سوال : چودھری صاحب ! آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟
جواب : میں ۶؍ دسمبر ۱۹۵۱ء میں پھلت کے پڑوسی گاؤں کے ایک جاٹ گھرانے میں پیدا ہوا ۔میرے والد ایک زمین دار تھے، انگریزی زمانے کے انٹر میڈیٹ بھی تھے۔وہ ایک پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ ۱۰۱؍ سال کی عمر ہوئی، جس اسکول میں بھارت کے پردھان منتری لال بہادر شاستری ہمارے علاقہ میں پڑھاتے تھے میرے پتا جی،اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔اسی اسکول میں میں نے پرائمری اورپھر جونیر ہائی اسکول(آٹھویں کلاس)پاس کیا،اس کے بعد ایس ایس کالج کھتولی میں ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کیا۔خاندانی ماحول اس طرح کا رہا کہ ورزش اور باڈی بلڈنگ کا شوق رہا، انٹر تک دنگلوں میں کشتی بھی لڑتا رہا،بہت سی کشتیاں جیتیں۔ یوپی بہار کے دنگلوں میں نام کمایا۔بچپن سے نڈر اور بہادری کا مزاج بنا تھا۔ والدصاحب غریبوں اور کمزوروں کا حد درجہ خیال رکھتے تھے۔ کتنے غریب بچوں کی فیس وغیرہ خود ادا کرتے تھے، کسی مشکل میں پھنسے لوگوں کا ساتھ دیتے۔ہم سبھی بھائیوں کو یہ بات وراثت میں ملی،اس جذبہ کی وجہ سے بعض مظلوموں کی مدد میں بعض قاتلوں اور بدمعاشوں سے دشمنی ہوگئی اور مقابلے کے لئے طاقت کی ضرورت میں غلط لوگوں کو ساتھ جوڑنا پڑا اور پھراس غلط سنگت (صحبت)نے اپنی طرف کھینچ لیا ،پھر اسی لائن کا ہو رہا۔ اس کے لئے پورے ضلع میں مشہور ہوگیا اور نہ جانے کتنے لوگوں میں نام کا خوف سا بیٹھ گیا۔ اکثر پولس والے تک ڈرنے لگے۔احمد بھائی یہ حالت تھی کہ کھتولی میں تھانے کے سامنے سے گزرتا تو پولس والے یا کوتوال بھی دروازے پر کھڑا ہوتا تو اندر چلاجاتا کہ کوئی پنگانہ بنادے۔مجھے بھی کچھ زعم سا ہوگیا تھا،لوگ ایسے میں میرے نام سے لالاؤں،سے تاجروں سے پیسے وصول کرنے لگے،لوگ نام سن کر دے دیتے۔ میرے اللہ کا مجھ پر کرم رہا کہ اس غلط راہ پر بھی ہمیشہ مظلوموں اور بے سہارا لوگوں کے ساتھ جینا میرا مزاج رہا،اس کی وجہ سے پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کیا،جو بہت اچھا چلا۔کئی شہروں میں اپنے نام سے کالونیاں بنائیں جو بہت جلد آباد ہو گئیں۔غریبوں اور مظلوموں کی مدد اس دنیا میں میرے کام آئی،میرا کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا اور ۲۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو اللہ نے مجھے ہدایت نصیب فرمائی۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟
جواب : کسی مظلوم کی مدد کرنا میرے کام آیا اور میرے اللہ کو مجھ بدمعاشوں کے سردار پر ترس آگیا۔اصل میں مجھے غصہ بہت آتا تھا اورکبھی کبھی غصہ اس قدر بڑھ جاتا تھا کہ میرے بدن میں آگ سی لگنے لگتی۔ایک بار ڈاکٹر کو چیک کرایا،تو بلڈ پریشر بہت بڑھا ہوا تھا،مسلسل مرض بڑھتا رہا،پورے بدن میں درد رہنے لگا، اس کے لئے انجکشن لگوانے پڑے۔انجکشن لگواتے لگواتے عادت ہوگئی اور مجھے ایڈیکشن ہوگیا۔ایک روز میں چار فورٹ ون کے انجکشن دودو ملواکر صبح و شام لگوانے پڑتے۔ایک روز دن چھپنے کے بعد میں ایک ڈاکٹر کی کلینک پر انجکشن لگوانے کے لئے گیا۔کلینک ٹیلی فون اکس چینج کے پاس تھی،آپ کے والد مولانا کلیم صاحب کو جب کبھی فون کرنا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کے فون سے کال بک کراکے فون کرتے تھے، ڈائرکٹ فون ڈائل کرنے کا نظام کھتولی میں نہیں تھا اور پھلت میں تو فون کی سہولت بھی نہیں تھی۔وہ ڈاکٹر صاحب کی کلینک پر بیٹھتے تھے،میں نے ڈاکٹر صاحب کو انجکشن دئیے۔انھوں نے دونوں ملاکر میرے ہاتھ کی نس میں لگا دئیے مولانا صاحب کو فورٹ ون انجکشن کی خاصیت معلوم تھی کہ عام آدمی کے ایک انجکشن لگا دیا جائے تو دس گھنٹے بے ہوش ہوجائے میں دو انجکشن لگواکر باتیں کررہا تھا،مولانا صاحب حیرت میں پڑ گئے اور مجھے دیکھ کر حد درجہ پریشان بھی ہوئے۔گویا انجکشن میرے نہیں ان کے ہی لگے ہوں،مجھ سے بولے چودھری صاحب آپ اپنی زندگی پر ظلم کر رہے ہیں، آپ یہ انجکشن کیوں لگواتے ہیں؟ میں نے کہا میرے پورے بدن میں درد ہوتا ہے اور بے حد غصہ آتا ہے اس کے لئے مجھے صبح و شام دو دو انجکشن لگوانے پڑتے ہیں۔ مولانا صاحب بے تاب ہو گئے، روزانہ چار فورٹ ون، پھر تو آپ دن میں دوبارخود کشی کرتے ہیں ،آپ نے دوسری طرح علاج نہیں کرایا آپ یہ انجکشن چھوڑدیجئے۔مولانا صاحب نے کہا کہ آپ کو غصہ کیوں آتا ہے؟ میں نے کہا کہ جب طاقت ور اپنے مال اور طاقت کے نشہ میں کسی کمزور مظلوم کو ستاتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ یا تو اس کی جا ن لے لوں یا اپنی جا ن دے دوں اسی میں سینکڑوں مقدمے مجھ پر چل رہے ہیں۔میں نے کہا کئی بار مہینے مہینے تک ایڈکشن ختم کرنے کے لئے اسپتالوں میں رہا، کتنے حکیموں کو دکھایا،لاکھوں لاکھ ،بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ دس لاکھ روپئے میں علاج پر خرچ کرچکاہوں تو یہ جھوٹ نہ ہوگا۔ مولانا صاحب نے مجھ سے پوچھا،آپ کہاں رہتے ہیں؟ میں نے کہا،مولانا صاحب آپ شاید پھلت کے ہیں،انھوں نے کہا ہاں،آپ نے کیسے پہچانا، میں نے کہا کہ پھلت کے راستہ میں میں نے کچھ زمین خریدی تھی وہیں آپ کو آتے جاتے دیکھا تھا۔ میں آپ کا پڑوسی ہوں شاید آپ نے میرا نام سنا ہو،مولانا صاحب نے نام سن کر کہا اچھا آپ ہیں جن کا اخباروں میں نام بھی آتا تھا، میں نے کہا کہ وہ اوت نالائق میں ہی ہوں۔مولانا صاحب نے کہا :آپ نے بہت علاج کرالیا اب آپ ایک مہینہ ہمیں دیجئے،آپ وہاں گھر آئیے، آرام سے رہئے کھانا پینا اور علاج سب میرے ذمہ ہوگا، آپ کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوگا۔ بس آپ میرے ساتھ رہیں گے،مالک کے کرم سے امید ہے کہ آپ ایک مہینہ میں ان انجکشنوں سے چھٹکارہ پا جائیں گے۔ مولانا صاحب نے زور دیا کہ مجھ سے وعدہ کیجئے ،آپ کب پھلت آئیں گے؟ میں نے کہا مولانا صاحب آپ کی محبت کا بہت آبھاری ہوں،میں بھی اپنی حالت سے بہت پریشان ہوں،ذرا کچھ مقدمے کی تاریخوں سے چھٹی مل جائے،تو میں آپ کی بات ضرورمانوں گا۔مولانا صاحب سے اجازت لے کر میں گھر آیا ساری رات مولانا صاحب کی ہمدردی اور محبت کی وجہ سے مولانا کابے تاب چہرہ میری آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا، ایک دوبار آنکھ بھی لگی تو خواب میں دیکھامولانا صاحب سامنے رو رہے ہیں۔ چودھری صاحب آپ اپنے جیون پر ترس کھائیے ،آنکھ کھل جاتی میں سوچتا بھگوان آپ کا کیسا سنسار ہے،کچھ لوگ دوسروں کی گردن کاٹ کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کے درد میں ایسے بے تاب ہوجاتے ہیں۔بے چینی میں رات گزری،صبح سویرے بستر چھوڑ دیا،ورزش وغیرہ کی، کوٹھی پر لان میں پھلواری کو پانی دینے کے لئے پائپ اٹھایاپانی دے رہا تھا کہ دروازے پر گھنٹی بجی،حافظ ادریس صاحب سامنے تھے، میں نے دروازہ کھولا،آئیے مولانا صاحب آئیے،حافظ صاحب نے بتایا کہ میں پھلت سے آیا ہوں،ایک خط، ایک چھوٹی سی ہندی کتاب ان کے ہاتھ میں تھی۔ میں نے کہا پھلت وہ دیوتاؤں کاپھلت وہاں کی ایک مہان آتما سے میری ڈاکٹر کے یہاں کھتولی میں ملاقات ہوئی تھی۔ ساری رات ان کے پریم نے مجھے بے چین رکھا،حافظ صاحب نے بتایا میں انہی کے پاس سے ایک پریم پتر(محبت نامہ)لے کر آپ کے پاس آ یا ہوں، آپ کی محبت میں وہ بھی ساری رات نہیں سوئے۔وہ خط حافظ صاحب نے مجھے دیا۔میرا بھتیجا بھی میرے ساتھ دوسرے پائپ سے پانی ڈلوارہاتھا میں نے اس کو بلایا،آ بیٹے دیکھ ایک دیوتا کا پریم پتر آیا ہے، میں نے خط لے کر ماتھے سے محبت اور ادب میں لگا یا، اس کو نکال کر پڑھا(خط نکالتے ہوئے)یہ خط ہے مولانا احمد، اس کو اس وقت سے میں اپنے پرس میں رکھتا ہوں لیمنیشن کرالیا ہے، خط یہ تھا:
‘‘ میرے بہت بہت پیارے بھائی،چودھری جی! اس پر سلام ہوجو سچی راہ چلے، آپ سے ڈاکٹر صاحب کی کلینک پر ملاقات کرکے میں چلا تو آیامگر میرا ننھا سا دل آپ میں اٹک کر رہ گیا،رات کو آپ کی حالت آنکھوں کے سامنے رہی، آپ کے لگنے والے انجکشنوں کے نتیجہ میں کسی بھی وقت منڈلاتی موت اپنی موت کی طرح مجھے بے چین کرتی رہی یہ جیون تو اپنے وقت پرختم ہوناہے،مجھے قرآن نے خبر دی ہے کہ موت نہ ایک لمحہ پہلے آسکتی ہے اور نہ ایک پل ٹل سکتی ہے، مگر اس جیون کے بعد ایک ہمیشہ کا جیون جس میں یا تو سورگ کا سکھ ہی سکھ ہے ،یا نرک کا دکھ ہی دکھ، نرک کا ایک دکھ اور ایک پل کی سزا پورے جیون کے آگ میں جلنے سے زیادہ ہے، کانوں سے سنی خبرآنکھوں سے دیکھی بات جھوٹی ہوسکتی ہے،مگر میرے بہت پیارے بھائی ایشور کے سچے سندیشٹاحضرت محمد دﷺ اور اس کے لائے ہوئے پوتر(مقدس ) قرآن کی بات میں ذرا شک نہیں کہ اگر آپ ایمان کے بغیر مر گئے اور مسلمان نہ ہوئے توہمیشہ کی نرک کی سزا بھگتنی پڑے گی، اس لئے میرے بھائی اپنے پیار کرنے والے بھائی پر ترس کھا کر اپنے جیون پر ترس کھاؤ اور ایمان قبول کرکے مسلمان بن جاؤ،سچے دل سے کہو: اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہ’ وَرَسُوْلُہ’
ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور انتم سچے سندیشٹا ہیں،میرے بھائی اگر آپ نے پوتر مقدس قرآن جو( انتم سن وِدھان ) آخری خدائی منشور ہے،کا پالن کرنے کا حلف اس کلمہ کو پڑھ کر نہ دیا، تو پھر نرک کی آگ میں جلنا ہوگا میرے پیارے بھائی ذرا سوچو وہاں سے واپسی بھی ممکن نہیں اور پھر افسوس کے سوا کچھ نہیں کر سکو گے۔
میرے بھائی آپ کو کیا معلوم رات میری کس طرح کٹی، رات کو ایک بجے بے چین ہوکرمیں نے بستر چھوڑا، پھر اپنے مالک کے سامنے سررکھ کر آپ کے لئے دعا کرتا رہا ،میرے مالک وہ مظلوموں اور کمزوروں پر ظلم برداشت نہ کرنے والا اور اس غصہ میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والا آپ کی ہدایت اور دیا (رحم) کا کتنا مستحق ہے،مجھے امید ہے کہ وہ مالک اس گندے مگر دکھیارے کی دعا کو ضرور سنے گا، بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اس نے سن لیا ہے،بس آپ مجھے اپنے مسلمان ہونے کی خوش خبری دے دیجئے تاکہ آپ کا یہ پیا رکر نے والا بھائی کچھ چین پا سکے،میں جس انتم سندیشٹا (آخری رسول)کے لائے ہوئے کلمہ کی طرف آپ کو بلا رہا ہوں،اس کے جیون پر آدھارت(سیرت پر مشتمل)ایک پمفلٹ آپ کو بھیج رہا ہوں اللہ کرے میرے دل کی بات آپ تک پہنچے اور وہ اللہ ہمیں اور آپ کو ہدایت پر رکھے اور اسی پر ہماری اور آپ کی موت آئے’’ والسلام آپ کا بہت محبت کرنے والا بھائی محمد کلیم ۱۳؍ دسمبر ۱۹۹۷ء
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : میں نے اس خط کو زور زور سے اپنے بھتیجے کو پڑھ کر سنایا اس خط میں بے لوث محبت سے میرے جسم کا رواں رواں کھڑا ہوتارہا اور اس محبت کے سامنے میں ایک بے بس غلام کی طرح مولانا صاحب کے سامنے اپنے کو گھرا پاتا تھا،میرا دل چاہتا تھا کہ میں فوراً جاکر مولانا صاحب سے گلے ملوں ان کا شکریہ ادا کروں اور ان کی خواہش پوری کروں مگر ایک بہت اہم مقدمے کی تاریخ تھی ،گواہوں سے بات بھی کرنی تھی،وکیل سے بھی ملنا تھا ،اس لئے میں نے حافظ صاحب سے کہا: میں رات کو ،یا پھر کل کو، مولانا صاحب سے ملوں گا ۔ اس روز میں مظفر نگر سے دیر سے آیا، رات کو دیر سے مولانا صاحب کے پاس جانا مناسب نہ سمجھا،رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے صبح دس بجے آنکھ کھلی، گیارہ بجے پھلت پہنچا تو مولانا صاحب سفر پر جا چکے تھے اس کے بعد آٹھ نو بار پھلت گیا،میرے اللہ بھی شاید میری محبت کا امتحان لے رہے تھے، مولانا صاحب سے ملا قات نہ ہو سکی۔ ۲۳؍ دسمبر کو مولانا صاحب کا ایک سفر بلند شہر کا تھا تو انھوں نے کھتولی سے حافظ ادریس کو بھیجا کہ آج شام کو ہم واپس آجائیں گے آپ آکر مل لیں،اس روز بھی میری تین مقدموں کی تاریخیں تھیں میں دیر سے گھر پہنچا اور رات کو دس بجے سردی میں بلٹ موٹر سائیکل پر اپنے بھتیجے کے ساتھ پھلت پہنچا، مولانا صاحب بستر سے نکل کر آئے باہر بیٹھ کر جو اَب خانقاہ کہلانے لگی ہے بلکہ الحمد للہ خانقاہ بن گئی ہے، ملاقات ہوئی،مولانا صاحب نے کہا آپ نے کلمہ پڑھ لیا کہ نہیں،میں نے مولانا صاحب سے اکیلے میں ملنے کی درخواست کی،مولانا صاحب مجھے گھر کے اندر والے کمرے میں لے گئے ،میں نے کہاآپ کے پریم(محبت)نے مجھے غلام بنالیا ہے،آپ بیچیں یا آزاد کریں، پہلے تو میں معافی چاہتا ہوں کہ اتنے دنوں کے بعد ملا،مگر میں گیارہ بار پہلے حاضر ہوا، آپ سے ملاقات نہ ہوسکی۔ میرے مسلمان ہونے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں،ایک تو یہ کہ مجھے سب کے سامنے کلمہ پڑھائیے اور یہاں مسجد میں اذان وغیرہ دینے پر لگا دیجئے،یہ بھی خوشی سے منظور ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میری دو بیویاں ہیں اور ان کے بچے ہیں،میں کلمہ پڑھ لوں،اپنے مقدموں وغیرہ سے نکل آؤں اور گھر کے لوگوں کو تیار کروں اور پھر کچھ دن کے بعد کھل کر اعلان کروں،آپ جو چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میں ضلع شیو سینا کا ذمہ دار بھی تھا ،۱۳؍ دسمبر کو آپ کے خط کے بعد میں نے شام کو ہی استعفا دیدیاکہ اب مولانا کے پیچھے رہ کر جیون گزارنا ہے۔مولانا صاحب نے کہا پہلے کلمہ پڑھ کر میرا دل تو ٹھنڈا کیجئے،میں نے کہا پڑھوائیے۔ویسے میں نے سچے دل سے آپ کے خط میں کلمہ پڑھ لیا تھا اور اپنا نام بھی عبد اللہ اپنے من میں رکھ لیا ہے، اب دوبارہ مجھے پڑھوادیجئے۔مولانا صاحب نے کہا کہ ایمان کو تو بار بار تازہ کرتے رہنا چاہئے،مجھے کلمہ پڑھوایا اور کہا کہ عبد اللہ بہت اچھا نام ہے،ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ عبد اللہ اور عبدالرحمن نام اللہ کو بہت پسند ہیں۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : مولانا صاحب نے مجھے موقع لگا کر نماز وغیرہ سیکھنے اور گھر والوں پر کام کرنے کے لئے کہا، الحمد للہ دو مہینے میں میری چھوٹی اہلیہ اور اس کے چاروں بچے مسلمان ہو گئے۔ مقدموں سے میں بہت پریشان تھا ،مولاناصاحب نے کہاکہ جس مقدمے میں جائیں دو رکعت صلاۃ التوبہ اور صلاۃ الحاجت پڑھ کر جائیں جب اللہ توبہ قبول کرلیتے ہیں تو فرشتوں سے بھی بھلادیتے ہیں اور نامہ اعمال سے بھی مٹا دیتے ہیں میں نے یہ نسخہ استعمال کیا، اللہ کا شکر ہے سارے مقدموں سے اللہ نے مجھے بری کر دیا۔ بس دو مقدمے باقی ہیں۔
سوال : آپ کے انجکشنوں کا کیا رہا؟
جواب : میرے اسلام قبول کرنے کے بعد رمضان آئے مولانا نے مجھے بلایا اور کہا اللہ نے انسان کو بڑی قوت ارادی عطا کی ہے آدمی پختہ ارادہ کرلے تو پہاڑوں میں دودھ کی ندی کھود سکتا ہے،یہ انجکشن ایک نشہ ہے اور نشہ اسلام میں حرام ہے، آپ گناہ سمجھ کر سچے دل سے توبہ کیجئے، رمضان کے پورے روزے رکھئے،اخیر میں اعتکاف میں کچھ وقت ہمارے ساتھ گزارئیے ۔میں نے ہمت کی اور روز صلاۃ التوبہ پڑھ کر ارادہ اور عزم کرتا،درد کی وجہ سے ہاتھ پیر دے دے مارتا، مگر اپنے سے کہتا ہرگز ہرگز حرام نہیں کروں گا، یہ جان چلی جائے تو چلی جائے۔اخیر عشرہ آیا تو میں بعض مقدموں کی وجہ سے پھلت نہ آسکا،حضرت نے حافظ ادریس کو بھیجا، میں پھلت آیا جامع مسجد میں تین روز گزارے،پھلت کے لوگوں نے،سنا ہے کہ ،حضرت پر بہت اعتراض بھی کیا کہ اس بدمعاش اور ڈاکو کو مسجد میں بلالیا،میرے دل میں بہت سی شکایتیں اور اعتراضات تھے وہ بھی اللہ نے حضرت سے کہنے کا موقع دیا اور وہ سب حل ہوگئے اور الحمد للہ فورٹ ون کے عذاب سے مجھے نجات ملی۔احمدبھائی!عجیب بات ہے کہ مولانا صاحب سے ملاقات کے ایک ماہ میں وہ فورٹ ون جو بیس سال سے نہیں چھوٹی تھی،اب مجھ سے چھوٹ گئی۔
سوال : آپ شیو سینا جیسی جماعت کے ضلع کے ذمہ دار تھے آپ کو اسلام میں آکر اجنبیت سی نہیں لگی؟
جواب : نہیں بھائی احمد بالکل نہیں،مجھے ایسا لگا کہ میں بائی نیچر فطرتاً مسلمان ہی تھا،اسلام کی ہر بات میری انتر آتما (اندر کی روحانی پکار) لگتی تھی۔
سوال : آپ کی دوسری بیوی کا کیا ہوا؟
جواب : وہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئی، میں نے ان کو چھوڑ دیا ہے ان کا حصہ ان کو دے دیا ہے۔ایک بیٹا بیٹی ان کے میرے ساتھ دہلی میں رہتے ہیں،میں نے مولانا صاحب کے مشورہ سے دہلی میں کوٹھی لے کر رہائش اختیار کرلی ہے۔یہ فیصلہ میرے لئے سکون کا ذریعہ بنا اور اسلام کا اعلان کرنے میں مجھے بڑی سہولت کا ذریعہ بنا۔
سوال : آپ کو ابی نے دعوت پر نہیں لگایا؟
جواب : ایسا کیسے ہو سکتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ میں،جو کچھ کرتا ہوں، دین کے لئے کرنے کی کوشش کرتا ہوں،میرے بھائی ایک ہائی اسکول چلاتے تھے وہاں پر اکثر مسلمانوں کے بچے پڑھتے تھے،کھتولی میں ایک مسلم جونیر ہائی اسکو ل چلتا تھا،اس کے ذمہ دار ایک حاجی صاحب بہت جذبہ کے آدمی تھے۔ ہیڈماسٹر سے کچھ بات ہونے کی وجہ سے وہاں پر تین دینیات کے استاذوں نے وہاں دو مہینے تک ایک بھی سبق نہیں پڑھایا، حاجی صاحب نے معاملہ کی جانچ کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ میں مدرسہ نہیں رکھتا،بس اسکول چلاؤں گاتینوں حافظ اور مولویوں کو الگ کردیا، اتفاق سے ایک روز اپنے بھائی کے اسکول میں چھٹی کے وقت کچھ مسلمان بچوں سے میں نے کلمہ سنانے کوکہا ،تو انھیں کلمہ یاد نہیں تھا،مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا،آپ کا اسکول مسلمان محلہ میں ہے اگر آپ یہاں قرآن اور اردو شروع کردیں تو تعدادبڑھ جائے گی ان کی سمجھ میں آگیا۔ میں نے مولانا صاحب سے استاذ دینے کے لئے کہا،مولانا صاحب نے ان تینوں استاذوں کو بلایا جو مسلم اسکول سے نکالے گئے تھے اور اللہ کا شکر ہے کہ آج تک پانچویں چھٹی ساتویں کلاس میں قرآن مجید اور دینیات کی تعلیم کسی مدرسہ کی طرح ہو رہی ہے اور الحمد للہ میرے بھائی بھی مسلمان ہو گئے ہیں،ان کا نام میں نے عبد الرحمن رکھا ہے،مولاناصاحب اس قصہ کو اکثر سناتے ہیں کہ اللہ تعالی اس طرح تبدیلی کا نظم کرتے ہیں۔
سوال : قارئین ارمغان کے لئے کچھ پیغام آپ دیں گے؟
جواب : کسی کے ظاہر اورحالات کو مخالف سمجھ کر یہ سمجھنا کہ یہ حالات اور یہ شخص اسلام دشمن ہے بالکل غلط ہے۔ظاہری طور پر شیو سینا کا ضلعی ذمہ دار کتنے غلط کاموں سینکڑوں مقدموں میں مبتلا مجھ جیسا اوت آدمی،اسلام کے مخالف حالات میرے لئے بابری مسجد کی شہادت کے بعدحددرجہ نفرت زدہ تھے۔ایک مزے کی اور بات بتاؤں کہ ہمارے خاندان کا ایک لڑکا رشتہ کا میرا بھائی ڈاکٹر صاحب کا لڑکا مسلمان ہو کر عبدالرحمن بن کر گھر چھوڑ کر پھلت رہنے لگا تھا۔ میری بھابھی بہت روتی تھی جب وہ یاد کرکے روتی تو مجھے بہت ترس آتا تھا اور کئی بار دل میں خیال آیا : اس حضرت جی کا اور خاتمہ کر آؤں جہاں اتنے مقدمے ہیں ایک مقدمہ اور سہی۔مگر احمد بھائی سچ کہتا ہوں جب اسلام کو میں نے پایا تو مجھے بالکل یہ محسوس ہوا یہ میرے اندر کی مایا تھی اور اسی فطرت پرمجھے پیدا کیا گیا تھا۔بابری مسجد کی شہادت کے بعدکسی شیو سینا کے ذمہ دار کا مسلمان ہونا کیسا عجیب لگتا ہے،مگر مجھے بالکل عجیب نہیں لگا، نہ مجھے لگا کہ کوئی انہونی فیصلہ ہوا،بس یہ بات ہے کہ محبت سے کہنے والا کوئی نہ ملا اور ہمارے دیش کی کمزوری ہمارے حـضرت کے بقول جوش محبت ہے۔ہر ہتھیار اورہر حملے کا مقابلہ یہ قوم کر سکتی ہے،مگر محبت کی دھار اس کے دل میں فورا ًاتر جاتی ہے۔مجھے مولانا صاحب کی محبت نے ایسا غلام بنایاکہ رواں رواں اب تک گرفتار ہے،صرف محبت اور بے لوث ہمدردی نے مجھ جیسے سخت انسان کو شکار کیا۔نہ میں نے کوئی چمتکار دیکھا نہ کوئی دوسری بات ہوئی،صرف اور صرف بے لوث محبت اور ہمدردی میری ہدایت کا ذریعہ بنی۔
پھلت کا ایک نائی جمال الدین جو کھتولی دوکان کرتا ہے، پانچ سال پہلے ساڑھے دس بجے اس نے مجھے بتایا کہ چودھری صاحب آپ یہاں پھر رہے ہیں، مولانا صاحب ایک ہفتہ سے بستر پر پڑے ہیں، احمدبھائی بس میری جان نکل گئی اپنے کو تھاما اورگھر گیا گاڑی لی اور پونے بارہ بجے روتا ہوا پھلت پہنچا، مولانا صاحب اتفاق سے ممبئی کے کچھ مہمانوں کے ساتھ بیٹھے باتیں کررہے تھے اور مسکرارہے تھے، جاکر چمٹ گیا اورخوشی سے سسکیوں سے روتاہوا بولا کہ مجھے جمال الدین نے ڈرادیا تھا، کہ آپ بستر پر بیمارپڑے ہیں۔ سارے راستہ دعا کرتا آیا ،میرے اللہ میرے جیون کی گھڑیاں بس میرے مولانا کو لگ جائیں، آپ کو ٹھیک دیکھ کرجان میں جان آگئی،اب بھی دعا کرتا ہوں کہ زندگی کی باقی گھڑیاں بس مولانا صاحب کو لگ جائیں کچھ کام آجائیں گی۔ مولانا صاحب نے بتایاکہ پنجاب کا ایک ہفتہ کا سفر لوؤں (گرم ہواؤں) میں ہوا ، گرمی میں رہنے کی وجہ سے گردہ میں درد ہوگیا تھا آج صبح پتھری نکل گئی۔
ہمارے حضرت سچ کہتے ہیں،یہ ہندوستان کے لوگ بس مریض ہیں،ان کی دشمنیاں،سازشیں بس بیماری کی چیخ و پکار ہے ، ان کی سب بیماریوں کا علاج محبت اور جرأت ہے، ارمغان کے قارئین سے بس میری یہ درخواست ہے کہ ان کووہ حریف نہ سمجھیں بلکہ مریض سمجھیں اور محبت کی بولی ان کے مرض کا علاج ہے اور میرے لئے حسن خاتمہ کی دعا کریں۔
مستفاداز ماہ نامہ ارمغان، ستمبر ۲۰۰۸ء