وہ ایک بڑے ہسپتال میں ڈاکٹر تھے، انہوں نے بتایا کہ ایمر جینسی میں ان کے پاس ایک بوڑھی عورت کو لایا گیا جس کی عمر نوے پچانوے برس سے کم نہ تھی ۔خاتون شدید بیمار تھی اور اس کے بچنے کے امکانات بہت ہی کم تھے ۔ اس کے ساتھ اس کے پانچ بیٹے بھی تھے جن کی عمریں بھی ساٹھ ستر برس کے لگ بھگ تھیں۔ وہ سب بہت ہی آہ و زاری سے ڈاکٹر حضرات کی منت سماجت کر رہے تھے ۔ اور سب سے بڑا رورو کر ان سے کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب میری ماں کو بچا لیں ،خد ا کے لیے میری ماں کو بچا لیں۔ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں کہ جب وہ شخص بری طرح میرے پیچھے پڑگیا تو میں نے اُس سے کہا کہ بھئی موت و زندگی ہمارے اختیار میں نہیں ۔ہم تو بس ایک کوشش کر سکتے ہیں اور وہ کر رہے ہیں لیکن بظاہر امکانات بہت کم ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھر میں نے اُ س سے کہا کہ دیکھو تمہاری ماں سو برس کے لگ بھگ ہے اب یہ کتنا عرصہ اور جی لے گی۔ اب اس عمرمیں یہ تمہارے کس کام کی ۔ اُس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ اب یہ ہمارے لیے کیا کر سکتی ہے ۔یقینا اور تو کچھ نہیں کر سکتی لیکن کم از کم یہ اتنا تو کرتی ہے نا،کہ بیٹھی بیٹھی ہمارے لیے دعائیں کرتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس کی یہ بات سن کر میں چونک کر رہ گیا ۔ اس کی یہ بات بالکل ٹھیک تھی اپنی ماں کے مرنے کے بعد وہ واقعتا اس کی دعاؤں کی برکت سے محروم ہونے والے تھے۔
والدین کی دعائیں اولادکے لیے کیا اہمیت رکھتی ہیں اس کا صحیح اور بروقت ادراک بہت کم بچوں کو نصیب ہوتا ہے اور جب یہ ادراک نصیب ہوتا ہے تو بہت سوں کے ہاتھوں سے وقت نکل چکاہوتاہے۔زندگی میں کتنے ہی مقامات اور وقت ایسے آتے ہیں کہ جب بظاہر مصیبت یا مشکل سے بچنے کا ہر امکان ختم ،ساری راہیں مسدود اور سارے دروازے بند ہو چکے ہوتے ہیں لیکن پھر اچانک سے ایک در کھل جاتا ہے اور انسان خود بھی حیران رہ جاتاہے کہ یہ راستہ کیسے نکل آیا۔ غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ دست غیب اصل میں والدین کی دعائیں تھیں جو وہ ہر وقت مانگتے رہتے تھے۔اس حقیقت سے آشنائی بھی اصل میں اس وقت ہوتی ہے جب انسان خود صاحب ِاولا د ہو جائے ۔اولاد کے دکھ پہ انسان جس طرح دکھی ہو کر رہ جاتاہے ، ان کے بیمار ہو جانے سے انسا ن کس طرح ان سے بڑھ کر بیمار ہو جاتا ہے اور ان کے کسی مشکل میں گھر جانے سے انسان کس بری طرح مشکل کا شکار ہو جاتا ہے ، یہ کیفیت بیان کرنے سے زیادہ محسوس کرنے کے قابل ہے اور الفاظ شاید اس کا حق اداکربھی نہیں سکتے ۔ مجھے بھی اس کا صحیح معنوں میں ادراک تب ہی ہوا جب میرے بچے بیمار ہوئے یا جب کسی مشکل میں گھر گئے اس وقت کس طر ح دل کٹ کر رہ گیا ، کس طرح نیندیں اڑ کر رہ گئیں اور کس طرح دکھ درد، دعا کے لفظوں میں ڈھل گیا ، یہ وہی جان سکتے ہیں جو کبھی اس کیفیت سے گزرے ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اولادکے لیے دعا کرنا والدین کی فطرت کا حصہ ہے لیکن کیا ان دعاؤں میں سے سب بچوں کو برابر کا حصہ مل جاتا ہے؟ شایدایسا نہیں۔بارش توبرستی ہے مگر کیا سب کے پیالے بھر جاتے ہیں۔ نہیں بلکہ صرف اُسی کا، جس کا پیالہ سیدھا ہو۔والدین کی تو خواہش ہوتی ہے کہ کاش سب بچے ہی اپنے پیالے سیدھے رکھیں مگر عام طو ر پر ایسا ہوتا نہیں کیونکہ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے ، یہ بڑے نصیب کی بات ہے ۔