خدا کے بارے میں چند اشکالات

مصنف : زاہد مغل

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جولائی 2020

٭کیا خدا کو ہماری عبادت کی ضرورت ہے؟
عام طور پر یہ سوال دین اسلام میں خدا کے تصور سے نا واقفیت کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا مرتبہ یہ آ چکا ہے کہ اللہ کی ذات ہر قسم کی ضرورت سے پاک ہے۔''اور جو شخص محنت کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لیے محنت کرتا ہے (ورنہ) خدا تعالیٰ کو (تو) تمام جہان والوں میں کسی کی حاجت نہیں.''(سورہ العنکبوت ) لہذا خدا کو ہماری عبادت کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اسے ہماری عبادت سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور ہمارے عبادت نہ کرنے سے بھی اسکی شان، عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ ہم خدا کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ خدا نے اپنی حکمت سے ہمیں تخلیق ہی اس طرح کیا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس سے دونوں جہاں کی کامیابی کا سوال کریں۔خدا نے عبادت کو ہمارے لیے روحانی و جسمانی ہر لحاظ سے نافع بنایا ہے۔
٭خدا نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے کیوں پیدا کیا ہے؟ہمارا امتحان لینے کا کیا مقصد؟
جواب:یہ سوال صفت اور اسکے اظہار کے مابین ناگزیر تعلق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ صفت اور اسکے اظہار کے بارے میں‘کیوں’کا سوال ہی غیر متعلقہ ہوتاہے کیونکہ انکے درمیان تعلق ‘‘وجہ ’’کا نہیں بلکہ ‘‘ہے’’(to be) کا ہوتا ہے، یعنی صفت کا اظہار ہی صفت کی تعریف (یعنی ڈسکرپشن) ہوتی ہے۔ مثلاً سماعت کا معنی ہے سنائی دینا، یعنی سنائی دینے کا عمل صفت سماعت کا اظہار یا اسکی تعریف ہے اور اس اظہار سے علی الرغم اسکا کوئی معنی نہیں۔
چنانچہ خدا کی ایک صفت ‘خالق ’ہونا ہے، پس مخلوق کا ہونا خدا کی صفت خلاقیت کا‘اظہار’ہے، یہاں وجہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ صفت بینائی سے دکھائی کیوں دیتا ہے یا صفت سماعت سے سنائی کیوں دیتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سوال ہی غلط ہے کیوں کہ دکھائی دینے اور بینائی کے درمیان تعلق صفت اور اسکے اظہار کا ہے، یعنی دکھائی دینا صفت بینائی کی تعریف ہے اس پر ‘‘مقصد’’کا سوال غیر متعلق ہے۔ بالکل اسی طرح خدا کی مخلوق کا ہونا خدا کے خالق ہونے کا اظہار ہے، یہاں اصولاً کیوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ خدا امتحان کیوں لے رہا ہے، تو اسکا جواب بھی یہی ہے کہ خدا کی صفات ‘حق’ و‘عادل ’ہونا بھی ہیں، پس حق و باطل کا معرکہ اسی صفت ‘حق ’اور جزا و سزا کا نظام صفت ‘عادل ’کا اظہار ہے، لہذایہاں بھی کیوں کا سوال بے محل ہے۔
٭سوال: آپ کے بقول کائنات کو پیدا کرکے خدا نے اپنی صفت خلاقیت کا اظہار کیا نیز ایسا کرنے سے قبل بھی خدا‘صفت خلق ’سے متصف تھا، تو آخر اپنی ان صفات کے اظہار کا مقصد کیا تھا؟ ان صفات کا اظہار کرنے کی کیا وجہ پیش آگئی تھی؟
جواب:پہلے واضح کیا گیا کہ صفت کے اظہار پر‘کیوں’کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل اہل مذہب کا یہ اصولی مقدمہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کو بس اسی حد تک پہچانا جاسکتا ہے جس قدر خود اس نے اپنے نبی کے ذریعے اپنا اظہار کیا، اس سے زیادہ عقل کے سامنے کوئی سوال رکھنا عقل پر ایسا بوجھ ڈالناہے جسکی وہ متحمل نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ خدا نے بتایا کہ میں‘خالق ’ہوں تو ہمیں پتہ چلا کہ کسی مخلوق کا ہونا اس صفت کا اظہار ہے۔
اب یہ سوال کہ صفات بالقوۃ کو بالفعل میں کس سبب و مقصد سے تبدیل کیا گیا؟ جب ہم انسان ‘مقصد’کا سوال اٹھاتے ہیں تو وہ ‘ذات سے بیرون ’کسی شے کی جستجو کا تصورہوتا ہے۔ اب خدا سے یہ توقع رکھنا کہ ‘اس سے الگ ’کوئی مقصد ہوگا جسکی وہ جستجو کرے گا یہ خدا کی صفت صمدیت (self-determined and contained) کے تناظر میں خود سے ایک تضاد ہے، یعنی خدا کے کسی عمل کا کوئی ‘بیرونی مقصد’نہیں ہوسکتا کہ جس کے حصول کا خدا یا اسکا عمل گویا ذریعہ بنے۔ اب لامحالہ یہ مقصد کا سوال ‘خدا کے اندرون ’سے متعلق ہی ہوسکتا ہے اور اس اندرون کوہم اسی قدر جان سکتے ہیں جس قدر وہ اپنی شان کے مطابق ظاہر کرے۔ خدا کے اندرون سے متعلق ہم صرف ا س قدر ہی جانتے ہیں کہ اس نے اپنا تعارف فعال للما یرید(جو چاھتا ہے کرگزرتا ہے) سے کروایا ہے۔ تو گویا یوں سمجھئے کہ ‘یوں عدم کو وجود بخشنا بھی اسکی ‘صفت ارادہ’ ہی کا اظھار ہے۔ اس کے علاوہ ہم کوئی دوسری بات قطعیت کے ساتھ خدا کے اندرون کے بارے میں نھیں جانتے۔ اب اس صفت کے اظہار پر بھی اصولا‘کیوں’کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔یہاں یہ اہم بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ خدا کی ذات کے حوالے سے اس قسم کے بہت سے سوالات اسکی صفات کو الگ الگ تصور کرنے سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اہل مذہب کے یہاں خدا فعال للما یرید، خالق، عادل، علیم، حکیم وغیرھم سب ‘ایک ساتھ ’ہے۔ چنانچہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ‘خدا اپنے ارادے سے اپنی صفات کا (اپنی شان کے مطابق) پرُحکمت اظھار کرتا ہے۔’
اس مقام پر اگر کوئی کہے کہ خدا کی یہ صفات کیوں ہیں تو یہ بھی غیر متعلق سوال ہوگا کیونکہ ‘خدا تو یوں ہے’(یعنی یہ اسکی ڈسکرپشن ہے)۔‘کیوں’کا سوال مقصد کو فرض کرتا ہے، ایک ایسی چیز جو اس وجود سے کہیں باہرہوتی ہے اور وہ وجود اس مقصد کی تکمیل کا ذریعہ ہوا کرتا ہے۔ اب خدا کی صفات پر یہ سوال اٹھانا کہ ‘خدا ایسا کیوں ہے’ فرض کررہا ہے کہ خدا‘قائم بالذات’ نہیں بلکہ اپنے سے بالاتر یا ماوراء کسی مقصد کا ذریعہ ہے۔ ظاہر ہے خدا کے حوالے سے یہ سوال اٹھانا اسکی ‘صمدیت ’کا انکار ہے۔ پس خدا کے حوالے سے یہ سوال ہی غیر متعلق و غیر عقلی ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے کہ ہر وجود سے متعلق بہت سے سوالات غیر متعلق ہوتے ہیں اور بہت سے متعلق۔ مثلا اگر میں اپنا چشمہ اپنے کمرے میں رکھ کر جاؤں اور جب واپس آؤں تو وہ کمرے کے بجائے باہر ٹیرس پر ہو تو اس پر ذہن میں سوال آئے گا کہ چشمہ باھر کیسے چلا گیا؟ اب فرض کریں چشمے کے بجائے میرا ایک دوست کمرے میں بیٹھا تھا اور میرے واپس آنے پر وہ ٹیرس میں کھڑا تھا۔ کیا اب میرے ذہن میں ‘کیسے ’کا سوال پیداہوگا؟ نہیں، کیونکہ انسان کی ڈسپکرپشن یہ ہے کہ وہ ‘متحرک بالارادہ ’ہوتا ہے لیکن چشمہ نہیں۔ تو جو سوال چشمے کے تناظر میں عین عقلی تھا انسان کیلئے (اسکی صفت متحرک بالارادہ کے سبب) غیر متعلق ہوگیا۔ پس یہی معاملہ خدا کا بھی ہے کہ اس کی ذات پر بہت سے سوالات بذات خود غیر متعلق ہیں جیسے یہ کہ ‘خدا ایسا کیوں ہے ’کیونکہ وہ الصمد (قائم بالذات ھستی) ہے، ایسی ہستی جو اپنے ہونے کا جواز خود اپنے اندر رکھتی ہے۔ چنانچہ خدا کی صفات پر‘کیوں’کا سوال اٹھانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم خدا کے الصمد ہونے سے سہو نظر کرلیں۔ پس خدا کی مقصدیت کی تلاش خدا کی صمدیت کا انکار اور اسے اپنے جیسی محتاج مخلوقات پر قیاس کرنا ہے۔
آسان الفاظ میں اللہ رب العزت کی صفات اس بات کی متقاضی ہیں کہ ان کا اظہار ہوجس طرح ایک تخلیق کار (آرٹسٹ) جو کہ فن پارے تخلیق کرنے کی صفت یا صلاحیت رکھتا ہے وہ لا محالہ پارے تخلیق کرے گا تاکہ اس کے فن و مہارت کا اظہار ہو سکے اسی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اللہ کی صفت ربوبیت اور الوہیت کے اظہار کے لیے ہمارا اس کی عبادت کے لیے تخلیق کیا جانا ایک لازمی امر تھا۔یہ تقاضا کسی ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ خدا کی صفات کا ضروری اظہار ہے۔
عملی نقطہء نگاہ سے یہ اس مثال سے زیادہ واضح ہوتا ہے۔فرض کیجیے آپ ایک پہاڑ کی چوٹی کے کنارے پر کھڑے ہیں اور کوئی آپکو نیچے سمندر کی طرح دھکا دے دیتا ہے، اس کے پانی میں گوشت خور جانور بھی تیر رہے ہیں۔ تاہم، دھکّا دینے والے نے آپ کو ایک واٹر پروف نقشہ اور ساتھ میں ایک آکسیجن ٹینک بھی مہیا کر دیا ہے تاکہ آپ ایک محفوظ اور خوبصورت جزیرے پر پہنچ سکیں جہاں پر آپ کے لیے آرام و آسائش کا سامان موجود ہے۔اگر آپ عقل مند ہوئے تو نقشے کے ذریعے اس محفوظ جزیرے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے اور اگر اس سوال کو ہی لے کے بیٹھ گئے کہ آپ کو سمندر میں کیوں پھینکا گیا تو یقینا آپ مچھلیوں کی خوراک بن جائیں گے۔ مسلمان کے لیے قرآن و سنت نقشے اور آکسیجن ٹینک کی طرح ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم نے زندگی کا راستہ کیسے حفاظت سے طے کرنا ہے۔ہم پر لازم ہے کہ ہم خدا کے ان احکامات کو سمجھیں، اس کی عبادت بجا لائیں۔ہمارے پاس اختیار ہے کہ یا تو ہم اسکے پیغام کونظر انداز کر کے عاقبت میں اپنے لیے تباہی کا سامان کر لیں یا اس پیغام کو مان کر اور عمل کر کے اللہ کی رحمت اور شفقت کے اہل بن جائیں۔
٭ کیا رحمن اور رحیم ہونے کا یہ تقاضا نہیں کہ تخلیق نہ کی جاتی یا امتحان نہ لیا جاتا؟
جواب:یہاں گفتگو کے تین پہلو ہیں۔اوّلاً یہ کہ امتحان لینا کس چیز کا اظہار ہے،ثانیاً تصور رحمت کا تقاضا کیا ہے،ثالثاً انسان کا اسکے انجام کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
یہاں اختصار سے ان پر گفتگو کی جاتی ہے۔ یہاں یہ اصولی بات ذھن نشین رہنی چاہئے کہ اس پوری گفتگو میں خدا کی صفات کو زیر بحث لانا صرف خدا کی صفات کا ذکر کرنے کی غرض سے نہیں ہے بلکہ کائنات کا ان کے ساتھ ربط بیان کرنے کیلئے ہے۔ چنانچہ پہلے پہلو پر یہ عرض ہے کہ اگر امتحان نہ ہو تو خدا کی خود اپنی بتائی ہوئی بہت سی صفات (مثلا حق، عادل، غفور، منتقم وغیرہم) کا اظہار نہ ہوگا۔ پس یہ امتحان اور حق و باطل کی کشمکش انہی صفات کا اظہار ہے۔ دوسرے پہلو کی تفصیل یہ ہے کہ خدا صرف رحمان ہی نہیں بلکہ حق، عادل وغیرہ بھی ہے، لہذا صرف صفت رحمت کو ریفرنس پوائنٹ بنا کر خدا کے فیصلوں پر حکم لگانے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم خدا کی دیگر تمام صفات کو معطل کرکے اسے صرف ایک ہی صفت میں محدود کردیں، ظاہر ہے خدا کی یہ ڈسکرپشن خود اسکی اپنی بتائی ہوئی ڈسکرپشن کے خلاف ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی درست نہیں کہ رحمت کا تقاضا امتحان نہ لینا ہے کیونکہ یہ بات اتنی ہی قوت کے ساتھ اسکے برعکس بھی کہی جاسکتی ہے، یعنی امتحان دینے والے کو جو sense of achievement ملتی ھے نیز نعمت کے حصول پر استحقاق کی کیفیت نیز دوسروں پر سبقت لیجانے کے سبب جو کیفیات پیدا ہوتی ہے وغیرہ وہ بغیر امتحان ممکن نہیں۔ پس یہ کہنا کہ ‘امتحان نہ لینا صفت رحمت کا تقاضا ہے ’ایک غلط بات ہے (سمجھنے کیلئے اس کی مثال یوں ہے کہ بظاہر ایسا تقاضا لگتا ہے کہ استاد کمرہ امتحان میں طالب علم کو جواب خود لکھوا دے تو شاید یہ رحمت ہوگی مگر ظاھر ہے اسے کوئی بھی رحمت کا تقاضا نہیں سمجھتا)۔ چنانچہ اس اعتراض میں رحمت کا اپنی طرف سے ایک تصور قائم کرکے خدا کو اس پر فٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، خدا کے رحمان ہونے کا معنی کیا ہے یہ خود خدا بتائے گا۔
تیسرے پہلو کی بابت یہ عرض ہے کہ خدا خالق، صمد، فعال لما یرید اور رحمان ہونے کے ساتھ ساتھ عادل بھی ہے (اور خدا یہ سب کچھ ایک ساتھ ہے، بغیر کسی تضاد کے)۔ پس اسکی صفت عدل کا تقاضا ہے کہ آخرت میں جو انسان جو بھی قیمت ادا کرے گا اس میں خود اسکے اختیار کے استعمال کا بھی عمل دخل شامل ہوگا جیسا کہ
 اس نے بتایا۔اس سب پر گھما پھرا کر پھر یہی اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ خدا یہ سب کیوں کررہا ہے (یا خدا ایسا کیوں ہے)؟ اس کا جواب اوپر عرض کیا جا چکا کہ خدا پر ‘کیوں’(مقصدیت) کا سوال اٹھانا خدا کی صمدیت کا انکار کرنا ہے۔ پس خود میری عقل مجھے بتاتی ہے کہ جس ہستی کو خدا کہا جاتا ہے اس پر کیوں کا سوال ہی غیر متعلق و غیر عقلی ہے۔ خدا پر کیوں کا سوال اٹھانا ایک rational category mistake ہے (یعنی ایک ایسے محل پر ایک چیز کو اپلائی کرنا ہے جو اسکا محل ہے ہی نہیں)۔ اسی لئے کہا گیا کہ خدا کو بس اتنا ہی سمجھنا ممکن ہے جتنا خود اس نے اپنے بارے میں بتایا، اس سے زیادہ خدا کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا بے محل ٹامک ٹوئیاں مارنا ہے۔٭٭٭

 

بشکریہ : حمزہ اینڈریس