پہلے کچھ تاریخی حقائق یاد دلاؤں:
جولائی 1948ء میں سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سٹیٹ بینک کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اسلامی اصولوں پر نظامِ معیشت کھڑا کرنے کےلیے کام کرے کیونکہ دنیا نے دیکھ لیا کہ مغربی اصولِ معیشت سے تباہی کے سوا کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔
مارچ 1949ء میں آئین ساز اسمبلی نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خد و خال طے کرکے "قراردادِ مقاصد" منظور کرلی اور اس میں قرار دیا کہ پاکستان میں تمام ریاستی اختیارات اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے عوامی نمائندوں کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے۔
مارچ 1956ء میں پہلے آئین میں یہ وعدہ کیا گیا کہ موجودہ تمام قوانین سے وہ امور دور کردیے جائیں گے جو اسلامی احکام سے متصادم ہوں، اور آئندہ اسلامی احکام سے متصادم قانون نہیں بنایا جائے گا۔
اکتوبر 1958ء میں یہ آئین معطل کیا گیا، لیکن اس کی اسلامی دفعات (مذکورہ دو وعدوں سمیت) برقرار رکھی گئیں۔
جون 1962ء میں نیا آئین دیا گیا اور اس میں بھی یہ دو وعدے دہرائے گئے۔
1962ء کے آئین کے تحت "اسلامی نظریے کی مشاورتی کونسل" کی تشکیل کی گئی اور اسے یہ ذمہ داری دی گئی کہ مذکورہ دو وعدوں کی تکمیل میں مقننہ کی مدد کرے۔
اپنی تشکیل کی ابتدا سے جن امور پر کونسل نے خصوصی توجہ دی، ان میں ایک "ربا" کے مفہوم کا تعین تھا اور یہ کہ کیا "سود" ربا کے مفہوم میں شامل ہے یا نہیں؟
1969ء میں دوسرا آئین بھی معطل کیا گیا، لیکن اسلامی دفعات برقرار رکھی گئیں۔
1970ء میں ملکی نظام چلانے کےلیے نیا لیگل فریم ورک آرڈر دیا گیا اور اس میں بھی آئین کی اسلامی دفعات برقرار رکھی گئیں۔
ملک کی تقسیم کے بعد 1972ء میں ملک کو نیا عبوری آئین دیا گیا اور اس میں بھی اسلامی دفعات برقرار رکھی گئیں۔
اگست 1973ء میں ملک کو تیسرا آئین دیا گیا اور اس میں بھی نہ صرف مذکورہ اسلامی دفعات برقرار رکھی گئیں، بلکہ تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کےلیے مدت کا تعین بھی کیا گیا اور طے پایا کہ 1982ء تک تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے گا۔ اس کام کےلیے اسلامی نظریاتی کونسل کو پانچ سال میں اپنی حتمی رپورٹ دینے کی ذمہ داری دی گئی۔
1977ء میں آئین پھر معطل کردیا گیا لیکن اسلامی دفعات برقرار رکھی گئیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیلِ نو بھی کی گئی اور اسے قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کےلیے فعال کردار ادا کرنے کا کہا گیا۔
1979ء میں ہر ہائی کورٹ میں "شریعت بنچ" قائم کی گئی جسے یہ اختیار دیا گیا کہ اگر کسی قانون کے متعلق وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ اسلامی احکام سے متصادم ہے، تو تصادم کی حد تک وہ قانون کالعدم ہوجائے گا۔
1980ء میں ہائی کورٹس کی شریعت بنچز ختم کرکے ان کی جگہ ایک مرکزی عدالت بعنوان "وفاقی شرعی عدالت" قائم کی گئی اور اسے یہی اختیار دیا گیا، البتہ "مالیاتی امور سے متعلق قوانین" کو اس کے دائرۂ اختیار سے 2 سال کےلیے باہر کیا گیا۔ بعد میں اس مدت میں مزید 3 سال کا اضافہ کیا گیا۔ پھر 1985ء میں آٹھویں آئینی ترمیم کے وقت اس مدت میں مزید 5 سال کا اضافہ کیا گیا۔ یوں 10 سال کےلیے مالیاتی امور سے متعلق قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے اختیار سے نکال لیا گیا۔
کہا یہ گیا کہ اس عبوری مدت میں ربا کے خاتمے کےلیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کی کئی رپورٹس اس عرصے میں آئیں، بینکاروں، ماہرینِ معیشت اور اسلامی قانون کے ماہرین کا پینل بنا کر غیر سودی ماڈل بنانے کی طرف پیش رفت ہوئی، بینکوں میں نفع و نقصان میں شراکت کے کھاتے کھول لیے گئے، مضاربہ کا سلسلہ شروع کیا گیا، اور اسی طرح کے چند نمائشی اقدامات اٹھائے گئے، تا آں کہ 10 سال کی مدت پوری ہوگئی۔
1990ء تک تو یہ جنگ عدالت سے باہر لڑی گئی، لیکن جب 10 سال کی وہ مدت پوری ہوگئی جس میں وفاقی شرعی عدالت مالیاتی امور سے متعلق قوانین پر فیصلہ نہیں دے سکتی تھی، تو کئی لوگوں نے مختلف ایسے قوانین کو، جن میں سود کو تحفظ دیا گیا تھا، اس عدالت میں چیلنج کیا۔
تفصیلی بحث کے بعد بالآخر نومبر 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ سود ربا کے مفہوم میں داخل ہے اور اس وجہ سے ایسے تمام قوانین جن میں سود کو تحفظ دیا گیا ہے، اسلامی احکام سے متصادم ہیں۔ چنانچہ اسلامی احکام سے تصادم کی بنیاد پر ان قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا، اور حکومت کو ان قوانین کے تبدیل کرنے کےلیے وقت دیا گیا اور قرار دیا گیا کہ اس مدت میں ان قوانین کو تبدیل نہیں کیا گیا، تو مدت گزرنے پر یہ از خود منسوخ ہوجائیں گے۔
حکومت نے ایک مرتبہ پھر پرانی تکنیک پر عمل کیا۔ چنانچہ ایک جانب اس نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے نفاذ کو روکنے کےلیے اس کے خلاف سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کردی اور دوسری جانب "معیشت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کےلیے کمیشن" کے قیام کا اعلان کیا۔ یہی وہ دور ہے جب پاکستان میں اسلامی" بینکاری کو فروغ دیا جانے لگا۔
تقریباً ساڑھے سات سال بعد جب 1999ء میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نے مقدمے کی سماعت شروع کی، تو حکومت نے درخواست دائر کی کہ وہ اپیل واپس لے کر وفاقی شرعی عدالت سے نظرِ ثانی کروانا چاہتی ہے! (یہ کیا چال تھی؟ اسے سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔) سپریم کورٹ نے یہ درخواست مسترد کردی اور کہا کہ جو بھی سوال یا اعتراض کرنا ہے، یا توضیح کرنی ہے، سپریم کورٹ میں ہی کریں۔ اس کے بعد حکومت نے اس بنچ میں شامل ایک جج کو الیکشن کمشنر بنادیا جس کی وجہ سے بنچ کچھ عرصے کےلیے ٹوٹ گیا، لیکن بالآخر بنچ نے اس کیس کی سماعت شروع کردی۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے تقریباً 8 سال اور 1 مہینے بعد دسمبر 1999ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور اس نے بھی یہ قرار دیا کہ سود ربا کے مفہوم میں داخل ہے اور ایسے تمام قوانین جو سود کو تحفظ دیتے ہیں اسلامی احکام سے متصادم ہیں۔ اس بار عدالت نے حکومت کو ڈیڑھ سال کا وقت دیا اور قرار دیا کہ جون 2001ء تک یہ قوانین تبدیل نہیں کیے گئے، تو یہ از خود ختم ہوجائیں گے۔
جون 2001ء میں حکومت نے ان قوانین کو تبدیل کرنے کےلیے مزید وقت مانگا، تو اسے ایک سال کا مزید وقت دیا گیا، اور یوں عبوری مدت میں جون 2002ء تک توسیع کردی گئی۔
جون 2002ء سے قبل حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز ہی تبدیل کرلیے۔ سود کے خلاف فیصلہ دینے والے دو سینیئر ججز جسٹس وجیہ الدین احمد اور جسٹس خلیل الرحمان خاں کو پی سی او کے تحت حلف نہ لینے کی بنا پر سپریم کورٹ سے فارغ کردیا گیا۔ عالم جج مولانا تقی عثمانی کا کنٹریکٹ ختم ہوا، تو اس میں توسیع نہیں کی گئی۔ یوں چار ججز میں صرف ایک جسٹس منیر اے شیخ ہی رہ گئے۔ ان کے ساتھ دو دیگر ججز اور دو نئے عالم ججز کو ملا کر کیس ان کے سامنے رکھ دیا۔
چنانچہ اس نئے بنچ نے یونائیٹڈبینک کی جانب سے دائر کردہ نظرِ ثانی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے اپنے 1999ء کے فیصلے اور وفاقی شرعی عدالت کے 1991ء کے فیصلے کو کالعدم کردیا اور کیس واپس وفاقی شرعی عدالت کی طرف از سرِ نو سماعت کےلیے بھیج دیا۔
جون 2002ء سے اپریل 2022ء تک تقریباً 20 سال یہ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں لٹکا رہا اور بالآخر وہاں سے فیصلہ آیا جس میں پھر قرار دیا گیا کہ سود ربا کے مفہوم میں داخل ہے اور اس وجہ سے سود کو تحفظ دینے والے قوانین اسلامی احکام سے متصادم ہیں۔
اب پھر حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کردی ہے۔
اس تاریخی جائزے کے بعد اس سوال پر آئیے کہ سٹیٹ بینک اور دیگر چار بینکوں نے اب کیا چال چلی ہے؟
ہمارے ایک محبوب صاحب علم نے سٹیٹ بینک کی پریس ریلیز شیئر کرکے فرمایا کہ یہ تو صرف چند امور کی توضیح کےلیے سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کےلیے گئے ہیں۔ میں نے اس پر عرض کیا:
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے، اے خدا!
سوال یہ ہے کہ وہ امور کیا ہیں جن کی توضیح سٹیٹ بینک سپریم کورٹ سے مانگ رہا ہے؟ ذرا اپیل کے مندرجات تو ملاحظہ کیجیے
اور جو استدعا کی گئی ہے، اس پر تو غور کیجیے۔ دیگر امور کے علاوہ اس میں ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ سود کا ذکر آئین کی بعض دفعات میں بھی آتا ہے اور چونکہ آئین کا جائزہ وفاقی شرعی عدالت نہیں لے سکتی، اس لیے یہ سارا مقدمہ ہی سرے سے اس کے اختیار سماعت سے باہر تھا۔ کچھ سمجھ میں آیا کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں؟ وہ اس مقدمے کو جڑ سے ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سوال پر شرعی عدالت تفصیلی بحث کرچکی ہے، خصوصاً دیکھیے چیف جسٹس مسکان زئی کا اضافی نوٹ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس توضیح کےلیے سپریم کورٹ میں ہی اپیل کیوں دائر کی گئی؟ شرعی عدالت میں ہی نظر ثانی کی درخواست کیوں دائر نہیں کی گئی؟ اس سوال پر غور کریں گے، تو اصل چال سمجھ میں آجائے گی۔
اگر شرعی عدالت میں ہی نظر ثانی کی درخواست دائر کی جاتی، تو ایک تو نظر ثانی کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے اور اس میں کوئی نئی بحث نہیں چھیڑی جاسکتی، نئے شواہد نہیں پیش کیے جاسکتے، نئے دلائل نہیں دیے جاسکتے، نئے فریق شامل نہیں کیے جاسکتے، بس صرف پہلے سے موجود فائلوں پر نظر دوڑا کر دکھایا جاتا ہے کہ کوئی ایسی واشگاف غلطی تو نہیں ہوئی جو ریکارڈ پر ہی صاف نظر آرہی ہو۔ اگر سٹیٹ بینک کو واقعی صرف توضیح مطلوب تھی، تو اس کےلیے یہی نظر ثانی کا راستہ بہتر تھا۔
لیکن مقصود و مطلوب یہ ہر گز نہیں تھا۔ اس کےلیے اگلے نکتے پر آئیے۔
نظر ثانی دائر کرنے کی صورت میں ساتھ ہی عدالت کے پچھلے فیصلے کی معطلی کےلیے درخواست دائر کرنی پڑتی اور اس کی معطلی کےلیے دلائل دینے پڑتے، اور جب تک عدالت اپنے پچھلے فیصلے کو معطل کرنے کےلیے سٹے آرڈر جاری نہ کرتی، پچھلا فیصلہ نافذ رہتا، خواہ عدالت نظر ثانی کی درخواست کو باقاعدہ سماعت کےلیے منظور کرلیتی۔
اس کے برعکس جب وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاتی ہے، تو اپیل دائر ہونے کے ساتھ ہی، جی ہاں، مکرر سن لیجیے، اپیل دائر ہونے کے ساتھ ہی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہوجاتا ہے اور جب تک سپریم کورٹ اس اپیل کو خارج نہیں کردیتی، شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہی رہتا ہے!
چنانچہ شرعی عدالت کا فیصلہ معطل کرنے کا آسان راستہ یہ ہے کہ اس کے خلاف اپیل دائر کردیں۔ نہ سٹے کی درخواست دینی پڑتی ہے، نہ سٹے کےلیے دلائل دینے پڑتے ہیں۔ بس اپیل دائر کردیجیے۔ شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہوگیا! ٹائیں ٹائیں فش!اب سمجھ میں آگئی ہے سود خوروں اور ان کے گماشتوں کی نئی چال؟