آزاد قوموں كے نظام تعليم كے اجزاء

مصنف : ادریس آزاد

سلسلہ : تعلیم و تعلم

شمارہ : اگست 2025

تعليم و تعلم

آزاد قوموں كے نظام تعليم كے اجزاء

ادريس آزاد

وہ تمام ممالک جوبرٹش ایمپائرکی کالونی رہے ہیں، اورجن میں ابھی تک انگریز استعمارکا جاری کردہ نظامِ تعلیم رائج ہے،تب تک اپنی اپنی مفلوک الحالی سے باہر نہیں آسکتے جب تک وہ اپنانظامِ تعلیم کلیتاً نئے سرے سے مرتب نہ کرلیں۔ ایک کالونسٹ کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنےزیرتسلط عوام کوایسانظامِ تعلیم مہیاکرے جس میں لوگوں کے لیے امن و آشتی سے رہنے کا درس ہو۔جس میں فرمانبرداری کے انعامات کو نمایاں کرکے دکھایاجائے۔جس میں یہ انتظام ہو کہ اہلِ صنعت و حرفت کے ساتھ ساتھ اہلِ خدمت بھی کثرت سے، بطورپیدوار، میسر آسکیں۔جس میں دنیاوی زندگی کی سہولیات اور آرام و آسائش کو سنہرا کرکے دکھایاجائے تاکہ افراد اپنے مال و متاع کے لیے فرمانبرداری سمیت ہرذریعہ اختیارکرنےکی طرف مائل ہوتے چلے جائیں۔

اس قسم کے نظامِ تعلیم میں جن چیزوں کو شامل کرنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی، ان میں آزادانہ تحقیق (free inquiry) پہلے نمبرپر آتی ہے اور یوں نتیجتاً نوآبادیاتی نظامِ تعلیم کی مجبوریوں میں سب سے بڑی مجبوری پہلے سے موجود حقائق کی تدریس تک محدود ہوجانا ہوتاہے۔اورپہلے سے موجود حقائق کے انتخاب میں بھی آزادانہ تحقیق کی ممانعت ہوتی ہے۔دوسرا نمبر تنقیدی سوچ(critical thinking) کی تعلیم کا ہے۔ اور یہ سمجھنے کے لیے کسی گہری بصیرت کی ضرورت نہیں کہ کوئی کالونسٹ کریٹکل تھنکنگ کی تعلیم اپنے لوگوں کے لیے کیوں نہیں چاہ سکتا؟

تیسرا عنصرجو ایک کالونسٹ کو کبھی گوارا نہیں ہوسکتا وہ ہے ، وہاں کی روحانی تعلیم کا دیسی (indigenous) طریقہ۔یہ کسی ایک مذہب یا قوم کی بات نہیں، عمومی اصول ہے کہ ہرخطے کی مخصوص ثقافتی اقدار ہوتی ہیں، جن کی جڑیں افراد کے مابین روحانی (اورجذباتی)رشتوں میں پیوست ہوتی ہیں۔اگراستاد اورشاگرد کا روحانی تعلق توڑدیاجائے توفرد کے انفرادی ، بایں ہمہ ذاتی اخلاق پر لگے رہنے والے سرویلنسز(surveillances)    اُٹھ جاتے ہیں۔دراصل یہ روحانی رشتے تعلیم کو انتقالِ معلومات سے بڑھاکرکچھ اور بنادیتے ہیں ، اور یہ ’’کچھ اور‘‘ فردفردکے ذاتی آئینے کی صورت فردفرد کی عمربھر رہنمائی کرتارہتاہے۔

ان ریاستوں کو جو کبھی انگریز کی نوآبادیاں تھیں، اب پوری آنکھیں کھول کر اپنے آس پاس بڑھتی اورپھلتی پھولتی دنیا کو دیکھناچاہیے۔انہیں جاگنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ انگریز چلاگیاہے، اور اب وہ اپنا آزاد نظامِ تعلیم واپس بناسکتے ہیں۔اگریہ لوگ جاگ گئے تو کچھ بعید نہیں کہ ان کی مفلوک الحالی جلد خوش الحالی میں بدل جائے۔

بہرحال جب بھی نظامِ تعلیم نئے سرے سے مرتب ہو تو اس میں آزادانہ تحقیق اور تنقیدی سوچ کے عناصر تو ممکن ہےشامل کرلیے جائیں لیکن شاید قدیم طرزِ تدریس یعنی استاد شاگرد کے روحانی رشتوں والی تدریس کو آسانی سے واپس لانا ممکن نہ ہوگا۔یوں بھی جدیدٹیکنالوجی تعلیم و تدریس پر جس طرح اثراندازہوئی ہے، پرانی طرز کا استاد اورپرانی طرز کا شاگرد تو شاید واپس نہ آسکےلیکن روحانی تدریس کو پھر بھی نصاب کا حصہ بنائے جانے کے دیگرممکنہ طریقوں پر غورکیاجاسکتاہے۔

ایک طالب علم کے لیے اصل چیز مشاہدہ ہے۔ اگروہ اپنی تعلیم کے اختتام پر صرف یہی سیکھ جائے کہ مشاہدہ کیسے کیا جاتاہے تو یہی کافی ہے۔نئے نظامِ تعلیم میں روحانیت کو مذہبی انداز میں شامل کیا ہی نہ جائے۔ اسے خالصتاً سائنسی انداز میں شامل کیا جائے۔ مثلاً بچوں کوان کے ماحول کا مشاہدہ سکھانے سے آغازکیاجائے۔چھوٹی چھوٹی چیزوں مثلاً دیواروں اور دروازوں کی تعداد کے مشاہدے سے لے کردرسی کتاب میں لکھے اسباق کی سطر سطر کے مشاہدے تک ، سکول کی لیبارٹری میں سائنسی تجربات کے مشاہدے سے لے کر معاشرتی زندگی میں لوگوں کے رویوں، اخلاق، حتیٰ کہ اپنے نفس، جذبات، شعوری کیفیات، غم، غصے، خوشی، خیالات، تخلیقی آئیڈیاز کے مشاہدے تک۔ صرف مشاہدہ۔ ججمنٹ نہیں۔ کیونکہ صرف مشاہدہ ہی تمام تر تخلیقیت کی بنیاد ہے۔

لیکن مشاہدہ اتنا ضروری کیوں ہے؟

قرانِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں سب سے پہلا مقصد’’ مشاہدہ‘‘ ہی بتایا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ۔ہمارے آج کے سکول کا سب سے بڑا المیہ ’’ڈی ٹیچمنٹ‘‘ کا المیہ ہے۔بچہ کائنات سے ڈی ٹیچ ہوچکا ہے۔ اس میں اَپیتھی(Apathy) ترقی پاگئی ہے۔ اس کے لیے ہرمسئلے کا حل ’’آئی ڈونٹ کیئر‘‘ میں ہے۔اساتذہ کے لیے اسے واپس لانا ناممکن ہوتا جارہاہے۔اوریہ سب روحانی تدریس کے مکمل خاتمے کے بعد ہوا۔اب بچہ جانتاہے کہ اس کا ٹیچر بنیادی طورپر اس کمپنی کا ایک سیلز مین ہے، اور وہ اس کمپنی کی پروڈکٹ یا سروسز کاخریدار ہے۔اگراسی پرائیویٹ سکول سسٹم میں رہنا ہے تو بچے کو واپس لانے کے لیے سلیبس میں ’’مشاہدے‘‘ کا اضافہ کرنا چاہیے۔اگربچے کو اپنے اندر باہر جھانکنے کی ترتیب کسی بھی طریقے پر مل گئی تو استادکو سیلز مین سمجھنے کے باوجود بھی وہ تخلیقیت کا مظاہرہ شاید کرسکے گا۔

مشاہدہ دراصل آپ کو ہوش میں رکھنے کی تربیت کا نام ہے۔ہوش میں آؤ، توجہ کرو! یہاں دیکھو! یہ نقطہ دیکھو! اِس نکتے پر غورکرو! ۔ ہم اگر غورکریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ نوآبادیاتی نظامِ تعلیم اور آزاد نظامِ تعلیم کا فرق دراصل بے ہوش کرنے والی تعلیم اور ہوش میں لانے والی تعلیم کا فرق ہے۔مشاہدہ آپ کو بیدار کردیتاہے۔ مشاہدہ کی بدولت آپ اپنے گردوپیش سے آگاہ ہوتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتاہے کہ آپ کے آس پاس کہاں کہاں گندگی پڑی ہے۔ آپ ہوش میں آتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتاہے کہ آپ اس سے قبل سوتے میں چل رہے تھے۔یعنی کبھی ماضی کےغم و غصے میں اور کبھی مستقبل کے سہانے سپنوں میں۔ آپ بے خبر تھے تو اپنے حال سے۔

ہوش یہ ہے کہ کھلی آنکھوں،

کھلے کانوں کے ساتھ

آدمی لمحۂ موجود میں موجود رہے

وہ بھلا ہوش کہاں ہے کہ نظردیکھ نہ پائے

ذہن حاضر نہ ہو اورکان صداسن ہی نہ پائیں

کھڑکی ماضی کی جواندرکی طرف کھلتی ہے

دِیدِ فردا کا دریچہ بھی وہیں پاس میں ہے

دونوں میدان ہیں اندھوں کے

اندھیراہےوہاں

ہوش تو نام ہے آنکھوں کے کھلے ہونے کا

فکردامن میں نہ ہو اس کی جو ماضی میں ہوا

خوف اس کا نہ ہوجو کل کہیں ہوسکتاہے

صرف اک لمحہ ٔ موجودکااحساس ہواورہوش کے ساتھ

آنکھ سے دیکھے، نظرروکے،نگاہیں نہ ہٹائے

سامنے جو بھی ہےبس اس کو سراہے گاہے

پھول کو، شاخ کو، دیوارکو،دروازے کو

صورت وصوت کو ، رنگوں میں گھُلے غازے کو

گاہے تحسین کرے، گاہے فقط جوش کے ساتھ

اپنے جذبات کا، ہیجان کا اظہارکرے

ہوش میں وہ نہیں جو لمحۂ موجود میں موجود نہیں

ہوش میں وہ بھی نہیں ہے کہ

وہ جو لمحۂ موجود میں موجود تو ہے

پراُسےاپنی حضوریت ِاحساس کا احساس نہیں

جس کو معلوم نہیں ہے کہ وہ محسوس بھی کرسکتاہے

دیکھ سکتا ہے، وہ سن سکتاہے،چھُوسکتاہے