ایک بہت ہی قیمتی بات ایک بار پھر آپ سب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔مجھے بچپن سے ہی قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کا بہت شوق تھا۔میں نماز کے بعد مسجد میں ایسے قرآن پاک کی تلاش میں رہتا جس کے آدھے صفحے پر آیات اور ان کا ترجمہ لکھا ہوتا اور باقی آدھے صفحے پر تفسیر لکھی ہوتی تھی۔میں گھنٹوں اس میں کھویا رہتاحتی کہ بنا ناشتے کے اسکول چلا جاتا۔ کیونکہ نماز فجر کے بعد سے لے کر سکول جانے کے وقت تک مسجد میں بیٹھا ترجمہ و تفسیر پڑھتا رہتا۔وہ سب میرے لیے بہت دلچسپ ہوتا تھا۔مجھے امتوں کے حال پڑھنے کا بہت شوق تھا۔اس دوران میں نے کچھ چیزیں نوٹ کی کہ اللہ تعالیٰ ایک لفظ بہت زیادہ قرآن پاک میں بیان فرماتا ہے وہ لفظ تھا ڈر۔اس لفظ کی قرآن پاک میں بہت تکرار کی گئی ہے۔ڈرنے والوں سے محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔ڈرنے والوں کے لیے جنت ہے، ڈرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے آزادی ہے۔ڈرنے والوں کے لیے دنیا میں عزت کا اعلان بھی قرآن پاک میں موجود ہے۔ڈرنے والوں کے لیے روٹی روزی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ڈرنے والوں کے لیے عذاب سے بھی نجات تھی۔ڈرنے والوں کے لیے ہر ڈر ختم کر دیا گیا تھا یعنی ڈرنے والا دنیا میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ڈرنے والا قبر میں بھی نہیں ڈرتا، ڈرنے والے کو نہ ہی حشر کا ڈر اور ڈرنے والے کو حساب کتاب کا بھی کوئی ڈر نہیں تھا۔
مجھے یہ بات بہت دلچسپ لگی اور بہت ہی قیمتی گر کی بات لگی۔مجھے ایک بہت بڑا شارٹ کٹ مل گیا تھا۔عام طور پر مثال دی جاتی ہے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔لیکن یہاں معاملہ تھا جو ڈر گیا وہ بچ گیا۔یہ بہت گہری راز کی بات تھی جس نے بچپن سے ہی میرے ذھن کو جکڑ لیا۔مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ ڈر میں سب کچھ ہے۔ڈر میں عزت ہے ڈر میں دولت ہے ڈر میں رزق ہے ڈر میں عافیت ہے۔ ڈر میں محبت ہے ڈر میں خوشی ہے ڈر میں جیت ہے ڈر میں سکون ہے ڈر میں شفا ہے ڈر میں میں رد بلا ہے ڈر قبر کا سکون ہے ڈر موت کی آسانی ہے ڈر جنت کی ضمانت ہے ڈر جہنم سے آزادی ہے۔یہ تو سمجھ آ گئی کہ اللہ کو ڈرنے والے بہت پسند ہیں لیکن اب ایک اور الجھن آ پڑی تھی۔ مجھے یہ نہیں پتہ چل رہا تھا کہ اللہ سے ڈرنا کیسے چاہیے؟ اس کی دوزخ سے ڈرنا چاہئے یا قبر کے سانپوں اور بچھوؤں سے، کڑکتی بجلیوں میں اس کا ڈر تلاش کرنا چاہیے یا پہاڑوں کو پھاڑ دینے والے زلزلوں کو ڈر کی وجہ بنانا چاہیے۔مجھے اس بات نے چکرا دیا۔میں نے بابا چراغ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ بابا چراغ اس چھوٹی سی مسجد کا امام تھا جس میں میں نماز پڑھتا تھا. میں نے بچپن سے لے کر تیرہ سال کی عمر تک مسلسل پانچ وقت کی نماز بابا چراغ کی امامت میں پڑھی تھی۔بابا چراغ کا تعلق ہلکی قوم سے تھایعنی جن کو گاؤں میں کمی کہتے ہیں۔ میں زمینداروں کا منڈا تھامیرے کچھ ہم عمر دوست مجھے اس بات پر مذاق کا نشانہ بناتے کہ میں بابا چراغ کی امامت میں نماز کیوں پڑھتا ہوں جبکہ چودھریوں کی مسجد دوسری تھی وہ بہت بڑی مسجد تھی لیکن مجھے یہ چھوٹی مسیت ہی اچھی لگتی تھی۔ کیونکہ اس چھوٹی مسیت میں مجھے اللہ سے محبت ہوئی تھی ۔بندا اپنی پہلی محبت اور وہ جگہ جہاں محبوب سے محبت ہوتی ہے کبھی نہیں بھلا سکتا۔بات مختصر کروں گا۔میں نے بابا چراغ سے ایک دن ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔بابا جی یہ اللہ سے کیسے ڈرتے ہیں؟ اس وقت مسیت میں ہم دونوں موجود تھے۔بابا چراغ آنکھیں بند کیے تسبیح کے دانوں پر کچھ پڑھ رہا تھا۔میری آواز سن کر بولا کہ تو گیا نہیں؟ میں نے کہا بس یہ گل پوچھنی تھی اس لیے رک گیا۔وہ مسکرانے لگا۔ مجھے بابا کی یہ مسکراہٹ بہت پسند تھی. پورے پنڈ میں اتنا پیارا کوئی نہیں مسکراتا تھا۔کہنے لگا. تو مجھ سے ڈرتا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔کہتا کس بات کی وجہ سے مجھ سے ڈرتا ہے کیا تو میری مار سے ڈرتا ہے؟ میں سوچ میں پڑ گیا۔میں نے کہا بابا تم نے کبھی بھی مجھے مارا اور جھڑکا نہیں۔لیکن میں ڈرتا ہوں کہ اب تو اتنی شفقت اور محبت سے پیش آتا ہے مسکرا کر بات کرتا ہے میری کسی غلطی پر تو محبت اور شفقت نہ ختم کر دے ۔بس یہی ڈر آتا ہے۔اس نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا ،مسکراتے ہوئے کہنے لگا اللہ کا ڈر بھی ایساہی ہونا چاہیے۔یہ ڈرہونا چاہیے کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔ شفقت اور محبت واپس نہ لے لے۔ہر وہ کام کر جس سے اس کی محبت بڑھ جائے اور ہر وہ کام چھوڑ دے جس سے ڈر ہو کہ اس کی محبت کم ہو جائے گی شفقت ناراضی میں بدل جائے گی۔بس اللہ کا یہی ڈر ہے جس کے بدلے سب کچھ مل جاتا ہے۔اگر غلطی سے کبھی ایسا کچھ ہو جائے جس سے محبت کم ہو جانے کا خطرہ ہو تو فوراً معافی مانگ لو۔ میں ڈر کا مطلب سمجھ گیا تھا۔
میں جب تیرا سال کا ہوا بابا چراغ اچانک فوت ہو گیا میں چھوٹا تھا لیکن بڑے یہ بتاتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی بابا چراغ کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی۔وہ مسکراہٹ میرے لیے پیغام تھی کہ ڈرنے والے ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں کیونکہ ڈرنے والے کا ہر خوف ختم ہو جاتا ہے۔