یکم جنوری کو میرا امتحان تھا۔ البتہ ایک قریبی دوست سے ملاقات کرنے کی وجہ سے تھوڑا لیٹ ہورہا تھا۔ اس لیے یونیورسٹی جاتے ہوئے بائیک لا محالہ تیز چلانا تھی۔ راستے میں ایک جگہ موڑ کاٹا ہی تھا کہ سامنے چلنے والے لوگوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ وہ مجھے دیکھ کر تتر بتر ہوگئے اور بڑی مشکل سے میر ی بائیک کی کاری ضرب سے بچ پائے۔ ان کی نگاہیں بتارہی تھیں کہ وہ دل ہی دل میں مجھے برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن میں امتحان میں لیٹ ہونے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ چنانچہ انہیں اسی غم و غصے کے عالم چھوڑ کر چلتا بنا۔امتحان دینے کے بعد میں گھر پہنچا تو دوبارہ وہی واقعہ ذہن میں آگیا۔ پھر دماغ میں اچانک ایک ایسا ہی واقعہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل مارچ کرتے ہوئے جارہا تھا۔ اچانک ایک اسکوٹر سوار انکل ہم سے ٹکراتے ٹکراتے بچے۔ہم سب نے نہ صرف انہیں نگاہوں سے شرمندہ کرنے کی کوشش کی بلکہ بڑبڑاہٹ سے احسا س بھی دلایا لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ ہمیں دیکھے بغیر منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہوگئے۔میں نے سوچا کہ دونوں واقعات کی نوعیت ایک جیسی ہونے کے باوجود میرا اسٹینڈ مختلف تھا۔ پہلے واقعے میں غلطی میری تھی لیکن میں نے اپنے امتحان کا بہانہ کرتے ہوئے خود کو معصوم قراردے دیا۔ دوسرے کیس میں غلطی ان صاحب کی تھی اور میں نے ان کی غلطی پر بھرپور کلاس لی اور کوئی مارجن نہیں دیا۔ یہ دہرا معیار نہایت ہی خطرناک لگا۔ پھر مجھے قرآن کی ایک آیت یاد آگئی۔
"تباہی ہے ان کم تولنے والوں کے لئے۔ ایسے لوگ جب خود ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔ اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔ (سورہ المطففین)
میں یوں محسوس کرنے لگا کہ شاید یہ آیت میرے ہی لئے اتری ہو۔ میر ی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے لیکن یہ ندامت کے آنسو نہیں بلکہ اعتراف کے موتی تھے۔ پھر میں نے عہد کرلیا کہ آئندہ میں دوہرا معیار اختیار نہیں کروں گااور جو اپنے لئے پسند کروں گا وہی اپنے بھائی کے لئے بھی چاہوں گا۔