اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اسے شامل اشاعت کیا جا رہا ہے ۔ ادارے کو باوجود کوشش کے اس کے مصنف کانام معلوم نہ ہوسکا۔ا س کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔
کینز کو دنیا کا نمایاں ترین ماہر معیشت سمجھا جاتا ہے اس نے investment multiplier کے نام سے ایک نظریہ پیش کیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ حکومت یا عام آدمی جب اپنی جیب سے چند روپے نکالتا ہے تو معیشت کا پہیہ حرکت میں آجاتا ہے۔ ان چند روپوں کا فائدہ پورے معاشرے اور پوری معیشت تک پہنچتا ہے۔ کینز کے اس نظریے کو مغربی نظریہ ‘‘ویلفیئر اسٹیٹ’’ کی بنیاد بنایا گیا۔
اس نظریے کو سامنے رکھیں تو عیدالاضحی بہت بڑا investment multiplier ہے۔ جس کی برکت سے ایک دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ سرمایہ کاری کا ایسا چکر ہے جس میں سراسر فائدہ غریب کا ہی ہے۔
آئیے خالص بزنس کے تناظر میں اسکا جائزہ لیتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر فارمنگ انڈسٹری تیزی سے بڑھتی ہے۔ اس کے بعد کیٹل انڈسٹری کو عروج ملتا ہے۔ پھر لیدر انڈسٹری کا پہیہ حرکت میں آجاتا ہے۔ یہ تین انڈسٹریز تو براہ راست اس سے متحرک ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار انڈسٹریز کو اس موقع پر فائدہ پہنچتا ہے۔ اسلامی ممالک میں ابھی انڈسٹریز کو اتنا فروغ حاصل نہیں ہوا۔ ورنہ ان جانوروں کی اون، ہڈیوں، چربی اور انتڑیوں سے ایسے ایسے بزنس وجود میں آسکتے ہیں، جن سے لاکھوں افراد کو مزید روزگار میسر آسکتا ہے۔یقین جانیے جانوروں کی باقیات پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ان سے واٹر پروفنگ، آگ سلگانے، موم بتی بنانے، صابن اور کاسمیٹکس بنانے سے لے کر مختلف اجزاء میں ڈھالنے تک ہزاروں پروڈکٹس بنائی جاسکتی ہیں۔مگر ابھی توجہ نہیں دی جارہی۔
آپ نے مشہور مقولہ سنا ہوگا: ‘‘ہمیں ایڈ نہیں، ٹریڈ چاہیے‘‘۔ غریبوں کو بھی امداد نہیں، باعزت روزگار چاہیے۔
قربانی کے جانور کون پالتا ہے؟ ان جانوروں کے چارے کا بندو بست کون کرتا ہے؟ سال بھر ان کی پرورش کا بکھیڑا کون پالتا ہے؟ مانتے ہیں کہ اب بڑے بڑے کاروباری گروپس بھی اس بزنس میں آگئے ہیں، مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ غریبوں کی آمدنی کا اس سے بڑا کوئی ذریعہ ہے؟ کوئی ایسا عالمگیر ایونٹ نہیں، جس میں بے کس، نادار اور بے سہارا و بے آسرا افراد کو اتنے بڑے پیمانے پر روزگار مل رہا ہو۔ ہم بڑے دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر کراچی میں 30 ارب کے جانور بکتے ہیں تو اس کا بڑا حصہ غریبوں کی ہی جیب میں جاتا ہے۔ اگر کچھ بڑے کاروباری گروپس اس بزنس میں آئے بھی ہیں تو بھی پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے لاکھوں غریب اور پس ماندہ افراد ہی ان جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
ایک لمحے کو تصور کی آنکھ کھولیے۔ دیکھئے! قربانی کا ایک جانور، پوری معیشت کا پہیہ گھما دیتا ہے۔ گندم کا ایک دانہ اپنے ساتھ کم ازکم 150لوگوں کا رزق لے کر اگتا ہے تو ایک بکرا یا بیل اپنے ساتھ سیکڑوں افراد کا رزق لیے پیدا ہوتا ہے۔ ٹھہریے! بات بہت سادہ ہے۔ جب ایک غریب بکرے کو پالتا ہے تو اس کا چارا خریدنے دکان پر جاتا ہے۔ دکاندار وہ چارہ کسی ایجنٹ سے خریدتا ہے۔ ایجنٹ، کسی کسان سے چارہ حاصل کرتا ہے۔ جانور بیمار ہوتو ڈاکٹر کو فیس دی جاتی ہے۔ پھر دوا خریدی جاتی ہے۔ جانور کو مویشی منڈی لاتے ہوئے ٹرک مالکان کا حصہ نکلنا شروع ہوتا ہے۔ پھر کرایہ پر جگہ خریدی جاتی ہے۔ کیمپ لگایا جاتا ہے، ڈیکوریشن اور چارہ پانی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ رسی، کیل کانٹے اور لکڑی کی صنعت میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ دیکھنے والے دور و نزدیک سے آتے ہیں۔ ان کے آنے سے دکانیں آباد، پیٹرول پمپس پہ رش اور فوڈ سینٹرز پہ کھوے سے کھوے چھلتا ہے۔ صرف ماسک فروخت کرنے والے بچوں کا ہی اندازہ لگائیں۔ جب جانور بکتا ہے تو پھرتجارت کے اس رحمانی دائرے کا بابرکت سفرعروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ایک غریب خوش حال ہوجاتا ہے۔ سوزوکی یا مزدہ والے کو اس کا حصہ ملتا ہے۔ بکرا گھر آتا ہے تو بہت سے چہروں پر خوشی کھلکھلانے لگتی ہے۔ چارہ، دانہ دنکا اور خانساماں، رزق پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ اب عید کا دن آتا ہے۔ قصائی پہنچا، کھال اتری اور بکی۔ پوری لیدر انڈسٹری اس دن کی منتظر ہوتی ہے۔ کھال مدرسہ اور رفاہی ادارہ تک پہنچی۔ وہاں سے بک کر انڈسٹری میں پہنچی۔ صرف عید کے تین دنوں میں لیدر انڈسٹری کو اپنا 30 فیصد خام مال مل جاتا ہے۔ گوشت کٹا اور تقسیم ہوا۔ جس شخص کو سال بھر گوشت نصیب نہ ہوتا ہو، آج کے دن اس کو بھی مل جاتا ہے۔ نجانے کتنے
ایسے لوگ ہیں جو اس موقع پر غذائیت سے بھرپور گوشت جی بھر کے کھاتے ہیں۔ سال کے 360دن وہ اسی انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ اگلی عیدالاضحی کب آئے گی؟ یہ تو براہ راست فائدہ اٹھانے والے افراد ہیں۔ ورنہ بالواسطہ اور واسطہ در واسطہ یہ ایک اسلامی تہوار پوری دنیا کی معیشت میں ہلچل بپا کردیتا ہے۔