نمی دانَم چہ منزل بْود، شب جائے کہ من بْودَم
بہ ہر سْو رقصِ بسمل بْود، شب جائے کہ من بودم
نہیں معلوم وہ کون سی منزل تھی جہاں گذشتہ رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل تھا ،جہاں گذشتہ رات میں تھا
رقیب آواز پر کان لگائے ہوئے تھے،جب کہ وہ محبوب ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا؟ کیا کہوں؟ کس قدر مشکل تھا گذشتہ رات جہاں میں تھا
منظوم ترجمہ جناب مسعود قریشی ،کتاب خسرو شیریں
نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا
پری پیکر صنم تھا سرو قد، رخسار لالہ گْوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل، شب جہاں میں تھا
عدو تھے گوش بر آواز، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل، شب جہاں میں تھا
خدا تھا میرِ مجلس لا مکاں کی بزم میں خسرو
محمد ؟ تھے وہاں پر شمعِ محفل، شب جہاں میں تھا