ایک دِن ظہر کے قریب ،خاکسار،طواف کر کے ،باب اسماعیل کی طرف آگیا۔وہاں ایک احاطہ بنا ہو اتھا،اُس کے اندر اگلی صف میں بیٹھ گیا۔یہ محض اتفاق تھا کہ ،کچھ ہی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ وہیں سے،نماز ظہر کی امامت کا انتظام کیا جانے لگاہے۔معلوم ہوا کہ ظہر اور عصر میں امام کعبہ یہاں اِس احاطہ میں کھڑے ہوکر نماز پڑھاتے ہیں ، اور مغرب،عشاء اور فجر کی نماز کی قیادت ، مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوکر کرتے ہیں۔میری خوش قسمتی ،کہ امامت کے لیے الشیخ الجہنی تشریف لے آئے اوریوں اُن کی بھر پورزیارت کا موقع مل گیا۔صاف رنگ ،خوبصورت وجیہہ چہرہ،چھوٹی چھوٹی سیاہ داڑھی،لبوں پرمسکراہٹ سجی ہوئی۔ آپ کی عمر چالیس پینتالیس سال کے درمیان لگتی تھی۔
میں سلام کے لیے آگے نہ بڑھا،کیوں کہ آئمہ کرام سے ملاقات یا بات چیت کا تو ،وہاں کوئی امکان نہیں ہوتا ،اِس لیے کہ وہ سیکورٹی کے گھیرے میں ہوتے ہیں۔ مناسب بھی یہی لگتاہے ،اِس لیے کہ اگرسیکورٹی نہ ہو تو پھر تو لاکھوں کے مجمع میں سے ہرآدمی کی یہی کوشش ہوگی کہ امام صاحب کو ملا جائے اور اُن سے بات چیت کا شرف حاصل کیا جائے،اِس طرح تو سارا نظم ہی بگڑ جائے۔
الشیخ عبداللہ الجہنی،مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ واحد شخصیت ہیں جن کو ،مسجد نبوی،مسجد قبا،مسجد قبلتین اور مسجد الحرام مکہ کا امام ہونے کا شرف حاصل ہے۔ایک عجیب اوردِلچسپ اتفاق سے آپ کو آگاہ کرتا ہوں۔ایک دِن عبداللہ الجہنی نے ،فجر کی نماز میں،پہلی رکعت میں سورہ بقرہ سے ، پندرہویں رکوع کی تلاوت کی اور دوسری رکعت میں سولہویں رکوع کی ۔یہ وہ آیات ہیں جن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام ،خانہ کعبہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا تذکرہ ہے۔حج کے زمانے میں اِن آیات کا انتخاب بڑا پرلطف اور معانی خیز تھا۔اب آپ تصور کریں،بقرہ کی یہ آیات ہوں،بانی مکہ اور معمار کعبہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خیرہو،مقام ابراہیم ، حرم کعبہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تذکرے ہوں،اور امام جہنی کی گرجدار آواز ہو ،کیسا دلکش منظر بنا ہوگا۔کعبہ سامنے تھا،صبح کا وقت،خاکسار چھت پر لاکھوں مسلمانوں کی جماعت میں موجود،غرض ،لطف و کرم کا ایک سماں تھا۔دلکشی اور دِ لا ٓویزی کا ایک ناقابل فراموش منظر تھا۔امام جہنی صاحب کی تلاوت نے سحر طاری کردیا۔نماز پڑھنے کا لطف ہی آگیا۔اگلے دِن ،اُسی وقت ، اُسی نماز میں ،اُسی ماحول میں،اور بقرہ کی وہی آیات،لیکن اب کی بار امامت کر رہے تھے ، فضیلۃ الشیخ حضرت قاری عبدالرحمان السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ۔ہمارے تو گویا مقدر جاگ گئے تھے۔مجھے تو یہ صبحیں بھولتی ہی نہیں۔یادگار لمحات تھے۔ گویا ہم تو کسی مقابلہ حسن قرأت میں آگئے تھے۔
کیا لذت تھی ،کیا چاشنی تھی اُن لمحات میں!
اور یہ مقابلہ قاری عبداللہ الجہنی نے جیتا۔
ایک تیسرے امام صاحب بھی تھے ،نام نہیں لکھوں گا،بڑی عمر کے معلوم ہوتے تھے ، کچھ جہری نمازیں انھوں نے بھی پڑھائیں اُ ن کی کوئی نہ کوئی صلاحیت و قابلیت توہوگی کہ وہ امام کعبہ کے اعلیٰ منصب پرفائز تھے ، لیکن شاید یہ ہماری کم ذوقی ہے ،کہ ہم اُن سے متائثر نہ ہو سکے۔ایک بار تو نماز فجر میں آخری پارے کی سورہ مطففین پڑھ رہے تھے کہ بھول گئے۔حضرت نے بڑی کوشش کی لیکن اصلاح نہ کر سکے۔پیچھے لقمہ دینے والوں نے بھی تصحیح کروانے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود،آخر رکوع میں چلے گئے،دوسری رکعت میں پھر اُسی سورہ کو تلاوت فرمایا اور ،اللہ کا شکر، کہ، اب وہ آرام سے وہاں سے گزر گئے۔ایک دو بار ، اور بھی وہ اِسی طرح تلاوت میں بھول جاتے رہے۔
مولانا مکی حجازی اور فرقہ واریت کا عفریت:
مولانا عبدالرحمان مکی الحجازی ،ایک پاکستانی الاصل عالم دین ہیں جو مسجد الحرام میں پچھلے پینتالیس سے درس وتدریس کا کام کر رہے ہیں۔آپ حنفی المسلک اور دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔اپنی مخصوص فقہ اور اپنے مخصوص مکتب فکر کے داعی ہیں۔آپ نے نہ دیوبندیت کو کبھی چھپایا ہے اور نہ ہی حنفیت کو۔ایک اصلی مقلد اور پوری طرح فرقہ بند مولوی ہیں۔آپ کے والد صاحب ، جنوبی پنجاب ،پاکستان سے ہجرت کرے مکہ میں آباد ہو گئے تھے۔ وہ دیوبند کے مدرسہ علمی سے فارغ التحصیل تھے۔علامہ مکی صاحب کی تعلیم بھی ،پاکستان سے ، دیو بندی مکاتب فکر کے مدارس میں ہوئی۔سن دو ہزار میں ،خاکسار کا ،وہیں حرم میں ہی ، آپ سے پہلی بار یکطرفہ تعارف ہواتھا ۔ باب العمرہ کے سامنے مطاف میں روزانہ ، بعد از مغرب ،مجلس وعظ منعقد ہوتی تھی اور میں وہاں بڑے شوق سے حاضری دیا کرتا تھا ۔ یہ مجلس وعظ،اردو بولنے والے زائرین کے لیے فہم دین کا ایک عمدہ ذریعہ تھی اور اب بھی ہے۔ سوال و جواب کی نشست کافی معلوماتی اورتفہیمی ہوا کرتی اوراب اُنیس سال بعد بھی، یہ سلسلہ درس و تدریس اُسی طرح جاری ہے۔ سوالوں کے جواب میں حضرت کا انداز بڑادلچسپ اور تبسم خیز ہوتا ہے۔سوالوں میں زیادہ تر سوالات، حج و عمرہ کے مسائل ہی کے بارے میں پوچھے جاتے ہیں ،اِس لیے یہ نشست ،موقع کی مناسبت سے ، زائرین کے لیے بڑی سود مند ثابت ہوتی ہے۔انھوں نے ، حج کی مناسبت سے،کچھ خصوصی لیکچرز کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا،ایک دو لیکچرہی، میں سن سکا جو کہ کافی حدتک معلوماتی اورعام زائر کے لیے بڑے ہی فائدہ مند تھے لیکن اِن لیکچرز کا انداز ،وہی پرانا مولویانہ اور فرقہ وارانہ تقریروں والاہے جو ہمارے ہاں کے پیشہ ور اور فرقہ بند مولویوں کے ہاں رائج ہے۔ اِس میں مولوی صاحب کے سُر اور ترنم کو زیادہ دخل ہوتا ہے ۔اِس کے علاوہ ، دوسرے فرقے پر ،ہر دوسرے فقرے میں تنقید اور تنقیص کے تیر برسانااور اپنے فرقے کی برتری کو ہر حال میں ثابت کرنا اِن مولویوں کا شیوہ ہوتاہے اور ہمارے یہ ممدوح ،مولانا مکی صاحب بھی بالکل اُسی طرزِعمل کے حامل تھے ،اِس لیے خاکسار کے لیے اب اِس نشست میں وہ کشش نہیں رہی تھی جو انیس سال پہلے تھی۔
وعظ و نصیحت کا عمل نہایت شاندار عمل ہے۔کسی بھی شکل میں،دین کا کوئی بھی کام،کوئی بھی آدمی کر رہا ہو میرے لیے ہمیشہ لائق تحسین اور قابل ستائش ہوتا ہے ۔ حج کے اِس سفر میں ،اپنے وطن عزیز کے حجاج کرام میں ،سب سے زیادہ جس چیزکی کمی محسوس کی وہ یہی دینی تربیت اور دینی مسائل سے عدم واقفیت ہے۔مولانا مکی ایسی شخصیات ،بہر حال ،بڑی غنیمت ہیں کہ جو اِس پہلو سے زائرین کرام کی خدمت کر رہی ہیں۔
لوگوں کو بہت سے دینی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔احرام ،طواف، سعی،حلق،منیٰ،مزدلفہ اور میدان عرفات کے مناسک کے بیسیوں مسائل ہیں کہ جن سے ہمارے پاکستانی بھائی بالکل ناواقف ہوتے ہیں اور مولانا مکی صاحب اپنی اِس نشست میں اُنھیں سمجھا رہے ہوتے ہیں۔بڑا عمدہ کام ہے یہ ،اللہ تعالیٰ ،اِس کی اُن کو جزائے خیر دیں ، لیکن اُن کی فرقہ ورانہ ذہنیت اور طرزِعمل سے ،اِس عاجز کو سخت اختلاف بھی ہے اور اِس کی سخت پریشانی بھی ہے۔دُعا ہے کہ اِس پہلو سے اللہ تعالیٰ اُن کے اندر بہتری پیدا فرمائیں۔افسوس ہوتا ہے کہ اتنا بڑا صاحب علم اوربزرگ عالم دین فرقہ بندی کی لعنت میں گرفتار ہو۔لیکن جن کی ساری زندگی اپنے فرقے اور اپنی فقہ کے تفوق پر دلائل دیتے گزری ہو ،اِس عمر میں بھی یہی کچھ کرے گا جو مولوی مکی صاحب کر رہے تھے اِس سے زیادہ کی ،اُن سے توقع کرنا ، شاید فضول ہے۔وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ بیٹھے ہوئے کہاں ہیں ۔بیت اللہ کے اندر ، وہ بیت اللہ جو اُمت کی وحدت کا نشان اعلیٰ ہے،اُس کے سامنے وعظ و تبلیغ کا شرف حاصل ہو اور آدمی اپنے فرقے کی برتری ثابت کرنے پر لگاہو ،بڑا ہی دِل دُکھتا ہے ۔ وحدت اُمت کا سب سے بڑا درس تو کعبہ اور اُس کا طواف ہے ،حج و عمرہ اور اُس کے مناسک ہیں،یہاں سے بھی اگر آدمی لڑائی جھگڑا اور فرقہ بندی کا درس لے کر جائے تو ، پھر اُس سے کسی خیر کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
وطن عزیز میں ان فرقہ بند واعظین نے بڑا زہر گھولا ہوا ہے۔اِس کی تباہ کاریاں کے باعث پاکستانی معاشرہ ایک زہریلا معاشرہ بن چکا ہے۔ بریلویوں نے دیوبندیوں کو گستاخ رسول قرار دے رکھا ہے اور دیو بندی ،اُنھیں جواب میں مشرک قرار دیتے ہیں۔کہیں مقلد اور غیر مقلد کی تقسیم ہے اور کہیں سنی وہابی کے جھگڑے ہیں۔شیعہ ،سنی ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اِن فرقوں کے اندر ہی اتنی تقسیم در تقسیم ہے اور ایک دوسرے پراتنی فتویٰ بازی ہے کہ انسان پریشان رہ جاتا ہے۔ اِن حضرات کے فتاویٰ کو دیکھا جائے تو ملک میں کوئی بھی مسلمان باقی نہیں رہتا۔ اِس ماحول سے بھاگ کر بندہ حرم کی پناہ لیتا ہے لیکن یہاں آکردیکھتا ہے کہ یہاں بھی وہی حضرات واعظین کرام تشریف فرما ہیں کہ جن کی ساری تبلیغ کا تانابانا اِسی بات پر جا کر ٹوٹتا ہے کہ فلاں کافر ،فلاں بدعتی ،فلاں منکر حدیث اور فلاں ملحدومتجدد وغیرہ وغیرہ۔
ذمہ دارانہ طرزِعمل:
ہمیں مکہ شریف میں آئے آٹھ دِن ہو چکے ہیں۔حج کا انتظارہو رہا ہے۔بے پناہ اشتیاق،محبت و چاہت سے،انتظار حج ہو رہا ہے۔تھوڑا سا خوف بھی رہتا ہے کہ نہ جانے وہاں تک پہنچ بھی پاتا ہوں کہ نہیں،اِس لمحے پھر دعائیں ہی دعائیں ہوتی ہیں۔ الحمد للہ حرم کی بھر پور حاضری نصیب ہورہی ہے۔یہ سب اُسی کا کرم ہے ،میں تو اِس کرم کے قابل نہ تھا۔بیت اللہ کی رونق روز بروز بڑھ رہی ہے۔دیوانے،مستانے،ملک ملک سے ،دوڑے چلے آرہے ہیں،لبیک لبیک کی صدائیں لگاتے،جوق در جوق ، قافلہ درقافلہ بڑھتے چلے آرہے ہیں۔ روزانہ نئے قافلے دیکھتا ہوں،کیسا خوبصورت میلہ سجا ہے۔روح پرور میلہ!
پرکیف لمحات،پر کیف فضائیں ، ہر سواللہ اکبر کی صدائیں۔وارفتگی ہی وارفتگی،عشق ہی عشق،اللہ اللہ !
ہم چاروں ہم کمرہ کے درمیان دوستی پیار اورمخلصانہ تعلق بڑھ رہا ہے۔بنگالی چائے والے کے پاس خوب مجلس لگتی ہے۔میرے ساتھی اپنے اپنے طور پر اللہ کریم کو راضی کرنے پر لگے ہیں۔ہمارے حاجی اکرم صاحب اور شکیل بھائی،مسجد عائشہ سے عمرہ بھی کر آئے ہیں لیکن افسوس کہ میں اُن کا ساتھ نہ دے سکا۔ہمارے سینیئر ساتھی حاجی محمد یونس صاحب کی گروپ کے لیے محبتیں اور خدمتیں دیدنی ہیں۔اُن کی بعض چیزیں تو حیران کن ہیں۔ایک دِن بنگالی چائے والے کے پاس ،حسب پروگرام ، مغرب سے کافی پہلے ،شکیل بھائی اور حاجی محمد یونس صاحب میرے پاس پہنچ گئے۔شکیل بھائی تھوڑا سا دور ،ایک انڈونیشی بھائی کے پاس بیٹھ گئے اور حاجی صاحب میرے پاس بیٹھ گئے۔میں نے پوچھا،‘‘اکرم صاحب کہاں ہیں؟’’کہنے لگے،‘‘ وہ مسجد عائشہ گئے تھے، طواف و سعی کے بعد ،اِدھر ہی آجائیں گے۔’’کچھ دیر گپ شپ کرنے کے بعد، اچانک حاجی صاحب کہتے ہیں ، ‘‘اوہ ڈاکٹر صاحب ! میں تو کمرے کی چابی ساتھ لے آیا ہوں۔’’ہوٹل میں کمرے مشترکہ ہوتے ہیں تو روٹین یہ ہوتی ہے کہ کمرے سے نکلنے والا آخری آدمی ،چابی ہوٹل کے کاوئنٹر پر رکھ دیتا ہے تاکہ پیچھے کوئی دوسرا رومیٹ آ جائے تو اُسے پریشانی نہ ہو۔ہم ایسا ہی کرتے تھے،سبھی ایسا ہی کرتے ہیں۔آج حاجی صاحب یہ چابی ساتھ لے آئے تھے اور اب خاصے پریشان تھے۔‘‘میں نے عرض کی کہ ہم تین تو یہاں موجود ہیں ،اکرم صاحب عمرہ مکمل کر کے یہاں آ جائیں گے ، تو پریشانی کس بات کی؟’’ وہ کہنے لگے ،‘‘کیا خبر کہ وہ عمرہ کب مکمل کریں،کب نہ کریں،کہیں وہ یہاں آنے کی بجائے وہاں سیدھے ہوٹل میں نہ چلے جائیں اور میری وجہ سے وہ بیچارے پریشان ہوں گے ۔ ’’ میں ہنس پڑا ،انھیں تسلی دی،اور اکرم صاحب کو فون کرنے کی تجویز دی۔‘‘ہاں ہاں ٹھیک ہے ،منڈے (شکیل بھائی کو وہ‘‘ منڈا’’ کہتے تھے۔)سے کہو کہ اکرم کو فون کرے ،میرے پاس تو نمبر نہیں ہے ۔’’ میں نے اپنی فون بک چیک کی ،اُس میں بھی اکرم صاحب کا نمبر نہ ملا،اِس سے پہلے کہ میں شکیل کو کہتا ،حاجی صاحب نے بڑی بے تابی سے خود ہی شکیل کوپکار کر کہا کہ،‘‘ اکرم صاحب کو فون کرو کہ وہ عمرے کے بعد یہاں آجائیں ،ہوٹل نہ جائیں کیونکہ کمرے کی چابی ہمارے پاس ہے۔’’شکیل صاحب فون کر رہے تھے اور وہ اُ ن کو بے چینی سے تکے جارہے تھے۔اُن کا فون بند آرہا تھا(طواف و سعی کے دوران اکثر لوگ اپنا فون بند رکھتے ہیں)،حاجی صاحب کی حالت دیدنی تھی، بہت پریشان کہ نہ جانے کونسا گناہ کر بیٹھے تھے۔میں اُن کو تسلی دینے پہ،لیکن وہ ہیں کہ تڑپ رہے ہیں کہ اکرم بھائی کیا سوچیں گے اور نہ جانے کیسی کیسی پریشانی کااُنھیں سامنا کرنا پڑے ۔اتنے میں نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔بنگالی چائے والے نے آج اپنے معمول سے ہٹ کر انتظام خورونوش کیا ہوا تھا لیکن حاجی صاحب کی اِس پریشانی میں ہم اِس کی میزبانی سے اچھی طرح لطف اندوزہو سکے نہ ہی کسی نئے دوست سے تعارف و ملاقات کر سکے۔نماز کے بعد شکیل بھائی سے دوبارہ فون کروایا لیکن جواب ندارد۔تھوڑی دیر بعد حاجی صاحب نے مجھے کہا کہ آپ میری نشست سنبھالے رکھیں ،میں وضو کرکے آتا ہوں۔بوڑھے آدمی تھے، کثرت بول کے مریض تھے لیکن اِن میں بڑا حیران کن ضبط تھا۔ویسے تو طہارت خانے اور وضو خانے باہر صحن میں بہت ہی دُور واقع ہیں لیکن حاجی صاحب نے ،حرم کے اندر ہی،قریب ہی ایک جگہ تاڑی ہوئی تھی جہاں پر اُن کی طرح کے بوڑھے لوگ ،اگر انھیں صرف وضو کرنا ہوتا،توزم زم کی ٹینکیوں سے ہی ،پینے والے ٹھنڈے پانی سے ہی ،وضو کر لیتے تھے۔ویسے تو یہ کام ممنوع ہے لیکن پولیس والے،اِن بزرگوں سے صرف نظر کر لیتے تھے۔ حاجی صاحب پہلے بھی جاتے تھے اور دس پندرہ منٹوں میں واپس آجاتے تھے لیکن اب وہ لیٹ ہو رہے تھے۔میں نے یہ فرض کرلیا کہ اُن کو رفع حاجت کی ضرورت پڑ گئی ہوگی تو اب وہ بیچارے دُور والے باتھ رومز میں چلے گئے ہوں گے۔رفع حاجت اوروضو کے لیے باہر جانا،رش کے باعث، ایک اچھاخاصا امتحان ہوتا ہے۔بہرحال قریباً پون گھنٹہ بعد حاجی صاحب واپس پلٹے اور کہنے لگے کہ،‘‘ یا ر!مجھے تسلی نہیں ہورہی تھی، ہوٹل جاکر، استقبالیہ پرچابی رکھ کر آیا ہوں ۔ ’’میں تو یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا،اتنی بڑی قربانی،۷۵ سال کا بوڑھا آدمی،جس کے دو بائی پاس آپریشن ہو چکے تھے،مسلسل کمر درد کا مریض اور اتنی ذمہ داری کا ثبوت!!
کم از کم بیس منٹ کی پیدل واک پر ہمارا ہوٹل تھا،یہ وہاں گئے بھی اور واپس بھی آگئے،صرف چابی رکھنے گئے تھے تاکہ ساتھی کو پریشانی نہ ہو ،اور خود کتنی تکلیف اور پریشانی اُٹھائی ،اِس کاکوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ حاجی صاحب اِس حد تک بھی جا سکتے ہیں۔میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ وضو کے لیے باہر چلے گئے ہوں گے۔میرے دِل پرحاجی صاحب کے اِس ذمہ دارانہ طرزِ عمل نے بے پناہ اثر ڈالا اوراِس سے اُن کی قدرو قیمت میں بے پنا اضافہ ہوا۔پھر یہ بھی دیکھیں کہ ، اگر ہوٹل گئے ہی تھے تو وہیں رہ جاتے اور نماز عشا وہیں ادا کر لیتے،واپسی کی مشقت اُٹھانے کی کیا ضرورت تھی لیکن وہ واپس آ گئے کہ کہیں ہم اُنھیں نہ ڈھونڈھتے رہیں اور ہمیں پریشانی کاسامنا نہ کرنا پڑے۔نمازِعشا پڑھ کر ہم تینوں دوست اکٹھے ہوٹل واپس آئے، جب کہ محمد اکرم صاحب ، خاصی دیر بعد،عمرہ مکمل کر کے کمرہ میں تشریف لائے۔حاجی صاحب نے اُن کو فون نہ اٹینڈ کرنے پر، تو ضرور جھاڑا لیکن یہ نہ بتایا کہ وہ کتنی تکلیف اُٹھا کر ،اُس کو پریشانی سے بچانے کے لیے ،حرم سے واپس آکر چابی رکھ کر گئے تھے اور مجھے بھی یہ بتانے سے منع کردیا۔ کیا عظمت ہے کردار کی یوں ہنستے کھیلتے،ایک دوسرے کے لیے قربانی دیتے،ہمارے یہ دِن گزر رہے تھے۔
پانی سے مالش :
کبھی سنا آپ نے کہ کبھی کسی نے پانی سے اپنے جسم کی مالش کی ہویا کبھی سنا کہ کبھی کسی نے باڈی سپرے سے وضو بنایا ہو۔نہیں ناں،لیکن میں نے یہ دیکھا ہے۔ابھی آپ کو یہ مزے کی بات بتاتا ہوں۔اللہ کریم کی توفیق سے بچپن میں ہی نماز کی عادت پڑ گئی تھی،رمضان کے روزے بھی ،اُس کریم مالک کے فضل سے ،جب سے ہوش سنبھالا،رکھتاآرہا تھا۔اسلام کا تیسرا فریضہ ہے زکوٰۃ،اُس سے تو اِس خاکسار کادوہرا تعلق ہے۔ وہ اِس طرح کہ، ایک زمانہ تھاہم زکوٰۃ وصدقات کے خودمستحق تھے ۔ محلہ داروں اور اور صاحب ثروت شہر داروں کے صدقات پر ہم پلتے تھے۔اِس فقیر نے ایک نہایت غریب گھرانے میں آنکھ کھولی جس میں دووقت کی روٹی کے لیے بھی ہم اہل خیر کے محتاج ہوتے تھے۔اپنے اُس زمانے کی ایک ایک حسرت یاد ہے اور اہل خیر کی ، اپنے ساتھ کی گئی ایک ایک نیکی یاد ہے ۔بہر حال یہ ایک الگ کہانی ہے،عرض یہ کر رہا تھا کہ زندگی کا آغاز اہل خیر کے عطیات و صدقات سے کیا تھا،پھر میرے مالک نے وہ دِن دِکھلائے ،کہ یہ محتاجی ختم ہوئی، رزق میں اضافہ شروع ہوااور الحمد للہ کہ صدقات کی مد میں ایک بہت بڑا حصہ خرچ کرنے کی توفیق ملنی شروع ہوئی۔پھر ایک وقت آیا کہ میرے مالک نے مجھے اِس قابل کیا کہ میں فرض زکوٰۃ بھی ادا کرنے لگا۔الحمد للہ علیٰ ذالک۔
اسلام کا چوتھا رکن حج ہے ،اور الحمدللہ کہ میرے کریم آقا نے اِس فریضے کی ادائیگی کے لیے ،بھی اپنے گھر بلایا ہوا ہے اور اُمید یہی ہے کہ وہ یہ مرحلہ بھی بخوبی طے کروا دے گا۔اِس فریضہ کی ادائیگی کے لیے بلاوہ ،اب باسٹھ سال کی عمر میں آیاہے،شکر ہے آیا تو سہی،وگرنہ ہم سے کہیں زیادہ دولت مند منتظر پڑے ہیں اور کئی آرزو میں جینے والے ،التجائیں کرتے وہاں بیٹھے ہیں۔اب ہم سراپاانتظارتھے۔ہم بے قرار سے تھے۔حج کے انتظارمیں تھے،ذوالحجہ کے چاند کے منتظرِ دیدارتھے۔میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنی اِس کیفیت کو بیان کر سکوں۔اللہ کے فضل سے ،انتظار کے یہ دِن،حرم میں ہی گزرتے تھے۔میرے ساتھ لاکھوں لوگ اِس انتظار میں شامل تھے اور سب بڑی شان سے انتظار کر رہے تھے۔ہم سب کے رات دِن ایک جیسے تھے۔ہم سب کی مصروفیات ایک جیسی تھیں۔ہم سب کی مشکلات بھی ایک جیسی تھیں۔
ایک جمعہ کو،غالباً یہ مکہ شریف میں ہمارا دوسرا جمعہ تھا،میں ایک جگہ بیٹھا تھا،میرے دائیں طرف ایک بھاری بھرکم بھائی تشریف فرما تھا ، چہرے مہرے سے اور سر پر رکھی ٹوپی سے، انڈونیشی لگتاتھا اور بائیں طرف ہندوستانی بھائی تھا۔انڈونیشی کو سلام کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو دیکھا کہ وہ سو رہا ہے۔ہندی بھائی سے ہاتھ ملایا ،سلام دعا کی ،مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا،جب بات چیت کرناچاہی تووہ اُردو یا انگلش سے نا آشنا نکلا ۔میرا تودِل مسوس کر رہ گیا کیونکہ جمعہ کی نماز میں ابھی دو گھنٹے پڑے تھے،کیسے وقت گزرے گا۔عام حالات میں یہ دو گھنٹے ، بغیر کسی مصروفیت کے ،بالکل‘‘ وہلم وہلے ’’گزارنا ناممکن سا لگتا ہے ،آپ کو کوئی کام نہیں صرف انتظار کرنا ہے جمعہ کے خطبہ کا،لیکن حرم میں یہ پیارے حجاج کرام کی زیارت میں گزر جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔ میں ،باب شاہ فہد کے نماز ہال میں ایسی جگہ تھا کہ وہاں سے کعبہ نظر نہیں آتا تھاوگرنہ تو کعبہ شریف کوہی محض تکتا رہے بندہ تو بھی وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا ۔ میراکچھ وقت ،تو،تلاوت قرآن مجید میں گزرامگر زیادہ وقت ‘‘آوارہ نظری’’ میں گزرا۔اِس دوران میں طرح طرح کے دلچسپ مشاہدات ہوئے۔ میرے ساتھ والے انڈونیشی بھائی مسلسل سورہے تھے اور ہلکے ہلکے سے خراٹے بھی لے رہے تھے۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ اِس بھائی کا ،اب تو وضو بھی جاتا رہا،نہ جانے اب کب یہ بیدار ہو،اور جاگنے کے بعد وضو کرنے کے لیے اِسے مسجد ہال سے باہر کافی دُور جانا پڑے گا اور یہ تو نا ممکن ہو جائے گا کہ وہ واپس اِس جگہ آ سکے۔میں سوچتاکہ اِس بے وقوف کو کیا فائدہ ملا ،کہ وہ اتنا جلدی یہاں آیابھی اور سو گیا ،اب اِسے نماز ،باہری صحن میں، دھوپ میں ہی پڑھنی پڑے گی۔وقت اذان قریب آ رہا تھا اور وہ مزے سے سو رہا تھا ،دِل نے چاہا کہ اِسے جگا دوں لیکن جھجک گیا ۔میں توایسانہ کر سکا البتہ اگلے لمحے وہ خود ہی جاگ گیا۔اب میں اِس انتظار میں تھا کہ یہ ابھی اُٹھے گا اور ابھی باہر جائے گا۔میری نظریں بظاہر کسی اور جگہ ہوتیں لیکن میرا دھیان اُس کی ہی طرف تھا۔تھوڑی دیر کے بعد میرے کانوں میں ایسے آواز سنائی دی جیسے کوئی اپنے جسم پر پرفیوم کا سپرے کرتا ہے۔یہ آواز ہمارے انڈونیشی بھائی کی طرف سے آ رہی تھی،دیکھا تووہ اپنے بازوؤں پر کسی مائع کا سپرے کر رہے ہیں،میں سمجھا کہ کوئی لوشن وغیر ہ ہوگا ،لیکن جب زیادہ باریک بینی سے دیکھا تو وہ پانی تھا،پانی کا سپرے تھا۔ تھوڑے سا پانی کا سپرے کر کے وہ ہاتھوں سے اُس جگہ کی اچھی طرح ‘‘مالش ’’ کر لیتا۔مجھے اب سمجھ آئی کہ ہمارا یہ بھائی ،اُس سپرے سے وضو کر رہا تھا اور میں حیرانی سے اُس کے اِس ‘‘اجتہاد’’ کو تکے جا رہا تھا۔ہاتھ،بازو اور چہرے پر سپرے اور مالش کے بعد اب باری تھی پاؤں دھونے کی ،وہ اُس نے جرابوں کے اُوپر مسح کر کے اپنا وضو مکمل کر لیا،اللہ اللہ خیر سلا۔لو جی وضو پورا ہوا اور ساتھ ہی اُس نے بیٹھے بیٹھے نفل کی نیت کرکے نماز پڑھنی شروع کر دی۔میں نے دِل ہی دِل میں نعرہ لگایا ،نظریہ ضرورت زندہ باد۔اذان میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا تھا۔انڈونیشی بھائی نے دورکعتیں ادا کر لیں تو میری طرح وہ بھی‘‘آوارہ نظری’’ میں مصروف ہوگیا،میں نے موقع مناسب جانا تو اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا،وہ گویا اِسی چیز کا منتظر تھا۔انگریزی ہم دونوں بھائیوں کے درمیان ذریعہ مکالمہ بنی اور جو منٹ رہ گئے تھے اُس میں ہم نے ایک دوسرے سے خوب حال احوال کرلیا۔ وہ جکارتہ کے رہنے والے تھے اور ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتے تھے۔میری طرح پہلی بار حج پر تشریف لائے تھے ۔ہم دونوں کی انگریزی بس اتنی کچھ تھی ،ویسے بھی وقت تنگ تھا۔
کاوشِ تبلیغ:
قریباً پون صدی سے برصغیر پاک و ہندوبنگلہ دیش میں ایک تبلیغی تحریک ،مذہب کی دعوت کے میدان میں کام کر رہی ہے جسے عرف عام میں ‘‘تبلیغی جماعت’’ کہا جاتا ہے۔ یہ دعوت و تبلیغ کی ایک منفرد تحریک ہے کہ جس کی مکمل شکل میں ،مثال، ہماری پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی یعنی اپنے پورے اجزا ئے دعوت و لائحہ عمل میں یہ بالکل منفرد کاوش ہے۔یہ جماعت پچاس کی دہائی میں،ہندوستان کے علاقے میوات سے شروع ہوئی تھی اور اب یہ تبلیغ کی ایک عالمی تحریک بن چکی ہے۔ دُنیا کا کوئی ملک نہیں ،مسلم ہو یا غیر مسلم،جہاں یہ لوگ نہ پہنچے ہوں گے۔اِس تحریک کے بانی مولانا محمد الیاس صاحب ،چونکہ دیو بند کے مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے ،اِس لیے اِس جماعت کو ہمیشہ دیوبندی فرقے سے متعلق سمجھا گیا اور بجا طور پر سمجھا گیاہے ۔اگرچہ یہ لوگ اپنے پروگراموں میں فرقہ بندی کی ترویج نہیں کرتے لیکن اپنے دیوبندی ہونے سے انکار بھی نہیں کرتے۔ہماری رائے میں یہ ایک چلتی پھرتی خانقاہ اور ایک متحرک تربیت گاہ ہے۔ہمارے نزدیک اِس جماعت کا نام‘‘ تبلیغی جماعت’’ غلط پڑ گیا ہے اپنے اصل کے اعتبار سے یہ ایک اصلاحی تحریک ہے۔ اِس جماعت کی بنیادی فکرونظریہ اور طریقہ کارولائحہ عمل سے،بہت بڑا اختلاف رکھنے کے باوجود،خاکسار نہ صرف اِن کی خدمات کا معترف ہے بلکہ اِن کے ساتھ تعاون کرنے پر بھی آمادہ رہتا ہے۔یہاں پر میں اس جماعت پر نہ تو کوئی تعریفی یا تعارفی مضمون لکھنے لگا ہوں اور نہ ہی کوئی تنقیدی تحریر پیش نظر ہے بلکہ یہاں ،حرم میں،اِس جماعت کے ایک خاص عمل سے ،جس کا پہلے مجھے علم نہیں تھا،سے متائثر ہوا ہوں، وہ آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
انتظار ِدِل بہار کے دِنوں میں سے ،ایک دِن بندہ ،شکیل بھائی کے ساتھ،مسجد الحرام کی چھت پر،عشا کی نماز کے انتظار میں بیٹھاتھا کہ ایک سفید ریش بزرگ ، چہرے پرنورانیت لیے،ہماری طرف کھچے چلے آئے۔لبوں پر تبسم بکھیرتے ہوئے پوچھا ،‘‘برادر!کیاآپ پاکستان سے ہیں ؟ ’’ ‘‘جی،جی،’’میں نے عرض کیا ،‘‘ہم گجرات پاکستان سے ہیں ،آپ کہاں سے۔؟’’وہ بولے ،‘‘ماشاء اللہ، بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر،میں راولپنڈی سے ہوں۔ ’’ یہ کہہ کر ،وہ ہمارے ساتھ تشریف فرما ہو گئے اور فرمانے لگے ،‘‘میں بھی حج پر آیا ہوں ،آپ بھی یقیناً حج پر آئے ہوں گے،حج ایک بڑا اہم فریضہ ہے،اللہ کریم کا یہ خاص فضل ہے کہ وہ ہمیں یہاں لے آیا ۔’’ہم دونوں بھائی جی جی کہتے رہے اور مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ صاحب تبلیغی جماعت کا ساتھی لگتا ہے اور بعد میں یہ ثابت بھی ہوگیا۔اُس نے بڑی تفصیل سے گفتگو فرمائی،وہی جوہم اکثر تبلیغی دوستوں سے سنتے رہتے ہیں۔نئی بات یہ تھی،جو میں آپ کو سنانے چلا ہوں ،کہ تبلیغی جماعت تقریباًکئی سو جماعتیں ،خاص حج کے موقع پر مکہ بھیجتی ہے جو یہاں آ کر لوگوں کو حج کے مسائل سمجھاتی ہیں اور اپنے اِس سفر کو زائرین کیسے دینی اعتبار سے بہترین اور فائدہ مند بنا سکتے ہیں،کے بارے میں سمجھاتی ہیں۔ہمیں بھی اُس نے کچھ مسائل سے آگاہ کیا۔جماعت کے یہ لوگ اپنے اپنے خرچ پر ،اپنے حج کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے ہی آتے ہیں۔یہاں آکر ،ہماری طرح اِدھر اُدھر پھرنے کی بجائے،فضول یاوہ گوئی میں وقت برباد کرنے کی بجائے اور مارکیٹوں میں گھسے رہنے کی بجائے ، بڑے منظم انداز سے دعوتی کام کرتے ہیں۔کام کا طریقہ کار وہی مخصوص طریقہ کار ہے جو اِس جماعت کا اپنا شعار اورطرہ امتیاز ہے ۔چونکہ سعودی عرب میں کسی قسم کی اجتماعی سرگرمیاں ممنوع ہیں،اِس لیے یہ لوگ غیر محسوس طور پر اجتماع کرتے ہیں لیکن اصل کام انفرادی ملاقاتوں کی شکل میں ہوتا ہے۔چونکہ یہ لوگ خود بھی حج پر آئے ہوتے ہیں اِس لیے اِن کو حرم میں چلنے پھرنے سے تو کوئی نہیں روک سکتا نا۔چونکہ میں اپنے پاکستانی زائرین کی مذہبی حالت سے اور اِن بھائیوں کی حج و عمرہ کے فقہی مسائل سے عد م واقفیت سے بخوبی آگاہ تھا اوراکثر اِس پر کڑھتا رہتا تھا ، اب جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اِس پہلو سے ،اپنی بساط بھر ،خدمت کر رہے ہیں ،تو اِس سے بڑی خوشی ہوئی۔کوئی تو تھا جو اِس کمی اور کمزوری کو جان گیا تھا اور اُسے پورا کرنے کی طرف متوجہ بھی تھا۔بعد میں ایسے ہی ایک بندے سے حرم میں ہی ملاقات ہوئی ،وہ کراچی سے آئے تھے،اور ایک صاحب سے منیٰ میں ملاقات ہوئی تھی وہ انڈیا سے آئے تھے۔دِل سے دُعا نکلی کہ اللہ کرے ‘‘کاوش تبلیغ’’اور زیادہ۔(جاری ہے )