اُس زمانے میں لوگ اس بات کو اعزاز سمجھتے تھے کہ پورے محلے کے بچوں کو قرآن پڑھایا جائے اور بالکل فری پڑھایا جائے چنانچہ والد صاحب مرحوم بھی اس اعزاز کو حاصل کرنے میں کسی سے پیچھے نہ تھے ۔ اگرچہ وہ باقاعدہ قاری نہ تھے بلکہ گورنمنٹ جاب پہ تھے لیکن کلام اللہ سے محبت انہیں مجبور کر تی تھی کہ وہ بھی اس کام میں حصہ ڈالیں۔ ہم نے بچپن سے یہی دیکھا کہ جونہی شام ہوتی بچے آنا شروع ہو جاتے کبھی اُن کے کمرے میں ، کبھی گھر کے صحن میں اور کبھی باہر گلی ہی میں تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ شروع ہو جاتااور مغرب کے بعد تک جاری رہتا ۔ کچھ بچے جو شام کو نہ آ سکتے انہیں وہ صبح بلا لیتے تا کہ کوئی اس نعمت سے محروم نہ رہ جائے ۔
میں جب اس قابل ہو ا کہ قرآن مجید کی تعلیم کا آغاز کیاجائے تو والد صاحب نے ہاتھ پکڑا اور قریبی مسجد میں قاری صاحب کے پاس چھوڑ آئے ۔مسجد کے اوقات بہت مشکل تھے ۔ وہاں فجر سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا اور پھر فجر کے بعد کم ا ز کم ایک گھنٹہ تعلیم جاری رہتی ۔ پھرگھر واپس آکر سکول کی تیاری اور سکول روانگی ۔ شام کو پھر قاری صاحب کے پاس اور پھر وہاں دو گھنٹے گزر جاتے ۔ اس مشکل ٹائم ٹیبل کی وجہ سے میں بہت جز بز ہوتا اور والد صاحب سے مطالبہ کرتا کہ جب آپ اتنے سارے بچوں کو گھر پرپڑھا رہے ہیں تو مجھے اُن کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھنے دیتے ۔ والد صاحب ڈانٹ دیتے اور کہتے نہیں، تمہیں قاری سے ہی پڑھنا ہے ۔
آج اتنے عرصہ بعد جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو والد صاحب کا یہ احسان خوب اچھی طر ح سمجھ میں آتا ہے اور جب بہت سے لوگوں حتی کہ بعض مولوی ، عالم اور علاموں کو بھی قرآن پڑھتے دیکھتا اور سنتا ہوں تو بے ساختہ والد صاحب کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ والد صاحب نے اس وقت میری ضد نہیں مانی ۔ اگر اُ س وقت وہ میری بات مان لیتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے تو آج ہم بھی قرآ ن کو صحیح پڑھنے کی نعمت سے محروم ہوتے ۔ والدصاحب کو اس بات کااحساس تھا کہ ان کا قرآن پڑھنا مجہول وغیر معیاری ہے اس لیے وہ لوگوں کو مشورہ دیتے تھے کہ اپنے بچوں کو مسجد کے قاری صاحب کے پاس بھیجیں ۔ لوگوں کی تساہل پسندی آڑے آتی اور وہ اوقات کی مشکل کی وجہ سے اسی پر گزارہ کر لیتے کہ چلو رسم پوری کرنی ہے اور وہ یہاں بھی ہو جاتی ہے ۔
اس بظاہر چھوٹے سے واقعے سے تین بڑے بڑے سبق ملتے ہیں۔پہلا تو یہ کہ زندگی میں کتنی ہی باتیں ایسی ہیں کہ جنہیں ہم حجم یا وزن کے اعتبار سے بہت ہلکا سمجھ کے گزر جاتے ہیں مگر اپنے اثرات اور نتائج کے اعتبار سے وہ بہت ہی بھاری ہوتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہر بات کے سمجھ میں آنے کا ایک وقت ہوتا ہے اس لیے کسی بات کو رد کر نے سے پہلے کچھ انتظار کیجیے ہو سکتا ہے کہ ابھی اُس بات کو سمجھ میں آنے کا وقت نہ آیا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ وقت سے پہلے رد کرنے کی وجہ سے بعد میں پچھتانا پڑے۔ اور تیسرا یہ کہ بعض باتوں کو اگر، محض اس لیے مان لیا جائے کہ ہمارے والدین کہتے ہیں تو اللہ ان میں ایسی خیر ڈال دیتا ہے کہ جس کا انسان کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔