکن اصل مسئلہ اس سے بھی گھمبیر ہے کہ وہ مغربی فکری سانچوں سے نکلنا ہی نہیں چاہتے کیو نکہ وہ اسے ہی ترقی کی معراج سمجھتے ہیں۔ ایک الجزائر ی مفکر مالک بن نبی نے اس صورتِ حال کو یوں بیان کیا ہے کہ "محکومانہ ذہنیت، محکومیت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے"۔

            بدقسمتی سے ہمارا نظامِ تعلیم سیکولزم(Secularism) مٹریلزم (Materialism)اور ہیڈونزم (Hedonism)کے ارکانِ ثلاثہ پر ایمان با لغیب لانے کا نتیجہ ہے جو مغرب کے نیو کلونیا لزم (Neo-colonialiom)کا ماحصل ہیں۔ ہمارے نام نہاد دانشور اور فیصلہ سازی پر فائز مقتدرہ اوپر بیان کئے گئے ازمز(Isims) کو ہی انسانی فکر اور معاشرہ کی ترقی و ارتقاء کی بنیاد سمجھتے ہیں اور ہر وہ فکر جو ان ازموں سے ٹکراتی ہو اسے قدامت پسندی اور روایت پر ستی قرار دیتے ہیں۔

            کسی ملک یا معاشرے کا نظامِ تعلیم صرف یہ نہیں ہے کہ آپ نے نصاب کیا وضع کیا ہے اور آپ کتابیں کون سی پڑھا رہے ہیں اور مختلف درجات میں طلبہ کے اختتامی امتحانات کیسے لیتے ہیں بلکہ کچھ اور امور بھی نظامِ تعلیم کا بنیادی حصہ ہیں ، یعنی آپ تعلیم کون سی زبان میں دیتے ہیں، آپ تعلیمی اداروں میں کس طرح کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں ترتیب دیتے ہیں، طلبہ و طالبات کی اخلاقی تربیت اور شخصیت کی نشوو نما کے لیے کیا پالیسی وضع کرتے ہیں، تعلیمی ادارے کے ماحول کو کس سانچے میں ڈھا لیتے ہیں نیز آپ لڑکو ں اور لڑکیوں کی صنفی ضروریات پوری کرنے کا کیا اہتمام کرتے ہیں۔ مخلوط تعلیم یعنی (Co-Education)یا (No Co-Education)کا تعلق اوپر بیان کئے گئے تمام امور سے ہے۔ گویا مخلوط تعلیم یا (Co-Education)کوئی علیحدہ اشو(Isolated Issue)نہیں ہے بلکہ نظام تعلیم کا اساسی اِشو ہے جس کا فیصلہ اس ذہنیت کی روشنی میں ہوتا ہے جو ذہنیت فیصلہ سازی کے مقام پر فائزہے۔ بد قسمتی سے فیصلہ سازی کے مقام پر فائز ذہنیت (جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے) محکوم ذہنیت ہے جو کاغذی آزادی کے باوجود فکری آزادی سے محروم اور حمیتِ اسلامی سے تہی دامن ہے۔

پاکستان کا نظامِ تعلیم سیکولر ہے اسلامی نہیں ہے

            کو ایجوکیشن یعنی لڑکو ں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم دینی نقطہ نگا ہ سے مکمل طور پر نا قابلِ قبول ہے اور اس سلسلہ میں بہت زیادہ دلائل دینے کی ضرورت نہیں بس اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کو نا پسند فرمایا ہے نیز چونکہ تعلیم زندگی کے مفوضہ رول مؤثر طور پر ادا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے اور اسلام کی رُو سے مرد و زن کے لائف رولز مختلف ہیں اس لئے ان کی تعلیم بھی مختلف اور علیحدہ ماحول میں ہونی چاہیے۔آپ حیران ہونگے کہ صرف اسلام ہی نہیں عیسائیت بھی شاید مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیتی۔

            اب تو پتہ نہیں کیا صورتِ حال ہو۔ 1983ء میں میں نے ایک سال یونسیکو فیلو شپ کے تحت آسٹریلیا میں گزارا۔ وہاں تعلیمی اداروں کی دو سٹریمز (Streams) تھیں ، سرکاری تعلیمی ادارے اور چرچ کے تعلیمی ادارے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں تو مخلوط تعلیم تھی حتیٰ کہ یونیورسٹی لیول پر ہاسٹل بھی مخلوط تھے جب کہ چرچ کے تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم نہیں تھی اور لطف کی بات یہ ہے کہ چرچ کے تعلیمی ادارے معیارِ تعلیم کے لحاظ سے برتر اور اشرافیہ کے پسندیدہ تر ادارے تھے۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلامی معاشرہ میں مخلوط تعلیم کی کوئی گنجائش نہیں اسی طرح دوسرے آسمانی مذاہب (اگرچہ ان میں بہت تحریفات ہو چکی ہیں) بشمول عیسائیت اور یہودیت مخلوط تعلیم کے نظریاتی اور عملی دونوں پہلوؤں سے مخالف ہیں۔ہم یہاں ایک ایسے عیسائی عالم کا نقطہ نگاہ پیش کرتے ہیں جو تعلیم کے شعبہ میں وسیع نظر رکھتا ہے اور وٹیکن کے نمائندے کے طور پر مخلوط تعلیم کی مخالفت کرتا ہے جان میکلاسکی نامی یہ عیسائی عالم جو کچھ کہتا ہے اس کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے۔

            خاندانی نظام اور مختلف اصناف کے باہمی تعلقات میں کچھ بنیادی گڑ بڑ ہو گئی ہے مثلاً کبھی کوئی یہ تصور کر سکتا تھا کہ تمام یورپی اقوام کی نمائندہ یورپین پارلیمنٹ یہ تجویز دے گی کہ ہم جنسی (Homosexual)تعلقات کو قانونی شادی کے برابر تسلیم کیا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ا ب عورت ، عورت کی طرح کا رویہ نہیں رکھتی ۔مرد ، مرد کی طرح کا رویہ نہیں رکھتا اور خاندان کا شیرازہ پہلے کی طرح نہیں رہا ۔خاندان جو تہذیب تمدن کی اکائی تھی اور جو انسانی شرف کی نمائندگی کرتا تھا اب اُسے ایک متروک اور رجعت پسند تصور بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں ان مسائل کے حوالے سے بنیادی طورپر نظامِ تعلیم پر غور کرنا ہو گا جو انسان سازی کا بنیادی آلہ (Instrument)ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ امریکہ کے پبلک ایجوکیشن سسٹم میں اوائل عمری ہی سے اخلاقی اقدار کی نفی بالکل اظہرمن الشمس ہے۔ کیلی فورنیا ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن کے ایک سروے کے مطابق 1940ء میں شعبہ تعلیم کے بڑے بڑے مسائل یہ تھے۔ باری کا خیال نہ رکھنا،

چیونگ گم چباتے رہنا، شور مچانا، کا ریڈ ور میں دوڑتے پھرنا، قطار توڑنا، یونیفارم کے مطابق مناسب لباس نہ پہننا ،کوڑا کرکٹ پھیلاناوغیرہ۔

            1980ء تک اخلاقی ضابطہ ڈرامائی طورپر بدل چکا تھا جس کا 1940ء میں تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

            1980ء اور اس کے بعد کے رویوں میں انحراف کی صورت یہ تھی

            ڈرگ کا استعمال ، شراب کا بے محابا استعمال ، قبل از شادی حمل، خودکشی، زنابالجبر ، ڈاکہ زنی اور تشدد۔

            1994ء کی انحرافی فہرست میں جو خرابیاں شامل ہوئیں ان میں بالترتیب سکولوں میں بندوق زنی، جنسی ہراس، اور منتقل ہونے والی جنسی بیماریوں میں بے تحاشہ زیادتی۔ یہ مصنف سوال کرتا ہے کہ کس عمل نے معاشرتی تنزل کو ہوا دی ہے؟ مانع حمل ادویات کے استعمال میں زیادتی کس وجہ سے ہوئی ہے؟طلاق کی شرح کیوں بڑھ گئی ہے؟ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں ؟ کثیر الافرادی تعلقات کی وجہ کیا ہے؟ مردوں کی آپس میں اور عورتوں کی آپس میں جنسی تعلقات کی وجہ کیا ہے؟پر تشدد جرائم کیوں بڑھ گئے ہیں؟ فحش لٹریچر کی کثرت کس وجہ سے ہے؟ مصنف ان تمام خرابیوں کی وجہ فطری قوانین سے روگردانی قرار دیتا ہے۔ وہ فطری قوانین جو مرد و زن کے ان کے فطری رول کی وضاحت کرتے ہیں اور جسے ہماری سوسائٹی ترقی اور لبرلزم کے نام پر پس ِ پشت ڈالے ہوئے ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان فطری قوانین کی خلاف ورزی کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہوتاہے جہاں مخلوط تعلیم ہے اور پھر مخلوط تعلیم کے یہ بُرے اثرات پورے معاشرے میں پھیلتے ہیں اور جن کا کوئی علاج نہیں سوائے اس کے کہ جڑ یعنی مخلوط تعلیم کو ختم کیا جائے۔ مذکورہ مصنف مخلوط تعلیم کے حوالے سے لبرلز کے تمام دلائل کو مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ (Teen Age Sex) ، Teen Age Pragnancy، AIDS، خاندان کا انتشاربے تحاشا انفرادی نفسیاتی امراض، معاشرے میں پھیلنے والے بے باپ کے بچے اور اسی طرح کی بے شمار سماجی خرابیوں کی اولین ذمہ دار تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم ہے۔

            وہ کہتا ہے کہ قدرت نے مرد و زن کے درمیان مکمل یک جہتی کی صرف شادی کی صورتِ میں اجاز ت دی ہے یا پھر رشتوں کے لحاظ سے ضرورت کے مطابق قریب ہونے کا راستہ دیا ہے۔ کسی اور لحاظ سے مرد و زن کا اکٹھے ہونا خالق کی مرضی کے خلاف ہے اور اس کی خلاف ورزی نقصان دہ ہے۔ ذرا اندازہ فرمائیں کہ کس طرح ایک عیسائی عالم مرد و زن کے اختلاط کو ناپسند قرار دے رہا ہے اور عالم بھی وہ جو ہمارے لبرلز کے پسندیدہ ملک امریکہ سے تعلق رکھتا ہے۔یہاں ہم ایک مسلم دانشور کا نقطہ نگا ہ ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں"آہن گر محمد سمیع نے مخلوط تعلیم پر ایک فکر انگیز مضمون لکھا جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہیـ"

            مغربی تہذیب کی لعنتوں میں ایک لعنت جس سے معیارِ تعلیم تباہ ہو رہا ہے وہ ہے مخلوط تعلیم۔ اسلامی معاشرے میں مخلوط تعلیم کا تصور ایک معاندانہ تصور ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مخلوط تعلیم کا یہ نظام بیسوی صدی کے آغاز میں سکاٹ لینڈ میں شروع ہوا بعد میں انگلستان کے کئی ایک سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اس سسٹم کو اختیار کرلیا۔ تحریک نسواں کے کارکنوں نے 1950ء سے مخلوط تعلیم کے توسیعی تصور کو آگے بڑھانا شروع کر دیا تا کہ نہ صرف مرد و زن کام کی جگہوں پر ران سے ران ملا کر بیٹھیں بلکہ سکولوں میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کے جبڑے اور گال آپس میں ٹکرائیں۔ فی زمانہ اسلامی دنیا میں بہت سی این جی اوز نے یہ ذمہ داری اُٹھائی ہے جو مغربی فنڈ نگ سے مخلوط تعلیم کو بڑھا وا دینے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف مغرب میں مخلوط تعلیم کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر کئی ایک دانشوروں نے سنگل سیکس ایجوکیشن کے حق میں راہ ہموار کرنا شروع کر دی ہے۔

            لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ہی کلاس روم میں بٹھا کر جو نقصانات اور خطرات پیدا ہوتے ہیں وہ نفسیاتی بھی ہیں اور حیاتیاتی بھی۔ مشہور اسلامی سکالر ابن حزم (وفات456ہجری) اپنی کتاب طوق الحمامہ میں جو کہ محبت کنندگان کی نفسیات کے بارے میں ہے مخلوط مجالس میں پیدا ہونے والے عوارض کے سلسلہ میں بیان کرتا ہے کہ وہ اسلامی زندگی کے لیے اجنبی اور ان ہونے عوارض ہیں نیز مردو زن میں ایسے رویے اور ایسی نفسیاتی کیفیت پیدا کرتے ہیں جو پسندیدہ نہیں ہوتی۔

            جدید اور لبرل سوچ والے لوگوں کو شاید یہ بات سادگی اور سطحی سوچ پر مبنی محسوس ہو لیکن جدید سائنسی تحقیق بھی اس تصور کی معاونت (Support)نہیں کرتی ہے ۔ ایک امریکن مصنف جارج گلڈر اپنی کتاب جس کا نام ہے(Men and Marriage)میں لکھتا ہے کہ مخلوط تعلیم میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں قبل از وقت بلوغت کی سٹیج کو پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر ہیریٹ ہنلن جو کہ ورجینا ٹیکنیکل یونیورسٹی میں خاتون سائنسدان ہیں اس نے 284لڑکوں اور 224لڑکیوں کے اذہان کی سرگرمیوں کا تجزیہ کیا جن کی عمریں 6ماہ سے 16سال تک تھیں۔ اس نے نتیجہ نکالا کہ ذہن کے وہ مراکز جو زبان دانی سے متعلق ہیں وہ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں میں 6سال تک زیادہ ترقی یافتہ تھے اس کے مقابلہ میں (Spatial Ability)یعنی مکانی ذہانت اور یاداشت کے حوالے سے لڑکے لڑکیوں سے 4سال آگے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا زبان ریاضی اور جغرافیہ نیز فزکس کی تعلیم کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح لڑکے اپنی انگلیوں کا ارتباط لڑکیوں کی نسبت 9ماہ بعد سیکھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکوں کی انگلیوں کے اعصاب لڑکیوں کی انگلیوں کے اعصاب کی نسبت بعد میں نشوو نما پاتے ہیں۔ ہاتھ کی انگلیوں کا یہ عشری ارتباط ڈرائنگ اور خوش خطی سیکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مختلف اذہان اور مختلف صلاحیتوں کے حامل لڑکوں اور لڑکیوں کو جب کہ ان کے مستقبل کے لائف رولز بھی مختلف ہیں ایک ہی چھت تلے بٹھا کر ایک طرح کی تدریس کس طرح منصفانہ ہو سکتی ہے اس میں لازماً کسی ایک کیٹیگری کی حق تلفی تو ہو گی۔ یہ بات ان لوگوں کے سوچنے کی ہے جو انفرادی انسانی حقوق اور انصاف سب کے لیے کے علم بردار ہیں۔

یہ کہنے کے بعد کہ اسلام مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیتا ہم سیکولر نقطہ نگاہ سے بھی اس کا جائزہ لے لیتے ہیں یہ جائزہ ہم تین چار پہلوؤں سے لیں گے

پہلا ہے

سائیکلو لاجیکل پہلو(Psychologyical Aspect)

            انسانی نفسیات (Human Psychology)کے شعبہ میں جدید ترین تحقیق ہمیں لڑکوں اور لڑکیوں کے انفرادی اختلافات کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے ۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی فزیکل ڈویلپمنٹ عمر کے مختلف ادوار میں مختلف ہوتی ہے۔ان کی ذہنی نشوو نماکا پیٹرن بھی مختلف ہوتا ہے۔

            لڑکوں اور لڑکیوں کےAttitudes, Social Behavior, Aptitudes, Interestsمختلف ہوتے ہیں۔ ان کے Developmental Tasksمیں اختلاف ہوتا ہے۔

            اگر ہم جدید نفسیات کی تحقیق پر مبنی یہ سب باتیں مان لیں تو لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ہی کلاس روم میں بٹھا کر ایک ہی طرح کی Educational Treatmentدینا کسی ایک صنف سے لازماً نا انصافی ہو گی۔

سوشیولاجیکل پہلو(Sociological Aspect)

            سماجی طور پر لڑکیوں اور لڑکوں نیز مردوں اور خواتین کے رول مختلف ہیں۔سوشل ریلشنز مختلف ہیں سماجی طور طریقے مختلف ہیں سوشلائزیشن کے انداز مختلف ہیں۔تعلیم سماجی تربیت کرتی ہے جب کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی سماجی ضروریات ، سماجی رویے اور سماجی نشوونما کے تقاضے مختلف ہیں تو ایک چھت تلے مخلوط تعلیم سماجی نشوونما کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی ۔

تعلیمی پہلو(Educational Aspect)

            یہاں تعلیم سے مراد نصاب اور تدریس نصاب ہے۔ زندگی کے الگ الگ رولز نبھانے کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ نصاب کی ضرورت ہے۔ یہ توتسلیم کہ نصاب کے کچھ حصے مشترک ہوں گے لیکن ان مشترک حصوں میں بھی عملی اور اطلاقی پہلو میں صنفی ضروریات کے مطابق فرق رکھنا پڑے گا۔ بعض نصابی لوازمات میں عملی اور اطلاقی پہلو ایسے ہوں گے جن کا بیان لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط کلاس میں ممکن نہیں ہو گا۔

            دوسرا پہلو جو تدریس نصاب یعنی (Delivery of Curriculum)سے ہے اس میں بھی بعض اوقات صنفی فرق ملحوظ ِ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ بیالوجی ، فزیالوجی اور سائیکالوجی پڑھاتے ہوئے کئی مقامات ِ آہ و فغاں ایسے آتے ہیں جہاں استاد کے لیے مخلوط کلاس روم میں کھل کر بات کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اگر ایسا کرے تو کم از کم پاکستان کی حد تک کلاس روم کا ماحول پُر تقدس نہیں رہتا۔ اسی طرح اگر کوئی ادارہ اخلاقی اور شرعی تعلیم و تربیت کا دعوٰی کرتا ہے تو لڑکوں اور لڑکیوں کے اکٹھے بٹھانے میں بامقصد بات نہیں کی جاسکتی۔

            ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں تو لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھے رکھ کر ایسی سرگرمیاں سر انجام دینا کھلم کھلا بے حیائی کو دعوت دینے کے مترادف ہے جو بد قسمتی سے ہمارے بہت سارے سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ہو رہا ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔ میں یہاں مثالیں دینا شروع کروں گا تو شاید اس مخلوط ماحول میں جو پردہ داری کے ساتھ مخلوط ہے ممکن نہیں ہو گا۔

مخلوط تعلیم کے چند ایک فوائد جو اس کے حامی گنواتے ہیں وہ صرف یہ ہیں

1۔ مخلوط تعلیم کا ماحول لڑکوں اور لڑکیوں میں باہمی اعتماد کا ایک جذبہ پیدا کرنے میں معاون بنتا ہے۔

2۔ مخلوط تعلیم کے ادارے طلبہ و طالبات کو حقیقی دنیا کے تجربات اور احوال سے روشناس کراتے ہیں۔

3۔ مخلوط تعلیم صنفی مساوات کے تصور کو پورا کرنے کا باعث بنتی ہے۔

4۔ مخلوط تعلیم،تعلیمی مصارف کے لحاظ سے معاشی طور پر زیادہ سود مند ہے۔

اوپر بیان کئے گئے فوائد صرف سیکولر ذہن کو شاید اپیل کریں لیکن قدرت کے قوانین پر نظر رکھنے والا شخص ان فوائد کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے اور اگر یہ فوائد ہوں بھی تو جو خطرات اور نقصانات سامنے آتے ہیں ان کے مقابلے میں ان کی حقیقت باقی نہیں رہتی ۔

نقصانات

1۔ مخلوط تعلیم کا ماحول طلبہ و طالبات میں مطالعاتی انتشار (Study distraction)کا باعث بنتا ہے۔

2۔ مخلوط تعلیم میں جنسی مسائل جنم لے سکتے ہیں جن کا ہم شروع کی سطور میں بیان کر چکے ہیں۔

3۔ ہماری نظر میں مخلوط تعلیم معاشرے پر بھی اور فرد پر بھی بُرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔

4۔ طالبات کی تعلیمی حق تلفی۔ لڑکیاں فطرتاً شرمیلی طبیعت کی ہوتی ہے اس لیے مخلوط تعلیم میں ان کیClass Participationمتاثر ہوتی ہے۔

5۔ مخلوط تعلیم میں طلبہ و طالبات ذہنی انتشار کا شکار رہتے ہیں جس سے ان کے تعلیمی معیارِ پر بُرا اثر پڑتا ہے۔

6۔ خاندانی نظام متاثر ہوتا ہے۔ والدین کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔

7۔ موجودہ ماحول میں جنسی بے راہ روی بے لگام ہو جاتی ہے۔

8۔ جنسی بلوغت کا دورانیہ جلدی شروع ہو جاتا ہے جس سے کئی ایک معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

9۔ معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ طلاق کی شرح بڑھ جاتی ہے ٹوٹے گھرانوں کے بچے بد ترین مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔

10۔ اکیلی ماؤں کا کلچر پیدا ہوتا ہے۔

11۔ تعلیم کے بہت سے پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں۔

            زبان و ادب ،شعرو شاعری،آرٹ اور کلچر، صحت اور فزیالوجی فقہ کے مسائل پر کھل کر گفتگو نہیں ہو سکتی۔ اور سب سے بڑ ھ کر حجابِ نظر ختم ہو جاتا ہے بقول ماہر القادری آنکھوں کی تشنگی کا تجھے تجربہ نہیں۔۔تم دیکھتے رہو گے تو بڑھتی رہے گی پیاس

ہماری حکومتوں کا رویہ اور مخلوط تعلیم

 ہمار ا قانون ڈگری کلاسز تک مخلوط تعلیم کی ممانعت کرتا ہے اور قانون کے مطابق صرف یونیورسٹی سطح پر مخلوط تعلیم کی اجازت ہے

            آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ اگر کسی نے کوئی پرائیویٹ ادارہ کھولنا ہے تو محکمہ تعلیم سے رجسٹریشن نیز بورڈ اور یونیورسٹی سے الحاق کے لیے ادارے کی انتظامیہ کو 100روپے کے اسٹامپ پیپر پر یہ حلف نامہ دینا پڑتا ہے کہ ادارے میں مخلوط تعلیم ہے اور نہ اس کی جازت دی جائے گی، اگر یہ حلف نامہ نہ دیا جائے تو تعلیمی ادارہ نہ تو رجسٹر ہو سکتا ہے اور نہ ہی بورڈ یا یونیورسٹی سے الحاق ہو سکتا ہے۔ یہ تو ہے قانونی صورتِ حال لیکن اس قانون سے انحراف خود حکومت بھی کرتی ہے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی حتیٰ کہ وہ جو مخلوط تعلیم کے خلاف قراردادیں پاس کرتے ہیں اور اس کے خلاف تحریکیں چلاتے ہیں وہ بھی دھڑلے سے اس قانون سے انحراف کرتے ہیں۔

            حکومت پنجاب نے یہ ظلم کیا ہے کہ اپنے سکولوں میں پرائمری سطح تک مخلوط تعلیم کو رواج دیا ہے نہ صرف لڑکے لڑکیاں اکٹھے بیٹھتے ہیں بلکہ مرد اورخواتین اساتذہ بھی اکٹھے ہیں۔ اس سے جو جنسی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ نا قابل بیان ہیں۔ راقم الحروف کچھ عرصہ پہلے لاہور میں کچھ سرکاری سکولوں کی نگرانی اور سہولتوں کی بہم رسانی کا کام کر رہا تھا۔جب بھی ہیڈ مسٹریس یا ہیڈ ماسٹر صاحبان سے پوچھا کہ آپ کا سب سے تکلیف دہ مسئلہ کیا ہے تو ان کا بیان ہوتا کہ پرائمری سطح پر مخلوط تعلیم۔ تفصیل پوچھی جاتی تو بتاتے کہ چوتھی پانچویں جماعت میں لڑکوں اور لڑکیوں کو بے حیائی سے روکنا مشکل ہوتا ہے اور ان کی وجہ سے نچلی کلاسوں کے بچے بھی خراب ہو رہے ہیں۔ ٹی وی پروگرام۔ ڈراموں ، اشتہاری مواد اور کارٹون نیٹ ورک کے پروگراموں کو دیکھنے والے پانچ سال کے بچے بھی اب جنسی شعور کے حامل ہوتے جا رہے ہیں اور جب وہ مخلوط کلاسز میں بیٹھتے ہیں تو وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں۔

            ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے سربراہ نے (جس کی اپنی یونیورسٹی میں اب Perfect Couplingنظر آتی ہے)ایک دفعہ بتایا کہ لاہو رکی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کی ایم بی ا ے کی کلاس میں 16لڑکے اور 16لڑکیاں تھیں۔ گریجوایشن سے پہلے ان سب نے آپس میں شادیاں کر لیں۔ شادی تو ظاہر ہے ایک پسندیدہ عمل ہے لیکن موصوف کا کہنا تھا کہ شادی سے پہلے جو کچھ ہوا ہو گا وہ اس معاشرے میں ناقابل تصور ہے۔یہ ہیں مخلوط تعلیم کے نتائج جن کا ہمارے معاشرے کا سامنا ہے۔

مخلوط تعلیم اور والدین کا رویہ

ایک زمانہ تھا کہ بعض والدین اپنی لڑکیوں کو یونیورسٹی میں داخل نہیں کروا سکتے تھے کہ وہاں مخلوط تعلیم کا گند ہو گا۔ خواتین یونیورسٹی کے حق میں سب سے زیادہ مضبوط دلیل یہی ہوتی تھی کہ ایسے والدین کی لڑکیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق ملنا چاہے جو مخلوط تعلیم پسند نہیں کرتے لیکن اب خواتین یونیورسٹیوں کی اچھی تعداد ہونے کے باوجود والدین کی وہ مزاحمت باقی نہیں رہی۔ حیرت اس بات کی ہے کہ دینداری کا پرچم بلند کئے اکثر والدین اب بزعم خود ماڈرن کو الٹی ایجوکیشن کے نام پر کو ایجویشن کو سرے سے بُرا نہیں سمجھتے اور سنگل سیکس ایجوکیشن کے مواقع ہونے کے باوجود کو ایجوکیشن کی طرف لپکتے ہیں۔

پس چہ باید کرد

            ہمارا معاشرہ مخلوط تعلیم کی دلدل میں مکمل طور پر دھنس چکا ہے جبکہ مغرب میں اس کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ شاید ہم بھی خاندانی نظام اور سماجی تانا بانا مکمل تباہ کرنے کے بعد ہی لوٹیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ مثبت اسلامی سوچ رکھنے والا طبقہ پورے زور سے اس کے خلاف تحریک چلائے ۔حکومت کو بھی اس انحراف سے روکا جائے اور والدین کو بھی مخلوط تعلیم کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا جائے۔