خدا کی حمد خدا کو پائے بغیر کرنا ممکن نہیں۔ اور اس مادی دنیا میں رہ کر خدا کو پانا بہت مشکل کام ہے۔ یہ وہ کام ہے جس سے روکنے کے لیے ذریت ابلیس کے ہزاروں لاکھوں فرزند ہمہ وقت مصروف ہیں۔ یہ وہ کام ہے جس کی انجام دہی میں سب سے بڑی رکاوٹ خود انسان کا اپنا نفس ہے۔ مگر یہی وہ مشکل کام ہے جس کا اخروی بدلہ جنت کی ابدی بادشاہت ہے اور دنیوی بدلہ حمد باری تعالیٰ کی توفیق ہے۔
خدا کو پانے کے لیے دنیا میں رہ کر دنیا سے اوپر اٹھنا ہوتا ہے۔ خدا کو پانے کے لیے اپنی خودی اور انا کو چھوڑنا پڑ تا ہے۔ خدا کو پانے کے لیے اپنے قومی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے اوپر اٹھنا پڑتا ہے۔ ورنہ لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو خدا کانام لیتے ہیں، مگر درحقیقت وہ اپنے تعصبات کے بندے ہیں۔ ایسے لوگوں کو فیضان الٰہی سے ایک ذرہ بھی نہیں ملتا۔ چاہے وہ ہزار سجدے کریں۔ چاہے وہ ہزار مذہب کا نام لیں۔
خدا کا فیضان انہی کو ملتا ہے جو ہوا کی سرسراہٹ میں خدا کی رحمت، سورج کی روشنی میں خدا کی عنایت، تاروں کی جگمگاہٹ میں خدا کی شفقت کو دریافت کر لیں۔ جو انفرادی نعمتوں کے ساتھ سورج اور چاند جیسی آفاقی نعمتوں کا شکر بھی ایسے ادا کریں جیسے یہ ان پر خدا کی ذاتی مہربانی ہو۔ جو آزادی کے ہر لمحے میں یہ یاد رکھیں کہ خدا غیب میں تو ہے مگر ہر لمحہ ان پر نگران ہے۔ جو مشکل کے ہر لمحے میں یہ یاد رکھیں کہ حالات سخت تو ہیں مگر خدا کی قربت اسی مشکل میں ہے۔ جو نعمت کے ہر لمحے میں یہ یاد رکھیں کہ سبب کوئی بھی ہومگر دینے والا وہی مہربان ہے۔یہی لوگ خدا کو پانے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے آنسو اور آہیں سب اپنے آقا کے لیے وقف ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہیں اِس دنیا میں خدا اپنی حمد کے لیے اور اْس دنیا میں اپنی عطا کے لیے چنتا ہے۔
بنیادی اقدار
کچھ عرصے قبل میں آسٹریلیا گیا۔ وہاں کے تقریبا تمام ہی اہم شہروں جیسے سڈنی، ملبورن، برسبین، کینبرا، ایڈیلیڈ اور پرتھ جانا ہوا۔ وہاں مختلف نوعیت کے تجربات پیش آئے۔ مثلاً ایڈیلیڈ میں میرے میزبان نے مجھے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا۔ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو میزبان نے ریسیپشن پر ادائیگی کی اور ہم ہوٹل سے باہر آ گئے۔ حالانکہ میرا خیال تھا کہ ہوٹل کے ملازمین پہلے کمرے میں جا کر یہ چیک کریں گے کہ ہم نے وہاں رکھی ہوئی چیزوں میں سے کیا استعمال کیا اور اس کے پیسے بل میں شامل کریں گے۔ مگر ریسپشن پر موجود لڑ کی نے بس اتنا پوچھا کہ کیا کچھ چیزیں استعمال کی تھیں۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو اس نے چیک کیے بغیر بل بنا دیا۔
سڈنی میں ایک شاپنگ سنٹر میں کچھ گروسری کی نوعیت کی چیزیں خریدیں۔ میرے ساتھ ایک دوست تھے۔ ادائیگی کے وقت انھوں نے خود ہی اشیا اسکین کیں۔ خود ہی بل بنایا اور خود ہی ادائیگی کر لی۔ کسی نے ہم کو چیک نہیں کیا۔
ان واقعات کا مطلب یقینا یہ نہیں ہے کہ وہاں سب فرشتے بستے ہیں اور چوری چکاری یا بددیانتی نہیں ہوتی۔ مگر یہ استثنائی عمل ہوتا ہے یعنی ایسے کام کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کی اسکول میں تعلیم کے دوران میں تربیت اس طرح کر دی جاتی ہے کہ وہ کچھ بنیادی اجتماعی اقدار کو بہت اہمیت دینے لگتے ہیں۔ انھی میں سے ایک سچائی اور دیانت داری ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ عام طور پر سچ بولتے ہیں۔ دیانت داری سے کام لیتے ہیں۔
اقدار کو اپنا مسئلہ بنانے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کا معاشرہ طرح طرح کی ان پابندیوں اور مشکلات میں گھرا ہوا نہیں ہے جو ہم نے اپنے ہاں لگا رکھی ہیں۔ مثال کے طور پر میری رہائش عرصے تک ایک مشہور سپرمارکیٹ کے قریب رہی جہاں شہر بھر سے لوگ آتے تھے۔ اس مارکیٹ کے اندر داخل ہوتے وقت پرس اور بیگ باہر رکھوائے جاتے تھے کہ لوگ ان میں چھپا کر چیزیں نہ ڈال لیں۔ پھر ہر جگہ لوگوں کی نگرانی کے لیے ملازمین کھڑے تھے کہ چھوٹی موٹی اشیا جیب میں نہ ڈال لیں۔ قیمت کی ادائیگی کے بعد سامان لے کر باہر نکلنے والے ہر شخص کو چیک کرنے کے لیے مزید ملازمین تھے جو ادائیگی کی رسید سے سامان ملا کر یہ دیکھتے تھے کہ واقعی یہ شخص ادائیگی کر کے نکل رہا ہے یا ایسے ہی نکل آیا ہے۔ایسی یا اس سے ملتی جلتی پالیسیاں ہر جگہ ہمیں اپنے ہاں اس لیے نظر آتی ہیں کہ ہم نے مسلمہ بنیادی اقدار کو اپنے ہر فرد کا مسئلہ نہیں بنایا۔ اقدار کو افراد کی زندگی اور مسئلہ بنانے کا یہ کام اصلاً نظام تعلیم سے ہوتا ہے۔ مگرہم اپنے نظام تعلیم کی کیا بات کریں کہ یہاں ایک ملک میں چھ، سات قسم کے نظام تعلیم چل رہے ہیں۔ ہر کسی کی اپنی ترجیحات ہیں۔ مگر شاید اقدار کسی کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کام اساتذہ کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں کامیاب اور اچھا استاد وہ ہے جو اسٹوڈنٹ کو امتحان میں زیادہ نمبر لانے میں مدد کرے۔ جس کے سبجیکٹ کا بورڈ میں زیادہ اچھا نتیجہ آئے۔
یہ کام والدین اور خاندان کے بزرگ کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں والدین اور بڑوں نے اپنا کام صرف یہ سمجھ رکھا ہے کہ بچوں کو اسکول اور ٹیوشن بھیج دیں اور ان کی مادی ضروریات اورخواہشات کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیں۔ یہ کام مذہبی لیڈر کرتے ہیں۔ مگر ان کی اصل دلچسپی اپنے فرقے کے فروغ اور چند ظاہری اعمال کو افراد کی نگاہ میں اہم ترین بنا کر دکھانا ہے۔
یہی ہمارے ہاں کی اصل حقیقتیں ہیں۔ اس کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ معاشرے میں عدل، دیانت اور سچائی پھیلے۔ ایسے معاشروں میں مادیت اور فرقہ واریت پھیلا کرتی ہے۔ غور کیجیے ایک عرصے سے یہی وہ فصل ہے جسے ہم کاٹ رہے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ فصل ہے جس کے بیج ہم بوتے چلے آ رہے ہیں۔
انسان سازی
میں مسجد جانے کے لیے جس سڑک سے گزرتا ہوں اس کی فٹ پاتھ کا سارا حصہ تو لوگوں نے اپنے گھروں میں شامل کر لیا ہے۔ سڑک اتنی پتلی ہے کہ ایک گاڑی کے سامنے دوسری گاڑی آجائے تو دونوں گاڑیوں اور چلنے والے سب مشکل میں آ جاتے ہیں۔ بس سڑک اکثر سنسان رہتی ہے۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خالی سڑک پا کر کچھ لوگ فل اسپیڈ کر دیتے ہیں۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے شہر میں ہر جگہ اور ہر سڑک پر اسپیڈ بریکر بنے ہوئے ہیں۔
یہ پورا معاملہ محض ایک سادہ بات نہیں ہے۔ یہ ایک علامت ہے جو بتاتی ہے کہ ہماری قوم تربیت سے کتنی عاری ہے۔ وہ قانون کی پاسداری کو کتنا بے وقعت سمجھتی ہے۔ جسے اسپیڈ بریکر کی لگام نہ ڈالی جائے تو وہ ہر ضابطے کو پامال کر کے اپنی اور دوسرو ں کی زندگی کو کس طرح خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس مسئلے کو سرے سے کوئی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ تربیت کے ذریعے سے انسانی شخصیت کی تعمیر، قانون کی پاسداری اور اقدار پر مبنی سماج کا قیام کسی کے پیش نظر نہیں۔ اس طرح کے تمام مسائل حل کرنے کے لیے ہم افراد کی اصلاح کے بجائے اسپیڈ بریکر بناتے ہیں۔ یہ اسپیڈ بریکر بھی ایک علامت ہے جو بتاتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی تربیت کے بجائے قانون کو سخت سے سخت کر کے اور انسانوں کوبدلنے کے بجائے ان کوقانون اور ڈنڈے کی طاقت سے ٹھیک کرنے کو اصل حل سمجھتے ہیں۔
مگر یہ کوئی حل نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں سب لوگ مشکل میں آ جاتے ہیں اور لوگ قانون کی خلاف ورزی کے عادی ہوجاتے ہیں۔ مسئلے کا حل ایک ہی ہے۔ انسان سازی اور صرف انسان سازی۔ یہی وہ بات ہے جسے سمجھنے میں ہمارے مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔
ایک سوال دو جواب
پچھلے دنوں سیرت نبیﷺ کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریب میں گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ یہ تجارت کی اعلیٰ تعلیم کا ایک ادارہ تھا جہاں پڑھے لکھے لوگ موجود تھے۔ میرے ساتھ ایک عالم دین بھی بطور مقرر شریک تھے۔
تقاریر کے اختتام پر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک خاتون نے مختلف پہلوؤں سے اہل علم پر تنقید کرتے ہوئے ایک سخت سوال کیا۔ تنقید کا ایک پہلو یہ تھا کہ مسلمان اہل علم میں باہمی فرقہ وارانہ اختلاف کیوں ہیں؟ یہ سوال اس طالب علم کے ساتھ ان عالم دین سے بھی تھا۔ میں نے اس سوال کے جواب میں یہ توجہ دلائی کہ ہمارے ہاں پاپائیت کا کوئی نظام نہیں ہے جس میں در آنے والی کسی خرابی سے دین کی اصل تعلیم پر پردے پڑ جائیں۔ اصل دین قرآن وسنت میں محفوظ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وقفے وقفے سے ایسے اہل علم پیدا کرتے رہتے ہیں جو صحیح دین کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل اپنی تقریر میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ایمان و اخلاق کی اس تعلیم کا بھی بیان کر دیا تھا جو دنیا وآخرت میں مسلمانوں کی فلاح کی ضامن ہے۔لوگ اس کو اختیار کریں گے تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
میرے بعد جب ان عالم صاحب نے خاتون کے سوال کا جواب دیا۔ انھوں نے پورے اعتماد اور قوت سے کہا کہ علمائ میں کوئی فرقہ وارانہ اختلاف نہیں پایا جاتا۔ خاتون کے سوال کا دوسرا پہلو دہشت گردی کے حوالے سے تھا۔ اس کے حوالے سے بھی انھوں نے فرمایا کہ مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کی دہشت گردی کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ یہ غیر مسلم ہیں جن کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔
یہ سوال اور ان کے یہ دو الگ الگ جواب صرف اسی نشست کا معاملہ نہیں۔ پوری قوم کے سامنے اس ایک سوال کے یہی دو الگ الگ جواب آ رہے ہیں۔ پہلا جواب وہ ہے جس میں اپنی غلطی کو تسلیم کر کے یہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ اصل ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہمیں ان کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوٹنا چاہیے۔ دوسرا جواب وہ ہے جس میں یہ ماننے سے انکار کر دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں سے کوئی غلطی بھی ہورہی ہے۔ چنانچہ ایک ایسے دور میں جب ہر دینی مدرسہ الگ الگ فرقے کے علمائ تیار کر رہا ہے اور ہر مسجد کے دروازے پر فرقے کا نام نمایاں طور پر درج کیا جاتا ہے وہاں لوگ اطمینان سے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی فرقہ واریت نہیں ہے۔
یہی وہ سوچ ہے جس نے پاکستان میں ہونے والی مسلسل دہشت گردی پر یہ کہہ کر پردہ ڈالا کہ کوئی مسلمان یہ کام نہیں کرسکتا اور یہ غیر مسلموں کی کارستانی ہے۔ یہی وہ سوچ تھی جوعرصہ تک بدترین دہشت گردی کو اگر اور مگر کی ڈھال فراہم کرتی رہی اور غیر مسلموں کے ظلم کی آڑ میں اس کو جواز فراہم کرتی رہی۔
یہ دوقسم کے جوابات کسی فقہی مسئلے سے متعلق نہیں ہیں جن کا دنیا و آخرت کی فلاح سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ ایک انتہائی اہم سوال کے وہ دو مختلف جوابات ہیں جن کو اختیار کرنے پر ہماری دنیا اور آخرت موقوف ہے۔ مسلمان پہلے جواب کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل بنائیں گے تو ان میں اپنے احتساب کی نفسیات پیدا ہو گی۔ وہ اپنے ایمان کو بہتر بنائیں گے۔ اپنی اخلاقی غلطیوں کی اصلاح کریں گے۔ جس کے بعد ان پر خدا کی رحمت متوجہ ہو گی۔مگر بدقسمتی سے مسلمان مجموعی طور پر اس وقت دوسرے جواب کو قبول کیے ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمان فرقہ واریت کی زنجیر میں قید ہیں۔ ہم بدترین اخلاقی زوال کا شکار ہیں مگر ہمیں اس زوال کے خوفناک نتائج کا کوئی ادراک نہیں۔ ہم نرگسیت کے وہ مریض ہو چکے ہیں جسے خود میں ساری خوبیاں اور دوسروں میں ساری برائیاں نظر آتی ہیں۔ ہم غیر مسلموں کی نفرت کا شکار ہیں۔ حالانکہ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اسلام کا پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں۔
پچھلے چالیس برسوں میں ہمارے سامنے صرف ایک جواب ہی آیا تھا جسے دوسرے جواب کی شکل میں پیچھے بیان کیا گیا ہے۔ مگر اب ایک اور جواب پوری قوت سے سامنے آ گیا ہے۔ جب یہ متبادل جواب سامنے آجائے تو قوم کے پاس اپنی بدعملی کا عذر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قوم کی مہلت عمل ختم ہونے لگتی ہے۔ یہی معاملہ اب پاکستانی قوم کے ساتھ ہو چکا ہے۔ ان کے پاس دوسرا جواب آ گیا ہے۔ وہ اگر اب بھی عدم اعتراف، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی اسیر رہتی ہے، جذباتی گفتگو کے فریب میں آتی رہے گی تو مکمل تباہی سے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں بچا سکتی۔لیکن قوم نے اگر ایمان و اخلاق کی دعوت کو قبول کر لیا تو انشاء اللہ یہ قوم دنیا کی ایک عظیم قوم بن جائے گی۔ اب فیصلہ قوم کو کرنا ہے کہ اسے کیا دعوت قبول کرنی ہے اور کسے رد کرنا ہے۔