۱۔باپ کے گھر سے رخصتی کے وقت ایک رشتے دار خاتون کا جملہ کہ'' اینے نہیں وسنا طلاق ہو جانی اے ''۔کبھی نہیں بھولا بلکہ میرے لئیے ہمیشہ باعث تقویت رہا۔
۲۔شادی کے کچھ ماہ بعد میں سہیلی سے ملنے اس کے گھر گئے تو اس کے بڑے بھائی نے مجھے کہا دیکھنا اب تم میٹرک بھی نہیں کر سکو گی کہاں تم ڈاکٹری کا سوچتی ہو ،شادی کے بعد کون پڑھتا ہے۔ان کے اس جملے نے میرے اندر مزید ہمت پیدا کر دی۔
۳۔ایک تعلیم یافتہ جاہل خاتون کا جملہ کہ اس کے بچے بھی باپ کی طرح گونگے بہرے پیدا ہوں گے۔اللہ نے بہت اچھے قابل ذہین اور آؤٹ سپوکن بچے دیے مجھے۔
۴۔میرے بچے پہلی دوسری تیسری کلاس میں تھے تو ان کے کلاس فیلوز نے کہا کہ تم کچھ نہیں بن سکتے کیونکہ تمہارا باپ بول نہیں سکتا بس اس جملے نے بہت سا حوصلہ دیا اور اللہ کا شکر بچوں نے اعلی تعلیم حاصل کی۔
۵۔امی اور ابوجی کی وفات کے بعد ابو جی کے ایک دوست پروفیسر وہاڑی سے افسوس کے لیے آئے اور میرے سر پہ ہاتھ رکھ کر کہا بیٹا ہمت کرنا اور یہ گھر مت بیچنا مجھے اشرف کی فکر ہے۔اللہ پاک نے پروفیسر علوی صاحب کی بات بھی پوری کردی اور گھر اشرف کا ہوگیا۔
اب جب کہ شادی شدہ زندگی کے اکتیس سال گزر گئے۔پہلے نمبر والی خاتون کا کچھ سال پہلے فون آیا کاش تم میری بہو ہوتیں۔
سہیلی کا بھائی اکثر گاؤں سے مریض بھیجتا ہے کہ ان کی مدد کر دینا۔تعلیم یافتہ جاہل خاتون نے بارہا کہا کہ میری تمہارے بارے میں سوچ غلط تھی۔
وہ بچے جو میرے بچوں کو طعنے دیتے تھے مشکل سے ایف اے بی اہے کر پائے۔
کل کون کس مقام پہ ہو کتنا کامیاب ہو اس کی زندگی آج سے کتنی مختلف ہو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
یہ اپنے تجربات اس لیے شئیر کیے کہ اگر آپ کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے تو حوصلہ شکنی کا بھی کوئی حق نہیں۔
میری تمام کامیابیوں کی وجہ میری عزیز ترین امی اور ابو جی(ساس سسر) ہیں ۔البتہ ناکامیوں کی ذمے دار میں خود ہوں۔
نوٹ۔ہمت محنت اور صبر کسی بھی کامیابی کا لازمی جز ہیں۔اور تین کام میں نے مسلسل
کیے ہیں۔