چاہِ بابل

مصنف : حافظ نذر احمد

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : جولائی 2014

Click here to read in English

(ہاروت ماروت کا کنواں)

 

چاہ بابل دنیا کے قدیم ترین آثار میں سے ہے۔ اس کنوئیں کا ذکر قرآن مجید کے علاوہ بائبل میں بھی ہے۔ اب جبکہ بابل ہی نہیں رہا اس کنوئیں کے وجود کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

بابل کہاں ہے؟ بابل کا کنواں کس نوعیت کا تھا؟ ہاروت ماروت (جن کا نام چاہِ بابل کے ساتھ ساتھ لازم و ملزوم کی صورت رکھتا ہے) ان کے سحر کی کیفیت کیا تھی؟ اور خود سحر کیا ہے؟ چاہِ بابل اور اس کے کوائف سمجھنے کے لیے یہ اور اس قسم کے متعدد سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔

قرآن مجید کا بیان

ان تمام سوالوں کے جواب کے لیے ہم قرآن مجید کی سورۃ البقرہ کی طویل ترین آیت( ۱۰۲) کا ترجمہ نقل کرتے ہیں جس میں ان بیشتر امور کا ذکر موجود ہے:

‘‘اور یہ لوگ اس علم کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ اور سلیمان نے کفر نہیں کیا۔ البتہ شیطان کفر کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے، اور وہ اس علم کے پیچھے لگ گئے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت ماروت پر اتارا گیا تھا۔ اور وہ دونوں کسی کو بھی نہیں بتلاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو بس ایک ذریعۂ امتحان ہیں۔ سو تم کفر اختیار نہ کر لینا۔ مگر ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھتے۔ جس سے وہ خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالتے، حالانکہ وہ کسی کو بھی اس کے ذریعہ نقصان نہ پہنچا سکتے تھے، مگر ہاں ارادۂ الٰہی سے۔

اور یہ لوگ وہ چیز سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اور یہ خوب جانتے ہیں کہ جس نے اسے اختیار کیا، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور بہت ہی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انہوں نے اپنے آپ کو فروخت کر ڈالا ہے۔ کاش وہ جانتے۔’’ (سورۂ بقرہ ۲: ۱۰۲)

بائبل کے حوالے

بائبل کے مندرجہ ذیل مقامات میں ان امور کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں:

(۱) کتاب ۱۔ سلاطین ۱۱، ۱۲

(۲) کتاب ۲۔ سلاطین باب ۱۷ آیت ۷۱۔۱۹

(۳) کتاب مکاشفہ باب ۱۰ آیت ۴، ۵۔ باب ۱۸ آیات ۲۳، ۲۴، ۳۰

بائبل کے تفصیلی بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم صرف حوالہ جات پر اکتفا کرتے ہیں۔ البتہ ان کی روایات کا خلاصہ ‘‘نقل کفر، کفر نہ باشد’’ کے بمصداق پیش کرتے ہیں۔ اس کی صحت کی ذمہ داری لینا ہمارے بس سے باہر ہے اور شاید اس کے لیے خود ان کے علما بھی تیار نہ ہوں گے۔ اسرائیلی روایات کا خلاصہ یہ ہے:

ہاروت ماروت دو فرشتے تھے۔ انہوں نے اللہ کے سامنے انسانوں کے گناہوں کا مذاق اڑایا کہ تیری مخلوق ہر قسم کے انعام کے باوجود گناہ کرتی ہے۔ اللہ کو غصہ آیا اسے ان کا طنز پسند نہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم دنیا کے ماحول میں ہوتے تو یہی کرتے۔ فرشتوں نے اپنی عصمت کا دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین پر بھیج دیا۔ یہاں ایک حسین عورت تھی، زہرہ اس کا نام تھا۔ فرشتے اس پر عاشق ہو گئے۔ اس عورت نے کہا: وصل کی شرط یہ ہے کہ تم شراب پیو، قتل کرو، اور بتوں کو سجدہ کرو۔ ان پر عشق کا بھوت ایسا سوار ہوا کہ انہوں نے شراب بھی پی، قتل بھی کیا اور بت پرستی سے بھی گریز نہ کیا۔

وصل کے وقت زہرہ نے ہاروت ماروت سے آسمان پر جانے کا راز دریافت کیا تو انہوں نے زہرہ کو ‘‘اسم اعظم’’ سکھا دیا اور وہ آسمان پر چلی گئی اور فرشتے چاہ بابل میں قید کر دئیے گئے۔ اس جرم میں وہ قیامت تک کنوئیں کے اندر لٹکے رہیں گے۔ ساری دنیا کا دھواں ان کی ناک کے ایک نتھنے سے داخل ہو کر دوسرے نتھنے سے گزرتا رہے گا۔

محاکمہ

ہم ان کوائف کو حقیقت کی بجائے صرف ایک کہانی تصور کرتے ہیں۔ چونکہ ان میں حقیقت کم ہے، اور افسانوی رنگ زیادہ ہے۔ اسرائیلی قصوں میں بہت سی ایسی باتیں شامل ہیں جو عقل اور دین دونوں کے خلاف ہیں۔ بھلا فرشتوں کا عشق و سرمستی سے کیا تعلق؟ سب سے بڑی بات یہ کہ قرآن مجید نے فرشتوں کے بارے میں گواہی دی ہے : ‘‘وہ حکم الٰہی کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اور انہیں جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔’’ (سورۃ التحریم ۶۶: ۶)

امام ابن کثیر نے اپنی مشہور تفسیر ابن کثیر میں ان واقعات کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ‘‘مسند امام احمد میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جو روایت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے۔ قرین ِ قیاس یہ ہے کہ وہ دراصل کعب ِ احبار کا بیان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے۔ اور کعب احبار نے صرف اسرائیلی قصوں سے نقل کر دیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر جلد ، ص ۱۴۱)

امام فخر الدین رازی نے ان قصوں کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ سب کچھ فاسد اورمردود ہے۔

شہاب عراقی نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو شخص ان قصوں کو مانے وہ اللہ کا منکر ہے۔ چونکہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں اور قصے میں انہیں گنہگار بلکہ شیطان خصلت پیش کیا گیا ہے۔ قاضی عیاض کی رائے بھی یہی ہے۔ روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس بارے میں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا ان کی حقیقت کچھ نہیں۔

ہاروت ماروت کون تھے؟

چاہِ بابل کے سلسلہ میں سب سے اہم بحث ہاروت ماروت کی شخصیتوں کے بارے میں ہے کہ وہ کون تھے؟ ان کے بارے میں یہودیوں کے ہاں عجیب و غریب روایات مشہور ہیں۔

آرمینہ کی مذہبی کتابوں میں ہاروت ماروت کو دیوتا بیان کیا گیا ہے اور ان کا وطن جودی پہاڑ بتلایا گیا ہے جسے عبرانی زبان میں اخری طاغ کہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل خطی میخی میں لکھے ہوئے کچھ کتبات دستیاب ہوئے ہیں۔ ان کتبوں میں اس زمانہ کے لوگوں کے خیالات اور مشہور واقعات کی تفصیل موجود ہے لیکن ان میں ہاروت ماروت کا نام گلگمشن لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ہاروت کا ہی بگڑا ہوا تلفظ ہو۔ (تلمود مدارش یدکوت باب ۴۴)

قرآن مجید میں انہیں ‘‘ملکین’’ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ‘ وَمَا أُنزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ’ (سورۂ بقرہ ۲: ۱۰۲) ‘‘ملکین’’ کا واحد ‘‘مَلَک’ ہے جس کے معنی ہیں فرشتہ۔ بہت سے مفسرین اس پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہاروت ماروت اصلاً فرشتے نہ تھے۔ انہیں محض مجازی طور پر مَلَک کہا گیا ہے ۔ وہ انسان تھے اور اپنے زمانے کے بااقتدار بادشاہ تھے۔ (تفسیر بیضاوی) چنانچہ آج کل بھی ہمارے ہاں ‘‘مَلَک’’ کے نام سے ایک گوت (خاندان) موجود ہے۔ تمام ککے زئی اور بہت سے راجپوت بھی اپنے آپ کو ملک کہتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ نام کے ساتھ ملک لگ جانے سے وہ فرشتے نہیں بن جاتے۔

شہر بابل

بابل شہر دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ اس پورے علاقہ کو بھی بابل ہی کہتے تھے۔ اپنے زمانہ میں یہ علاقہ تہذیب و تمدن کامرکز تھا۔ بابل ، نینوا کی تہذیب دنیا کے اندر ایک بہت اونچا مقام رکھتی تھی۔ ان لوگوں کا رہن سہن دوسروں کے لیے نمونہ تھا۔ بخت نصر کا عہد اس تہذیب کے انتہائی عروج اور ترقی کا دور تھا۔ اس کے بعد یہاں کی تہذیب کو زوال آنا شروع ہو گیا۔

جدید جغرافیہ میں بابل دنیا کے نقشہ پر عراق ِ عرب میں ہے۔ لیکن صرف کھنڈرات کی صورت میں۔ کبھی یہ شہر میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ بابل کے گرد پچپن (۵۵) میل لمبی فصیل بنی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے ‘‘ہفت عجائبات عالم’’ میں شمار کیا ہے۔ کالڈیا اور کلدانیہ اس کے پرانے نام تھے۔ انجیل مقدس میں اس شہر کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو: (کتاب دانیال ۴: ۲، کتاب مکاشفہ ۱۰: ۵، ۱۷: ۱۳، ۱۸: ۲۳ تا ۲۴)

شہر بابل موجودہ بغداد سے تقریباً ساٹھ میل دور جنوب کی سمت میں دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ اس کے کھنڈرات کے قریب ہی آج کل ہلّہ (حلّہ) کا شہر آباد ہے۔ ان کھنڈرات میں نہروں کے آثار ، پانی کے نلکوں کے نشان، شاہی محلات کی بنیادیں اور مضبوط قلعوں کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ جو اپنی تہذیب و تمدن کے کمال کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔

شہر بابل کی مشہور عمارات میں مندرجہ ذیل خاص اہمیت کی حامل تھیں:

قصرِ سمیرامیس، بخت نصر کا محل، برج نمرود، معلق باغ جو کئی طبقات پر مشتمل تھا، ایک عالی شان رصد گاہ، لعبوس کا مقبرہ۔ شہر کی طویل و عریض سہ طرفہ حیرت انگیز فصیل اور برج بابل وغیرہ۔

برج بابل کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس برج میں سات رنگ کے طبقے تھے۔ ان کا تعلق سات اجرام سماوی سے تھا:پہلا طبقہ سیاہ رنگ کا تھا: یہ زحل سے منسوب تھا۔دوسرا طبقہ سفید رنگ کا تھا: یہ زہرہ سے نسبت رکھتا تھا۔تیسرا طبقہ نارنجی رنگ کا تھا: اس کی نسبت مشتری سے تھی۔چوتھا طبقہ نیلے رنگ کا تھا: یہ عطارد سے میلان رکھتا تھا۔ پانچواں طبقہ قرمزی رنگ کا تھا: اس کا مریخ سے میل تھا۔چھٹا طبقہ نقرئ تھا: اس کا تعلق چاند سے تھا۔ساتواں طبقہ طلائی تھا: اس کی نسبت سورج سے تھی۔

بابل کے لوگ معبودانِ باطل کے پرستار تھے۔ ان کے خیال میں یہ معبود آسمان کی فضاؤں میں رہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی قسمت ان سے وابستہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ نجوم شناسی اور علم افلاک میں بڑے ماہر تھے۔ ان کے بت کدوں میں ستاروں کی پرستش ہوتی تھی۔

بابل کے کھنڈرات اور چاہِ بابل

گزشتہ جنگ عالمگیر کے دوران ہمارے عزیز محترم چوہدری علی احمد سرور عراق گئے تھے۔ انہوں نے بابل کے کھنڈرات اور چاہ بابل کا بغور مشاہدہ کیا۔ ہم اس عنوان کے تحت انہیں کے غیر مطبوعہ سفر نامہ کے اقتباسات شکریہ کے ساتھ نقل کر رہے ہیں۔

‘‘آج یہ سب کھنڈرات کے ڈھیر ہیں، لیکن چشم بینا کے لیے سرمۂ بصیرت ہیں۔ ان پُرہول ڈھیروں میں عجیب ہیبت پنہاں ہے اور ساتھ ہی ایک اندوہناک اور نہایت حسرت آمیز درسِ عبرت بھی۔

بابل بغداد سے شہر حلّہ کو جانے والی سڑک پر چون (۵۴) میل دور واقع ہے۔ اس سڑک کو ایک چھوٹی سی نہر کاٹتی ہے۔ یہیں سے بابل کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہر کی فصیل تھی۔ آدھ میل آگے چلیں تو ایک چھوٹا سا عجائب گھر ہے۔ اور اس کے متصل ایک ریسٹ ہاؤس بنا ہوا ہے۔ یہ دونوں عمارتیں حکومت عراق کے محکمہ آثار قدیمہ نے تعمیر کرائی ہیں۔

عجائب گھر میں بابل کے کچھ عجائبات، تصویر کشی اور نقاشی کے نادر نمونے اور قدیم شہر کا مٹی سے بنا ہوا ماڈل رکھا ہوا ہے۔ عجائب گھر کی پشت پر ایک ٹیلہ ہے جس پر نشان راہ کی تختیاں لگی ہوئی ہیں۔کچھ آگے شاہ بنو کد نصر (بخت نصر) کے جلوس کا راستہ ہے۔ مشرق کی سمت ‘‘نین ماخ’’ کا ایک چھوٹا سا معبد ہے ۔ گزر گاہِ جلوس کے مغرب میں ایک عمارت ہے جو جنوبی محل کے نام سے مشہور ہے۔ دوسری عمارت معلق باغ HANGING GARDEN کی ہے جسے ‘‘محل اعظم’’ بھی کہتے ہیں۔ اس سے تھوڑی دور آگے ایک تہہ خانہ جیسا ہے۔ کہتے ہیں یہاں نمرود نے حضرت شعیب علیہ السلام کو شیر کے آگے ڈالا تھا۔ اس تہہ خانہ کی دیواروں پر تصاویر ہیں جو اس دور کے ماہرین فن کی چابکدستی کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔ جو اینٹیں یہاں استعمال ہوئی ہیں وہ اپنی ساخت اور مضبوطی کے اعتبار سے دور حاضر سے بہت بہتر ہیں۔ چند قدم آگے چل کر ایک کنواں ہے۔ جو اوپر سے مربع شکل کا ہے۔ اسی کنوئیں کو ‘‘چاہ بابل’’ کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔

چاہ بابل کے قریب پتھر کا ایک بڑا مجسمہ ہے اور ساتھ ہی چند معبد ہیں، جن کو ‘‘نی نورتا’’ اور ‘‘گلا’’ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ‘‘برج بابل’’ بھی اس کے قریب ہی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سکندر اعظم نے ہندوستان سے واپسی پر داعئ اجل کو لبیک کہا تھا۔

کھنڈرات کے ٹیلوں سے دو تین میل کے فاصلے پر ایک مسجد کا گنبد نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ مسجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تعمیر کرائی تھی۔ اس کے گنبد اور در و دیوار پر نہایت نفیس نقش و نگار ہیں۔ انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کاریگر ابھی چند دن پہلے کام سے اٹھ کر گئے ہیں۔’’

بابل کے حکمران

بابل کے بانی کا نام نمرود بیان کیا گیا ہے۔ اس کا زمانہ تقریباً چار ہزار سال قبل مسیح ہے۔ اس کے باپ کا نام کوش اور دادا کا نام حام تھا۔ حضرت مسیح سے کوئی پونے چار ہزار سال قبل بنو عاد کے سامی قبیلے نے بابل پر قبضہ کر لیا ۔ دو یا ڈھائی سو سال ان کی حکومت رہی۔

سامیوں کے بعد اس پر اعلامی خاندان کا قبضہ ہو گیا۔ وہ نمرود اسی خاندان کا ایک حکمران تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔ نمرود اس کا خاندانی لقب تھا، اس کا اصل نام ذو الامر بیان کیا گیا ہے۔ نمرود کا زمانہ ۲۳۰۰ سال قبل مسیح ہے۔ اسی نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زندہ آگ میں جلا دینے کا حکم دیا تھا۔

اس خاندان کے بعد بابل کے بادشاہوں میں بنو کد نصر بہت مشہور ہوا ہے۔ اسے بخت نصر بھی کہتے ہیں۔ اس نے بہت سے علاقے بزور شمشیر فتح کیے۔ اس کے ہاتھوں فلسطین میں یہودیوں پر تباہی آئی۔ اور بیت المقدس کا شہر اجڑا۔ اس نے کتاب مقدس کا ایک ایک نسخہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلا ڈالا ۔ اس خاندان کا آخری تاجدار بیل شفر تھا۔

حضرت مسیح سے ۵۳۸ قبل (اور بعض روایات کے مطابق ۵۴۹ سال قبل ) فارس کے بادشاہ نے بابل پر حملہ کر دیا۔ اور اس طرح یہ ملک ایران کا باج گزار بن گیا۔

بابل کا جادو

حضرت سلیمان علیہ السلام کے وفات پا جانے کے بعد بنی اسرائیل بالعموم سحر و طلسم میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے حقیقت کو چھوڑ کر جادوگری، شعبدہ بازی، طلسم بندی کو اختیار کر لیا۔ بابل کے باشندے اس سلسلہ میں سب سے آگے بڑھ گئے۔

انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس کے فاضل محققین کا بیان ہے کہ اس شہر کے باشندے بہت بڑے جادو گر تھے ان کی مذہبی اور دینیات کی کتابوں میں بھی جگہ جگہ جادو منتر ہی نظر آتے ہیں۔ گویا یہ لوگ سحر اور طلسم کو مذہب کا درجہ دے چکے تھے (ملاحظہ ہو کتاب مذکور جلد ۲ صفحہ ۱۱۶)

مختصر یہ کہ بابل جادو منتر اور سفلی عملیات میں دور دور تک مشہور تھا۔ کالڈیہ اس شہر کا پرانا نام تھا ۔ انگریزی میں آج تک جادوگر کو ‘‘کالڈین’’ کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ اس شہر کا باشندہ ہونا ہی جادوگر ہونے کی علامت تھی۔

٭٭٭