سوال : آپ اپنا تعارف کرائیں؟
جواب : میرا اسکول کا نام امت کمار تھا اور گھرمیں مجھے سب لوگ جگنو کے نام سے یاد کرتے تھے، کھتولی کے پاس ایک جگہ بھینسی ہے وہاں کا رہنے والا ہوں، میرے والد صاحب کا نام ڈاکٹر موہن کمار صاحب ہے اور ہم چار بہن بھائی ہیں،جن میں تین بھائی ہیں اور ایک بہن ہے۔
سوال : آپ کی تعلیم کیا ہے؟
جواب : میں نے ہائی اسکول کیا ہے۔
سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیں؟
جواب : احمدبھائی میں بچپن میں بہت شیطانی کیاکرتاتھا اور اسکول کا کام بھی وقت پر نہیں کرتا تھا اس لئے مجھے اپنا ہوم ورک پورا کرنے کے لئے اپنے دوستوں سے کاپی لینی پڑتی تھی،ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میں نے اسکول کا کام پورا نہیں کیاجس کی وجہ سے میں اپنے ایک اسکول کے ساتھی،شاید ان کا نام مستقیم ہے، کے پاس گیا،وہ گھر پر نہیں تھے، ان کے گھر والوں نے بتایا کہ وہ مسجد میں ہیں،میں ان کے پاس مسجد میں پہنچا تو انھوں نے مجھے کہا کہ تم مسجد میں کیسے آگئے تم ناپاک ہو،باہر نکلو۔میں کہنے لگا کہ تم سے اچھے اور صاف کپڑے پہن رکھے ہیں تو ناپاک کیسے،وہ کہنے لگے نہیں تم ناپاک ہو،باہر نکل جاؤ۔مجھے ان پر بہت غصہ آیا وہ قرآن شریف پڑھ رہے تھے،میں نے کہا تجھ سے اسکول کی چھوٹی چھوٹی کتابیں تو پڑھی نہیں جاتیں اتنی موٹی کتاب لے کر بیٹھا ہے ،وہ کہنے لگے یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کے بارے میں مجھے سمجھا نے لگے۔ مجھے ان پر غصہ تو بہت تھالیکن کاپی لینی تھی،اس لئے کچھ نہ کہا اور کاپی لے کر گھر چلا آیا۔ اگلے دن تین چار لڑکوں کو لے کر ان کا گریبان پکڑ لیاکہ چودھری ہونے کے باوجود تیری ہمت کیسے ہوئی مجھے مسجد سے باہر نکالنے کی،تیرے باپ کی مسجد ہے،تو ہمارے مندر میں چل،اگر تجھے کسی نے بھگایا یاکچھ کہا تو ہم دیکھیں گے ۔وہ کہنے لگے کہ بھائی یہ اللہ کا گھر ہے اور اس میں ناپاک آدمی نہیں جاتے ۔اس نے مجھ سے کہا کہ تم مندر میں کیا پڑھتے ہو،تو میں نے اس کو اشلوک پڑھ کر سنایا ۔پھر میں نے اس سے پوچھا تو بتا تو کیا پڑھ رہا تھا،وہ کہنے لگا، وہ اللہ کاکلام تھا،تیری سمجھ میں نہیں آئے گا ۔اس کو دل سے پڑھتے ہیں تو فائدہ ہو تا ہے،پھراس نے مجھے کلمہ پڑھوادیا،احمد بھائی مجھے ایسا لگا جیسے کوئی نور میرے اندر داخل ہو گیاہو۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : اس کے بعد میں نے پیکٹ انٹر کالج کھتولی میں ایڈمیشن لیا،وہاں پر جمعہ کے دن نماز کے لئے کلاس میں اعلان کیا جا تا تھاکہ جو لوگ جمعہ کی نماز پڑھناچاہتے ہیں ہاتھ اٹھائیں،جو اسٹوڈنٹ ہاتھ اٹھاتے تھے،ان کی چٹھی کردی جاتی تھی ۔میں بھی اپنا سر نیچا کرکے ہاتھ اٹھادیتا تھا اور باہر جاکر ادھر ادھر گھومتا تھا۔ایک مرتبہ جب جمعہ کی نماز کی چھٹی لے کر باہر نکلا تو میرے مسلمان ساتھیوں نے کہا تم نماز کی ہر بار چھٹی لیتے ہو اور نماز نہیں پڑھتے اس لئے وہ جمعہ کی نمازپڑھانے کے لئے مجھے ساتھ لے گئے اور انھوں نے مجھے نیت وغیرہ باندھنی سکھائی ۔
سوال : پھر کیا ہوا؟
جواب : اسکے بعد میں جین انٹر کالج مظفر نگر چلا گیا،وہاں پر کھالہ پارایک جگہ ہے،میں لسی پینے کے لئے جایاکرتا تھا وہاں پر ایک صاحب مجھ سے کہا کرتے، یار تو اتنا تو خوب صورت ہے لیکن تو آگ میں جلے گا۔ میں نے کہا میں کیوں آگ میں جلوں گا ؟ وہ کہنے لگے،سوا نیزہ پر سورج ہوگا،وہاں لوگوں کی کھوپڑیاں پکتی ہوئی ہوں گی،لیکن اس شخص کی نہیں پکیں گی جو ایمان والا ہوگا،وہ مجھے بہت سمجھایا کرتے اور میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے لیکن میں نے ان کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔لیکن جب میں کھتولی میں بڈھانہ روڈ پرنوزل پلنجر کا کام کرنے لگا، تو میری وہاں انعام بھائی سے ملاقات ہو ئی، انھوں نے مجھے اسلام کی دعوت دی اور مجھے مولانا شکیل صاحب کے پاس بھاؤڑی لے جاکر کلمہ پڑھوایا پھراس کے بعد میں مسلسل نماز پڑھنے لگا۔
سوال : آپ پھلت میں کئی سال سے نظر آتے ہیں، یہاں آپ کو کس نے بھیجا؟
جواب :ہاں احمد بھائی،کھتولی میں ریاض الدین صاحب ہیں وہ مجھ سے کہنے لگے کہ عبد الرحمن کام وغیرہ تو چلتا ہی رہتا ہے، ہر آدمی کام سیکھ بھی لیتا ہے،لیکن سب سے پہلے آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ اسلام کوسیکھیں ،سمجھیں اورجانیں اور اس پر عمل کریں۔میں نے کہا بہت اچھا،پھر انھوں نے مجھے سیکھنے کے لئے پھلت بھیج دیا ۔
سوال : اچھا آپ نے اسلام کب قبول کیا ؟
جواب : اسلام تو میں نے پیر کے روز ۱۴؍ جنوری ۱۹۹۱ء میں قبول کیا تھا،لیکن چودہ سال تک میں نے کچھ نہ سیکھا اور اسی طرح گھومتا رہا،لیکن جب سے ابی کے پاس آیا ہوں،الحمد للہ میں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔
سوال : ابی سے آپ کی کیسے ملاقات ہوئی اور کب ہوئی ؟
جواب : تین سال پہلے میری ابی سے ملاقات ہوئی،احمدبھائی،میں پھلت میں ایک صاحب کے یہاں رہتا تھا،ان کے سا تھ میری ان بن ہو گئی،تو میں ان کے پاس سے گھر چلا گیا ۔ گھر جانے کا میرا مقصد کچھ اور تھا لیکن لوگوں نے افواہ پھیلا دی کہ عبد الرحمن مرتدہوگیاجب کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔جب میراکام ہو گیا تو میں پھلت ابی کے پاس آیا اس وقت میں بہت جنون میں تھااور ہتھیاروں سے لیس بھی تھا اور پھلت میں میرے آنے کا مقصد یہی تھاکہ میں ان کے گولی مار دوں ، لیکن میری یہ بات ابی کو میرے کسی ساتھی کے ذریعہ معلوم ہو گئی انھوں نے مجھے سمجھایا اور آپ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی قربانی کا میرے سامنے تذکرہ کیا،تو میں نے صبر کیا اور جب سے میں ابی کے پاس آیا ہوں تب سے میری زندگی میں سکون ہے۔
سوال : اسلام کے بارے میں آپ نے اب تک جو کچھ جانا، اس کاذریعہ کیاہے؟
جواب : لوگوں نے مجھ سے یہی سوال کیا ہے کہ آپ کو کس چیز نے متأثرکیا؟میں لوگوں سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ مذہب اسلام کے اندر کون سی چیز ایسی ہے جو متأثر نہیں کرتی ۔مثال کے طور پر سنت کے مطابق لباس،چہرہ پر داڑھی کا ہونا،پانچ وقت کی نماز کا پڑھنا اورکم درجہ میں غیر ایمان والوں کے ساتھ اپنے معاملات جس کوکہ معاشرہ کادین کہاجا تا ہے اور ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا یہ سب سے اچھا لگا کہ ان میں برادری بازی نہیں ہوتی جب کہ ایک ماں باپ کی اولاد اور ایک گھر کے پلے ہوئے ایک دوسرے کا جھوٹا پانی تک نہیں پیتے تھے۔ خود میرے والد بھی میرے جھوٹے گلاس میں پانی تک نہیں پیتے تھے اور نہ میں ان کے گلاس میں پیتا تھا۔ یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں اور متأثر کرنے والی ہیں، انھیں کو دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا۔
سوال : میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ اسلام کے بارے میں ابھی تک جو باتیں آپ نے سیکھی ہیں وہ کس سے یا کہاں سے سیکھی ہیں ،اس کا کیا ذریعہ رہا ہے؟
جواب : اس کا ذریعہ یہ ہوا کہ حضرت نے مجھے جماعت میں بھیجاوہاں جاکر میں نے نماز وغیرہ ٹھیک سے سیکھی اور اسلام کے بارے میں بہت کچھ جانا اور الحمد للہ تین چلے میں جماعت میں لگا چکا ہوں اور آج اگر انسانیت میرے اند ر ہے تو وہ صرف ابی کی وجہ سے ہے ۔ابی نے مجھے ایسی باتیں بتائیں کہ میں اسلام کو کافی حد تک سمجھتا ہوں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتاہوں۔
سوال : آج کل آپ کیا کررہے ہیں؟
جواب : میں نے حکمت سیکھی ہے اور مطب کھولنا چاہتا ہوں۔
سوال : حکمت کی طرف آپ کا کیسے رجحان ہوا ؟
جواب : احمد بھائی ! ابی نے مجھ سے کہا کہ عبد الرحمن کچھ کام کرلو خالی رہنا اچھی بات نہیں ہے۔ میں نے ابی سے کہاکہ میں ڈرائیونگ سیکھنا چاہتا ہوں وہ کہنے لگے یہ کوئی کام تو ہے نہیں،میں نے کہا کہ مدرسہ میں کینٹین کھول لیتا ہوں، ابی کہنے لگے کہ میں کہیں رشتہ لے کر جاؤں گا وہ کہیں گے کہ لڑکا کیا کام کرتا ہے تو ان کو بتانا پڑے گا کہ چائے کی دوکان کرتا ہے اور گلاس دھوتا ہے،کوئی ایسا کام کرو،جس سے ہمیں بھی خوشی ہو،تو میں نے کہا اگر آپ کی اجازت ہو تو میں حکمت سیکھنا چاہتا ہوں۔ ابی نے مجھے اسی دن دیوبند حکیم آصف کے پاس بھیج دیا، وہاں پر کچھ دن میں نے حکمت سیکھی،اس کے بعد ڈاکٹر نذر الاسلام نے مجھے کام سکھایا،ایک سال کے بعد ابی نے مجھے حکیم جمیل کے پاس روڑکی بھیج دیا،میں وہاں سے ایک سال کے بعد لوٹ کر آیا ہوں اور اب یہ ارادہ ہے کہ انشاء اللہ قوم کو نفع پہنچانا ہے۔
سوال : آپ کی اپنے والدین سے ملاقات ہے؟
جواب : ہا ں احمد بھائی میں ان کے پاس گیا تھا تو انھوں نے مجھے سمجھایا کہ اپنے مذہب میں آجاؤ،کہا ں ان ملاؤں کے چکر میں پڑگئے ۔میں نے کہا میں ملاؤں کے چکر میں نہیں ہوں بلکہ ایک سچے مذہب کو مانتا ہوں اور آپ کو بھی کہتا ہوں کہ اسلام قبول کرلیجئے ۔ایک روز گھر پر دودھ نکال رہا تھا،میری سوتیلی ماں ہے،جس کے برے برتاؤ کی وجہ سے میں نے گھر چھوڑا تھا اور اسلام کی طرف راغب ہوا تھا اگر وہ نہ ہوتی تو شاید ہی میں اسلام قبول کرتا۔اس طرح اس کا مجھ پر بڑااحسان ہے،کہنے لگی کہ واپس آجاؤ ابھی بھی موقع ہے،میں نے اس سے کہا یہ دودھ جو میں نے بھینس کے تھن سے نکالا ہے،جیسے اس کو واپس تھن میں نہیں ڈالا جا سکتا ویسے ہی میں اسلام کو چھوڑ کر واپس نہیں آسکتا۔اس سائنسی دور میں تو اس دودھ کو واپس تھن میں ڈالنے کے بارے میں سوچا بھی جا سکتا ہے،لیکن میرے واپس آنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں،اس کے بعد گھر والوں نے سوچا کہ یہ تو مانے گا نہیں،اس کا کام تمام کردیں،نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔یہ بات مجھے میری چھوٹی بہن نے بتائی کہ گھر والوں کایہ پروگرام ہے،اس لئے یہاں سے بھاگ جاؤ۔میں رات کو ہی گھر سے نکل گیا،گھر والے میرا پیچھا کرتے ہوئے آگئے،مجھے آیت الکرسی یاد تھی میں نے پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا اور ایک جگہ چھپ کر کھڑا ہوگیا، احمد بھائی وہ میرے پاس سے کئی مرتبہ گزرے لیکن مجھے دیکھ نہیں پائے۔ اس کے بعد وہ واپس چلے گئے،میں نے صبح ان کوفون کیا تو کہنے لگے،اس بار تو بچ گیا،اگلی مرتبہ نہیں چھوڑیں گے۔
سوال : اس کے بعد آپ کی ان سے کبھی ملاقات ہوئی؟
جواب : نہیں احمد بھائی،ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی،کیونکہ وہ غازی آباد میں شفٹ ہو گئے ہیں،لیکن ایک مرتبہ والد صاحب کو دور سے کھتولی میں دیکھا تھا ۔
سوال : کیا آپ نے والدہ کو دعوت نہیں دی؟
جواب : دعوت تو دی اور ایک مرتبہ تو وہ اسلام قبول کرنے کو راضی بھی ہو گئی تھیں اور وہ اسلام کو سمجھنے کے لئے پھلت بھی آگئی تھیں لیکن جہاں میں پہلے رہتا تھا وہ میری والدہ سے بات کر رہے تھے لیکن شاید اس وقت ہدایت ان کے نصیب میں نہیں تھی، ان کے پاس ایک نیتا جی آگئے اور وہ میری والدہ کو چھوڑکرچلے گئے، میری والدہ نے دوگھنٹے تک انتظار کیا لیکن وہ نہیں آئے،میں نے ان کا خوب خیال رکھااور ان کی خدمت بھی کی،لیکن وہ بدظن ہوکر چلی گئیں اور اس کے بعد مجھ سے فون پر بھی بات نہیں کی ۔لیکن آج کل میری والد صاحب پر کوشش چل رہی ہے،والد صاحب نے گنگوہ میں کلینک کررکھی ہے میں ابھی جماعت میں گیا تھا تو ہماری جماعت کے امیر صاحب گنگوہ ہی کے تھے میں نے ان سے بات کی،آج کل وہ والد صاحب پر کام کر رہے ہیں۔
سوال : اسلام قبول کرنے کے بعد کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب : بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا،جن میں سب سے زیادہ مشکل یہ ہے کہ میرے گھر پر بہت ساری بھینس وغیرہ تھیں لیکن میں نے کبھی ان کا گوبر نہیں اٹھایا گھر چھوڑنے کے بعد مجھے یہ سب کام کرنے پڑے،جھیلنا پڑا،یہاں تک کہ میں نے مزدوری بھی کی ۔
سوال : اور کوئی زندگی کا اچھا سا واقعہ سنائیے؟
جواب : نظام الدین سے کولہا پور جماعت جا رہی تھی، اس میں شریک تھا،سفر میں نکلنے سے پہلے کچھ ہمیں سفر کے آداب بتائے گئے اور یہ بھی بتایا گیا کہ سفر میں جو بھی دعا مانگی جاتی ہے قبول ہوتی ہے،ہم ٹرین میں بیٹھے تومجھے ان کی یہ بات یاد آئی،میرے پیر میں زخم تھا میں نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اے اللہ تیرا نیک بندہ ہمیں یہ بات بتا رہا تھاکہ سفر میں جو دعا مانگی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے میں بہت گناہگار ہوں،میری بھی دعا قبول فرمالے، میرے پیر میں جو زخم ہے اس کو ٹھیک کر دے، احمد بھائی کولہا پور اسٹیشن سے پہلے پہلے میرا یہ زخم بالکل ٹھیک ہو گیا، آج جو بھی میں اللہ سے مانگتا ہو ں الحمد للہ ملتا ہے۔
سوال : قارئین ارمغان کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب : مسلمان بھائیوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ خود بھی دین پر رہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ےَااَےُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوْا آمِنُوْا ‘‘اے ایمان والو ایمان لے آؤ’’ میں سترہ سال پہلے جو بات ایمان والوں کے اندر دیکھتا تھا وہ اب نظر نہیں آتی،مجھے جن لوگوں نے اسلام کی دعوت دی تھی آج میں ان کو دیکھتا ہوں کہ وہ نماز تک نہیں پڑھتے،میں نے ان سے کہاکہ تم نے مجھے یہاں تک پہنچایا اور خود کہاں پہنچ گئے۔ ایمان کے اند ر پورے کے پورے داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسول کی سنت اور اللہ کے حکم کے تابع ہو جائیں اور دوسروں کو دین پر چلنے کی دعوت دیں،اس سے بڑا اللہ نے ہمیں کوئی کام نہیں دیا،باقی سب تو اخراجات پوری کرنے کی بات ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ کفر کا نام اس دنیا سے ختم ہو جائے گا اور ہر طرف اسلا م ہی اسلام نظر آنے لگے گامستفاد از ماہنامہ ارمغان،اپریل ۲۰۰۸ء