بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے، پیسے جمع کرانے اور نکلوانے کے علاوہ بھی بہت سے معاملات ہوتے ہیں، انہیں ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
1۔ سروسز یا خدمات2۔ فائنانس یا مالیات
سروسز میں بینک آپ کو خدمات فراہم کرتا ہے اور بدلے میں آپ سے اس کی فیس لیتا ہے، یہ متفق علیہ جائز ہے، مثال کے طور پر بینک آپ کو چیک بک، اے ٹی ایم کارڈ، انٹرنیٹ بینکنگ، ٹرانزیکشنز پر ایس۔ ایم۔ ایس۔الرٹ اور بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے کے پیسے لیتا ہے کیونکہ اس پر ان کا خرچہ لگتا ہے، پھر اگر آپ کا چیک ریٹرن ہو جاتا ہے تو اس چیک کو پروسس کرنے پر اپنی مزدوری اور کاغذی کارروائی کا خرچہ یا فیس کے طور پہ 500 روپے لے لیتا ہے۔
بینک آپ کو بینک میں پیسے اس لئے رکھنے دیتا ہے کہ وہ ان پیسوں سے کاروبار کرتا ہے۔اگر آپ ان پیسوں پر اس کاروبار کے پرافٹ سے حصہ لینا چاہیں تو پھر معاملات دوسرے حصے میں داخل ہوجاتے ہیں، اس کیلئے آپ کو پرافٹ اینڈ لاس شئیرنگ اکاؤنٹ کھولنا پڑتا ہے یا کسی معینہ مدت کیلئے فکس ڈیپازٹ کرنا پڑتا ہے۔
ایسی ہی کچھ مخصوص شرائط قرض حاصل کرنے والوں پر لاگو ہوتی ہیں، اس کا بیان آگے آئے گا۔
بینک کیا کاروبار کرتا ہے:
بینک آپ کے پیسوں سے کچھ خریدتا اور بیچتا نہیں بلکہ جس طرح آپ فکس ڈیپازٹ کرا کے پرافٹ مانگتے ہیں، اسی طرح بینک کاروباری اداروں کو پیسے دے کر ان پر پرافٹ یا ماہانہ کرایہ وصول کرتا ہے اور اسی میں سے آپ کو معینہ شرح سے آپ کا حصہ ادا کرتا ہے، اسی کرائے کو سود، مارک اپ یا پرافٹ کہا جاتا ہے۔
موجودہ دنیا میں پون صدی سے کیش یا این۔کیش۔ایبل انسٹرومنٹس کو کموڈیٹی کا درجہ حاصل ہے، اسی نظریئے سے اس کی ٹریڈ ہوتی ہے یا اس پر رینٹل انکم لی جاتی ہے، یہ ٹریڈ کن کن صورتوں میں ہوتی ہے، اس کی اہمیت کیا ہے اور اس کو سود کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے یا نہیں، اس بات کو ایک اگلے مضمون میں تفصیل سے بیان کریں گے۔
زیر مطالعہ مضمون پر سود کی بحث نہیں ہوگی، یہ صرف بینکنگ کے نظام کو سمجھنے کیلئے لکھا گیا ہے اور اسی تک محدود رہنا چاہئے۔
فائنانس کے اس کاروبار کی پانچ اقسام ہیں:
1۔ رننگ فائنانس2۔ شارٹ ٹرم فائنانس
3۔ لانگ ٹرم فائنانس4۔ کار فائنانس
5۔ ہوم فائنانس یا پراجیکٹ فائنانس
ان کی تفصیل بتانے سے پہلے آپ کو فائنانس حاصل کرنے کا طریقہ بتا دوں، جو سب میں مشترک ہے۔ اس میں پہلے آپ یہ ثابت کرتے ہیں کہ جو پیسہ آپ بینک سے مانگ رہے ہیں، وہ لوٹانے کے اہل ہیں یا نہیں۔ یہ اہلیت اس طرح سے طے ہوتی ہے کہ اگر آپ نے چھ لاکھ روپیہ پانچ سال کیلئے مانگا ہے تو اس کی ماہانہ قسط دس ہزار روپیہ اور اس پر لاگو ہونے والے ماہانہ مارک۔اپ کے ٹوٹل سے آپ کی ماہانہ آمدنی تین گنا ہونی چاہئے تاکہ ایک حصے سے آپ اپنا گزارہ کر سکیں، دوسرے سے قسط چکا سکیں اور تیسرے حصہ سے کنٹی جینسی افئیرز یعنی وادھی۔گھاٹی نمٹانے کے کام آسکے۔
اب میں عام فہم انداز میں ان معاملات کی تفصیل اور اسلامی و غیر اسلامی بینکنگ کا فرق واضح کرتا ہوں۔
رننگ فائنانس:
اگر آپ نے بحیثیت ٹریڈر کوئی لاٹ خریدنی ہے یا بحیثیت مینوفیکچرر خام مال خریدنا ہے تو آپ بینک سے رننگ فائنانس مانگ سکتے ہیں، اس پر بینک کسی تجزیہ کار ادارے سے آپ کی انکم ایسٹیمیشن کرائے گا جو متذکرہ بالا اہلیت کے اصول پر پوری اترنی چاہئے تاہم بینک کو یہ صوابدیدی اختیار حاصل ہے کہ کسی محفوظ سیکٹر یا اچھی ساکھ کی حامل پارٹی کیلئے یہ شرط نرم کرکے دو گنا آمدنی پر بھی قرضہ جاری کر دے۔بااثر افراد بھی دوگنا آمدنی پر قرضہ جاری کروا لیتے ہیں اور کوئی نیا آدمی یا ادارہ اگر چند سال بینک کے ساتھ کامیابی سے گزار لیتا ہے تو اسے بھی یہ سہولت حاصل ہو جاتی ہے۔
ایک کروڑ روپیہ قرض لینے کیلئے دوسرے مرحلے میں آپ کو سوا کروڑ مالیت کی جائیداد بینک کے پاس گروی رکھنی پڑتی ہے، اس میں بنا ہوا گھر، فیکٹری، پرائز بانڈز، زیورات اور بعض جگہ شئیر سرٹیفکیٹس بھی قابل قبول ہوتے ہیں، اہلیت کے باوجود اس ضمانت کے بغیر قرضہ نہیں ملتا۔
ان معاملات سے گزرنے کے بعد آپ کو مطلوبہ رقم مل جاتی ہے، یہ رقم آپ کے اکاؤنٹ میں ڈال دی جاتی ہے جہاں سے چیک کاٹ کر آپ مال خریدتے رہیں اور بیچتے رہیں، صرف سال میں ایک بار یہ رقم کلی طور پر واپس کرنی ہوتی ہے پھر چاہے اگلے ہی دن واپس لے لیں۔
بعض بینک ماہانہ اور بعض ہر تین ماہ بعد اس قرض پر اپنا مارک اپ وصول کرتے ہیں، اگر مارک اپ کی ادائیگی میں دیر ہو جائے تو آپ کے اوپر روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ لگتا ہے۔
یہ ہے وہ مروجہ نظام جو غیر اسلامی یا کنوینشنل بینکنگ کہلاتا ہے، اس کے مقابل اسلامی بینک کا پروسیجر کیا ہے، اب ہم وہ دیکھیں گے۔
اسلامی بینکنگ میں قرضہ لینے کی ساری ٹرم اینڈ کنڈیشنز وہی ہیں جو کنوینشنل بینکنگ میں ہیں۔ آپ کو انکم ایسٹیمیشن کروانی ہے، جائیداد گروی رکھنی ہے، مارک۔اپ کی جگہ پرافٹ ادا کرنا ہے اور اگر آپ لیٹ ہو جائیں تو جرمانے کی جگہ چیریٹی ادا کرنی ہے۔ جو وصول کرکے بینک کسی رفاہی ادارے کو دے دیتا ہے یا خود کسی رفاہی کام میں لگا دیتا ہے، پرافٹ اور چیریٹی کا ریٹ بھی وہی ہوتا ہے جو کنوینشنل بینک کے قرضے پر لاگو ہوتا ہے۔
اس دونوں طرز کی بینکنگ میں فرق صرف اتنا ہے کہ کنوینشنل بینک آپ کو رننگ فائنانس یعنی قرض کی رقم دے کر کہتا ہے کہ جاؤ اپنی مرضی سے خریداری کرتے رہو لیکن ہمارا مارک اپ وقت پر ادا کر دیا کرنا، بینک کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ کب اور کہاں سے کتنے کی خریداری کرتے ہیں یا سوئے رہتے ہیں۔لیکن اسلامی بینک چونکہ سود سے بچنا چاہتا ہے لہذا وہ رقم دیتے وقت آپ کا ٹرانزیکشن پارٹنر بن جاتا ہے اور جوائینٹ وینچر کرتا ہے جسے رننگ فائنانس کی بجائے مرابحہ کہتے ہیں، مرابحہ کیسے کام کرتا ہے، اس کیلئے ایک تمثیل دیکھتے ہیں۔
مطلب یہ کہ آپ اپنے بھائی سے دس ہزار روپے لے کر ایک پرانی موٹر سائیکل خریدیں اور بھائی کو کہیں کہ یہ رہی آپ کے پیسوں سے خریدی ہوئی موٹر سائیکل لیکن آپ کو تو چلانی نہیں لہذا آپ مجھے بیچ دیں اور چھ ماہ بعد مجھ سے اپنے پیسے واپس لے لینا۔بھائی نے آپ کو وہی بائیک تین ماہ کے ادھار پہ بارہ ہزار کی بیچ دی، اب آپ نے تین ماہ کے اندر اندر اسے بیچ کر دس کی بجائے بارہ ہزار بھائی کو واپس کرنے ہیں باقی آپ کا منافع ہو گا جتنے بھی اوپر کما لیں۔
اسی طرح اسلامی بینک اس قرضے کی رقم سے ہونے والی خرید و فروخت میں حصے دار بن جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ آپ اس رقم سے جو بھی خریدنا چاہتے ہیں وہ اپنے لئے نہیں بلکہ میرے ایجنٹ کے طور پر میرے لئے (فار اینڈ آن بیہاف آف دی بینک) سودا خرید لیں۔
آپ نے سب سے پہلے ایک کروڑ سے جو خریدنا تھا وہ اپنی مرضی سے خریدا اور بینک کو ڈیکلئیریشن جمع کرا دی کہ یہ مال میں نے آپ کیلئے ایک کروڑ کا خریدا ہے اب اس کا کیا کرنا ہے؟تو بینک کہتا ہے کہ بڑی مہربانی آپ نے میری ایماء پر (آن بیہاف آف دی بینک) مال خریدا، اب مجھے یہ مال کسی کو تو بیچنا ہے لہذا آپ ہی مجھ سے خرید لو۔آپ پوچھتے ہیں کہ ایک کروڑ کا مال مجھے کتنے میں دو گے تو بینک کہتا ہے کہ آپ تین ماہ بعد مجھے ایک کروڑ تین لاکھ روپے دے دینا اور اگر آپ نے ادائیگی میں تاخیر کی تو ایک مخصوص ریٹ پر آپ کو روزانہ کی بنیاد پر چیریٹی ادا کرنی ہوگی جو ہم کسی مدرسے یا فلاحی ادارے کو دے دیں گے کیونکہ وہ ہمارے لئے جائز نہیں۔
(بھائی اگر جائز نہیں تو نہ لو، مگر لیں گے ضرور، پھر خیرات کر دیں گے)
اگر آپ نے کنویشنل بینک سے ایک کروڑ کا فائدہ لیا تو تین ماہ بعد اسے ایک کروڑ اور تین لاکھ روپے سودی مارک اپ ادا کریں گے۔اور اگر آپ نے اسلامی بینک سے ایک کروڑ کا فائدہ لیا تو تین ماہ بعد اسے بھی ایک کروڑاور تین لاکھ روپے منافع ادا کریں گے کیونکہ اس نے اپنا منافع رکھ کے تین ماہ کے ادھار پر مال آپ کو بیچ دیا ہے، آگے جو بھی آپ کمائیں وہ آپ کا نصیب۔اگر آپ نے یہ رقم ایک ماہ کی تاخیر سے ادا کی تو دونوں بینک ایک لاکھ روپے اضافی لیں گے جو کنوینشنل بینک تو خود رکھ لے گا اور اسلامی بینک کسی مدرسے یا فلاحی ادارے کو دیدے گا۔
سیریل نمبر دو اور تین پر جو ٹرم فائنانسز ہیں وہ رننگ فائنانس سے تھوڑی سی مختلف ہیں رننگ فائنانس اپنی مدت میں کم زیادہ ہوتا رہتا ہے اور مستقل چلتا ہے جب تک آپ چلانا چاہیں، لیکن ٹرم فائنانس میں ایک مدت مخصوص ہوتی ہے جس میں ماہانہ قسطوں میں سود سمیت قرضہ بھی ادا ہوتا رہتا ہے اور آخر کار صفر ہوجاتا ہے، مدت ختم ہو جائے تو دوبارہ بھی جاری ہو سکتا ہے لیکن درمیانی عرصے میں کم زیادہ نہیں کیا جا سکتا۔
اگر آپ کار، گھر یا فیکٹری خریدنا چاہتے ہیں تو اپنی اہلیت اسی طرح ثابت کرکے کار فائنانس یا پراجیکٹ فائنانس لے سکتے ہیں کار اور پراجیکٹ پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوتا البتہ گھر دس سال یا بیس سال تک فائنانس ہو جاتا ہے۔
کنوینشنل بینکنگ میں پانچ سال کے ٹرم فائنانس کی سیدھی سیدھی ساٹھ قسطیں بنا لی جاتی ہیں جو ہر ماہ ادا کرنی پڑتی ہیں۔ اس میں جائیداد کی جگہ وہی خریدی جانے والی کار گھر یا فیکٹری گروی رکھی جاتی ہے جو مکمل ادائیگی کے بعد آزاد ہو جاتی ہے۔
لیکن اسلامی بینکنگ میں یہ چیزیں پہلے معاملے کی طرح بینک کے بیہاف پر بطور ایجنٹ خریدی جاتی ہیں، پھر اس میں ڈیمینشگ مشارکہ قائم کیا جاتا ہے، مطلب یہ کہ آپ کی ڈاؤن پیمنٹ اور بینک کی فائنانس کی مقدار کے مطابق آپ دونوں اس کے مالک ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے آپ قسطیں ادا کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے اس چیز میں بینک کا ملکیتی حق کم اور آپ کا زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے اور مکمل ادائیگی پر آپ مکمل مالک بن جاتے ہیں۔
جب ہم بینک سے کوئی یوٹیلیٹی خریدتے ہیں تو کنوینشنل بینک میں یہ ہوتا ہے کہ جیسے جیسے آپ قسط دیتے جاتے ہیں اور بینک کی رقم کم ہوتی جاتی ہے اس ریشو سے اس کا مارک اپ بھی کم ہوتا جاتا ہے۔ یہی طریقہ اسلامی بینک میں ہوتا ہے کہ اس کا منافع جو وہ بطور کرایہ دار آپ سے لیتا ہے وہ بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔
فرق یہ ہے کہ اسلامی بینک کہتا ہے، ہم دونوں نے مل کر کار، گھر یا پراجیکٹ خریدا جس میں دس فیصد آپ نے اور نوے فیصد اسلامی بینک نے دیا تو ہم اسی ریشو سے اس چیز کے مالک ٹھہرے، لیکن یہ چونکہ بینک کے کام کی چیز نہیں لہذا آپ ہم سے کرائے پر لے لیں۔ جیسے جیسے آپ کا حصہ بڑھتا جائے گا آپ کے مالکانہ حقوق بڑھتے جائیں گے اور بالأخر بینک فارغ ہو جائے گا، اس طرح اسلامی بینک کار، گھر یا فیکٹری کی خریداری پر نفع، مارک اپ یا سود کی بجائے کرایہ وصول کرتا ہے۔
دونوں بینکوں میں مارک اپ ریٹ کیا ہے:
عوام کا جو پیسہ بینکنگ سرکل میں جمع ہوتا ہے وہ قومی امانت ہوتی ہے اور اس کا امانتدار یا کسٹوڈئین اسٹیٹ بینک بنتا ہے اسلئے بینکنگ کے تمام تر معاملات پر اسٹیٹ بینک کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔
(اگر کسی اکاؤنٹ کا مالک فوت ہو جائے اور اس کا کوئی والی وارث سامنے نہ آئے یا کوئی اکاؤنٹ دس سال تک غیر فعال رہے تو وہ اپنی رقم سمیت اسٹیٹ بینک کے حوالے ہو جاتا ہے لہذا اتنے عرصے تک اپنے اکاؤنٹ کو غیرفعال کبھی نہ رکھیں۔)
ان دونوں قسم کی فائنانسز میں کنوینشنل بینک اپنا مارک اپ لائبور/کائبور پلس تین فیصد کے حساب سے طے کرتا ہے، اور اسلامی بینک بھی اپنا پرافٹ لائبور/کائبور پلس تین فیصد پر ہی طے کرتا ہے کیونکہ یہ اسٹیٹ بینک کی نافذ کردہ شرط ہے۔
لائبور= لاہور انٹربینک آفر ریٹ
کائبور= کراچی انٹربینک آفر ریٹ
لائبور وہ شرح منافع ہے جو اسٹیٹ بینک لاہور کی فائنانس ایکٹیویٹی کے حساب سے لاہور کیلئے طے کرتا ہے اور کائبور وہ شرح منافع ہے جو اسی اصول پر کراچی کیلئے طے ہوتی ہے، یہ ریٹ ٹائم۔ٹو۔ٹائم بدلتا رہتا ہے، آجکل یہ سات فیصد ہے۔
عوام سے نفع لینے کا طریقہ:
اگر لائبور/کائبور سات فیصد ہو اور بینک تین فیصد پلس کرے تو مجھے ایک کروڑ پر سالانہ بارہ لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے جس میں سے تین لاکھ روپے بینک کا منافع ہوگا اور قومی دولت کا کسٹوڈئین ہونے کی حیثیت سے سات لاکھ روپے کا منافع اسٹیٹ بینک کو جائے گا، اس میں سے اسٹیٹ بینک کے اخراجات نکال کے بقیہ منافع کیپیٹل پروسیڈز کے طور پر قومی بجٹ میں شامل ہو جاتا ہے کیونکہ گردشی سرمایہ اصل میں قومی دولت ہے۔
عوام کو نفع دینے کا طریقہ:
جس وقت لائبور/کائبور سات فیصد ہو اور بینک اپنا تین فیصد ڈال کر دس فیصد پر فائنانس دے رہا ہو، اس وقت اگر عوام اپنے پیسے پر بینک سے منافع مانگے تو اسے تین چار فیصد تک منافع دیا جا سکتا ہے، اس میں غالباً ایک فیصد بینک کی طرف سے اور بقیہ اسٹیٹ بینک کے حصے سے ادا کیا جاتا ہے۔
بینک نقصان میں حصے دار کیوں نہیں بنتا:
یہ بات فائنانس کے اس یونیورسل اصول کو سمجھے بغیر پلے نہیں پڑ سکتی کہ:
Liability of the market economy and capital market of the state shall be limited to the company.
یعنی کیپیٹل مارکیٹ اور مارکیٹ اکانومی میں جو بھی ادارہ بنے گا اس میں لین دین کا کلیم مالکان پر نہیں بلکہ اس ادارے پر آئے گا تاکہ ڈائریکٹرز تبدیل ہوتے ہوتے مینجمنٹ مکمل طور پر بھی بدل جائے تو بھی تقاضہ داروں کا کلیم ادا کیا جا سکے، اس کی ادائیگی کیلئے لائبلٹی = ایسٹ کا اصول اپنایا جاتا ہے، یعنی کمپنی نے جتنا پیسہ مارکیٹ کا دینا ہو اتنی مالیت کے اثاثے اس کے پاس موجود ہونے چاہئیں۔
کیپٹل مارکیٹ وہ ہوتی ہے جس میں سرکاری دولت یعنی قوم کا پیسہ لگا ہو، اس میں سوئی گیس، فون کمپنی، واپڈا، پی۔آئی۔اے، ریلوے، اسٹیل مل اور ان جیسے ادارے آتے ہیں، اور مارکیٹ اکانومی وہ ہوتی ہے جس میں اندر اور باہر کے لوگوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دیکر لایا جاتا ہے، اسلئے ان دونوں مارکیٹس میں سرمائے کی حفاظت سرکار کی اپنی ذمہ داری بن جاتی ہے جو ہر مملکت اوپر بتائے گئے اصول کے تحت ادا کرتی ہے۔
اسی اصول پر جب کوئی بینک قائم ہوتا ہے تو وہ اسٹیٹ بینک کے پاس ایک رقم بطور ضمانت جمع کراتا ہے، اس کے بعد بینک چاہے تو اکاؤنٹ ہولڈر سے بیشک ہر روز سو کھرب روپیہ جمع کرلے مگر اپنے اثاثے یعنی زرضمانت سے زیادہ رقم وہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس کے اثاثے سے زائد جتنی رقم اس کے پاس جمع ہو گی وہ فوراً اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے گا تاکہ یہ کبھی بھاگ جائے تو پبلک کا صرف اتنا ہی پیسہ لیکر بھاگے جتنی اس کی ضمانت جمع ہے اور اس میں سے متاثرہ اکاؤنٹ ہولڈرز کا کلیم چکایا جا سکے۔
اب فرض کریں کہ ایک بینک کا زرضمانت دو کھرب روپے ہے تو وہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی طرف سے جمع ہونے والی رقم میں سے ہر روز دو کھرب روپیہ اپنے پاس رکھ کے بقیہ حکومت کے پاس جمع کراتا رہے گا لیکن ان خدمات پر وصول ہونے والے بینک چارجز سے وہ اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتا، بینک کے اخراجات اور کمائی اصل میں قرضوں پر ملنے والے مارک۔اپ سے ہی پوری ہوتی ہے۔اگر وہ ایک کھرب روپیہ لین دین کا آپریشن چلانے کیلئے رکھ لے اور ایک کھرب روپیہ قرضہ مانگنے والوں میں نفع و نقصان کی بنیاد پر لگا دے تو چالاک لوگ نقصان دکھا دکھا کے چند ہی سال میں یہ پیسہ ہضم کر جائیں گے اور بینک ڈوب جائے گا۔
اب آپ یوں سمجھ لیں کہ ہر بینک کے پاس ایسے ہی محدود سرمایہ ہوتا ہے جس سے بینکنگ سروسز بھی چلانی ہیں اور اپنی انکم و اخراجات پورے کرنے کیلئے مارکیٹ میں انویسٹمنٹ بھی کرنی ہے، اگر یہ نفع و نقصان پہ کام کرنے لگ جائیں تو مارکیٹ سے نقصان اٹھا اٹھا کے آہستہ آہستہ سارے ہی بیٹھ جائیں گے۔اب فرض کریں کہ یہ بینک جو سال بھر میں اکاؤنٹ ہولڈرز سے سو کھرب روپیہ اکٹھا کرتا ہے اسے نفع و نقصان کی بنیاد پر اپنی زرضمانت سے دس گنا زیادہ قرضے جاری کرنے کی اجازت مل جائے اور یہ رقم نقصان کی نذر ہوجائے تو پھر اکاؤنٹ ہولڈرز کا بیس کھرب روپیہ کون اور کہاں سے واپس کرے گا؟؟
اگر لمیٹڈ لائبلٹی کا یہ کنسیپٹ سمجھ میں آگیا ہے کہ لوگوں کے تقاضے مالکان کی بجائے ادارے پر رہیں گے تاکہ مینجمنٹ تبدیل ہو جائے تو بھی حقداروں کو حق ادا کیا جا سکے اور ایسٹ = لائبلٹی برقرار رکھے جائیں گے تاکہ ادائیگی کا توازن خراب نہ ہو تو پھر یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ محدود سرمائے کیساتھ بینک بذات خود بھی نفع و نقصان کی شراکت داری نہیں کر سکتا اور مارکیٹ اکانومی چلانے کیلئے حکومتوں کو بھی یہ نظام کونسٹینٹ چاہئے اسلئے وہ بھی اجازت نہیں دیتیں، ورنہ جس ملک کے ایک دو بینک بیٹھ جائیں وہاں کی اکانومی کو سخت دھچکا لگتا ہے، جیسا ابھی کچھ عرصہ قبل بھارت میں ہوا ہے۔ایسی خبر سے دنیا بھر کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اس ملک کی اکانومی کریش کر رہی ہے اور بعض اوقات تو ریٹنگ کے لحاظ سے انویسٹمنٹ گریڈ سے بھی باہر نکل جاتی ہے یعنی بیرونی سرمایہ کار اس اکانومی سے کنارہ کر لیتے ہیں۔
اس میں ایک سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب کارپوریٹ سیکٹر کی ایکویشن بھی برابر رہتی ہے تو اس کیساتھ بینک کی شراکت داری سیف رہنی چاہئے، اس کا جواب یہ ہے کہ فرض کریں ایک کمپنی کی مالیت چار کروڑ روپے ہے اور آرڈر پورے کرنے کیلئے اسے مزید ایک کروڑ کی ضرورت ہے، بینک اس میں شراکت داری کرتا ہے تو کمپنی کی مالیت پانچ کروڑ ہو جاتی ہے اور بینک اپنے ایک کروڑ کیساتھ بیس فیصد کا حصے دار قرار پائے گا جبکہ یہی سرمایہ کمپنی کو قرض کی صورت میں کائبور+تین ملا کے دس فیصد مارک۔اپ پہ مل جاتا ہے تو وہ کیوں اسے بیس فیصد کا شراکت دار بنائے گی، اور اگر اسے صرف ایک کروڑ کے نفع تک محدود رکھا جائے تو اس کے نفع میں اسے ففٹی پرسینٹ کا پارٹنر بنانا پڑے گا۔
ایسی بینکاری جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو اس کیلئے بینکوں کو اپنا کیک بہت بڑا کرنا پڑے گا جو ممکن نہیں اور حکومت کیلئے بھی ممکن نہیں کہ وہ بینکوں کو ان کے اثاثے سے زیادہ چھوٹ دیکر عوامی پیسے کو رسک میں ڈال دے اور پرائیویٹ سیکٹر بھی انہیں ڈبل ریٹ پر حصے دار بنانے سے گریز ہی کرے گا۔
انہی وجوہات کی بنیاد پر سابق صدر ممنون صاحب نے کہا تھا کہ علماء گنجائش پیدا کریں جو تنقید کا باعث بنا، اس کی بجائے یوں کہنا چاہئے تھا کہ دائرہ تنگ ہے تھوڑا سا وسیع ہو جائے اکانومی میں بہت بہتری آسکتی ہے۔
طوالت کی وجہ سے انشورنس کے اسلامی نعم البدل یعنی تکافل کو میں ڈسکس نہیں کر سکا، اس کی تفصیل پھر کبھی سہی، مختصر یہ ہے کہ ایک مہم کے دوران بیشتر صحابہ کرامؓ کے پاس راشن کم پڑ گیا تھا، اس موقع پر سب کے پاس جو جو کچھ باقی تھا اسے ایک جگہ اکٹھا کیا گیا اور حاصل شدہ ذخیرے کو پھر سب میں برابر تقسیم کر دیا گیا تاکہ قافلے میں موجود سب کا سروائیول ممکن رہے۔
اس بات کے مصداق جو لوگ تکافل کا حصہ بننا چاہیں، ان سے ان کی اشیاء کی کووریج کی مد میں ایک رقم وصول کرلی جاتی ہے اور جب کسی کا نقصان ہو جائے تو اس حاصل شدہ رقم سے اس کے نقصان کی تلافی کر دی جاتی ہے، اسے اسلامی تکافل کہا جاتا ہے، اس بزنس میں بھی کسی کو تکافل کی کوریج دینے اور کمپنسیشن دینے کا ریٹ اور طریقہ کار وہی ہے جو انشورنس کمپنیز کا ہے۔