آج سے تقریباً پچیس بر س پہلے وہ شخص اٹھا رہ بر س کا جوان تھا۔ جوا کھیلنا، شراب پینا ، چو ری چکا ری اور لوگو ں سے ہیرا پھیری کرکے پیسے بٹور نا اس کا شیوہ تھا۔ انتہائی شریف گھرانے میں پیدا ہو نے کے با وجو د اس کو یہ بری عا دتیں دوستو ں سے ایسی لگیں کہ وہ مڈل سے آگے نہ پڑھ سکا۔ با پ نے بہت کو شش کی کہ چل کر دکان پر بیٹھے مگر مرضی سے جانے کے بعد وہاں بھی چو ری کر کے بھاگ جاتا۔ چند دنو ں بعد پیسے ختم ہو جا تے تو پھر گھر واپس آ جا تا۔ ماں کی وجہ سے اس کا با پ مجبو ر تھا کہ وہ رونے لگتی تھی۔ اس بات سے اسے اور شہ مل جا تی۔ تنگ آکر اس کے والدنے اپنی بھانجی سے اس کی شا دی کر دی۔ بہن بیچاری بیوہ غریب تھی، بھائی کی نا انصا فی پر احتجا ج نہ کر سکی اور یو ں اس جوارئیے پرویز عرف پیجی کو اپنی بیٹی دے دی۔ پانچ بیٹیو ں کی ما ں تھیں، کیا کر تی۔ پیجی صاحب کو تو مفت کی ملازمہ ہا تھ لگ گئی۔ پہلے تو جب گھر آتا تو ٹھنڈا کھا نا کھانا پڑتا تھا مگر اب اسکے کھا نے اور کپڑو ں کا خیال کرنے والی خا دمہ گھر میں موجو د تھی۔ وقت گزر تا گیا اور پھر ایک دن وہ بیٹی کا باپ بن گیا وہ اس دن تقریبا ً پندرہ دن بعد گھر آیا تھا۔ صحن میں بیٹھ کر سو چتا رہا کہ ابھی تک کھا نا کیو ں نہیں لیکر آئی۔ والدہ نے کہا کہ تمہار ے ہاں بیٹی پیدا ہو ئی ہے اب توکچھ شر م کر لے۔با پ بیچا رہ بہن اور بھانجی کے سامنے شر مندہ ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شا ید شا دی کے بعد تو سلجھ جا ئے گا۔ ما ں سے یہ الفا ظ سن کر آپے سے با ہر ہو کر بو لا میں ایسا نہیں چا ہتا تھا۔ اگر آپ نہیں پا ل سکتے تو یتیم خانے دے آئیں۔ اندر بیو ی سن رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد غصے سے اند ر گیا تو دیکھا کہ اس کی بیوی بچی کو ساتھ لگائے رورہی ہے۔ پو چھا کیو ں رو رہی ہو کیا میں مر گیا ہو ں، بیو ہ ہو گئی ہو۔ بیو ی نے پہلی بار شکائتی نظر و ں سے اپنے شو ہر کی طرف د یکھا اور بولی نہیں میں تو اس لیے رورہی ہو ں کہ میں نے خدا سے کتنی دعائیں کی تھیں کہ اللہ مجھے بیٹی نہ دینا۔ اگر تمہا رے جیسا مر د پلے پڑ گیا تو کیا ہو گا۔ اتنا کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔ پیجی نے حیرت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا کہ یہ بات اس نے کہی ہے جس نے دو سال چپ چاپ گزار دئیے، کبھی شکایت نہ کی تھی۔ اپنے تئیں تو پیجی نے اس سے نکاح کر کے احسانِ عظیم کیا تھا کہ اس دور میں کو ن کسی یتیم غریب لڑکی سے بیا ہ کر تا ہے۔ جس کے سر پر باپ اور بھائی کا سایہ بھی نہ ہو۔ وہ خامو ش ہو کر کھانا کھا ئے بغیر چھت پر چلا گیا اور صبح فجر تک ٹہلتا رہا۔ صبح موذن کی آواز پر گھر سے نکل آیا۔ مسجد میں گیا تو مولوی صاحب سمجھے شاید چور ی کرنے آیا ہے کیونکہ پہلے بھی دو دفعہ مسجد سے چوری کرتا پکڑا گیا تھا۔ انہو ں نے کہا کہ پیجی تو گھر جا کر سوتا کیو ں نہیں یہا ں تیرا کیا کام۔ اگر چو ری نہیں کر نی تو پھر کیا نما ز پڑھنے آیا ہے ؟پیجی کی آنکھو ں میں آنسو آگئے اور بو لا ہا ں مولو ی صاحب آج ہی جاگا ہو ں مگر نماز تو کیا پڑھو ں گا مجھے تو وضو کرنا بھی نہیں آتا۔ مو لوی صاحب نیک انسان تھے۔ اسے وضو کر وایا اور پھر اس نے جما عت کے ساتھ نما زپڑھی، گھر واپس آیا تو دیکھا بیوی سور ہی تھی بچی کو اٹھا کر سینے کے ساتھ لگا لیا۔ بیوی کی آنکھ کھلی تو وہ یہ سمجھی شاید یتیم خانے دینے کے لیے لے جا رہا ہے۔ وہ رونے لگی او ر کہا کہ میں نے کبھی تم سے کچھ نہیں مانگا، اپنی بچی کے لیے بھی کچھ نہیں مانگوں گی، یہ ظلم مت کر و۔ پیجی کا دل بہت برا ہو ا۔ بیوی کو پیا ر سے سمجھا یا کہ وہ اپنی بچی کو پیا ر کر نے کا حق بھی نہیں رکھتا؟
اسی دن سے با پ کے ساتھ دکان پر جا نے لگا۔ پہلے پہل تو اس کے والد صاحب اس پر اعتبار نہیں کر تے تھے مگر پھر اس نے دکھا دیا کہ اگر اللہ تعا لیٰ کی مدد شاملِ حال ہو تو انسان کا دل بدلنے پر دیر نہیں لگتی۔
آج اس پیجی کو لوگ حاجی پرویز صاحب کے نام سے پکا رتے ہیں۔ اس نے دکا ن ایسی چلائی کہ کسی کو یقین نہیں ہو تا کہ یہ وہی پیجی ہے جو دو سو روپے چور ی کرکے دکان کھلی چھوڑ کر بھا گ گیا تھا۔ والدین کو، بیوی کو حج کروایا۔ آج ان کے چا ر بچے ہیں مگر اپنی بیٹی ( جس کا نام پیجی نے ‘‘ نو ر ایمان ’’ رکھا تھا اورنام رکھتے وقت اس نے کسی کی نہ سنی تھی ) اس کو بہت پیا ری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میری بیٹی نے میرے دل میں ایمان کی جو ت جلائی ہے۔ اس کا معصوم چہر ہ دیکھ کر اور اپنی بیوی کی اس وقت کہی ہو ئی با ت نے مجھے اندر سے ہلا دیا تھا۔ پرویز صاحب کو دیکھ لیں تو نو ر ا نی چہرہ اور ماتھے پہ محراب، گھنی ڈاڑھی ان کے پا نچ وقت کانما زی ہونے اور پرہیز گا ر ی کا پتہ دیتی ہے۔ مارکیٹ میں ان کی اتنی عزت ہے کہ لو گ ان کی شرا فت کی مثالیں دیتے ہیں۔ صر ف ان کے ما ضی کو جاننے والے لوگ ہی اس بات سے وا قف ہیں کہ وہ کیا تھا؟ میں سمجھتی ہوں کہ ان کی کوئی نہ کوئی نیکی ان کے کام آئی ہے جو خدا نے اتنی ذلتو ں اور پستیو ں سے نکا ل کر انہیں اس مقام تک پہنچا یا ہے۔ وہ شخص جس سے کسی کی مال و آبرو محفوظ نہ تھی آج محلے کی بہو بیٹیو ں کو اپنی نو رایمان جیسا سمجھتا ہے اور اس کی نگا ہیں عورتوں کو دیکھ کر جھک جا تی ہیں۔ دنیا میں بہت کم لو گ ایسے ہیں جو شیطانیت کی راہ پر اتنی دور تک چلنے کے بعد فلاح کی طرف آتے ہو ں۔ یہ خدا کا بہت بڑا انعا م ہے کہ ایک چھوٹی سی بات سے بندے کا دل پھر جا ئے۔
قارئین کرام آپ کوکبھی ایسے لو گ ملیں تو کبھی انہیں دل سے برا نہ جانئیے۔کیا معلوم آنے والا وقت کس کی جھو لی میں کیا ڈالنے والا ہے؟ یہ خدائے برتر کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ میری استدعا ہے کہ اگر کسی ایسے شخص سے سامنا ہو تو اس کی اپنے طور اصلاح کی کو شش کیجئے ،یہ صدقہ جاریہ ہے۔ تو فیق تو اسے خدا کی طر ف سے ملتی ہے۔ مگر کسی کی کہی ہوئی اچھی بات بھی انسان کا دل بدلنے کے لیے معا ون ہو سکتی ہے۔ آپ کی وجہ سے کسی ایک شخص نے بھی ہدایت کی روشنی پائی اور سیدھے راستے پر چل نکلا تو یقین جانیے گا کہ زندگی کا مقصد پورا ہو گیا اور زندگی رائیگا ں ہو نے سے بچ جا ئے گی۔ نفسانفسی کے اس دور میں بہت کم ایسے لو گ ہیں جو دوسروں کے لیے سو چیں اور ان کی بہتری کے لیے کوئی قدم اٹھائیں۔ آئیے بارش کے پہلے قطرے کی طر ح ہمت کر کے پہل تو کریں کہ قطرہ قطرہ مل کر دریا ہو تا ہے۔
اب آدمی آدمی نظر نہیں آتا
چراغِ فکر جلا ؤکہ تیرگی ہے بہت